آئو امید سحر کی بات کریں…
ملک کا آج ایسا حال ہے کہ ہر طرف سے گدھ اسے مردار سمجھ کے نوچنے کو تیار ہیں۔
نگران حکومت اب آچکی ہے۔ ہر طرف الیکشن کی گہما گہمی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں مسند اقتدار کے خواب آنکھوں میں سجائے اس وقت میدان میں ہیں۔ ملک سے محبت، عوامی مسائل کا احساس اور معاشی ترقی کے خواب اس وقت تمام لیڈروں کی زبان پر ہیں۔ جوڑ توڑ کا کھیل اپنے عروج پر ہے۔ پچھلی حکومتوں کی ناکامیاں اور نا اہلیاں تو اس سراب کی طرح ہیں جن سے پیچھا چھڑوانا بہت مشکل ہے۔
روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی، خود کو غریبوں کا ہمنوا کہلوانے والی جماعت کے اقتدار کے اختتام پر عوام کا یہ حال ہے کہ پاکستان کی آٹھ کروڑ سے زائد یعنی کہ نصف آبادی کے لوگوں کو دو وقت کی پیٹ بھر کے روٹی کھانے کو نصیب نہیں ہے۔ تن ڈھانپنے کو اتنا ہے کہ اگر سر ڈھانپ لیں تو جسم موسموں کی شدت سے محفوظ نہیں ہے۔ مکان کے نام پر کہیں کچے گھر ہیں، تو کہیں محض ٹینٹ کا آسرا ہے اور بہت سے بدنصیب تو ایسے بھی ہیں جن کے نصیب میں کوئی عارضی سہارا بھی نہیں۔
کراچی کا گزشتہ پانچ برسوں سے یہ حال ہے کہ یہاں آئے دن خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے پھر اس پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے سیاست چمکائی جاتی ہے اور کچھ دنوں کی خاموشی کے بعد پھر وہی تماشا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے لوگوں کا خون اتنا ارزاں کیوں ہے جو کبھی بم دھماکوں میں، کبھی ٹارگٹ کلنگ میں، کبھی ڈرون حملوں میں اور کبھی دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال کر ایسے بہایا جاتا ہے جیسے یہ اولاد آدم نہیں کوئی جنگل کے جانور ہیں جن کے جینے یا مرنے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ عوام ترقی کے بجائے تاریکی، خدشات اور مایوسی میں اس بری طرح گھر چکے ہیں کہ اچھے دنوں کے خواب بھی اب سراب لگنے لگے ہیں۔
ملک کا آج ایسا حال ہے کہ ہر طرف سے گدھ اسے مردار سمجھ کے نوچنے کو تیار ہیں۔ یہ سب وہ تلخ حقائق ہیں جو ہر وقت ہماری آنکھوں میں تاریکیاں بکھیرے رکھتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کے نام پر ان پانچ سال کی اذیت سہنے اور ان سے چھٹکارا حاصل کرلینے کے بعد دل کرتا ہے کہ کوئی امید سحر کی بات کروں، کوئی نئے جگنو تلاش کروں، اپنے وطن کی اس بے رنگ تصویر میں پھر سے کوئی نئے رنگ بھروں۔ میں نے اکثر یہ چاہا کہ اپنی زمین کو پھولوں سے تشبیہ دوں، اس کے دامن کو رنگوں سے بھروں، اس کے وجود کو خوشیوں کی نوید دوں۔ پر جب بھی میرے قلم سے لفظ نکلے ہمیشہ شعلے بن کے ہوا میں پھیلے، خون سیاہی بن کے کاغذ پہ بکھرے، میں نے لاکھ اپنے ذہن کو جھٹلایا، دل میں خوش فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی، من میں آس جگانا چاہی، میری کوشش ہمیشہ ناکام ہوئی۔
