کیا عمران خان الیکشن ہارنے کے لیے محنت کر رہے ہیں
حقیقت میں عمران خان مصلحت کی سیاست کا شکار ہو رہا ہے جب کہ عوام کو جارحانہ عمران خان پسند ہے
2011ء میں پیپلز پارٹی کے کرپٹ ترین دور میں سیاست کے اُفق پر ایک جماعت پاکستان تحریک انصاف ''تبدیلی'' کے نعرے کے ساتھ نمودار ہوئی۔ عوام چونکہ غربت کی دلدل میں دھنس رہے تھے، اس لیے انھوں نے عمران خان کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔
عوام کی اُمیدیں بندھیں کہ اب اُن کی کرپٹ سیاستدانوں سے جان چھوٹے گی اور نئی قیادت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ پھر2013ء کے جنرل الیکشن ہوئے، ن لیگ مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی، دھاندلی کا شور مچا، دھرنے ہوئے، سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ 2018ء کے الیکشن میں 2013ء والی غلطیاں دھرائی نہیں جائیں گی، لہٰذا ''الیکشن اصلاحات'' کا لالی پاپ پی ٹی آئی کو تھما دیا گیا، اور اب الیکشن 2018ء بھی سر پر آن پہنچا ہے۔ مگر افسوس کوئی اصلاحات نہیں ہوئیں۔
سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا پہلے ہوتا آیا ہے۔ اس بار بھی ''منظم'' دھاندلی دیکھنے کو نہیں ملے گی، بس انفرادی دھاندلی ہو جائے توکچھ کہا نہیں جا سکتا!خیر ''سونامی'' کی لہروں میں شدت آہستہ آہستہ کم ہونے لگیں، ساتھ عوام کی اُمیدیں بھی معدوم ہونے لگیں، اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد جتنے ضمنی الیکشن ہوئے ان میں پی ٹی آئی کی کامیابی آٹے میں نمک کے برابر رہی۔NA-1 پشاور کی نشست اے این پی نے چھین لی۔
NA-71میانوالی کا حلقہ مسلم لیگ (ن) نے مال غنیمت کے طور پر حاصل کرلیا۔پی پی 81جھنگ ہو ،پی پی 136نارووال یا پھر پی کے 45ایبٹ آباد پی ٹی آئی کو ہر جگہ شکست ہوئی۔یہاں تک کہ 17ستمبر 2017ء کو لاہور کے حلقہ این اے 120میں گھمسان کا رن پڑا مگر کلثوم نواز جیت گئیں۔ 20چکوال کا ضمنی الیکشن تو کل کی بات ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سلطان حیدر علی خان نے 29000ووٹوں کی برتری سے تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست دی۔
اب لودھراں میں پی ٹی آئی کی ہار کا نوحہ پڑھ لیتے ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) نے بادل نخواستہ پیر اقبال شاہ کو ٹکٹ دیا جوتحصیل دنیا پور کے ناظم رہ چکے ہیں۔ اس نے ''قابل ترین'' اور ''طاقتور ترین''کو ''نااہل ترین'' اور ''کمزور ترین'' ثابت کرکے عبرت ناک شکست سے دوچار کیا، اس نے یہ معرکہ سرکرنے سے پہلے قومی اسمبلی تو کیا صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی نہیں لڑا۔
وسائل کا موازنہ کیا جائے تو ایک طرف ہیلی کاپٹر،بلٹ پروف گاڑیاں اور مسلح سیکیورٹی گارڈز تھے تو دوسری طرف ''بے کار'' تن تنہا اور درمیانے طبقے کا بوڑھا برسر پیکار تھا۔ چونکہ جہانگیر ترین کا بیٹا الیکشن لڑ رہا تھا اس لیے پی ٹی آئی کے تمام ایم این اے،ایم پی اے اور رہنما قطار اند ر قطار اس حلقے میں فتح کا جشن منانے اُترتے رہے۔
