دھان پان سی عورت
بہت کم لوگ جانتے ہیں بلکہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ عاصمہ جہانگیرہندوستان،اقوام متحدہ کے نمائندے کی حیثیت سے گئیں۔
کسی بھی انسان کے سماجی قدکاٹھ کااندازہ اس اصول سے لگایاجاسکتاہے کہ معاشرے میں اس کے دوست کتنے ہیں اوردشمن کتنے۔اگرصرف دوست ہوں،توتاریخی تناظرمیں اس کی اہمیت حددرجہ کم ہوجاتی ہے۔مگردشمنی ایک ایسامنفی جوہرہے جوحقیقت میں انسان کی شخصیت پرمستحکم روشنی ڈالتاہے۔عاصمہ جہانگیردشمنی اوردوستی،دونوں کے زاویہ سے پاکستان کاایک دیومالائی کردارتھا۔
اسلام آبادجارہاتھا۔ایک دوست کافون آیا۔عاصمہ جہانگیرفوت ہوچکی ہیں۔ذہن کوایک دھچکاسالگا۔بالکل یقین نہ آیا۔چنددیگراحباب سے دریافت کیاتوپتہ چلاکہ یہ توٹی وی پرآچکاہے۔گاڑی روک کرباہرآگیا۔اجنبی سے بیابان میں آسمان کی طرف دیکھتارہاکہ مالک تیراحکم دائم ہے۔تیرے ہی پاس واپس لوٹناہے۔مگرکمال کی دلیرعورت چندبرس مزیددنیامیں گزارلیتی توکیابگڑجاتا۔کافی دیرتک طبیعت میں توازن نہ رہا۔
اسلام آبادپہنچ کرسوشل میڈیا پر نظرڈالی توحددرجہ نوحہ گری ہورہی تھی اوراسی طریق سے مرحومہ کی مخالفت بھی۔اس لفظی بحث میں قطعاًحصہ نہیں لیا۔صرف اس لیے کہ بذات خودعاصمہ بی بی کوجانتاتھا، نہ بہت زیادہ اورنہ ہی بہت کم۔اپنے خیالات پرہمت سے قائم رہنے والی واحدشخصیت۔وگرنہ یہاں،توحکومتی استبداد کے سامنے فولادی لوگ بھی پگھل کرموم ہوجاتے ہیں۔ کچھ خریدلیے جاتے ہیں۔مگرعاصمہ ایک منفرد انسان تھی۔ اپنی طرح کی اکیلی عورت۔
دوسرے دوست کافون آیا۔کراچی اورلاہورمیں کاروبارکرتے ہیں۔سیاست سے بہت دور۔طبیعت میں بہاولپورکی ملائمت۔بتایاانتقال کی خبرسن کر اکیلا روتا رہا۔ کیوں،صرف اس لیے کہ جولوگ زمین سے اُٹھ رہے ہیں، ان کے بعدان کی جگہ لینے والاکوئی بھی نہیں ہے۔قیمتی لوگوں کے بعدپتھرکے صحراہیں اور ہوکا اندھیرا ہے۔
فون سن کرسوچنے لگا توآنکھیں نم ہوگئیں۔ بات حددرجہ درست تھی اورموقعہ کے مطابق بھی۔ خاتون، ہمارے جیسے غلامانہ فکرکے ملک میں آزاد آواز تھی۔ نمازِجنازہ میں شامل نہ ہوسکاکیونکہ اسلام آباد میں تھا۔ٹی وی پردیکھاتومعلوم ہواکہ جنازہ سید حیدر فاروق مودودی نے پڑھایاہے۔شاہ جی بھی عجیب مردِ درویش ہیں۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عاصمہ کی والدہ کاجنازہ بھی حیدرفاروق مودودی نے پڑھایا تھا۔
عاصمہ کے بیٹے اوردونوں بیٹیوں کے نکاح بھی شاہ جی نے ہی پڑھائے۔ خیرچند بے خبرلوگوں نے اسے بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ عاصمہ جیلانی کانکاح کس نے پڑھایاتھا۔جناب سید ابواعلیٰ مودودی صاحب یعنی فاروق حیدرکے والدگرامی نے۔چندلوگوں نے یہاں تک اعتراض کیاکہ نمازِ جنازہ میں خواتین نے کیوں حصہ لیا۔ذاتی طورپر دینی عالم نہیں ہوں۔