اگر کبھی بھولے بھٹکے سے کوئی مسکراہٹ آئی بھی تو سسکی بن کے ہونٹوں میں پھیلی۔ نجانے کیوںآج تک میں اپنی د ھرتی کا چہرہ نہ بدل سکی۔ بچپن میں اپنے ماں باپ سے سنا کرتے تھے، کتابوں میں پڑھتے تھے کہ یہ وطن ہم نے بڑی مشکلوں سے بہت سی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تو میں سوچا کرتی تھی کہ وہ کیا قیامت خیز مناظر ہوں گے جب لٹے ہوئے قافلوں نے اس زمین پر قدم رکھا ہوگا، آگ و خون کے دریا سے گزر کے آنے والے بہن بھائیوں پہ کیا بیتی ہوگی، اور میری سوچ اس امید پہ آکے ختم ہوتی کہ ان کی خون آشام آنکھوں سے یہ عزم تو ضرور جھلکتا ہوگا کہ ہم نے اپنے مقصد کو پالیا ہے، ان کے دلوں میں آنے والے خوش کن لمحوں کی امید تو ہوگی اور یہی امید ان کے جینے کا حوصلہ بنی ہوگی۔
لیکن امید سے مایوسی کا یہ تریسٹھ برس کا سفر جس کا آغاز آگ و خون سے ہوا تھا، آج بھی اس زمین کے دامن سے خون کے دھبے نہیں مٹا سکا۔ جلتی بجھتی چنگاریاں آج بھی اس کا سینہ یونہی جلائے رکھتی ہیں۔امید نو کا یہ سفر جو 14 اگست 1947 سے شروع ہوا۔ اس سفر کے دوران ہزارہا ایسے لمحے آئے جب امید کو مایوسی نے اپنے آنچل میں چھپالیا، لیکن سفر کٹتا رہا، وقت گزرتا رہا اور یوں آج ہم وقت کے ان لمحوں کی قید میں ہیں، جب ہر طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، امید کا کہیں نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ دہشتگردی کی جنگ کے نام پہ اب تک ہزاروں لوگ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں کروڑوں لوگوں کو نہ دن کا چین نصیب ہے نہ رات کا سکون۔ ملوں، فیکٹریوں کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔
مزدور کے جفاکش ہاتھ خالی ہیں۔ بہنوں مائوں کی عزتیں سربازار لٹ رہی ہیں مگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ ہر دوسرا شخص یہاں زندگی کی اذیتوں سے منہ موڑ کر موت کی پناہوں میں جانا چاہتا ہے۔ صوبائیت، لسانیت کی بنیاد پر ہر شخص اپنے حقوق کی جنگ دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کے لڑنا چاہتا ہے، کوئی ہزارہ صوبہ بنانا چاہتا ہے تو کوئی سرائیکی زبان کے نام پہ ایک نئے صوبے کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے۔ کسی کو بہاولپور الگ صوبہ چاہیے، تو کسی کو بلوچستان کی محرومیوں کا درد کھائے جارہا ہے۔ بے چینی و بے بسی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، وہ بزرگ جنہوں نے جان کی بازی ہار کر، خون کے نذرانے دے کر اس مٹی کو جس امید پر چوما تھا وہ امید آج کے جوانوں، بزرگوں کے چہروں سے نہیں چھلکتی۔
مگر کہتے ہیں کہ مایوسی خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو روشنی کہیں نہ کہیں ضرور اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ آج ہم وقت کے جن کرب انگیز لمحوں سے گزر رہے ہیں مجھے ان حالات میں امید کی جھلک اس وقت نظر آتی ہے جب میں اپنے وطن پہ خدا کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو شمار کرنے بیٹھتی ہوں۔ یہ زمین جس کی کوکھ میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان پائی جاتی ہے۔ جس کے اندر منوں مٹی تلے چھپے سونے کے خزانے دنیا میں پانچویں نمبر پہ پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں پائے جانے والا کوئلے کا پانچواں حصہ اس ملک میں موجود ہے اور تانبے کی ساتویں بڑی کان پاکستان میں ہے مگر امید مایوسی میں پھر ڈھل جاتی ہے۔ ہماری حکومتیں جب قسطوں کی وصولی کے لیے جھولی پھیلائے امریکا پہنچ جاتی ہیں تو میری عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔ میری انا، میرا فخر جو مجھے اس مٹی نے دیا، اسی مٹی کے اندر کہیں دفن ہوجاتا ہے۔
