گیس کی طلب
اگرگاڑیوں کو سی این جی کی سہولت نہ ملتی تو گھروں اور صنعتوں کی گیس کی ضرورت پوری ہوتی رہتی۔
RAJANPUR:
ویسے بھی ملک میں سردیوں میں ہی سوئی گیس کی طلب بڑھا کرتی تھی کیونکہ سردیوں میں گیس ہیٹرز زیادہ استعمال ہوتے تھے مگرگزشتہ 10 سالوں سے اب سوئی گیس گرمیوں میں بھی عوام کی ضرورت بنی ہوئی ہے،کیونکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کو گیس جنریٹروں کے ذریعے بجلی کے حصول پر مجبور کر رکھا ہے جو بجلی سے مہنگی پڑتی ہے ۔ ملک میں گیس کی کھپت بڑھنے سے گرمیوں میں بھی حکومت گیس کی لوڈ شیڈنگ کررہی ہے اور سوئی سدرن گیس میں بھی بل بڑھا کر بھیجے جا رہے ہیں اورگیس بلوں کی شکایات بھی بڑھ رہی ہیں۔
پاکستانیوں کے لیے بھی سوئی گیس قدرتی نعمت ہے مگر اس قدرتی نعمت کو بھی ہر حکومت نے پٹرول کی طرح اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔ پٹرولیم مصنوعات بھی قدرتی نعمت ہیں اور اللہ پاک نے دنیا کے بہت سے ملکوں کو نواز رکھا ہے مگر یہاں حکومت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ قدرتی نعمتوں سے بھی اپنے عوام کو فائدہ نہیں پہنچانا بلکہ نہ صرف خود فائدہ اٹھانا ہے بلکہ پٹرولیم مصنوعات اور سوئی گیس کوکنٹرول کرنے والے سرکاری اداروں کے ملازمین خصوصاً افسروں کو بھی فائدہ پہنچانا ہے اور اسی پالیسی پر ہر حکومت عمل پیرا ہے۔
بجلی کے مقابلے میں عوام سوئی سدرن گیس کمپنی کو بہت بہتر سمجھتے تھے جو دیگر سرکاری اداروں کے مقابلے میں اپنے صارفین کو کم تنگ کرتا تھا مگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھنے سے عوام نے سوئی گیس سے بجلی کا حصول ممکن بنا لیا تھا اور سوئی گیس کی کھپت گرمیوں میں بھی بڑھ گئی تھی اور سردیاں تو ویسے بھی سوئی گیس کی مانگ بڑھ جانے سے کمپنی کا کئی سالوں سے سیزن بنی ہوئی ہیں۔
سوئی گیس کی قدرتی نعمت کو حکومت عوام کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ سوئی گیس جلانے کے لیے نہیں بلکہ صنعتی ترقی اور صنعتوں کے استعمال کے لیے ہے جہاں بجلی حاصل کرنے کے لیے نصب کیے گئے بڑے بڑے جنریٹروں کو سوئی گیس سے چلایا جاتا ہے تاکہ صنعتی پہیہ چلتا رہے اور صنعتی مزدور بیروزگار نہ ہوں۔
صنعتیں بلاشبہ ملک میں اشیا کی تیاری، بے روزگاری کے خاتمے اور بیرون ملک مال بھیج کر زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہیں مگر گزشتہ ادوار خصوصاً پیپلز پارٹی کے دور میں سی این جی پمپوں کے قیام کی بے دردی سے اجازت دی گئی جس کی وجہ بسوں، ٹرکوں، پبلک وینز، سوزوکی پک اپس جو پبلک ٹرانسپورٹ اور سامان کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہیں جب کہ سی این جی رکشوں کی تعداد بھی بڑھائی گئی جس سے غریبوں کو توکوئی فائدہ نہیں ہوا۔
کاریں بھی امیر اور متوسط طبقہ استعمال کرتا ہے جب کہ غریب جنھیں پبلک ٹرانسپورٹ اور رکشوں میں سفر کرنا پڑتا ہے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔گیس سے چلنے والی گاڑیوں سے غریبوں کو کبھی سفر اورکرایوں میں کوئی رعایت ملتی ہے نہ انھیں سفر سستا پڑتا ہے اورگیس پر چلنے والی گاڑیوں کا مجموعی فائدہ بھی ان کے مالکان ہی کو ہوتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ ارکان اسمبلی، پولیس افسروں اور بڑے لوگوں کی ملکیت ہیں جو گیس پر گاڑیاں چلا کر عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیتے اور عوام خصوصاً ملک کی اکثریت غریب کو سی این جی پمپوں اورگاڑیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ملک میں مجموعی طور پر عوام کو قدرتی گیس سے ریلیف ان کے گھروں کے چولہوں سے ملتا ہے یا سردیوں میں گیس ہیٹروں سے وہ سردی سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔گیزروں سے گرم پانی حاصل کرلیتے ہیں اور سردیوں کے چند ماہ خیریت سے گزر جاتے ہیں اور اب یہ سہولت بھی ارزاں نہیں رہی بلکہ اضافی کمائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔
سی این جی گاڑیوں سے گھروں اور صنعتوں کو گیس کی سردیوں میں فراہمی کم ہوجاتی ہے اور بجلی کی طرح گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی بڑھتی جا رہی ہے، اگرگاڑیوں کو سی این جی کی سہولت نہ ملتی تو گھروں اور صنعتوں کی گیس کی ضرورت پوری ہوتی رہتی اور حکومت کو دیگر ملکوں سے گیس درآمد پر قیمتی زرمبادلہ بھی ضایع نہ کرنا پڑتا۔
حکومت سی این جی کے نرخوں میں رد و بدل کرتی رہتی ہے سی این جی کے ناغہ نے بھی زندگی کے سفر کو عذاب بنادیا ہے ۔ سردیوں میں لوگوں کو گیزر دن رات مجبوری میں استعمال کرنا پڑتے ہیں اور دن میں گیس جنریٹر بھی کم ہی چلتے ہیں۔ بجلی کی طرح سوئی گیس کے نرخ بھی سرکار نے ایسے مقرر کر رکھے ہیں کہ زیادہ استعمال پر نرخ بڑھ جاتے ہیں جب کہ عام اشیا زیادہ خریدنے پر ارزاں ملتی ہیں۔
بجلی کمپنیوں نے یونٹوں کے استعمال پر نرخ مقرر کر رکھے ہیں مگر سوئی گیس کا حساب الگ ہے۔ گیس چارجز 100 MMBTU پر ایک سو دس روپے، تین سو SLAB تک دو سو بیس روپے اور تین سو سے زائد استعمال پر چھ سو روپے چارج کرنے کے نرخ بل پر درج ہیں۔
ویسے بھی ملک میں سردیوں میں ہی سوئی گیس کی طلب بڑھا کرتی تھی کیونکہ سردیوں میں گیس ہیٹرز زیادہ استعمال ہوتے تھے مگرگزشتہ 10 سالوں سے اب سوئی گیس گرمیوں میں بھی عوام کی ضرورت بنی ہوئی ہے،کیونکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کو گیس جنریٹروں کے ذریعے بجلی کے حصول پر مجبور کر رکھا ہے جو بجلی سے مہنگی پڑتی ہے ۔ ملک میں گیس کی کھپت بڑھنے سے گرمیوں میں بھی حکومت گیس کی لوڈ شیڈنگ کررہی ہے اور سوئی سدرن گیس میں بھی بل بڑھا کر بھیجے جا رہے ہیں اورگیس بلوں کی شکایات بھی بڑھ رہی ہیں۔
پاکستانیوں کے لیے بھی سوئی گیس قدرتی نعمت ہے مگر اس قدرتی نعمت کو بھی ہر حکومت نے پٹرول کی طرح اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔ پٹرولیم مصنوعات بھی قدرتی نعمت ہیں اور اللہ پاک نے دنیا کے بہت سے ملکوں کو نواز رکھا ہے مگر یہاں حکومت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ قدرتی نعمتوں سے بھی اپنے عوام کو فائدہ نہیں پہنچانا بلکہ نہ صرف خود فائدہ اٹھانا ہے بلکہ پٹرولیم مصنوعات اور سوئی گیس کوکنٹرول کرنے والے سرکاری اداروں کے ملازمین خصوصاً افسروں کو بھی فائدہ پہنچانا ہے اور اسی پالیسی پر ہر حکومت عمل پیرا ہے۔
بجلی کے مقابلے میں عوام سوئی سدرن گیس کمپنی کو بہت بہتر سمجھتے تھے جو دیگر سرکاری اداروں کے مقابلے میں اپنے صارفین کو کم تنگ کرتا تھا مگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھنے سے عوام نے سوئی گیس سے بجلی کا حصول ممکن بنا لیا تھا اور سوئی گیس کی کھپت گرمیوں میں بھی بڑھ گئی تھی اور سردیاں تو ویسے بھی سوئی گیس کی مانگ بڑھ جانے سے کمپنی کا کئی سالوں سے سیزن بنی ہوئی ہیں۔