مگردین کاطالبعلم ضرورہوں۔ چند مستند علماء سے پوچھاتوانھوں نے بغیرتعصب کے بتایا کہ اسلامی فقہ میں کسی جگہ پربھی عورتوں کے نمازِجنازہ میں شامل ہونے پرممانعت نہیں۔بہرحال یہ نکتہ میرے نزدیک غیراہم صرف اس لیے ہے کہ کسی انسان کے آخری سفرمیں اس کے لیے دعا کرناایک غیرمستند رویہ ہو نہیں سکتا۔نمازِجنازہ بھی تودعاہی ہے۔خوبصورت دعا کہ اے خدا،حاضرمیت کواپنی رحمت کی آغوش میں لے لے۔ خداکی رحمت کوعاجزی سے پکارنا ایک صائب بات معلوم ہوتی ہے۔مگرہمارے ملک میں ہر سوچ کو منتشرکرنے کی باضابطہ کوشش کی گئی ہے اوریہ کوشش مکمل طورپرکامیاب ہے۔
دین کی عظیم روح کے مطابق عمل کرنے کے بجائے، رسومات پر بے حد توجہ دی گئی ہے۔ ملاوٹ، رشوت، گندگی، بے انصافی،کمزوروں کو مکمل عدم تحفظ،چندلوگوں میں دولت کاغیرمعمولی ارتکاز، دھوکا دہی، فراڈاورجھوٹ بولناجس معاشرے کا مجموعی شعار ہو۔ کیا اسے دین کے عظیم آفاقی اصولوں پر عمل پیراکہا جا سکتا ہے۔ فیصلہ خودفرمالیجئے۔
ذکرعاصمہ بی بی کاہورہاتھا۔انسان تھی۔ ظاہر ہے ہر عام انسان کی طرح بشری کمزوریاں ان میں بھی تھیں۔ مگر بتائیے کہ کسی لحاظ کے بغیر،دنیاوی خداؤں سے ان کے علاوہ کون برسرپیکاررہاہے۔ایوب خان سے لے کرہر ڈکٹیٹرکے سامنے کون کفن باندھ کر کھڑا ہواہے۔جمہوری خداؤں کی کوتاہیوں اورخامیوں کو کس نے کھل کراُجاگرکیاہے۔یہ صرف دھان پان سی نحیف نظرآنے والی، مضبوط آواز عاصمہ جہانگیرکی تھی۔ لوگوں نے عاصمہ کی وفات پران کے والدملک غلام جیلانی کو بھی نشانہ بنانے کی بھرپورکوشش کی۔ ان سے کوئی ملاقات نہیں ہے۔جب انھوں نے سیاست شروع کی تومیں اسکول میں ہونگا۔
مشرقی پاکستان میں آپریشن پران کی مخالفت کوتاریخی تناظرمیں دیکھیے توکیاوہ درست نہیں تھے۔کیابھرپور یلغارنے مشرقی پاکستان کوملک سے علیحدہ ہونے سے محفوظ کرلیا۔نہیں صاحب، قطعاً نہیں۔ غلام جیلانی بذات خود جبر کا شکار رہے۔لگتاہے،ان کی بیٹی عاصمہ نے لوگوں کے حقوق کومحفوظ رکھنے کاذہنی سفر،بچپن سے اپنے والد کودیکھ کر شروع کیا تھا۔
انسانی حقوق عاصمہ کے ذہن کا نہیں بلکہ روح کاحصہ بن چکے تھے۔ہرقیمت پراپنے خیالات کے مطابق کمزور نظرآنے والی خاتون نے ناتواں، لاغراور خاکستر لوگوں کے لیے آواز اُٹھائی۔ اس میں خواتین، اقلیتیں، محنت کش اورہرطرح کے لوگ شامل تھے۔ذاتی طور پر معلوم ہے کہ انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی،کئی بار بغیرفیس کی ہوتی تھی۔ ملک کے کسی ناموروکیل کو آپ بغیر فیس کے مقدمہ لڑنے کوکہیے،توجوجواب آئیگا،سب کو بخوبی اندازہ ہے۔
