عاصمہ ۔ الوداع

ہوٹل میں ہم اور ہمارے آنے والے مہمان چائے کافی اور بسکٹ پر ہی گزارا کرتے

Abdulqhasan@hotmail.com

میرا عمر بھر یہ معمول رہا کہ دوپہر کو اپنے چند دوستوں کے ساتھ مال روڈ کے ایک معروف ہوٹل کے ریستوران میں بیٹھ کر دنیا بھر کے موضوعات پر رائے زنی کرتے اور چائے کی پیالی میں ایک طوفان ابال کر کھانے کے وقت تک رخصت ہو جاتے تا کہ دوپہر کا کھانا گھر پر کھا لیا جائے۔

ہوٹل میں ہم اور ہمارے آنے والے مہمان چائے کافی اور بسکٹ پر ہی گزارا کرتے ۔ ہمارے ملنے والوں میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے اور اپنے خیالات سے ہمیں مستفید کرنے ہماری ٹیبل پر تشریف لاتے تھے۔ اب ایک مدت ہو گئی لاہور کی یہ مستقل ٹیبل ویران ہو گئی کیونکہ ہم جو اس کے مستقل میزبان تھے رفتہ رفتہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس سے کنارہ کش ہو گئے ۔ کبھی کبھا ر اس پنج ستارہ ہوٹل سے اُٹھ کر ہم سب لاہور کے مشہور و معروف جمخانہ کلب میں آبیٹھتے جہاں پر ہمارے کچھ سیاسی دوست اپنی ٹیبل سجائے بیٹھے ہوتے اور ہم ان کی اجازت سے ساتھ شریک محفل ہو جاتے ۔

جمخانہ میں بھی زیادہ تر تعدادا ریٹائرڈ افسریا حاضر سروس سیاستدان ہوتے یا میرے جیسے چند ایک صحافی جنہوں نے اچھے وقتوں میں اس کلب کی ممبر شپ حاصل کر لی تھی اور اب لاہور کی اشرافیہ کے ساتھ بیٹھ کر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ جمخانہ کی محفل کے حاضرین میں مختلف نظریات اور اپنی اپنی پسند کے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے بارے میں بحث ومباحثہ جاری رہتا جو سر شام جا کر اختتام پذیر ہوتا۔ اس محفل میں باقاعدہ حاضری میں وقفہ آنے لگا اور ڈاکٹر فرحت محمود جیسے دیرینہ دوستوں کی جانب سے بار بار بلاوے کے باوجود باقاعدگی نہ آسکی اور اب حال یہ ہے کہ ہفتے میں اک آدھ بار چکر لگتا ہے ،کچھ دوست سرراہ مل جاتے ہیں اور کچھ کی خیریت ان سرراہ مل جانے والوں سے معلوم ہو جاتی ہے۔


اس اتوار کو حسب وعدہ میں اپنے بچوں کے ساتھ لنچ کے لیے جیسے ہی جمخانہ پہنچا تو ٹی وی کی اسکرین پر مشہور اداکار قاضی واجد کے انتقال کی خبر چل رہی تھی، ان کی شکل دیکھ کر ان کے یادگار ڈراموں میں ان کی اداکاری کے جوہر یاد آگئے اوردنیا کی بے ثباتی کا شدت سے احساس ہوا کہ دو دن پہلے تک اداکاری کرتا انسان کتنی جلدی واپس اﷲ کے پاس چلا گیا، ابھی انھی خیالات میں گم تھا کہ ایک اور جاں افسوں خبر چلنے لگی، پہلے تو یقین نہ آیا لیکن ساتھ بیٹھے میرے بیٹے نے تصدیق کی کہ یہ خبر عاصمہ جہانگیر کے بارے میں ہی ہے، وہ ملک غلام جیلانی مرحوم کے گھرانے سے میرے تعلقات کے بارے میں بخوبی جانتا ہے، اس لیے اسے یہ اندازہ ہو گیا کہ میں یکایک پریشان کیوں ہو گیا ہوں۔مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ جو خبر سنی وہ واقعی عاصمہ کے بارے میں ہے اور وہ اتنا جلدی ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ۔