سوئی گیس کی قدرتی نعمت کو حکومت عوام کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ سوئی گیس جلانے کے لیے نہیں بلکہ صنعتی ترقی اور صنعتوں کے استعمال کے لیے ہے جہاں بجلی حاصل کرنے کے لیے نصب کیے گئے بڑے بڑے جنریٹروں کو سوئی گیس سے چلایا جاتا ہے تاکہ صنعتی پہیہ چلتا رہے اور صنعتی مزدور بیروزگار نہ ہوں۔
صنعتیں بلاشبہ ملک میں اشیا کی تیاری، بے روزگاری کے خاتمے اور بیرون ملک مال بھیج کر زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہیں مگر گزشتہ ادوار خصوصاً پیپلز پارٹی کے دور میں سی این جی پمپوں کے قیام کی بے دردی سے اجازت دی گئی جس کی وجہ بسوں، ٹرکوں، پبلک وینز، سوزوکی پک اپس جو پبلک ٹرانسپورٹ اور سامان کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہیں جب کہ سی این جی رکشوں کی تعداد بھی بڑھائی گئی جس سے غریبوں کو توکوئی فائدہ نہیں ہوا۔
کاریں بھی امیر اور متوسط طبقہ استعمال کرتا ہے جب کہ غریب جنھیں پبلک ٹرانسپورٹ اور رکشوں میں سفر کرنا پڑتا ہے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔گیس سے چلنے والی گاڑیوں سے غریبوں کو کبھی سفر اورکرایوں میں کوئی رعایت ملتی ہے نہ انھیں سفر سستا پڑتا ہے اورگیس پر چلنے والی گاڑیوں کا مجموعی فائدہ بھی ان کے مالکان ہی کو ہوتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ ارکان اسمبلی، پولیس افسروں اور بڑے لوگوں کی ملکیت ہیں جو گیس پر گاڑیاں چلا کر عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیتے اور عوام خصوصاً ملک کی اکثریت غریب کو سی این جی پمپوں اورگاڑیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ملک میں مجموعی طور پر عوام کو قدرتی گیس سے ریلیف ان کے گھروں کے چولہوں سے ملتا ہے یا سردیوں میں گیس ہیٹروں سے وہ سردی سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔گیزروں سے گرم پانی حاصل کرلیتے ہیں اور سردیوں کے چند ماہ خیریت سے گزر جاتے ہیں اور اب یہ سہولت بھی ارزاں نہیں رہی بلکہ اضافی کمائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔
سی این جی گاڑیوں سے گھروں اور صنعتوں کو گیس کی سردیوں میں فراہمی کم ہوجاتی ہے اور بجلی کی طرح گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی بڑھتی جا رہی ہے، اگرگاڑیوں کو سی این جی کی سہولت نہ ملتی تو گھروں اور صنعتوں کی گیس کی ضرورت پوری ہوتی رہتی اور حکومت کو دیگر ملکوں سے گیس درآمد پر قیمتی زرمبادلہ بھی ضایع نہ کرنا پڑتا۔
حکومت سی این جی کے نرخوں میں رد و بدل کرتی رہتی ہے سی این جی کے ناغہ نے بھی زندگی کے سفر کو عذاب بنادیا ہے ۔ سردیوں میں لوگوں کو گیزر دن رات مجبوری میں استعمال کرنا پڑتے ہیں اور دن میں گیس جنریٹر بھی کم ہی چلتے ہیں۔ بجلی کی طرح سوئی گیس کے نرخ بھی سرکار نے ایسے مقرر کر رکھے ہیں کہ زیادہ استعمال پر نرخ بڑھ جاتے ہیں جب کہ عام اشیا زیادہ خریدنے پر ارزاں ملتی ہیں۔
بجلی کمپنیوں نے یونٹوں کے استعمال پر نرخ مقرر کر رکھے ہیں مگر سوئی گیس کا حساب الگ ہے۔ گیس چارجز 100 MMBTU پر ایک سو دس روپے، تین سو SLAB تک دو سو بیس روپے اور تین سو سے زائد استعمال پر چھ سو روپے چارج کرنے کے نرخ بل پر درج ہیں۔