ایک بار،مجھ سمیت ڈی۔ایم۔جی کے آٹھ افسروں نے عاصمہ صاحبہ کووکیل کیا۔ہم سب نے ملکران کی فیس ادا کرنی تھی۔یہ بھی خدشہ تھاکہ اس ناموروکیل کی فیس توبہت زیادہ ہوگی۔معاملہ مکمل طورپرسرکاری تھا۔ترقی سے جڑاہوا۔ پہلی بارہواتھاکہ پنجاب کے ایک سابقہ چیف سیکریٹری نے افسروں کو ذاتی انا پرترقی سے محروم کیاتھا۔عاصمہ صاحبہ نے ہم سب سے ملکرکہاکہ آپ نوکری پیشہ لوگ ہیں۔آپ سب کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔میں صرف اورصرف معمولی سی فیس لونگی۔
سرکاری ملازم کے محدودوسائل میں عاصمہ نے ہم سب افسروں سے بے حدمعمولی سی فیس لی۔عجیب سی عورت تھی۔پیسے کی ہوس سے ہزاروں نوری سال دور۔ایک دن لاہور ہائیکورٹ کے محترم وکیل ملنے آئے۔کہنے لگے آج صبح عاصمہ صاحبہ نے عدالت میں انتہائی نیک حرکت کی ہے۔ کسی خاندانی جھگڑے میں میاں،بیوی اورسسر موجود تھے۔ عاصمہ ان کی وکیل نہیں تھی۔کسی اورمقدمہ میں پیش ہوئی تھیں۔
بحث کے دوران،معلوم ہواکہ خاتون کے پاس عدالت میں جمع کروانے کے لیے بیس ہزارروپے موجود نہیں تھے۔عاصمہ عدالت میں کسی اورکام سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ جیب سے بیس ہزارروپے نکالے اوراجنبی عورت کے ہاتھ میں تھمادیے۔مظلوم عورت عاصمہ کوجانتی تک نہیں تھی۔بحث ختم ہونے کے بعدوہ نامعلوم عورت،جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں دے رہی تھی۔ دھاڑیں مارمارکرروتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ اللہ ہی آپ کونیکی کااَجردیگا۔کیونکہ میں تو ایک غریب عورت ہوں۔ دعاؤں کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔سب کچھ دیکھ کرعدالت میں موجود اکثر لوگ آبدیدہ ہوگئے۔
کسی کومعلوم نہیں کہ عاصمہ کس درجہ انسان دوست اوررحم دل انسان تھی۔سیکڑوں لوگوں کی کفالت کررہی تھی۔ان کے دکھ دردمیں شریک تھی۔مگریہی کمزورسی خاتون، مقتدرطبقے کے لیے آہنی تلوارتھی۔برہنہ شمشیر۔کون ہے جو یحییٰ خان، پرویزمشرف کے اقتدارکی انتہاپرانھیں للکارنے کی جرات کرے۔میری نظرمیں ایک بھی نہیں۔فوجی ڈکٹیٹرہی نہیں، عاصمہ نے جمہوری خداؤں کوبھی ان کی غلطیوں پر قطعاً معاف نہیں کیا۔ان کے ساتھ معاملات غلطیوں کوصحیح کرنے تک درست نہیں ہوئے۔
