سلام… عاصمہ جہانگیر
آمریت کے سامنے کلمہ حق کہنا اپنی زندگی کا مشن بنا لیا جس پر وہ آخری سانس تک کاربند رہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق ،جمہوریت اور عدلیہ کی سربلندی کے لیے جد وجہد کرنے والوں کی فہرست بنائی جائے تو یہ بہت طویل نہیں ہوگی۔
ہمارے معاشرے کی ساخت کچھ اس طرح بن گئی ہے کہ ہم ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیحی دیتے ہیں اوربڑے بڑے عہدوں کی خاطر منٹوں میں اپنے نظریات اور فکر تبدیل کرلیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جمہوریت اور انسانیت کے لیے کام کرنے والے سیاست دانوں اورسماجی رہنماؤں کے قدم کسی نہ کسی مرحلے پر ڈگمگا جاتے ہیں۔بلند وبانگ دعوے کرنیوالے،ملک میں انصاف پر مبنی جمہوری معاشرہ تشکیل دینے کا خواب دکھانے والے ذاتی خواہشات اور ضروریات زندگی کے اسیر ہو جاتے ہیں، ایسے ماحول اور معاشرے میں انسان دوستی اور سماجی اصلاح کے لیے کام کرنے والے بے لوث لوگوں کی فہرست مرتب کی جائے تو وہ بہت طویل نہیں ہو سکتی لیکن عاصمہ جہانگیرکا نام اس فہرست میں جلی حروف سے لکھا جائے گا۔
آزادی اظہار کی علمبردار، مظلوم و محکوم عوام کے حقوق کی جدو جہد کی علامت بن جانے والی عاصمہ جہانگیر آج ہمارے درمیان نہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عاصمہ جہانگیر کے دنیا فانی سے جانے سے ایک سوچ،ایک فکر اور ایک نظریے کا باب بند ہوگیا ہے۔ پاکستان ایک باوقار اور طاقت ور آواز سے محروم ہوگیا ہے جس نے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔
عاصمہ جہانگیر نے شہرت، مقبولیت اور سماجی اور سیاسی طور سے قد آور شخصیت ہونے کے باوجود کبھی کوئی سیاسی عہدہ حاصل کرنے کی خواہش نہیں کی۔ انھوں نے چند بنیادی اصولوں کو اپنا نصب اولین بنایا اور ساری زندگی اس کے لیے جد و جہد کرتی رہیں ۔ اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں،دھونس و دھمکی کے باوجود وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کام کرتی رہیں۔
وہ پاکستان میں جمہوری نظام کی حامی تھیں وہ قومی امور میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کی کھل کر مخالفت کرتی تھیں ۔ سچ بولنے کے جرم میں انھیں نا جانے کتنے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا ۔ و ہ جمہوریت اور عدلیہ کو خود مختار ادارے کے طور پر دیکھناچاہتی تھیںاور اس مقصد کے لیے انھوں نے ہمیشہ کام کیا۔
عاصمہ جہانگیر کا نام ملکی سیاست کے افق پر بہت چھوٹی عمر میں ہی سامنے آ گیا تھا جب دسمبر 1972 میں ان کے والد ملک غلام جیلانی کو اس وقت کے آمر یحییٰ خان کی حکومت نے مارشل لا قوانین کے تحت حراست میں لیا تھا۔
عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ یحییٰ خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا جس میں سابق حکومت کو غیر قانونی اور یحییٰ خان کوغاصب قرار دیا گیا یہ ان کی ایک آمر کے خلاف پہلی فتح تھی اس کے بعد عاصمہ جہانگیر نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔
آمریت کے سامنے کلمہ حق کہنا اپنی زندگی کا مشن بنا لیا جس پر وہ آخری سانس تک کاربند رہیں۔عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کمیشن کی سابق سربراہ بھی رہیں اور پاکستانی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہونے والی پہلی خاتون وکیل بھی تھیں۔ انھیں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے اعزازات سے نوازا جاتا رہا جن میں یونیسکو پرائز، فرنچ لیجن آف آنر اور مارٹن اینیلز ایوارڈ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ عاصمہ جہانگیر کو 1995 میں انسانی حقوق پر کام کرنے کی وجہ سے رامون میگ سے ایوارڈ بھی دیا گیا جسے ایشیا کا نوبیل پرائز تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی بین الاقومی سطح پر مقبولیت کا یہ ثبوت ہے کہ جنوبی ایشیائی تعاون کی تنظیم سارک نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ''آپ ہمیشہ ہمارے دل و دماغ میں رہیں گی۔ آپ جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کے لیے تحریک رہیں گی۔''یہ صرف پاکستان کا نقصان نہیں ہے بلکہ جنوبی ایشیا کا نقصان ہے۔
ان تمام اعزاز سے بڑھ کر ان کی مقبولت اور وجہ شہرت ایک عام انسان کے لیے آواز بلند کرنا تھا۔ یہ بات کون بھول سکتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر نے ویج ایوارڈ کی جدوجہد کے دوران میڈیا کارکنوں کی بھر پور مدد کی بلکہ عاصمہ نے آگے آ کر مقدمہ لڑا ۔سیکڑوں ایسے مقدمات ہیںجب عاصمہ جہانگیر نے بغیر کسی فیس کے اپنے ٹکٹ پر سفر کرتے ہوئے مظلوم عوام کے لیے عدالتوں میں پیش ہوئیں اور بے گناہ لوگوں کو جیلوں سے آزادی دلوائی۔ مظلوموں اور محکوموں کے حقوق کے حصول کے لیے انھوں نے عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے اور عملی طور پر مظاہروں کی قیادت بھی کی۔
ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں عاصمہ جہانگیر نے کئی مظاہروں میں حصہ لیا اور 1983 میں لاہور کے مال روڈ پر وومن ایکشن فورم کے ساتھ کیا جانے والا مظاہرہ ملک کے تاریخی مظاہروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔عاصمہ جہانگیر کو اپنی زندگی میں کئی دفعہ مختلف الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑتا رہا اور ان کے گھر پر بھی کئی دفعہ حملے کیے گئے۔ انھیں کئی دفعہ جیل میں بند بھی کیا گیا اور نظر بندی کی سزا بھی سنائی گئی۔
عاصمہ جہانگیر کا اس بات کا ہمیشہ دکھ اور گلارہا کہ ایک خاص گروہ کی جانب سے انھیں بھارت کا ایجنٹ اور اسلام دشمن کہا گیا ان کے خلاف مضبوط پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی جو ان کے انتقال کے بعد بھی سوشل میڈیا پر چلائی جارہی ہے یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں جو اپنے نظریاتی مخالفین کو مرنے کے بعد بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ملک میں خواتین کے تحفظ ،انصاف اور مساوی حقوق کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دینے والے ترقی پسند اور لبرل طبقہ کے خلاف مہم جوئی کرنے والے عناصر تواتر سے عاصمہ جہانگیر کے خلاف رہے۔
ایک جانب بین الاقو می سطح پر اور دنیا بھر کے لیڈر عاصمہ جہانگیر کی جدائی کے نقصان کا احاطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو عاصمہ جیسی خاتون کے انتقال کے بعد مظلوم انسانوں کو اٹھانا پڑا ہے تو دوسری طرف عناد اور جھوٹ کی بنیاد پرکیچڑ اچھالنے کے عادی اس وقت بھی مرحومہ کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہ سوچ ہمارے زوال پذیر قومی مزاج اور سماج کی نشاندہی کرتا ہے جس کی بہتری کے لیے عاصمہ جہانگیر ساری زندگی ہر قسم کی مزاحمت کے باوجود تنہا کھڑی رہیں۔
