شیریں مزاری کی مدبرانہ تجویز مسترد
بدلتے حالات کے تحت مضبوط، متحرک اور نئی کشمیر پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہ ہوا بلکہ فروری کی 8 تاریخ کو شیریں مزاری صاحبہ نے قومی اسمبلی میں ایک مدبرانہ تجویز پیش کی کہ ہماری حکومت غیر ممالک سے جو بھی معاہدہ کرے اس کا علم قومی اسمبلی کے ارکان کو ہونا چاہیے، تاکہ عوام کے نمایندوں کو اس کا علم ہو کہ مستقبل یا مستقبل قریب میں عوام پر اور ہماری مادر وطن کو کیا کیا مشکلات یا فوائد حاصل ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ملک کی معاشی قوت تو نہایت کمزور ہے اس لیے زیادہ تر معاہدوں کا انتظام تو قرضوں پر ہی ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ قرض لینے کے بعد جو قرضہ اتارا جاتا ہے اس کے لیے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے۔
یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، پھر قومی اسمبلی کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ہم نے جن ممالک سے عالمی نوعیت کے معاہدے کیے ہیں ان میں لین دین کی قوت میں کس درجہ کی برابری ہے یا کمی ہے۔ کس فریق کو کتنا نفع ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں جس کا شور انگریزی اخبارات میں کیا گیا کہ پاکستان نے جو معاہدہ اپنے پڑوسی ملک سے کیا ہے جب کہ ایک طویل گزرگاہ دی ہے، اس کے منافع کی کیا شرح ہے؟
ایسا تو کہیں نہیں کہ ایک فریق کا منافع 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے جب کہ دوسرے کا 10 فیصد بھی نہیں۔ لہٰذا مستقبل بعید میں جب قرض کی ادائیگی کا معاملہ آئے گا تو کس قسم کا بوجھ عوام پر پڑے گا اور کتنا ٹیکس عوام کو دینا ہوگا۔ یہ ہر ایک پاکستانی کو معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام پاکستانیوں کا محض اوڑھنا بچھونا ہی پاکستان میں ہے اور ان کی قبریں بھی یہیں ہوں گی۔ جب کہ حکمرانوں کی بیشتر صورتحال یہ ہے کہ ان کی دولت کے انبار سوئٹزرلینڈ میں اور برطانیہ، امریکا میں ہیں اور ان کے لواحقین کی قومیت بھی انھی ممالک میں ہے۔
اگر صورتحال ان کے خلاف ہوئی تو وہ تو فوراً اپنی نجی دولت کے ہوائی جہازوں میں فرار ہوجائیں گے، اور یہ کیسی قومی اسمبلی ہے جو عوام کے ووٹوں سے حکومت بناتی ہے اور عوام سے ہی معاہدوں کی تفصیل چھپاتی ہے۔ تو ایسی قومی اسمبلی کوئی ایسا معاہدہ بھی کرسکتی ہے جو ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہو۔ لہٰذا محترمہ شیریں مزاری نے عالمی معاہدوں میں اسمبلی کو اعتماد میں لینے کا بل جو اسمبلی میں پیش کیا اس کو اکثریت کی بنیاد پر مسترد کردیا۔
درحقیقت بل کو مسترد کرنا ملکی مفاد میں ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس عمل سے یہ خدشات سامنے آگئے ہیں کہ اکثریت کی بنیاد پر کوئی بھی خفیہ معاہدہ کسی ملک سے افادیت اور نقصان کا موازنہ کیے بغیر کیا جاسکتا ہے جو اس وقت تک پردے میں رہے گا جب تک خدانخواستہ معاشی کمزوری کی بنیاد پر مدمقابل سرکشی پر آمادہ نہ ہوجائے۔
آخر یہ کیسی جمہوریت ہے جو جمہور کے خلاف ہے اور معاہدوں کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے، لہٰذا اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ غیر ملکی ایجنسی ملک دشمن عناصر کو خرید کر سیاسی فصل میں بڑا کرے اور جب اس کا سیاسی قافلے پر کنٹرول ہوجائے تو وزیراعظم کے عہدے تک پہنچا دے۔ اور وہ کسی بھی ملک سے خفیہ معاہدہ کرکے ملک کی سالمیت کے خلاف کسی سازش کا مرتکب ہو جائے۔ اس لیے معاہدوں کو صیغہ راز میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی اچھے حلیف سے کیونکر نہ کیا جائے۔ کیونکہ ہر ملک اپنے مفاد کو ہردل عزیز رکھتا ہے اور اس کی خفیہ ایجنسیاں بڑی چابکدستی سے عالمی محاذ پر کام کرتی ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ کسی اور ملکی پارٹی یا شخصیت نے اس پہلو پر غور نہ کیا جب کہ محترمہ شیریں مزاری نے معاہدوں کی نزاکت پر غور کیا۔ اور ملک کو بیرونی معاہدوں کے کسی بھی شکنجے سے بچاؤ کی تدبیر پر غور کیا۔ یہ اعلیٰ تدبیر ہے۔ مگر ملک کی قسمت کو چند منفعت پسندوں کے لیے خطرات میں ڈال دینا کہاں کی سیاست ہے۔
آج ہم جو امریکا کو سوال اور جواب کی دنیا میں گھسیٹ رہے ہیں، وہ محض اس لیے کہ امریکی امداد کے عوض جو کچھ ہم نے ماضی میں بویا اور اب کاٹ رہے ہیں، خارجہ امور کمیٹی نے تو حد کردی، مسئلے پر بحث اور مباحثہ کے بعد کسی نتیجے پر پہنچ کر پھر فیصلہ کرتے، مگر اس اہم مسئلے کو غیر سنجیدہ انداز اور سیاسی برتری کی بنیاد پر اس بل کو ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا گیا۔ حالانکہ یہ بل کوئی نظریاتی سوچ کا نہ تھا، بلکہ خالص ملکی مفاد میں تھا۔
اگر یہ کہا جائے کہ کسی حد تک یہ بائیں بازو کی سوچ کا ہلکا سا عکس تھا تو ایسے موضوعات پر تو پیپلز پارٹی کو آنا تھا، مگر محترمہ شیریں مزاری نے بڑی ہمت سے کام لیا، کیونکہ کے پی کے، کے قائد عمران خان کا امور خارجہ کا موقف بہت حد تک (ن) لیگ کے قریب ہے، سینیٹ میں مولانا سمیع الحق کی نمایندگی کے خواہاں رہے ہیں، جب کہ یہ آزاد خیال میانہ رو سیاسی موقف کا بل تھا، اور چین، روس، برطانیہ، امریکا اور سعودی سوچ کا بھی مخالف نہ تھا۔ اس بل کو رد کرنے میں (ن) لیگ کی سیاسی سوچ میں آمرانہ انداز نظر آتا ہے کہ محدود سوچ اور صیغہ راز میں ہر چیز کو رکھا جائے۔ جو جمہوری طرز عمل کے خلاف ہے، مگر پھر بھی بعض لوگ (ن) لیگ کو جمہوریت نواز سیاسی گروپ خیال کرتے ہیں۔
اسی نشست میں کشمیر پالیسی پر بھی ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ خارجہ حکمت عملی کے اعتبار سے پاکستان کو کئی سمت سے ہزیمت اٹھانی پڑی ہے کیونکہ کسی عمل میں مدبرانہ طرز عمل نہیں محض وقت گزارنے کے لیے صرف ایجنڈا بنایا جاتا ہے۔ امریکا اور ایران سے ان کے تعلقات کا طرز عمل نمایاں ہے جب کہ ایران سے رفاقت کے لیے پاکستان کے موجودہ کمانڈر انچیف اور سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
جن کے دوروں نے تعلقات کی کشیدگی کو یکسر ختم کردیا۔ جب کہ یہ کام سیاسی اور خود کو جمہوری حکومت کہلانے والی پارٹی کا تھا جس نے یہ کام بھی نہ کیا بلکہ عرب ممالک کی باہمی چپقلش میں حصہ دار کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے اور وزارت خارجہ کا قلم دان سرے سے کابینہ میں ہی نہ تھا۔ حالیہ خارجہ پالیسی کا محکمہ تو نواز شریف کی سبکدوشی کے بعد ہی معرض وجود میں آیا۔ رہ گیا کشمیر کا ایک روایتی قلمدان جو افکار پریشاں کا عکاس رہا ہے۔
بدلتے حالات کے تحت مضبوط، متحرک اور نئی کشمیر پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جو غیر ممالک کے باشندوں اور حکمرانوں کے قلوب کو مسخر کرسکے۔ مگر ایسا فی الحال نظر نہیں آتا کیونکہ اتنی بڑی قومی اسمبلی اب تک یہ نہ سمجھ سکی کہ عوام کے شعور اور سیاسی جانکاری کے لیے غیر ممالک سے کیے گئے معاہدوں کی تفصیل کیوں ضروری ہے۔ بلکہ میرا خیال تو یہ ہے کہ حکومت کو ایک دستاویز شایع کرنے کی ضرورت ہے جس میں تمام ان معاہدوں کی تفصیل موجود ہو جو غیر ممالک سے پاکستان نے کیے تاکہ ایک جمہوری ملک کو جمہوری انداز میں چلانے کے طریقے موجود ہوں، نہ کہ عوام کے دیے گئے مینڈیٹ کو آمرانہ طرز میں استعمال کرنے کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