عاصمہ کے ہندوستان کے دورے پربے حدتنقیدکی گئی۔بہت کم لوگ جانتے ہیں بلکہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ عاصمہ جہانگیرہندوستان،اقوام متحدہ کے نمایندے کی حیثیت سے گئی تھیں۔مقصدیہ تھاکہ مقبوضہ کشمیرمیں مسلمانوں کے ساتھ جومظالم روارکھے گئے ہیں، ان کی بے لاگ تحقیق کی جائے۔عاصمہ مقبوضہ کشمیر گئیں۔کام کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہندوستان کے سرکاری اور غیرسرکاری عمائدین سے بھی ملیں۔باریکیاں سمجھنے کے بعد انھوں نے جورپورٹ لکھی،اس میں صریحاًدرج تھاکہ ہندوستانی حکومت اورفوج،کشمیرمیں مسلمانوں پرظلم اور جبر کر رہی ہے۔ان پرریاستی تشدد کیا جارہاہے۔
مسلمانوں کی جان مال اورعزت کاتحفظ کرنے میں ہندوستانی حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔یہ رپورٹ آج بھی اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ عاصمہ کاکوئی ناقدوہ رپورٹ نہیں پڑھتا۔ بغیر جانے ہوئے تنقیدکرتاہے کہ عاصمہ جہانگیر، ہندوستان کے دورے پروزیراعظم اوردیگرلوگوں سے کیوں ملیں۔ استدعا ہے کہ رپورٹ ضرورپڑھیے۔آپکی نظرمیں عاصمہ کی بے لاگ شخصیت کاتاثراَزحدمضبوط ہوجائیگا۔ ایک کالم میں عاصمہ جہانگیرکی شخصیت پربات کرناناممکن ہے۔
فیصل آباد میں پچاس سال سے میاں محمدٹرسٹ اسپتال لاکھوں لوگوں کوصحت یاب کرچکا ہے۔ یہ خدمت بھی عاصمہ کاخاندان ادا کررہاہے۔عرض کرونگا،کہ آپکواختیارہے کہ عاصمہ جہانگیر کے خیالات سے متفق نہ ہوں۔مگرآپکویہ اختیار ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ اس عظیم عورت کی بے مثال خدمات کوعامیانہ سوچ کی بھینٹ چڑھادیں۔دکھ تویہ ہے کہ عاصمہ کی جگہ لینے والی اس پورے ملک میں کوئی دوسری عاصمہ موجودنہیں ہے۔ دھان پان سی عورت جیسی فولادی آوازکوئی بھی نہیں ہے! ہرطرف مکمل سناٹاہے۔
اسلام آبادجارہاتھا۔ایک دوست کافون آیا۔عاصمہ جہانگیرفوت ہوچکی ہیں۔ذہن کوایک دھچکاسالگا۔بالکل یقین نہ آیا۔چنددیگراحباب سے دریافت کیاتوپتہ چلاکہ یہ توٹی وی پرآچکاہے۔گاڑی روک کرباہرآگیا۔اجنبی سے بیابان میں آسمان کی طرف دیکھتارہاکہ مالک تیراحکم دائم ہے۔تیرے ہی پاس واپس لوٹناہے۔مگرکمال کی دلیرعورت چندبرس مزیددنیامیں گزارلیتی توکیابگڑجاتا۔کافی دیرتک طبیعت میں توازن نہ رہا۔
اسلام آبادپہنچ کرسوشل میڈیا پر نظرڈالی توحددرجہ نوحہ گری ہورہی تھی اوراسی طریق سے مرحومہ کی مخالفت بھی۔اس لفظی بحث میں قطعاًحصہ نہیں لیا۔صرف اس لیے کہ بذات خودعاصمہ بی بی کوجانتاتھا، نہ بہت زیادہ اورنہ ہی بہت کم۔اپنے خیالات پرہمت سے قائم رہنے والی واحدشخصیت۔وگرنہ یہاں،توحکومتی استبداد کے سامنے فولادی لوگ بھی پگھل کرموم ہوجاتے ہیں۔ کچھ خریدلیے جاتے ہیں۔مگرعاصمہ ایک منفرد انسان تھی۔ اپنی طرح کی اکیلی عورت۔
