لندن میں لوگوں کا رویہ ہتک آمیز تھا نازیہ حسن میرے لیے ڈھال بن جاتی تھیں زوہیب حسن
میوزک کمپنی والوں کا فون آیا ’’گانا،بنارہے ہیں یا بلڈنگ‘‘، پاکستان میں پوپ میوزک کے بانی زوہیب حسن کی یادیں اور باتیں
پاکستانی شعبۂ موسیقی میں ایک دور ایسا بھی گزرا جب عالمگیر ، احمد رشدی اور محمد علی شہکی کے فلم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر گائے گئے گیتوں میں کچھ حد تک مغربی ساز وانداز کی جھلک نظر آتی تھی، مگر نازیہ اور زوہیب کو اس سے ایک قدم اور آگے مغربی موسیقی کے امتزاج سے مزین گیتوں اور کچھ حد تک مغربی گائیکی کے انداز کی بنا پر پاکستان میں پوپ میوزک کے بانیان میں شمار کیا جاتا ہے۔
80ء کی دہائی میں ٹیلی ویژن اسکرین پر چلنے والے پروگرام ''کلیوں کی مالا'' اور ''سنگ سنگ چلیں'' سے متعارف ہونے والے ننھے فن کاروں نے پہلے کراچی اور بعدازاں لندن میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھائی اور یوں ان کے چرچے بھارتی فلم صنعت تک جاپہنچے، انتہائی قلیل مدت میں دونوں بہن بھائی نے منفرد اور بہترین گائیگی پر 12گولڈ، 4 پلاٹینیم اور 2 ڈبل پلاٹینیم ڈسک ایوارڈ اپنے نام کیے۔
نازیہ حسن کی وفات سے اب تک گذشتہ سترہ برسوں کے دوران زوہیب حسن نے کچھ مکمل اور کچھ ادھورے کام کے ذریعے اپنی موجودگی کا وقتاًفوقتاً احساس ضرور دلایا مگر بات اگر پچھلے دس سالوں کی کی جائے تو اس دوران زوہیب کی جانب سے گائیکی کے حوالے سے ایک ان دیکھا جمود طاری رہا۔ نازیہ کی موت اور اور زوہیب کی طویل خاموشی سے ان کے مداحوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا پاکستانی میوزک کو نئی جدتوں سے روشناس کروانے والی یہ سریلی آوازیں قصہ پارینہ بن جائیں گی ۔
اسی دوران خوش آئند بات یہ رہی کہ زوہیب حسن نے اپنی مسحور کن دھنوں سے سجے میوزک البم کے ساتھ ماضی سے ٹوٹا ہوا سلسلہ ازسر نو جوڑنے کا تہیہ کرلیا۔ کچھ عرصے میں منظر عام پر آنے والی میوزک البم سگ نیچر میں شامل کچھ گانے ایسے بھی ہیں، جو نازیہ اور زوہیب نے مل کر گانے تھے، زوہیب حسن بولی ووڈ میں نازیہ حسن کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے بھی متحرک ہیں۔ زوہیب حسن کے ساتھ ایک نشست ہوئی جو ایکسپریس کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے ۔
سوال: دس سال کے لمبے عرصے تک میوزک انڈسٹری سے غیرحاضر رہنے کا کیا پس منظر ہے؟
زوہیب حسن: دراصل میری زندگی میں میوزک کے علاوہ اور بہت سی چیزیں ہوتی رہی ہیں۔ خاص طور پر نازیہ کی وفات کے بعد گھر کا ہر فرد شدید ذہنی کرب سے دوچار تھا اور ایسے میں ہم سب کے لیے والدہ کو سنبھالنا بہت مشکل ہورہا تھا۔ اس وقت میں نے کچھ عرصے کے بعد کوشش بھی کی کہ حالات سے سمجھوتا کرلوں، اور دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آؤں، مگر فن کار جب کوئی تخلیقی کام کررہا ہو اور اس کا دل آمادہ نہ ہوتو اس وقت تخلیق کرنا ممکن نہیں ہوتا یا پھر آپ یوں کہہ لیں کہ وہ اپنے کام سے انصاف نہیں کرپاتا، جہاں تک میری بات ہے تو میں آرٹ کے اس شعبے میں جسے فن موسیقی کہتے ہیں، نوٹ کمانے نہیں آیا تھا، بل کہ اس کے پس پردہ میر ی موسیقی سے وابستگی اور اس فن کی خدمت کا جذبہ تھا۔