شیریں مزاری نے ایک ایسی پارٹی کی جانب سے یہ بل پیش کیا جہاں اس قسم کے معاہدوں پر ماضی میں گفتگو کی نظیر نہیں ملتی۔ ایک جمہوری ملک کے عوام کو حکومتی طرز عمل سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں جب کہ عوام کی قوت ملک پر ہمیشہ سایہ فگن رہے گی اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتی رہے گی۔
یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، پھر قومی اسمبلی کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ہم نے جن ممالک سے عالمی نوعیت کے معاہدے کیے ہیں ان میں لین دین کی قوت میں کس درجہ کی برابری ہے یا کمی ہے۔ کس فریق کو کتنا نفع ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں جس کا شور انگریزی اخبارات میں کیا گیا کہ پاکستان نے جو معاہدہ اپنے پڑوسی ملک سے کیا ہے جب کہ ایک طویل گزرگاہ دی ہے، اس کے منافع کی کیا شرح ہے؟
ایسا تو کہیں نہیں کہ ایک فریق کا منافع 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے جب کہ دوسرے کا 10 فیصد بھی نہیں۔ لہٰذا مستقبل بعید میں جب قرض کی ادائیگی کا معاملہ آئے گا تو کس قسم کا بوجھ عوام پر پڑے گا اور کتنا ٹیکس عوام کو دینا ہوگا۔ یہ ہر ایک پاکستانی کو معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام پاکستانیوں کا محض اوڑھنا بچھونا ہی پاکستان میں ہے اور ان کی قبریں بھی یہیں ہوں گی۔ جب کہ حکمرانوں کی بیشتر صورتحال یہ ہے کہ ان کی دولت کے انبار سوئٹزرلینڈ میں اور برطانیہ، امریکا میں ہیں اور ان کے لواحقین کی قومیت بھی انھی ممالک میں ہے۔
اگر صورتحال ان کے خلاف ہوئی تو وہ تو فوراً اپنی نجی دولت کے ہوائی جہازوں میں فرار ہوجائیں گے، اور یہ کیسی قومی اسمبلی ہے جو عوام کے ووٹوں سے حکومت بناتی ہے اور عوام سے ہی معاہدوں کی تفصیل چھپاتی ہے۔ تو ایسی قومی اسمبلی کوئی ایسا معاہدہ بھی کرسکتی ہے جو ملک کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہو۔ لہٰذا محترمہ شیریں مزاری نے عالمی معاہدوں میں اسمبلی کو اعتماد میں لینے کا بل جو اسمبلی میں پیش کیا اس کو اکثریت کی بنیاد پر مسترد کردیا۔
درحقیقت بل کو مسترد کرنا ملکی مفاد میں ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس عمل سے یہ خدشات سامنے آگئے ہیں کہ اکثریت کی بنیاد پر کوئی بھی خفیہ معاہدہ کسی ملک سے افادیت اور نقصان کا موازنہ کیے بغیر کیا جاسکتا ہے جو اس وقت تک پردے میں رہے گا جب تک خدانخواستہ معاشی کمزوری کی بنیاد پر مدمقابل سرکشی پر آمادہ نہ ہوجائے۔
آخر یہ کیسی جمہوریت ہے جو جمہور کے خلاف ہے اور معاہدوں کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے، لہٰذا اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ غیر ملکی ایجنسی ملک دشمن عناصر کو خرید کر سیاسی فصل میں بڑا کرے اور جب اس کا سیاسی قافلے پر کنٹرول ہوجائے تو وزیراعظم کے عہدے تک پہنچا دے۔ اور وہ کسی بھی ملک سے خفیہ معاہدہ کرکے ملک کی سالمیت کے خلاف کسی سازش کا مرتکب ہو جائے۔ اس لیے معاہدوں کو صیغہ راز میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی اچھے حلیف سے کیونکر نہ کیا جائے۔ کیونکہ ہر ملک اپنے مفاد کو ہردل عزیز رکھتا ہے اور اس کی خفیہ ایجنسیاں بڑی چابکدستی سے عالمی محاذ پر کام کرتی ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ کسی اور ملکی پارٹی یا شخصیت نے اس پہلو پر غور نہ کیا جب کہ محترمہ شیریں مزاری نے معاہدوں کی نزاکت پر غور کیا۔ اور ملک کو بیرونی معاہدوں کے کسی بھی شکنجے سے بچاؤ کی تدبیر پر غور کیا۔ یہ اعلیٰ تدبیر ہے۔ مگر ملک کی قسمت کو چند منفعت پسندوں کے لیے خطرات میں ڈال دینا کہاں کی سیاست ہے۔