دوسرے دوست کافون آیا۔کراچی اورلاہورمیں کاروبارکرتے ہیں۔سیاست سے بہت دور۔طبیعت میں بہاولپورکی ملائمت۔بتایاانتقال کی خبرسن کر اکیلا روتا رہا۔ کیوں،صرف اس لیے کہ جولوگ زمین سے اُٹھ رہے ہیں، ان کے بعدان کی جگہ لینے والاکوئی بھی نہیں ہے۔قیمتی لوگوں کے بعدپتھرکے صحراہیں اور ہوکا اندھیرا ہے۔
فون سن کرسوچنے لگا توآنکھیں نم ہوگئیں۔ بات حددرجہ درست تھی اورموقعہ کے مطابق بھی۔ خاتون، ہمارے جیسے غلامانہ فکرکے ملک میں آزاد آواز تھی۔ نمازِجنازہ میں شامل نہ ہوسکاکیونکہ اسلام آباد میں تھا۔ٹی وی پردیکھاتومعلوم ہواکہ جنازہ سید حیدر فاروق مودودی نے پڑھایاہے۔شاہ جی بھی عجیب مردِ درویش ہیں۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عاصمہ کی والدہ کاجنازہ بھی حیدرفاروق مودودی نے پڑھایا تھا۔
عاصمہ کے بیٹے اوردونوں بیٹیوں کے نکاح بھی شاہ جی نے ہی پڑھائے۔ خیرچند بے خبرلوگوں نے اسے بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ عاصمہ جیلانی کانکاح کس نے پڑھایاتھا۔جناب سید ابواعلیٰ مودودی صاحب یعنی فاروق حیدرکے والدگرامی نے۔چندلوگوں نے یہاں تک اعتراض کیاکہ نمازِ جنازہ میں خواتین نے کیوں حصہ لیا۔ذاتی طورپر دینی عالم نہیں ہوں۔
مگردین کاطالبعلم ضرورہوں۔ چند مستند علماء سے پوچھاتوانھوں نے بغیرتعصب کے بتایا کہ اسلامی فقہ میں کسی جگہ پربھی عورتوں کے نمازِجنازہ میں شامل ہونے پرممانعت نہیں۔بہرحال یہ نکتہ میرے نزدیک غیراہم صرف اس لیے ہے کہ کسی انسان کے آخری سفرمیں اس کے لیے دعا کرناایک غیرمستند رویہ ہو نہیں سکتا۔نمازِجنازہ بھی تودعاہی ہے۔خوبصورت دعا کہ اے خدا،حاضرمیت کواپنی رحمت کی آغوش میں لے لے۔ خداکی رحمت کوعاجزی سے پکارنا ایک صائب بات معلوم ہوتی ہے۔مگرہمارے ملک میں ہر سوچ کو منتشرکرنے کی باضابطہ کوشش کی گئی ہے اوریہ کوشش مکمل طورپرکامیاب ہے۔
دین کی عظیم روح کے مطابق عمل کرنے کے بجائے، رسومات پر بے حد توجہ دی گئی ہے۔ ملاوٹ، رشوت، گندگی، بے انصافی،کمزوروں کو مکمل عدم تحفظ،چندلوگوں میں دولت کاغیرمعمولی ارتکاز، دھوکا دہی، فراڈاورجھوٹ بولناجس معاشرے کا مجموعی شعار ہو۔ کیا اسے دین کے عظیم آفاقی اصولوں پر عمل پیراکہا جا سکتا ہے۔ فیصلہ خودفرمالیجئے۔
ذکرعاصمہ بی بی کاہورہاتھا۔انسان تھی۔ ظاہر ہے ہر عام انسان کی طرح بشری کمزوریاں ان میں بھی تھیں۔ مگر بتائیے کہ کسی لحاظ کے بغیر،دنیاوی خداؤں سے ان کے علاوہ کون برسرپیکاررہاہے۔ایوب خان سے لے کرہر ڈکٹیٹرکے سامنے کون کفن باندھ کر کھڑا ہواہے۔جمہوری خداؤں کی کوتاہیوں اورخامیوں کو کس نے کھل کراُجاگرکیاہے۔یہ صرف دھان پان سی نحیف نظرآنے والی، مضبوط آواز عاصمہ جہانگیرکی تھی۔ لوگوں نے عاصمہ کی وفات پران کے والدملک غلام جیلانی کو بھی نشانہ بنانے کی بھرپورکوشش کی۔ ان سے کوئی ملاقات نہیں ہے۔جب انھوں نے سیاست شروع کی تومیں اسکول میں ہونگا۔
