آدابِ دعا
اللہ تعالیٰ ہمیں ان آداب کے ساتھ ہر حال میں دعا مانگنے والا بنائے اور ہماری دعاؤں کو قبول بھی فرمائے۔ آمین
اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کے چند ایسے آداب ذکر کیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے دعا جلد قبول ہوتی ہے۔
پہلا ادب :
جن مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جاتی ہے، وہاں کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔ '' حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھائے اور دعا کے وقت انتہائی عاجزی یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو پھیلائے۔''
(سنن ابی داؤد، باب الدعا ، حدیث نمبر 1491)
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی چاہیے۔ جیسے نمازوں کے بعد، میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد، دینی مجالس کے اختتام پر، حوادثات سے حفاظت کے لیے، خیر و برکت کے لیے، اپنی حاجات کو مانگنے کے لیے دن رات کے کسی بھی حصے میں وغیرہ۔ چناں چہ احادیث مبارکہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بھی ثبوت موجود ہے۔ جب کہ بعض مقامات ایسے ہیں جہاں پر ہاتھ اٹھائے بغیر دعا مانگی جاتی ہے، جیسے نیند سے بیدار ہوتے وقت، بیت الخلاء جاتے وقت، وہاں سے نکلتے وقت، وضو شروع کرتے اور ختم کر تے وقت، اذان سن لینے کے بعد، گھر سے نکلتے وقت، گھر میں داخل ہوتے وقت، مسجد میں داخل ہوتے وقت، مسجد سے باہر نکلتے وقت، بازار میں داخل ہوتے وقت، کھانا کھاتے وقت، دودھ پیتے وقت، میاں بیوی کے ملاپ کے وقت، رات کو سوتے وقت وغیرہ۔
غفلت و بے پرواہی:
عموماً لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ دعا مانگتے وقت ہاتھ ایسے اٹھاتے ہیں جیسے کوئی رسم پوری کر رہے ہوں، ان کے عمل سے عاجزی کا اظہار، طلب کا شوق اور ضرورت کا احساس محسوس نہیں ہوتا۔ بعض لوگ دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھے ہوتے ہیں۔ بعض دعا مانگتے وقت انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کر کے چٹخا رہے ہوتے ہیں۔ بعض ہاتھوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ دعا کے دوران کبھی ہاتھ بند کر لیتے ہیں اور کسی وقت کھول لیتے ہیں۔ یہ سب جہالت اور سستی کی وجہ سے ہوتا ہے، جسے دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری دعائیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جلد قبول ہو سکیں۔
دوسرا ادب : دعا کی ابتداء اللہ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک بھیج کر کرنا۔ حدیث پاک میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم دعا مانگنے لگو تو اس کی ابتدا اللہ کی حمد و ثناء سے کرو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اس کے بعد جو چاہو مانگو۔'' (جامع الترمذی، باب ما جاء فی جامع الدعوات، حدیث نمبر 3399)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بالکل پکی بات ہے کہ دعا آسمان و زمین کے درمیان ہی رہتی ہے اس وقت تک قبولیت کے لیے اوپر نہیں جاتی جب تک آپ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجیں۔ (جامع الترمذی باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث نمبر448)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی موجودی میں نماز ادا کی، (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) جب میں دعا مانگنے کے لیے بیٹھ گیا تو میں نے پہلے اللہ کی تعریف بیان کی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا اور اپنی ذات کے لیے دعا مانگی۔ (یہ حسن ترتیب دیکھ کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (خوش ہوکر) فرمایا: مانگو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عطا کیا جائے گا، مانگو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دیا جائے گا۔
(جامع الترمذی، باب ما ذکر فی الثناء علی اللہ والصلاۃ علی النبی قبل الدعاء)
تیسرا ادب : اختتام دعا پر آمین کہنا۔ حدیث پاک میں ہے: حضرت ابوزہیر نْمَیری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ چلے تو ہمارا گزر ایک ایسے آدمی کے قریب سے ہوا جو نہایت الحاح و زاری (رو رو کر ) سے دعا مانگ رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور اس کی دعا کو سنتے رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہمیں مخاطب کر کے ) فرمایا: اگر اس نے دعا کا اختتام صحیح کیا تو اپنے حق میں وہ چیز واجب کرالی جو اس نے دعا میں مانگی ہے۔ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کی مزید وضاحت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آمین کے ساتھ۔ اگر اس نے آمین کے ساتھ دعا ختم کی تو اس نے اپنے حق میں وہ چیز واجب کرالی جو اس نے دعا میں مانگی ہے۔ (سنن ابی داؤد ، باب التامین وراء الامام ، حدیث نمبر 939)
چوتھا ادب: دعا کے اختتام پر چہرے پر ہاتھ پھیرنا۔ حدیث پاک میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتے تو نیچے کرنے سے پہلے انہیں اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔
(مستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر1967 )