جب مجھے لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کے اناج کا آٹھواں حصہ ہمارے ملک میں پیدا ہوتا ہے۔ ساتویں نمبر پر سب سے زیادہ چاول اس زمین میں اگتا ہے۔ ہمارے کھیت کھلیان سونا اگلتے ہیں۔ مگر یہ سونا کسانوں کی، ہاریوں کی زندگی نہیں بدل سکتا۔ میرے ہم وطن راتوں کو بھوکے سوتے ہیں اور صرف 40 فی صد لوگوں کو پیٹ بھر کے کھانا نصیب ہوتا ہے۔ہمارا غرور، ہمارا فخر، ہمارا نیوکلیئر پرو گرام جو ہمیں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود جب ڈرون طیارے اس زمین پہ آکر معصوم بچوں، بیگناہ لوگوں کو مارتے ہیں اور کوئی اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ ان طیاروں کو روک سکے تو ایسے میں بے گناہ مارے جانے والوں کا لہو میری آنکھوں سے چھلکتا ہے۔
اس کے باوجود میں آج پھر سے اپنے دل میں امید کی نئی شمع روشن کرنا چاہتی ہوں، وہی عزم جو میرے بزرگوں کا خاصا تھا، اسی عزم کی لو اپنے ہر ہم وطن کے دل میں جگانا چاہتی ہوں۔ انھیں امید کا پیغام دینا چاہتی ہوں۔ ایک دفعہ پھر نگران حکومت آچکی ہے۔ چھ ہفتوں کے بعد الیکشن ہونے والے ہیں ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے خود اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ ذات، برادریوں اور نوٹوں کی سیاست سے اپنے آپ کو باہر نکالنا ہوگا۔ وقتی فائدہ نہیں بلکہ اپنے ملک کے مفاد میں ووٹ ڈالنا ہوگا۔ ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح ادراک جب ہوگیا اور اس کا استعمال ہم نے صرف اپنے بہترمستقبل کے لیے پوری ایمان داری سے کیا تو وہ وقت دور نہیں جب امید کے دیے یقین کی صورت میں ہماری نگاہوں کے سامنے جگمگائیں گے۔
sarahliaquat@hotmail.com
روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی، خود کو غریبوں کا ہمنوا کہلوانے والی جماعت کے اقتدار کے اختتام پر عوام کا یہ حال ہے کہ پاکستان کی آٹھ کروڑ سے زائد یعنی کہ نصف آبادی کے لوگوں کو دو وقت کی پیٹ بھر کے روٹی کھانے کو نصیب نہیں ہے۔ تن ڈھانپنے کو اتنا ہے کہ اگر سر ڈھانپ لیں تو جسم موسموں کی شدت سے محفوظ نہیں ہے۔ مکان کے نام پر کہیں کچے گھر ہیں، تو کہیں محض ٹینٹ کا آسرا ہے اور بہت سے بدنصیب تو ایسے بھی ہیں جن کے نصیب میں کوئی عارضی سہارا بھی نہیں۔
کراچی کا گزشتہ پانچ برسوں سے یہ حال ہے کہ یہاں آئے دن خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے پھر اس پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے سیاست چمکائی جاتی ہے اور کچھ دنوں کی خاموشی کے بعد پھر وہی تماشا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے لوگوں کا خون اتنا ارزاں کیوں ہے جو کبھی بم دھماکوں میں، کبھی ٹارگٹ کلنگ میں، کبھی ڈرون حملوں میں اور کبھی دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال کر ایسے بہایا جاتا ہے جیسے یہ اولاد آدم نہیں کوئی جنگل کے جانور ہیں جن کے جینے یا مرنے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ عوام ترقی کے بجائے تاریکی، خدشات اور مایوسی میں اس بری طرح گھر چکے ہیں کہ اچھے دنوں کے خواب بھی اب سراب لگنے لگے ہیں۔