عاصمہ اور حنا کو میں تب سے جانتا ہوں جب یہ دونوں چھوٹی بچیاں اسکول جاتی تھیں۔ میرا سیاستدان ملک غلام جیلانی سے تعلق صحافیانہ سے زیادہ دوستانہ تھا، جب بھی ان کے گھر گلبرگ میں جانا ہوتا، ان دونوں بچیوں سے ملاقات ضرور ہوتی ۔ یوں میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہ دونوں پڑ ھ لکھ کر عملی میدان میں آگئیں اور عاصمہ تو ایسے عملی میدان میں آئی کہ اپنے عم عصروں کو پیچھے چھوڑ گئی، اس کے نظریات گو کہ میرے نظریات سے میل نہ کھاتے تھے مگر دونوں جانب سے ایک احترام اور پیارکا رشتہ تھا جس کو ہم دونوں سمجھتے اور اسے نبھاتے رہے ۔ جب کسی مظلوم نے دادرسی کے لیے کہا، میں نے بلا جھجھک اسے عاصمہ کے گھر بجھوا دیا جہاں سے اس کی داد رسی ہو گئی۔ عاصمہ کا دنیا سے پہلا تعارف ان کے والد ملک غلام جیلانی کے حوالے سے ہی تھا لیکن ان کی متحرک شخصیت بعد میں اپنا تعارف آپ بن گئی ۔ ان کے نظریات بائیں بازو کی طرف جھکاؤ زیادہ رکھتے تھے اور وہ بھارت نواز بھی مشہور تھیں، کچھ صحافی دوستوں سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی اور وہ میرے ان صحافی دوستوں کے ساتھ تلک لگا کر بھارت کے دورے بھی کرتی رہیں۔ پاکستان کی بااثر اشرافیہ میں شامل ہونے کے باوجود بائیں بازو کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے ان کا کردار متنارعہ ہی رہا ۔

وکلا اور وکلا سیاست میں اتنی زیادہ مقبول تھیں کہ ان کا گروپ ہر طرح کے وکلا الیکشن میں جیت کی ضمانت سمجھا جاتا تھا ۔عاصمہ جہانگیر گروپ کے امیدوار حریفوں کو ہمیشہ سخت مقابلہ ہی دیتے رہے ۔ گلبرگ کا گھر ان کے جانے کے بعد سونا ہو گیا ہے، ان کی کمی کوئی اور پوری نہیںکر سکے گا، ان کی سگی بہن حنا جیلانی ان کی جگہ موجود ہوںگی لیکن عاصمہ کی یاد دلانے کے لیے کیونکہ عاصمہ جیسی مضبوط نظریات کی حامل دبنگ خاتون کم ہی پیدا ہو تی ہیں، وہ بائیں بازو کے وکلاء اور ان کی سیاست کو یتیم کر گئی، اس کے اس طرح اچانک چلے جانے میں خدا کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہو گی۔ وہ آمروں کے خلاف بھی ڈٹی رہی اور دائیں بازو کی سیاست سے بھی اختلاف کرتی رہی۔ اپنے آخری دنوں میں وہ دائیں بازو کی سیاست کے حق میں بولتی رہیں اورموجودہ سیاسی بحران میں وہ میاںنواز شریف کی طرز سیاست کے ساتھ کھڑی نظر آئیں جو ان کے حلقہ احباب کے علاوہ ان کے ناقدین کے لیے بھی اچنبھے کی بات تھی، ان کا جھکاؤ دائیں بازو کے نظریات کی جانب ہو گیا تھا یا میاں نواز شریف بائیں بازو کی سیاست کرنے لگ گئے، اس کے بارے میں میاں نواز شریف ہی وضاحت کر سکتے ہیں کیونکہ عاصمہ تو اپنے ساتھیوں اور ناقدین سبھی کو اسی اچنبھے میں چھوڑ کر بہت دور چلی گئیں ۔ عاصمہ بیٹی الوداع۔
Load Next Story