اللہ تعالیٰ ہمیں ان آداب کے ساتھ ہر حال میں دعا مانگنے والا بنائے اور ہماری دعاؤں کو قبول بھی فرمائے۔ آمین
پہلا ادب :
جن مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جاتی ہے، وہاں کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔ '' حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھائے اور دعا کے وقت انتہائی عاجزی یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو پھیلائے۔''
(سنن ابی داؤد، باب الدعا ، حدیث نمبر 1491)
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی چاہیے۔ جیسے نمازوں کے بعد، میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد، دینی مجالس کے اختتام پر، حوادثات سے حفاظت کے لیے، خیر و برکت کے لیے، اپنی حاجات کو مانگنے کے لیے دن رات کے کسی بھی حصے میں وغیرہ۔ چناں چہ احادیث مبارکہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بھی ثبوت موجود ہے۔ جب کہ بعض مقامات ایسے ہیں جہاں پر ہاتھ اٹھائے بغیر دعا مانگی جاتی ہے، جیسے نیند سے بیدار ہوتے وقت، بیت الخلاء جاتے وقت، وہاں سے نکلتے وقت، وضو شروع کرتے اور ختم کر تے وقت، اذان سن لینے کے بعد، گھر سے نکلتے وقت، گھر میں داخل ہوتے وقت، مسجد میں داخل ہوتے وقت، مسجد سے باہر نکلتے وقت، بازار میں داخل ہوتے وقت، کھانا کھاتے وقت، دودھ پیتے وقت، میاں بیوی کے ملاپ کے وقت، رات کو سوتے وقت وغیرہ۔
غفلت و بے پرواہی:
عموماً لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ دعا مانگتے وقت ہاتھ ایسے اٹھاتے ہیں جیسے کوئی رسم پوری کر رہے ہوں، ان کے عمل سے عاجزی کا اظہار، طلب کا شوق اور ضرورت کا احساس محسوس نہیں ہوتا۔ بعض لوگ دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھے ہوتے ہیں۔ بعض دعا مانگتے وقت انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کر کے چٹخا رہے ہوتے ہیں۔ بعض ہاتھوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ دعا کے دوران کبھی ہاتھ بند کر لیتے ہیں اور کسی وقت کھول لیتے ہیں۔ یہ سب جہالت اور سستی کی وجہ سے ہوتا ہے، جسے دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری دعائیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جلد قبول ہو سکیں۔
دوسرا ادب : دعا کی ابتداء اللہ کی حمد و ثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک بھیج کر کرنا۔ حدیث پاک میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم دعا مانگنے لگو تو اس کی ابتدا اللہ کی حمد و ثناء سے کرو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اس کے بعد جو چاہو مانگو۔'' (جامع الترمذی، باب ما جاء فی جامع الدعوات، حدیث نمبر 3399)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بالکل پکی بات ہے کہ دعا آسمان و زمین کے درمیان ہی رہتی ہے اس وقت تک قبولیت کے لیے اوپر نہیں جاتی جب تک آپ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجیں۔ (جامع الترمذی باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث نمبر448)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی موجودی میں نماز ادا کی، (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) جب میں دعا مانگنے کے لیے بیٹھ گیا تو میں نے پہلے اللہ کی تعریف بیان کی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا اور اپنی ذات کے لیے دعا مانگی۔ (یہ حسن ترتیب دیکھ کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (خوش ہوکر) فرمایا: مانگو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عطا کیا جائے گا، مانگو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دیا جائے گا۔
(جامع الترمذی، باب ما ذکر فی الثناء علی اللہ والصلاۃ علی النبی قبل الدعاء)
تیسرا ادب : اختتام دعا پر آمین کہنا۔ حدیث پاک میں ہے: حضرت ابوزہیر نْمَیری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ چلے تو ہمارا گزر ایک ایسے آدمی کے قریب سے ہوا جو نہایت الحاح و زاری (رو رو کر ) سے دعا مانگ رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور اس کی دعا کو سنتے رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہمیں مخاطب کر کے ) فرمایا: اگر اس نے دعا کا اختتام صحیح کیا تو اپنے حق میں وہ چیز واجب کرالی جو اس نے دعا میں مانگی ہے۔ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کی مزید وضاحت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آمین کے ساتھ۔ اگر اس نے آمین کے ساتھ دعا ختم کی تو اس نے اپنے حق میں وہ چیز واجب کرالی جو اس نے دعا میں مانگی ہے۔ (سنن ابی داؤد ، باب التامین وراء الامام ، حدیث نمبر 939)
چوتھا ادب: دعا کے اختتام پر چہرے پر ہاتھ پھیرنا۔ حدیث پاک میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتے تو نیچے کرنے سے پہلے انہیں اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔
(مستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر1967 )
اللہ تعالیٰ ہمیں ان آداب کے ساتھ ہر حال میں دعا مانگنے والا بنائے اور ہماری دعاؤں کو قبول بھی فرمائے۔ آمین