ملک کا آج ایسا حال ہے کہ ہر طرف سے گدھ اسے مردار سمجھ کے نوچنے کو تیار ہیں۔ یہ سب وہ تلخ حقائق ہیں جو ہر وقت ہماری آنکھوں میں تاریکیاں بکھیرے رکھتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کے نام پر ان پانچ سال کی اذیت سہنے اور ان سے چھٹکارا حاصل کرلینے کے بعد دل کرتا ہے کہ کوئی امید سحر کی بات کروں، کوئی نئے جگنو تلاش کروں، اپنے وطن کی اس بے رنگ تصویر میں پھر سے کوئی نئے رنگ بھروں۔ میں نے اکثر یہ چاہا کہ اپنی زمین کو پھولوں سے تشبیہ دوں، اس کے دامن کو رنگوں سے بھروں، اس کے وجود کو خوشیوں کی نوید دوں۔ پر جب بھی میرے قلم سے لفظ نکلے ہمیشہ شعلے بن کے ہوا میں پھیلے، خون سیاہی بن کے کاغذ پہ بکھرے، میں نے لاکھ اپنے ذہن کو جھٹلایا، دل میں خوش فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی، من میں آس جگانا چاہی، میری کوشش ہمیشہ ناکام ہوئی۔
اگر کبھی بھولے بھٹکے سے کوئی مسکراہٹ آئی بھی تو سسکی بن کے ہونٹوں میں پھیلی۔ نجانے کیوںآج تک میں اپنی د ھرتی کا چہرہ نہ بدل سکی۔ بچپن میں اپنے ماں باپ سے سنا کرتے تھے، کتابوں میں پڑھتے تھے کہ یہ وطن ہم نے بڑی مشکلوں سے بہت سی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تو میں سوچا کرتی تھی کہ وہ کیا قیامت خیز مناظر ہوں گے جب لٹے ہوئے قافلوں نے اس زمین پر قدم رکھا ہوگا، آگ و خون کے دریا سے گزر کے آنے والے بہن بھائیوں پہ کیا بیتی ہوگی، اور میری سوچ اس امید پہ آکے ختم ہوتی کہ ان کی خون آشام آنکھوں سے یہ عزم تو ضرور جھلکتا ہوگا کہ ہم نے اپنے مقصد کو پالیا ہے، ان کے دلوں میں آنے والے خوش کن لمحوں کی امید تو ہوگی اور یہی امید ان کے جینے کا حوصلہ بنی ہوگی۔
لیکن امید سے مایوسی کا یہ تریسٹھ برس کا سفر جس کا آغاز آگ و خون سے ہوا تھا، آج بھی اس زمین کے دامن سے خون کے دھبے نہیں مٹا سکا۔ جلتی بجھتی چنگاریاں آج بھی اس کا سینہ یونہی جلائے رکھتی ہیں۔امید نو کا یہ سفر جو 14 اگست 1947 سے شروع ہوا۔ اس سفر کے دوران ہزارہا ایسے لمحے آئے جب امید کو مایوسی نے اپنے آنچل میں چھپالیا، لیکن سفر کٹتا رہا، وقت گزرتا رہا اور یوں آج ہم وقت کے ان لمحوں کی قید میں ہیں، جب ہر طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، امید کا کہیں نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ دہشتگردی کی جنگ کے نام پہ اب تک ہزاروں لوگ اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں کروڑوں لوگوں کو نہ دن کا چین نصیب ہے نہ رات کا سکون۔ ملوں، فیکٹریوں کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔
مزدور کے جفاکش ہاتھ خالی ہیں۔ بہنوں مائوں کی عزتیں سربازار لٹ رہی ہیں مگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ ہر دوسرا شخص یہاں زندگی کی اذیتوں سے منہ موڑ کر موت کی پناہوں میں جانا چاہتا ہے۔ صوبائیت، لسانیت کی بنیاد پر ہر شخص اپنے حقوق کی جنگ دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کے لڑنا چاہتا ہے، کوئی ہزارہ صوبہ بنانا چاہتا ہے تو کوئی سرائیکی زبان کے نام پہ ایک نئے صوبے کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے۔ کسی کو بہاولپور الگ صوبہ چاہیے، تو کسی کو بلوچستان کی محرومیوں کا درد کھائے جارہا ہے۔ بے چینی و بے بسی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، وہ بزرگ جنہوں نے جان کی بازی ہار کر، خون کے نذرانے دے کر اس مٹی کو جس امید پر چوما تھا وہ امید آج کے جوانوں، بزرگوں کے چہروں سے نہیں چھلکتی۔