موسیقی سے کنارہ کشی کے دوران کئی دوستوں نے دوبارہ موسیقی کی طرف آنے کا مشورہ دیا جب کہ کئی کمپنیز نے پُرکشش آفرز بھی دیں، مگر دل نہیں مان رہا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ میوزک میں جو کرنا تھا وہ کرلیا، یہی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے موسیقی کو وقت نہیں دے پایا اور میوزک کو ری کور کرنا انتہائی مشکل تھا۔ پھر نازیہ کا بیٹا بھی تھا، جو اب بھی ہمارے پاس ہے اور ماشاء اللہ اکیس سال کا چھے فٹ کا کڑیل جوان ہے، اس کی پڑھائی اور پھر لندن اور پاکستان میں اپنے پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے بزنس کی بھی کچھ مصروفیات رہیں۔
اس دوران میں نے آزمائشی طور پر نازیہ حسن کو ایک ٹری بیوٹ بھی دیا، مگر یقین جانیے کہ اس میں بھی پرفارم کرنا انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔ اس میوزیکل کنسرٹ میں نازیہ کے بغیر پرفارم کرنا بہت ہی عجیب لگ رہا تھا، اور مجھے لگا کہ اگر ذہن پر یہ خیالات حاوی رہے تو پھر شاید میں اس طرح سے نہیں گا سکوں گا جو اس گانے کی ڈیمانڈ ہوگی۔ تو غیرحاضری کے پس پردہ یہی وجوہات تھیں، مگر میں انتہائی شکرگزار ہوں تمام پاکستانیوں کا جنھوں نے آج تک ہمیں یاد رکھا ہوا ہے۔ ان کی محبت کو میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔
سوال: آپ کے اور نازیہ کے غالباً کچھ مشترکہ گانے ایسے بھی تھے جو ان کے انتقال کی وجہ سے ادھورے رہ گئے؟
زوہیب حسن: جی بالکل اس دور میں کچھ گانے تھے جو میں نے اور نازیہ نے مل کر گانے تھے، مگر نازیہ کی بیماری اور پھر انتقال کی وجہ سے یہ دُھنیں باقاعدہ گانے بننے سے رہ گئیں۔ اس وقت ہم پرفارم نہیں کرسکے تھے ، اب جو میرا ''سگنیچر'' کے نام سے میوزک البم مارکیٹ میں آرہا ہے، جو میں نے دس سال پہلے شروع کیا تھا۔ اس کے بننے پر دس سال نہیں لگے مگر جیسے میں بتا رہا تھا کہ دل نہیں مان رہا تھا میوزک پر کام کرنے کے حوالے سے، اس البم میں کچھ گانے ہیں، خاص طور پر ایک گانا ہے۔
جس کے بول ہیں ''ہمت سے''، جو مجھے اور نازیہ کو ڈوئٹ گانا تھا، مگر بعدازاں جو حالات پیدا ہوئے تو یہ گانا مجھے اکیلے گانا پڑا ہے۔ میں ان چند برسوں کے دوران کبھی گانا شروع کردیتا تھا پھر دوبارہ ذہن مائل نہیں ہوتا تھا اور چھوڑ دیتا تھا۔ ایک دن اسی وجہ سے میوزک کمپنی والوں کا فون آیا کہ بھائی آپ گانا بنار ہے ہیں یا بلڈنگ بنارہے ہیں؟ (ہنستے ہوئے)۔ بہرحال دس سال کے بعد اب یہ البم مکمل ہوگیا ہے۔ اس کا ایک گانا ''سلسلے'' ترکی میں شوٹ ہوا ہے، جس کی سافٹ لانچنگ ہوچکی ہے جب کہ مکمل میوزک البم کی باقاعدہ لانچنگ اب ہونے جارہی ہے۔
سوال: نازیہ حسن کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے کچھ بتائیے؟
زوہیب حسن: بولی ووڈ کے فلم میکر نے مجھ سے نازیہ کی زندگی پر بننے والی فلم کے لیے رجوع کیا، مگر میں نے ابتدا میں ہی انھیں یہ بات باور کروادی تھی کہ چوںکہ انڈین فلم فارمولا بیسڈ ہوتی ہے اور اس میں غیرضروری طور پر ناچ گانا بھی شامل ہوتا ہے، تو اگر فلم میں حقائق کے برعکس کو ئی چیز شامل کی گئی، جس کی ہماری معاشرتی اقدار اجازت نہیں دیتیں یا پھر ہماری گھریلو روایات کے منافی ہوئیں تو پھر شاید ہم یہ فلم نہ کرسکیں۔ تاہم ان کا جوا ب تھا کہ دراصل وہ نازیہ اور میرے اصل حالات وواقعات پر فلم بنانا چاہتے ہیں کہ کس طرح سے کراچی میں سہیل رعنا کے پروگرام سے دو کم سِن بہن بھائی نے اپنا فنی سفر شروع کیا اور پھر لندن پہنچ کر انھوں نے اپنی محنت سے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔ اس فلم کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ کراچی کے بعد جب ہم لندن پہنچے تو ہماری راہوں میں اس وقت کوئی ریڈکارپٹ نہیں بچھائے گئے۔