مشرقی پاکستان میں آپریشن پران کی مخالفت کوتاریخی تناظرمیں دیکھیے توکیاوہ درست نہیں تھے۔کیابھرپور یلغارنے مشرقی پاکستان کوملک سے علیحدہ ہونے سے محفوظ کرلیا۔نہیں صاحب، قطعاً نہیں۔ غلام جیلانی بذات خود جبر کا شکار رہے۔لگتاہے،ان کی بیٹی عاصمہ نے لوگوں کے حقوق کومحفوظ رکھنے کاذہنی سفر،بچپن سے اپنے والد کودیکھ کر شروع کیا تھا۔
انسانی حقوق عاصمہ کے ذہن کا نہیں بلکہ روح کاحصہ بن چکے تھے۔ہرقیمت پراپنے خیالات کے مطابق کمزور نظرآنے والی خاتون نے ناتواں، لاغراور خاکستر لوگوں کے لیے آواز اُٹھائی۔ اس میں خواتین، اقلیتیں، محنت کش اورہرطرح کے لوگ شامل تھے۔ذاتی طور پر معلوم ہے کہ انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی،کئی بار بغیرفیس کی ہوتی تھی۔ ملک کے کسی ناموروکیل کو آپ بغیر فیس کے مقدمہ لڑنے کوکہیے،توجوجواب آئیگا،سب کو بخوبی اندازہ ہے۔
ایک بار،مجھ سمیت ڈی۔ایم۔جی کے آٹھ افسروں نے عاصمہ صاحبہ کووکیل کیا۔ہم سب نے ملکران کی فیس ادا کرنی تھی۔یہ بھی خدشہ تھاکہ اس ناموروکیل کی فیس توبہت زیادہ ہوگی۔معاملہ مکمل طورپرسرکاری تھا۔ترقی سے جڑاہوا۔ پہلی بارہواتھاکہ پنجاب کے ایک سابقہ چیف سیکریٹری نے افسروں کو ذاتی انا پرترقی سے محروم کیاتھا۔عاصمہ صاحبہ نے ہم سب سے ملکرکہاکہ آپ نوکری پیشہ لوگ ہیں۔آپ سب کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔میں صرف اورصرف معمولی سی فیس لونگی۔
سرکاری ملازم کے محدودوسائل میں عاصمہ نے ہم سب افسروں سے بے حدمعمولی سی فیس لی۔عجیب سی عورت تھی۔پیسے کی ہوس سے ہزاروں نوری سال دور۔ایک دن لاہور ہائیکورٹ کے محترم وکیل ملنے آئے۔کہنے لگے آج صبح عاصمہ صاحبہ نے عدالت میں انتہائی نیک حرکت کی ہے۔ کسی خاندانی جھگڑے میں میاں،بیوی اورسسر موجود تھے۔ عاصمہ ان کی وکیل نہیں تھی۔کسی اورمقدمہ میں پیش ہوئی تھیں۔
بحث کے دوران،معلوم ہواکہ خاتون کے پاس عدالت میں جمع کروانے کے لیے بیس ہزارروپے موجود نہیں تھے۔عاصمہ عدالت میں کسی اورکام سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ جیب سے بیس ہزارروپے نکالے اوراجنبی عورت کے ہاتھ میں تھمادیے۔مظلوم عورت عاصمہ کوجانتی تک نہیں تھی۔بحث ختم ہونے کے بعدوہ نامعلوم عورت،جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں دے رہی تھی۔ دھاڑیں مارمارکرروتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ اللہ ہی آپ کونیکی کااَجردیگا۔کیونکہ میں تو ایک غریب عورت ہوں۔ دعاؤں کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔سب کچھ دیکھ کرعدالت میں موجود اکثر لوگ آبدیدہ ہوگئے۔