مگر کہتے ہیں کہ مایوسی خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو روشنی کہیں نہ کہیں ضرور اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ آج ہم وقت کے جن کرب انگیز لمحوں سے گزر رہے ہیں مجھے ان حالات میں امید کی جھلک اس وقت نظر آتی ہے جب میں اپنے وطن پہ خدا کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو شمار کرنے بیٹھتی ہوں۔ یہ زمین جس کی کوکھ میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان پائی جاتی ہے۔ جس کے اندر منوں مٹی تلے چھپے سونے کے خزانے دنیا میں پانچویں نمبر پہ پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں پائے جانے والا کوئلے کا پانچواں حصہ اس ملک میں موجود ہے اور تانبے کی ساتویں بڑی کان پاکستان میں ہے مگر امید مایوسی میں پھر ڈھل جاتی ہے۔ ہماری حکومتیں جب قسطوں کی وصولی کے لیے جھولی پھیلائے امریکا پہنچ جاتی ہیں تو میری عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔ میری انا، میرا فخر جو مجھے اس مٹی نے دیا، اسی مٹی کے اندر کہیں دفن ہوجاتا ہے۔
جب مجھے لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کے اناج کا آٹھواں حصہ ہمارے ملک میں پیدا ہوتا ہے۔ ساتویں نمبر پر سب سے زیادہ چاول اس زمین میں اگتا ہے۔ ہمارے کھیت کھلیان سونا اگلتے ہیں۔ مگر یہ سونا کسانوں کی، ہاریوں کی زندگی نہیں بدل سکتا۔ میرے ہم وطن راتوں کو بھوکے سوتے ہیں اور صرف 40 فی صد لوگوں کو پیٹ بھر کے کھانا نصیب ہوتا ہے۔ہمارا غرور، ہمارا فخر، ہمارا نیوکلیئر پرو گرام جو ہمیں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود جب ڈرون طیارے اس زمین پہ آکر معصوم بچوں، بیگناہ لوگوں کو مارتے ہیں اور کوئی اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ ان طیاروں کو روک سکے تو ایسے میں بے گناہ مارے جانے والوں کا لہو میری آنکھوں سے چھلکتا ہے۔
اس کے باوجود میں آج پھر سے اپنے دل میں امید کی نئی شمع روشن کرنا چاہتی ہوں، وہی عزم جو میرے بزرگوں کا خاصا تھا، اسی عزم کی لو اپنے ہر ہم وطن کے دل میں جگانا چاہتی ہوں۔ انھیں امید کا پیغام دینا چاہتی ہوں۔ ایک دفعہ پھر نگران حکومت آچکی ہے۔ چھ ہفتوں کے بعد الیکشن ہونے والے ہیں ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے خود اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ ذات، برادریوں اور نوٹوں کی سیاست سے اپنے آپ کو باہر نکالنا ہوگا۔ وقتی فائدہ نہیں بلکہ اپنے ملک کے مفاد میں ووٹ ڈالنا ہوگا۔ ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح ادراک جب ہوگیا اور اس کا استعمال ہم نے صرف اپنے بہترمستقبل کے لیے پوری ایمان داری سے کیا تو وہ وقت دور نہیں جب امید کے دیے یقین کی صورت میں ہماری نگاہوں کے سامنے جگمگائیں گے۔
sarahliaquat@hotmail.com