کیا ملک انارکی کی طرف جا رہا ہے

مڈل کلاس کی قیادت اور اشرافیائی قیادت کے درمیان بظاہر تو اختلافات سیاسی نظر آتے ہیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

آج کل پاکستان ایک شدید خطرناک بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ اس بحران کی بنیاد سیاسی اختلافات ہیں جو اختلاف سے بڑھ کر اب قبائلی دشمنیوں میں پھیل گئے ہیں، بلاشبہ پاکستان اس قسم کے بحرانوں سے ماضی میں گزرتا رہا ہے لیکن جاری بحران کی خطرناکی کی وجہ یہ ہے کہ اس بحران میں عدلیہ کو بھی دانستہ ملوث کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بلکہ خطرناک حد تک عدلیہ کو ملوث کر دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے سب سے پہلے اس کی ابتدا اور وجوہات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی محاذ پر شدید کشمکش اس وقت سے پیدا ہوئی جب 70 سالہ ''اسٹیٹس کو'' کو خطرہ محسوس کیا گیا۔ اس بدقسمت ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ جمہوریت کے نام پر خاندانی اور طبقاتی حکمرانیوں کا رواج رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظام مضبوط ہوتا رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جمہوریت کے نام لیوا نہ صرف خاندانی حکمرانیوں کو مستحکم کر رہے ہیں بلکہ کھلے عام اس طرح ولی عہدوں، شہزادوں اور شہزادیوں کی پرورش کر رہے ہیں۔

اس نظام کے سرپرستوں کے کان اس وقت کھڑے ہوئے جب مڈل کلاس کی قیادت پورے زور وشور اور طاقت سے روایتی خاندانی اشرافیائی نظام کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔ اگرچہ یہ قیادت نہ نظریاتی ہے نہ میچور لیکن 70 سال سے پاکستان پر مسلط خاندانی نظام اور اس کی لعنتوں سے تنگ آئے ہوئے عوام نے جب دیکھا کہ مڈل کلاس کا ایک دبنگ سیاستدان 70 سالہ اشرافیہ کو کھلے عام چیلنج کر رہا ہے تو ان کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہو گئیں اور اس کے جلسوں میں اپنی مرضی اور خوشی سے لاکھوں لوگ شریک ہونے لگے، اس صورتحال سے اشرافیہ کا خطرہ محسوس کرنا فطری تھا۔

اس لڑائی میں ایک معنی خیز موڑ اس وقت آیا جب پاناما لیکس منظر عام پر آیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ دنیا کے مختلف ملکوں کا حکمران طبقہ جس میں پاکستان کا حکمران طبقہ بھی شامل ہے کرپشن میں ملوث پایا گیا۔ پاناما لیکس صحافیوں کے ایک اتحاد کا کارنامہ ہے جو برسوں کی مسلسل کوششوں کے بعد دنیا کے حکمرانوں کی اربوں کھربوں کی کرپشن منظر عام پر لے آیا اور یہ کرپشن اس قدر مصدقہ ہے کہ اس کے خلاف کوئی حکمران حرف شکایت زبان پر نہ لاسکا۔ اور کئی حکمران اس الزام کے بعد اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر گھروں کو چلے گئے لیکن پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جس کے حکمرانوں نے پاناما کے انکشافات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

پاناما لیکس پاکستان کے مڈل کلاسز کے ہاتھوں میں ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر آگیا اور اس حوالے سے اشرافیہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے میڈیا نے پاناما لیکس کی جزویات کو اس طرح عوام تک پہنچایا کہ عوام پاناما لیکس کے ملوثوں سے سخت بدظن ہوگئے اور پاناما کے حوالے سے بدنام ہونے والی اشرافیہ کے سخت خلاف ہوگئے چونکہ ایک پارٹی نے پاناما کے اسکینڈل کو شدت سے اٹھایا تو فطری طور پر اشرافیہ کا ناراض ہونا اور عوام کا مڈل کلاس کی حمایت کرنا ضروری ہوگیا۔

مڈل کلاس کی قیادت اور اشرافیائی قیادت کے درمیان بظاہر تو اختلافات سیاسی نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اختلافات موروثی حکمرانیوں اور مڈل کلاس کی قیادت کے درمیان کم اور اسٹیٹس کو کو لاحق خطرات کے خلاف زیادہ ہیں، بلکہ یہ لڑائی بنیادی طور پر اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے اور اسٹیٹس کو کو توڑنے کی لڑائی ہے۔ چونکہ عوام 70 سالہ اسٹیٹس کو سے نفرت کی حد تک بیزار ہیں اس لیے ان کی ہمدردیاں اسٹیٹس کو کے مخالفین کے ساتھ ہی ہوں گی۔