عمران خان،شاہ محمود قریشی،مراد سعید اور شیخ رشید انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علی ترین کے انتخابی جلسے میں شریک ہوئے۔حد تو یہ ہے کہ عمران خان نے حالیہ ضمنی الیکشن میں شکست کے فوراََ بعد ایک کمیٹی بنائی جو اس بات کا تعین کرے گی کہ لودھراں جیسا حلقہ جو پی ٹی آئی کا مضبوط قلعہ تھا میں شکست کیوں ہوئی؟ اس کمیٹی کا سربراہ جہانگیر ترین کو بنا دیا گیا۔ کیا یہ میرٹ ہے؟
کیا عوام مستقبل میں کسی سے اُمید لگانا چھوڑ دیں۔ تحریک انصاف میں نظریاتی کارکنوں کا جو استحصال ہو رہا ہے کیا اس حوالے سے بھی خان صاحب کو کوئی فکر ہے؟ یا پی ٹی آئی بھی محض ون مین شو پارٹی بن چکی ہے جس میں میرٹ پر فیصلے کرنے کے بجائے بے ڈھنگے فیصلے کرکے جنرل الیکشن ہارنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
مجھے آج کی پی ٹی آئی کو دیکھ کر 1986ء کا بینظیر کا فقید المثال استقبال اور جلسہ یاد آرہا ہے، تاریخ میں اتنا بڑا جلسہ پاکستان میں نہیں دیکھا گیا۔ پھر اُس کے بعد کیا ہوا؟ وہی ہوا جو آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بینظیر کے گرد مفاد پرستوں نے انھیں یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ آپ کو ہر حلقے میں مزید طاقتور لوگوں کی ضرورت ہے۔
محترمہ ان کے جال میں پھنس گئیں، ضیاء الحق کا ساتھ دینے والوں کو بھی پارٹی میں شامل کر لیا گیا۔ وہ 1988ء کا الیکشن واضع اکثریت کے ساتھ نہ جیت سکیں۔ کیا یہی حال آج عمران خان کا نہیں ہورہا؟ کیا عمران خان بھی ایسے لوگوں کے بہکاوے میں تو نہیں آگئے جو پارٹی میں چلے ہوئے کارتوس شامل کررہے ہیں۔
کل محترمہ بینظیر نے عوام کی پروا کیے بغیر مفاد پرستوں کو پارٹی میں شامل کیا ، آج عمران خان عوامی مفادات کے برعکس وہی کام کر رہے ہیں، مشرف اور زرداری کی پارٹیوں سے لوگوں کو لا رہے ہیں۔ کہاں گیا وہ نظریہ؟ کہاں گئی وہ تبدیلی؟ کیا عوام کو ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنا اعتماد کھو چکے ہیں ۔ تحریک انصاف نے علی ترین کو ٹکٹ دے کر کیا موروثی سیاست کو ہوا نہیں دی؟ حالانکہ عمران خان موروثی سیاست کے سب سے بڑے مخالف ہیں، لوگوں کو ان کی یہی باتیں اچھی بھی لگتی ہیں۔
اگر جہانگیر ترین نااہل ہو گیا ہے تو کسی اور ورکر ، کارکن یا اس حلقے کے پی ٹی آئی رہنما کو ٹکٹ دے دیا جاتاتو نتائج مختلف ہونے تھے۔ کیا لوگ صحیح نہیں کہتے کہ عمران خان کو کے پی کے تک محدود کر دیا گیا ہے، اور وہ وہیں کے ہو کر رہیں گے؟
کسی صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ صوبہ ہزارہ بننے کے حوالے سے بات کیوں نہیں کرتے؟ تو موصوف فرمانے لگے کہ ایسا کرنے سے پختون عوام ناراض ہوںگے جن کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتا... کیا یہ قومی سوچ ہے؟ کیا ہندکو ہزارہ والوں کی ناراضی کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اگر کے پی کو مزید صوبوں میں تقسیم نہیں کرنا تو پھر پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کرنے کی باتیں کیوں؟
