قانونی گرفت یا غنڈہ گردی

یہ کیسا ملک ہے جہاں ریاستی ملازم خود کو مالک سمجھتے ہیں اور عوام کو غلام، کسی قانون کی کوئی گرفت نہیں۔

یہاں شہریوں کی حفاظت اور جرائم کے روک تھام کےلیے تعینات سرکاری ملازمین بھی غنڈہ گردی کرتے ہیں۔ فوٹو: انٹڑنیٹ

دنیا بھر میں 'غنڈہ گردی' کوایک بڑی بدعنوانی اور جرم تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا جرم کرنے والوں کو 'غنڈہ گرد' کہا جاتا ہے۔ یہ مجرم اپنے مفادات کےلیے سرعام مار پیٹ کرتے ہیں۔ لوگ ان کے ناموں سے تھر تھر کانپتے ہیں۔ روپے پیسے کے عوض خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ بلکہ بہت سے قانون دان، سیاستدان اور قانون پر عملدرآمد کروانے والے خود ان کے محافظ ہوتے ہیں۔

کسی بھی ملک کے اندرونی انتشار اور قتل وغارت میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پولیس اور دوسرے سیکیورٹی ادارے ان ہی کا مقابلہ اور قلع قمع کرنے کےلیے بنائے جاتے ہیں۔ جدید نظریئے اور نئے واقعات کے پیش نظر غنڈہ گردوں میں صرف سول غنڈہ گرد ہی نہیں بلکہ سیاسی، قانونی اور قوانین پر عملدرآمد کروانے والے غنڈے بھی موجود ہیں۔ مختلف ترقی پذیر ممالک میں ان کی یہ ساری اقسام پائی جاتی ہیں۔

پاکستان بھی ایسے ممالک میں سے ایک ہے جہاں قانون پر عملدرآمد کروانے والے ادارے، لوگوں کو پرسکون ماحول فراہم کرنے اور جرائم کی روک تھام کےلیے تعینات سرکاری ملازمین بھی غنڈہ گردی کرتے ہیں۔ یہی سیاسی لوگوں اور دہشت گردوں کو محفوظ ماحول و راستہ فراہم کرنے کےلیے قانونی گرفت کو پس پست ڈال کر ظلم و جبر کی گرفت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ دن دہاڑے قانونی گرفت کی آڑ میں جعلی مقابلوں میں عام اور معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ قانونی گرفت کی آڑ میں کھیلی جانے والی غنڈہ گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تھانوں کچہریوں میں بھی لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

نئے سال کا آغاز پاکستان کےلیے انتہائی اذیت ناک رہا۔ نئی نوید کی بجائے پرانے جرائم اور مجرم کھل کر سامنے آنے لگے۔ گڈ گورننس کے نعرے لگانے والی حکومتیں اور ادارے، ان کی قانونی و ریاستی معاملات پر گرفت، سب عیاں ہوگئے۔ سال نو کے ابتدائی ہفتے میں افراتفری، بے بسی، لاقانونیت، بدعنوانی اور جبر، سب سامنے آگئے۔ ہمیشہ کی طرح امن و امان کو شکست دے کر جرائم نے غلبہ حاصل کیا۔ قانون و قوانین کی تو دھجیاں اڑتی نظر آئیں۔ ساتھ ہی بد عنوانیوں کی لہروں کی راہ میں نہ کوئی قانون غالب آیا نہ ہی کوئی قانونی ادارہ نہ ہی کوئی پارلیمنٹ؛ اور نہ ہی کوئی جمہوریت۔ سب کی گورننس عیاں ہو گئی۔

گزشتہ کچھ واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ وقت ضرور بدلتا ہے مگر ظالم و مظلوم ہمیشہ ویسے ہی رہتے ہیں۔ ظالم آج بھی بھیانک و جابر ہے۔ مظلوم آج بھی معصوم و لاچار ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہمارے منتخب نام نہاد جمہوری نمائندوں نے انسانیت کی اُڑتی دھجیوں پر مذمت ضرور کی مگراس نظام کو بدلنے کےلیے برسوں سے کچھ نہیں کیا۔ ایسا بدتر نظام جہاں قانون اور قانونی گرفت کی بجائے جاگیرداروں، نمبرداروں اور امراء کے اصول و احکام اور ان ہی کی گرفت ہے۔

جمہوریت کے دعویدار، سیاست و جمہوریت نام کی دکانداری کرتے ہیں۔ باری باری اسے چمکاتے ہیں۔ یوں صدیوں سے ان کے مفادات کا بازار گرم ہے۔ یاد رکھئے: ''جب تک مفادات کا بیوپار گرم ہے، تب تک ملک و ملکی خودمختاری کا ہی سودا ہوگا۔'' ایسے میں ملک افراتفری کا شکار ہوگا جو ملک کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کردے گی۔ گزشتہ چند روز سے قانون و معاشرے، یہاں تک کہ انسانیت کی جو دھجیاں اڑ رہی ہیں انہیں شاید سمیٹنا مشکل ہوجائے۔