آج ہم جو امریکا کو سوال اور جواب کی دنیا میں گھسیٹ رہے ہیں، وہ محض اس لیے کہ امریکی امداد کے عوض جو کچھ ہم نے ماضی میں بویا اور اب کاٹ رہے ہیں، خارجہ امور کمیٹی نے تو حد کردی، مسئلے پر بحث اور مباحثہ کے بعد کسی نتیجے پر پہنچ کر پھر فیصلہ کرتے، مگر اس اہم مسئلے کو غیر سنجیدہ انداز اور سیاسی برتری کی بنیاد پر اس بل کو ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا گیا۔ حالانکہ یہ بل کوئی نظریاتی سوچ کا نہ تھا، بلکہ خالص ملکی مفاد میں تھا۔
اگر یہ کہا جائے کہ کسی حد تک یہ بائیں بازو کی سوچ کا ہلکا سا عکس تھا تو ایسے موضوعات پر تو پیپلز پارٹی کو آنا تھا، مگر محترمہ شیریں مزاری نے بڑی ہمت سے کام لیا، کیونکہ کے پی کے، کے قائد عمران خان کا امور خارجہ کا موقف بہت حد تک (ن) لیگ کے قریب ہے، سینیٹ میں مولانا سمیع الحق کی نمایندگی کے خواہاں رہے ہیں، جب کہ یہ آزاد خیال میانہ رو سیاسی موقف کا بل تھا، اور چین، روس، برطانیہ، امریکا اور سعودی سوچ کا بھی مخالف نہ تھا۔ اس بل کو رد کرنے میں (ن) لیگ کی سیاسی سوچ میں آمرانہ انداز نظر آتا ہے کہ محدود سوچ اور صیغہ راز میں ہر چیز کو رکھا جائے۔ جو جمہوری طرز عمل کے خلاف ہے، مگر پھر بھی بعض لوگ (ن) لیگ کو جمہوریت نواز سیاسی گروپ خیال کرتے ہیں۔
اسی نشست میں کشمیر پالیسی پر بھی ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ خارجہ حکمت عملی کے اعتبار سے پاکستان کو کئی سمت سے ہزیمت اٹھانی پڑی ہے کیونکہ کسی عمل میں مدبرانہ طرز عمل نہیں محض وقت گزارنے کے لیے صرف ایجنڈا بنایا جاتا ہے۔ امریکا اور ایران سے ان کے تعلقات کا طرز عمل نمایاں ہے جب کہ ایران سے رفاقت کے لیے پاکستان کے موجودہ کمانڈر انچیف اور سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
جن کے دوروں نے تعلقات کی کشیدگی کو یکسر ختم کردیا۔ جب کہ یہ کام سیاسی اور خود کو جمہوری حکومت کہلانے والی پارٹی کا تھا جس نے یہ کام بھی نہ کیا بلکہ عرب ممالک کی باہمی چپقلش میں حصہ دار کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے اور وزارت خارجہ کا قلم دان سرے سے کابینہ میں ہی نہ تھا۔ حالیہ خارجہ پالیسی کا محکمہ تو نواز شریف کی سبکدوشی کے بعد ہی معرض وجود میں آیا۔ رہ گیا کشمیر کا ایک روایتی قلمدان جو افکار پریشاں کا عکاس رہا ہے۔
بدلتے حالات کے تحت مضبوط، متحرک اور نئی کشمیر پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جو غیر ممالک کے باشندوں اور حکمرانوں کے قلوب کو مسخر کرسکے۔ مگر ایسا فی الحال نظر نہیں آتا کیونکہ اتنی بڑی قومی اسمبلی اب تک یہ نہ سمجھ سکی کہ عوام کے شعور اور سیاسی جانکاری کے لیے غیر ممالک سے کیے گئے معاہدوں کی تفصیل کیوں ضروری ہے۔ بلکہ میرا خیال تو یہ ہے کہ حکومت کو ایک دستاویز شایع کرنے کی ضرورت ہے جس میں تمام ان معاہدوں کی تفصیل موجود ہو جو غیر ممالک سے پاکستان نے کیے تاکہ ایک جمہوری ملک کو جمہوری انداز میں چلانے کے طریقے موجود ہوں، نہ کہ عوام کے دیے گئے مینڈیٹ کو آمرانہ طرز میں استعمال کرنے کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
شیریں مزاری نے ایک ایسی پارٹی کی جانب سے یہ بل پیش کیا جہاں اس قسم کے معاہدوں پر ماضی میں گفتگو کی نظیر نہیں ملتی۔ ایک جمہوری ملک کے عوام کو حکومتی طرز عمل سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں جب کہ عوام کی قوت ملک پر ہمیشہ سایہ فگن رہے گی اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتی رہے گی۔