حقیقت میں عمران خان مصلحت کی سیاست کا شکار ہو رہا ہے جب کہ عوام کو جارحانہ عمران خان پسند ہے ،جو کسی مخصوص صوبے کی کمیونٹی کی ناراضی سے ڈرنے والا نہ ہو بلکہ دبنگ ہو ۔ منوبھائی کی ایک نظم کا ایک شعر پڑھیے اور اجازت دیجیے۔
میٹھے میں مٹھاس نہیں رہی
اور کھٹے میں کھٹاس باقی نہیں
عوام کی اُمیدیں بندھیں کہ اب اُن کی کرپٹ سیاستدانوں سے جان چھوٹے گی اور نئی قیادت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ پھر2013ء کے جنرل الیکشن ہوئے، ن لیگ مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی، دھاندلی کا شور مچا، دھرنے ہوئے، سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ 2018ء کے الیکشن میں 2013ء والی غلطیاں دھرائی نہیں جائیں گی، لہٰذا ''الیکشن اصلاحات'' کا لالی پاپ پی ٹی آئی کو تھما دیا گیا، اور اب الیکشن 2018ء بھی سر پر آن پہنچا ہے۔ مگر افسوس کوئی اصلاحات نہیں ہوئیں۔
سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا پہلے ہوتا آیا ہے۔ اس بار بھی ''منظم'' دھاندلی دیکھنے کو نہیں ملے گی، بس انفرادی دھاندلی ہو جائے توکچھ کہا نہیں جا سکتا!خیر ''سونامی'' کی لہروں میں شدت آہستہ آہستہ کم ہونے لگیں، ساتھ عوام کی اُمیدیں بھی معدوم ہونے لگیں، اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد جتنے ضمنی الیکشن ہوئے ان میں پی ٹی آئی کی کامیابی آٹے میں نمک کے برابر رہی۔NA-1 پشاور کی نشست اے این پی نے چھین لی۔
NA-71میانوالی کا حلقہ مسلم لیگ (ن) نے مال غنیمت کے طور پر حاصل کرلیا۔پی پی 81جھنگ ہو ،پی پی 136نارووال یا پھر پی کے 45ایبٹ آباد پی ٹی آئی کو ہر جگہ شکست ہوئی۔یہاں تک کہ 17ستمبر 2017ء کو لاہور کے حلقہ این اے 120میں گھمسان کا رن پڑا مگر کلثوم نواز جیت گئیں۔ 20چکوال کا ضمنی الیکشن تو کل کی بات ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سلطان حیدر علی خان نے 29000ووٹوں کی برتری سے تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست دی۔
اب لودھراں میں پی ٹی آئی کی ہار کا نوحہ پڑھ لیتے ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) نے بادل نخواستہ پیر اقبال شاہ کو ٹکٹ دیا جوتحصیل دنیا پور کے ناظم رہ چکے ہیں۔ اس نے ''قابل ترین'' اور ''طاقتور ترین''کو ''نااہل ترین'' اور ''کمزور ترین'' ثابت کرکے عبرت ناک شکست سے دوچار کیا، اس نے یہ معرکہ سرکرنے سے پہلے قومی اسمبلی تو کیا صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی نہیں لڑا۔
وسائل کا موازنہ کیا جائے تو ایک طرف ہیلی کاپٹر،بلٹ پروف گاڑیاں اور مسلح سیکیورٹی گارڈز تھے تو دوسری طرف ''بے کار'' تن تنہا اور درمیانے طبقے کا بوڑھا برسر پیکار تھا۔ چونکہ جہانگیر ترین کا بیٹا الیکشن لڑ رہا تھا اس لیے پی ٹی آئی کے تمام ایم این اے،ایم پی اے اور رہنما قطار اند ر قطار اس حلقے میں فتح کا جشن منانے اُترتے رہے۔
عمران خان،شاہ محمود قریشی،مراد سعید اور شیخ رشید انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علی ترین کے انتخابی جلسے میں شریک ہوئے۔حد تو یہ ہے کہ عمران خان نے حالیہ ضمنی الیکشن میں شکست کے فوراََ بعد ایک کمیٹی بنائی جو اس بات کا تعین کرے گی کہ لودھراں جیسا حلقہ جو پی ٹی آئی کا مضبوط قلعہ تھا میں شکست کیوں ہوئی؟ اس کمیٹی کا سربراہ جہانگیر ترین کو بنا دیا گیا۔ کیا یہ میرٹ ہے؟