اس لڑائی کو روایت کے مطابق جمہوریت کے خلاف لڑائی کا نام دے کر اس کا کلر تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ یہ لڑائی اور محاذ آرائی کرپشن اور اسٹیٹس کو کے خلاف لڑائی ہے۔ اگر دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاناما لیکس کے ملزم اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جاتے تو پاکستان میں اہل سیاست کی توجہ شاید اسٹیٹس کو کو توڑنے کی طرف نہ جاتی۔

اس حوالے سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں بھاری کرپشن کا ارتکاب صرف اشرافیہ ہی کرتی ہے خواہ اس کا تعلق حکمران طبقات سے ہو یا اپوزیشن سے کیونکہ اشرافیہ ہی کو وہ اعلیٰ سطح کرپشن کے مواقعے حاصل ہوتے ہیں جب کہ غریب اور مڈل کلاس ان مواقع سے بالکل محروم ہوتی ہے۔ لیکن مڈل اور اپر مڈل کلاس کا وہ حصہ جو حکمرانوں کا کاسہ لیس ہوتا ہے وہ بھی بھاری کرپشن سے اپنے ہاتھ رنگ لیتا ہے۔ پاکستان میں حکمران طبقات کے علاوہ پاناما لیکس کی فہرست میں تقریباً 435 افراد کے نام ہیں یقینی طور پر ان کا تعلق اشرافیہ سے ہوگا یا اس کے دلال طبقے سے ہوگا۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی دو بار وزیر اعظم رہنے والی خالدہ ضیا کو اعلیٰ سطح پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے مقابلے میں معمولی کرپشن کے حوالے سے پانچ سال کی سزا دی گئی اور انھیں جیل بھجوایا گیا۔ پاکستان کی حکمران مخالف جماعتوں کے لیے خالدہ ضیا کی سزا ایک سنہری موقعہ اور تازہ مثال بن گئی ہے۔ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کے ملزموں کے لیے بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم کی پانچ سالہ سزا ایک مضبوط حوالہ بن جائے گی۔

ہم نے ابتدا میں حالیہ بحران کے جس خطرناک پہلو کا ذکر کیا تھا وہ عدلیہ کے خلاف سخت تنقید ہے۔ جو لوگ کرپشن وغیرہ کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں وہ اعلیٰ عدلیہ اور اس کے محترم ججوں کے خلاف اس قدر سخت زبان استعمال کر رہے ہیں کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ایسی زبان استعمال نہیں کی گئی۔ عدلیہ اور ججوں کے خلاف جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کو دہرانا بھی شدید بداخلاقی سمجھا جائے گا۔

اس حوالے سے ایک خطرناک بلکہ خطرناک ترین رجحان یہ نظر آ رہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو عوام کے ہجوم کی طرف سے مسترد کیا جا رہا ہے اور یہ موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ عوام نے جس کو منتخب کیا ہے اسے عدلیہ نااہل قرار نہیں دے سکتی۔

اس حوالے سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ انتخابات میں مشکل سے 40-35 فیصد عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں، اس حق رائے دہی استعمال کرنے والوں پر بھی دھاندلی کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے سے بڑے جلسے میں بھی تین چار لاکھ سے زیادہ عوام نہیں ہوتے۔ اس حقیقت کی روشنی میں یہ کہنا کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو ملک کے اکیس کروڑ عوام نے مسترد کر دیا ہے، کیا حقیقت پسندی ہے؟

ان حقائق سے قطع نظر اگر یہ رجحان مضبوط ہوا یا اسے قبول کرلیا گیا تو پھر عدلیہ کی حیثیت کیا رہ جائے گی اور ہر سیاستدان لاکھ دو لاکھ کا ہجوم جمع کرکے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو مسترد کرتا رہا تو عدلیہ کا وجود اور اس کی حیثیت اور افادیت کا کیا ہوگا۔ کیا اس صورتحال کے نتیجے میں ملک سخت انارکی کی نظر نہیں ہوجائے گا؟ اس صورتحال کی سنگینی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story