بلا تفریق رنگ و نسل، قوم اور قومیت، مذہب اور فرقہ کے ہر مظلوم انسان کے ساتھ کھڑی ہوجاتی تھیں۔عاصمہ جہانگیر نے انسان اور انسانیت سے محبت کی جو تحریک چلائی اور جو دیا روشن کیا ہے اس کی روشنی پاکستانی سماج کے گھپ اندھیرے میں امید کی کرن کی طرح جگمگاتی رہے گی ۔
ہمارے معاشرے کی ساخت کچھ اس طرح بن گئی ہے کہ ہم ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیحی دیتے ہیں اوربڑے بڑے عہدوں کی خاطر منٹوں میں اپنے نظریات اور فکر تبدیل کرلیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جمہوریت اور انسانیت کے لیے کام کرنے والے سیاست دانوں اورسماجی رہنماؤں کے قدم کسی نہ کسی مرحلے پر ڈگمگا جاتے ہیں۔بلند وبانگ دعوے کرنیوالے،ملک میں انصاف پر مبنی جمہوری معاشرہ تشکیل دینے کا خواب دکھانے والے ذاتی خواہشات اور ضروریات زندگی کے اسیر ہو جاتے ہیں، ایسے ماحول اور معاشرے میں انسان دوستی اور سماجی اصلاح کے لیے کام کرنے والے بے لوث لوگوں کی فہرست مرتب کی جائے تو وہ بہت طویل نہیں ہو سکتی لیکن عاصمہ جہانگیرکا نام اس فہرست میں جلی حروف سے لکھا جائے گا۔
آزادی اظہار کی علمبردار، مظلوم و محکوم عوام کے حقوق کی جدو جہد کی علامت بن جانے والی عاصمہ جہانگیر آج ہمارے درمیان نہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عاصمہ جہانگیر کے دنیا فانی سے جانے سے ایک سوچ،ایک فکر اور ایک نظریے کا باب بند ہوگیا ہے۔ پاکستان ایک باوقار اور طاقت ور آواز سے محروم ہوگیا ہے جس نے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔
عاصمہ جہانگیر نے شہرت، مقبولیت اور سماجی اور سیاسی طور سے قد آور شخصیت ہونے کے باوجود کبھی کوئی سیاسی عہدہ حاصل کرنے کی خواہش نہیں کی۔ انھوں نے چند بنیادی اصولوں کو اپنا نصب اولین بنایا اور ساری زندگی اس کے لیے جد و جہد کرتی رہیں ۔ اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں،دھونس و دھمکی کے باوجود وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کام کرتی رہیں۔
وہ پاکستان میں جمہوری نظام کی حامی تھیں وہ قومی امور میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کی کھل کر مخالفت کرتی تھیں ۔ سچ بولنے کے جرم میں انھیں نا جانے کتنے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا ۔ و ہ جمہوریت اور عدلیہ کو خود مختار ادارے کے طور پر دیکھناچاہتی تھیںاور اس مقصد کے لیے انھوں نے ہمیشہ کام کیا۔
عاصمہ جہانگیر کا نام ملکی سیاست کے افق پر بہت چھوٹی عمر میں ہی سامنے آ گیا تھا جب دسمبر 1972 میں ان کے والد ملک غلام جیلانی کو اس وقت کے آمر یحییٰ خان کی حکومت نے مارشل لا قوانین کے تحت حراست میں لیا تھا۔
عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ یحییٰ خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا جس میں سابق حکومت کو غیر قانونی اور یحییٰ خان کوغاصب قرار دیا گیا یہ ان کی ایک آمر کے خلاف پہلی فتح تھی اس کے بعد عاصمہ جہانگیر نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔
آمریت کے سامنے کلمہ حق کہنا اپنی زندگی کا مشن بنا لیا جس پر وہ آخری سانس تک کاربند رہیں۔عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کمیشن کی سابق سربراہ بھی رہیں اور پاکستانی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہونے والی پہلی خاتون وکیل بھی تھیں۔ انھیں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے اعزازات سے نوازا جاتا رہا جن میں یونیسکو پرائز، فرنچ لیجن آف آنر اور مارٹن اینیلز ایوارڈ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ عاصمہ جہانگیر کو 1995 میں انسانی حقوق پر کام کرنے کی وجہ سے رامون میگ سے ایوارڈ بھی دیا گیا جسے ایشیا کا نوبیل پرائز تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی بین الاقومی سطح پر مقبولیت کا یہ ثبوت ہے کہ جنوبی ایشیائی تعاون کی تنظیم سارک نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ''آپ ہمیشہ ہمارے دل و دماغ میں رہیں گی۔ آپ جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کے لیے تحریک رہیں گی۔''یہ صرف پاکستان کا نقصان نہیں ہے بلکہ جنوبی ایشیا کا نقصان ہے۔
ان تمام اعزاز سے بڑھ کر ان کی مقبولت اور وجہ شہرت ایک عام انسان کے لیے آواز بلند کرنا تھا۔ یہ بات کون بھول سکتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر نے ویج ایوارڈ کی جدوجہد کے دوران میڈیا کارکنوں کی بھر پور مدد کی بلکہ عاصمہ نے آگے آ کر مقدمہ لڑا ۔سیکڑوں ایسے مقدمات ہیںجب عاصمہ جہانگیر نے بغیر کسی فیس کے اپنے ٹکٹ پر سفر کرتے ہوئے مظلوم عوام کے لیے عدالتوں میں پیش ہوئیں اور بے گناہ لوگوں کو جیلوں سے آزادی دلوائی۔ مظلوموں اور محکوموں کے حقوق کے حصول کے لیے انھوں نے عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے اور عملی طور پر مظاہروں کی قیادت بھی کی۔
ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں عاصمہ جہانگیر نے کئی مظاہروں میں حصہ لیا اور 1983 میں لاہور کے مال روڈ پر وومن ایکشن فورم کے ساتھ کیا جانے والا مظاہرہ ملک کے تاریخی مظاہروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔عاصمہ جہانگیر کو اپنی زندگی میں کئی دفعہ مختلف الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑتا رہا اور ان کے گھر پر بھی کئی دفعہ حملے کیے گئے۔ انھیں کئی دفعہ جیل میں بند بھی کیا گیا اور نظر بندی کی سزا بھی سنائی گئی۔
عاصمہ جہانگیر کا اس بات کا ہمیشہ دکھ اور گلارہا کہ ایک خاص گروہ کی جانب سے انھیں بھارت کا ایجنٹ اور اسلام دشمن کہا گیا ان کے خلاف مضبوط پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی جو ان کے انتقال کے بعد بھی سوشل میڈیا پر چلائی جارہی ہے یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں جو اپنے نظریاتی مخالفین کو مرنے کے بعد بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ملک میں خواتین کے تحفظ ،انصاف اور مساوی حقوق کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دینے والے ترقی پسند اور لبرل طبقہ کے خلاف مہم جوئی کرنے والے عناصر تواتر سے عاصمہ جہانگیر کے خلاف رہے۔
ایک جانب بین الاقو می سطح پر اور دنیا بھر کے لیڈر عاصمہ جہانگیر کی جدائی کے نقصان کا احاطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو عاصمہ جیسی خاتون کے انتقال کے بعد مظلوم انسانوں کو اٹھانا پڑا ہے تو دوسری طرف عناد اور جھوٹ کی بنیاد پرکیچڑ اچھالنے کے عادی اس وقت بھی مرحومہ کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہ سوچ ہمارے زوال پذیر قومی مزاج اور سماج کی نشاندہی کرتا ہے جس کی بہتری کے لیے عاصمہ جہانگیر ساری زندگی ہر قسم کی مزاحمت کے باوجود تنہا کھڑی رہیں۔
بلا تفریق رنگ و نسل، قوم اور قومیت، مذہب اور فرقہ کے ہر مظلوم انسان کے ساتھ کھڑی ہوجاتی تھیں۔عاصمہ جہانگیر نے انسان اور انسانیت سے محبت کی جو تحریک چلائی اور جو دیا روشن کیا ہے اس کی روشنی پاکستانی سماج کے گھپ اندھیرے میں امید کی کرن کی طرح جگمگاتی رہے گی ۔