کیا عوام مستقبل میں کسی سے اُمید لگانا چھوڑ دیں۔ تحریک انصاف میں نظریاتی کارکنوں کا جو استحصال ہو رہا ہے کیا اس حوالے سے بھی خان صاحب کو کوئی فکر ہے؟ یا پی ٹی آئی بھی محض ون مین شو پارٹی بن چکی ہے جس میں میرٹ پر فیصلے کرنے کے بجائے بے ڈھنگے فیصلے کرکے جنرل الیکشن ہارنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
مجھے آج کی پی ٹی آئی کو دیکھ کر 1986ء کا بینظیر کا فقید المثال استقبال اور جلسہ یاد آرہا ہے، تاریخ میں اتنا بڑا جلسہ پاکستان میں نہیں دیکھا گیا۔ پھر اُس کے بعد کیا ہوا؟ وہی ہوا جو آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بینظیر کے گرد مفاد پرستوں نے انھیں یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ آپ کو ہر حلقے میں مزید طاقتور لوگوں کی ضرورت ہے۔
محترمہ ان کے جال میں پھنس گئیں، ضیاء الحق کا ساتھ دینے والوں کو بھی پارٹی میں شامل کر لیا گیا۔ وہ 1988ء کا الیکشن واضع اکثریت کے ساتھ نہ جیت سکیں۔ کیا یہی حال آج عمران خان کا نہیں ہورہا؟ کیا عمران خان بھی ایسے لوگوں کے بہکاوے میں تو نہیں آگئے جو پارٹی میں چلے ہوئے کارتوس شامل کررہے ہیں۔
کل محترمہ بینظیر نے عوام کی پروا کیے بغیر مفاد پرستوں کو پارٹی میں شامل کیا ، آج عمران خان عوامی مفادات کے برعکس وہی کام کر رہے ہیں، مشرف اور زرداری کی پارٹیوں سے لوگوں کو لا رہے ہیں۔ کہاں گیا وہ نظریہ؟ کہاں گئی وہ تبدیلی؟ کیا عوام کو ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنا اعتماد کھو چکے ہیں ۔ تحریک انصاف نے علی ترین کو ٹکٹ دے کر کیا موروثی سیاست کو ہوا نہیں دی؟ حالانکہ عمران خان موروثی سیاست کے سب سے بڑے مخالف ہیں، لوگوں کو ان کی یہی باتیں اچھی بھی لگتی ہیں۔
اگر جہانگیر ترین نااہل ہو گیا ہے تو کسی اور ورکر ، کارکن یا اس حلقے کے پی ٹی آئی رہنما کو ٹکٹ دے دیا جاتاتو نتائج مختلف ہونے تھے۔ کیا لوگ صحیح نہیں کہتے کہ عمران خان کو کے پی کے تک محدود کر دیا گیا ہے، اور وہ وہیں کے ہو کر رہیں گے؟
کسی صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ صوبہ ہزارہ بننے کے حوالے سے بات کیوں نہیں کرتے؟ تو موصوف فرمانے لگے کہ ایسا کرنے سے پختون عوام ناراض ہوںگے جن کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتا... کیا یہ قومی سوچ ہے؟ کیا ہندکو ہزارہ والوں کی ناراضی کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اگر کے پی کو مزید صوبوں میں تقسیم نہیں کرنا تو پھر پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کرنے کی باتیں کیوں؟
حقیقت میں عمران خان مصلحت کی سیاست کا شکار ہو رہا ہے جب کہ عوام کو جارحانہ عمران خان پسند ہے ،جو کسی مخصوص صوبے کی کمیونٹی کی ناراضی سے ڈرنے والا نہ ہو بلکہ دبنگ ہو ۔ منوبھائی کی ایک نظم کا ایک شعر پڑھیے اور اجازت دیجیے۔
میٹھے میں مٹھاس نہیں رہی
اور کھٹے میں کھٹاس باقی نہیں