زینب قتل کیس، اسماء قتل کیس اور ایسے ہی دیگر کئی جنسی درندگیوں کے اذیت ناک کیسز، ہمارے معاشرے اور انسانیت کے خاتمے کی علامت ہیں۔ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں انسان نما حیوان آباد ہیں۔ ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جو صرف حیوان ہی کرسکتے تھے۔ مگر ہمارے باسیوں نے انہیں انجام دے کر حیوانوں کی ایک نئی قسم متعارف کروائی ہے جو دیکھنے میں تو انسانوں کی سی شکل و شباہت رکھتی ہے مگر حقیقت میں حیوان ہے۔


کیونکہ انہیں نہ کسی رشتے کی پہچان ہے، نہ ہی کسی رشتے دار کی، اورنہ ہی کسی خون کی۔ یہ حیوان ہیں اور قانون سے بالاتر ہیں۔

ہر شخص خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے کرتا ہے۔ اچھے برے کی کوئی تمیز نہیں۔ نہ کوئی قانون نظر آتا ہے، نہ ہی کوئی قانون دان اور نہ ہی کوئی قانون پر عملدرآمد کروانے والا۔ کسی قسم کی قانونی و ریاستی گرفت نہیں رہی۔ سب اپنی ہی پالیسیوں پر گامزن ہیں۔ قانون بنانے والے یعنی منتخب نمائندے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔ قانون کو صرف اپنے مفادات کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ذاتی مفادات کی بنا پر پارلیمنٹ پر لعنت بھی بھیجتے ہیں۔ جس پارلیمنٹ میں بیٹھنے کےلیے کروڑوں روپے خرچ کر کے منتخب ہوتے ہیں۔ عدلیہ و قانونی اداروں پر جملے کستے ہیں۔ پھر اس پر ہی مفادات کے سائے تلے لعنت بھیجتے ہیں۔ خود ہی عدلیہ کو بحال کرواتے ہیں۔ اپنے برعکس فیصلہ آنے پر خود ہی عدلیہ کو جھوٹے و مکار جیسے لقب سے نوازتے ہیں۔

قانون دان یعنی وکلاء قانون کی دھجیاں اڑانے سے باز نہیں آتے۔ بلکہ ہر غیر قانونی کام میں سرفہرست ہوتے ہیں۔ پاکستان کے دفاعی ادارے آرمی کو اپنے مفادات کےلیے استعمال کرنے والے جرنیل بھی قانون کو ماننے کی بجائے اپنی من مانی کرتے ہیں۔ پولیس والے خود کو غنڈے سمجھتے ہیں۔ قانون پر عمل کروانے کی بجائے قانون کو پامال کرتے ہوئے جعلی مقابلے کرتے ہیں۔ گزشتہ چند روز سے کراچی کے امن و امان کی صورتحال کھل کر سامنے آگئی ہے۔ پہلے تو بغیر وردی یعنی سول غنڈے، بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز موجود تھے۔ مگر اب کی بار تو سرکاری غنڈے بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔

گزشتہ چند دنوں میں متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں سندھ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی طرف سے متعدد معصوموں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ نقیب ہو یا مقصود، یا کوئی اور، تمام واقعات ہمارے اداروں کے منہ پر طمانچے ہیں۔ وہی ادارے جو عوام کی بہبود و فلاح کےلیے بنائے گئے۔ وہی عوام پر قابض بن بیٹھے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

یہ کیسا ملک ہے جہاں ریاستی ملازم خود کو مالک سمجھتے ہیں اور عوام کو غلام۔ کسی قانون کی کوئی گرفت نہیں۔ گرفت ہے تو غنڈہ گردوں کی، گرفت ہے تو سیاستدانوں، جاگیرداروں، بزنس ٹائیکونز، امراء اور بڑے افسروں کی۔ یہ سب قانون سے بالاتر ہیں۔ ان کےلیے کوئی قانون نہیں اور نہ ہی کوئی قانونی پاسداری۔ یہ سب قانونی گرفت کی آڑ میں غنڈہ گردی کے کھیل رچاتے ہیں۔ عام معصوم لوگوں کو جعلی مقابلوں میں مارنا ان کا معمول ہے۔ ایسا برسوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ ایسا تب تک ہوتا رہے گا جب تک قانون کے رکھوالے بھی قانون کی پاسداری نہیں کرتے۔ قانونی گرفت کی آڑ میں اذیت ناک جعلی پولیس مقابلوں کے کھیل کو ترک نہیں کرتے۔

اگر عوام کے جان ومال کا تحفظ ہی نہیں، تو پھر کیا فائدہ آزاد ریاست کا؟ قائد کے بنائے ملک کو انصاف و قانون کی راہ پر چلانا ہے۔ نہ کہ قانون کی آڑ میں چھپے مفادات کے متلاشیوں کی راہ میں جو دشمن کے ایجنڈے کو فروغ دیں اور دشمن کو فائدہ پہنچائیں۔

میں چیف جسٹس کا شکر گزار ہوں کہ وہ ایسے واقعات پر از خود نوٹس لے رہے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ حکومت اور دوسرے ادارے بھی اپنے ہونے کا ثبوت دیں گے۔ اپنے کام کو قانون و آئین کے مطابق سرانجام دیں گے۔ جب تمام ادارے اپنے اختیارات کا درست استعمال کریں گے تو انتشار و افراتفری کو شکست کا سامنا ہوگا۔ پھر جلد ہی پاکستان اپنے اندرونی معاملات کو نمٹا لے گا، ان شاء اللہ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story