کسی کومعلوم نہیں کہ عاصمہ کس درجہ انسان دوست اوررحم دل انسان تھی۔سیکڑوں لوگوں کی کفالت کررہی تھی۔ان کے دکھ دردمیں شریک تھی۔مگریہی کمزورسی خاتون، مقتدرطبقے کے لیے آہنی تلوارتھی۔برہنہ شمشیر۔کون ہے جو یحییٰ خان، پرویزمشرف کے اقتدارکی انتہاپرانھیں للکارنے کی جرات کرے۔میری نظرمیں ایک بھی نہیں۔فوجی ڈکٹیٹرہی نہیں، عاصمہ نے جمہوری خداؤں کوبھی ان کی غلطیوں پر قطعاً معاف نہیں کیا۔ان کے ساتھ معاملات غلطیوں کوصحیح کرنے تک درست نہیں ہوئے۔
عاصمہ کے ہندوستان کے دورے پربے حدتنقیدکی گئی۔بہت کم لوگ جانتے ہیں بلکہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ عاصمہ جہانگیرہندوستان،اقوام متحدہ کے نمایندے کی حیثیت سے گئی تھیں۔مقصدیہ تھاکہ مقبوضہ کشمیرمیں مسلمانوں کے ساتھ جومظالم روارکھے گئے ہیں، ان کی بے لاگ تحقیق کی جائے۔عاصمہ مقبوضہ کشمیر گئیں۔کام کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہندوستان کے سرکاری اور غیرسرکاری عمائدین سے بھی ملیں۔باریکیاں سمجھنے کے بعد انھوں نے جورپورٹ لکھی،اس میں صریحاًدرج تھاکہ ہندوستانی حکومت اورفوج،کشمیرمیں مسلمانوں پرظلم اور جبر کر رہی ہے۔ان پرریاستی تشدد کیا جارہاہے۔
مسلمانوں کی جان مال اورعزت کاتحفظ کرنے میں ہندوستانی حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔یہ رپورٹ آج بھی اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ عاصمہ کاکوئی ناقدوہ رپورٹ نہیں پڑھتا۔ بغیر جانے ہوئے تنقیدکرتاہے کہ عاصمہ جہانگیر، ہندوستان کے دورے پروزیراعظم اوردیگرلوگوں سے کیوں ملیں۔ استدعا ہے کہ رپورٹ ضرورپڑھیے۔آپکی نظرمیں عاصمہ کی بے لاگ شخصیت کاتاثراَزحدمضبوط ہوجائیگا۔ ایک کالم میں عاصمہ جہانگیرکی شخصیت پربات کرناناممکن ہے۔
فیصل آباد میں پچاس سال سے میاں محمدٹرسٹ اسپتال لاکھوں لوگوں کوصحت یاب کرچکا ہے۔ یہ خدمت بھی عاصمہ کاخاندان ادا کررہاہے۔عرض کرونگا،کہ آپکواختیارہے کہ عاصمہ جہانگیر کے خیالات سے متفق نہ ہوں۔مگرآپکویہ اختیار ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ اس عظیم عورت کی بے مثال خدمات کوعامیانہ سوچ کی بھینٹ چڑھادیں۔دکھ تویہ ہے کہ عاصمہ کی جگہ لینے والی اس پورے ملک میں کوئی دوسری عاصمہ موجودنہیں ہے۔ دھان پان سی عورت جیسی فولادی آوازکوئی بھی نہیں ہے! ہرطرف مکمل سناٹاہے۔