بل کہ اس دور میں وہاں کے لوگوں کا عجیب ہتک آمیز رویہ تھا، ایک طرف اگر ہماری اپنے آپ کو منوانے کی جدوجہد تھی تو دوسری طرف وہاں پر کچھ لوگوں کی کوشش تھی کہ ہمارے حوصلے پست ہوجائیں، مگر نازیہ چوںکہ مجھ سے بڑی تھیں اور ان میں بلا کی خود اعتمادی تھی، تو وہ اکثر ڈٹ جاتی تھیں، اور ان تمام لوگوں کے سامنے میرے لیے ڈھال بن جاتی تھیں۔ نازیہ کی زندگی پر فلم لندن میں بنے گی اور اس میں یقیناً پاکستان والے دور کی منظرکشی بھی شامل ہوگی۔ فلم کا اسکرپٹ مکمل ہے۔ یوں تو فلم کے رائٹر کا تعلق بھارت سے ہی ہے مگر اس کی کہانی کے دوران میری معاونت اور مشورے بھی شامل رہے ہیں۔ اس فلم میں بولی وڈ والوں نے کچھ اداکاروں کا انتخاب بھارت سے کیا تھا، مگر میرا مدعا یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت سے فلم میں کردار نگاری کے لیے مساوی اداکاروں کا چناؤ کیا جائے، ورنہ میں یہ فلم نہیں کرسکوں گا۔ اب فلم کے لیے نازیہ حسن سے ملتی جلتی کسی لڑکی کی تلاش ہے اور نوجوان زوہیب کا کردار ادا کرنے والے لڑکے کی تلاش بھی کی جارہی ہے۔ جب یہ مراحل گزر جائیں گے، تو یقیناً پھر فلم اگلے مرحلے میں سیٹ پر چلی جائے گی۔
سوال: ایک مثالی محبت کرنے والی بہن جو اب اس دنیا میں نہیں ہے، سترہ سال بعد آج بھی ان کی کمی اور کسک یقیناً محسوس ہوتی ہوگی؟
زوہیب خان: جن دنوں نازیہ بیمار تھیں وہ ہماری فیملی کے لیے انتہائی مشکل اور کڑ ا وقت تھا۔ آج بھی جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں کہ نادیہ کینسر کی وجہ سے بستر علالت پر تھیں اور میں اور میرے گھر والے اسپتال کے چکر پر چکر لگاتے تھے، مگر جس طر ح میں نے پہلے بتایا کہ نازیہ حسن بہت ہی مضبوط اعصاب کی مالک تھیں اور شدید بیمار ہونے کے باوجود گھر والوں کی پریشانی کی وجہ سے اکثر غلط بیانی بھی کرجاتی تھیں۔ اس دوران بھی میوزک البم کی تیار ی کے بارے میں مجھ سے اکثروبیشتر باز پرس کرتی تھیں، تو میرا جواب یہ ہوتا کہ آپ کی طبیعت خراب ہے تو فوراً جواب آتا کہ کس نے کہہ دیا کہ میری طبیعت خراب ہے میں بلکہ ٹھیک تو ہوں۔ وہ چاہتی تھیں کہ میوزک کے حوالے سے میری رغبت کم نہ ہو۔ ان کی شخصیت کے دو مختلف پہلو تھے، ایک نرم خو ئی اور دوسرا سخت مزاجی۔ جن دنوں وہ اسپتال میں داخل تھیں اور کینسر کی وجہ سے کیموتھراپی جیسے مشکل مرحلے سے گزر رہی تھیں، وہ وقت یا د کرکے آج بھی افسردہ ہوجا تا ہوں (آنکھوں میں نمی آگئی) کیوںکہ آہستہ آہستہ وہ میری آنکھوں کے سامنے ختم ہوتی جارہی تھیں۔ وہ لندن میں بیماری کے دوران دو سال میرے پاس رہیں۔ میں شاید نازیہ کے خلا کو کبھی بھی پر نہ کرسکوں۔
سوال: کسی فلم یا ڈرامے میں اداکاری کی پیش کش ہوئی تو کیا جواب ہوگا؟
زوہیب حسن: بنیادی طور پر اداکاری میرا شعبہ نہیں ہے، اور نہ ہی کبھی اس حوالے سے سنجیدگی سے کبھی سوچا، نہ ہی مجھے اداکاری میں کوئی دل چسپی ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیانے لوگوں کا یہ مقولہ صحیح ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ دراصل اداکاری کا شعبہ اپنے مزاج کے اعتبار سے بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ میں نے ایک نجی ٹی وی چینل کی ٹی وی سیریل میں اداکاری ضرور کی تھی، مگر اس ڈراما سیریل کا مقصد بھی دراصل اپنے میوزک کو پروموٹ کرنا تھا، مگر اگر آپ کا سوال آئندہ کی اداکاری کے متعلق ہے تو مستقبل میں ٹیلی ویژن یا سلور اسکرین پر میرا کسی فلم یا ٹی وی ڈرامے میں اداکاری کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
سوال: مستقبل میں کیا اپنے بچوں کو میوزک انڈسٹری سے منسلک کروانے کا ارادہ ہے؟
زوہیب حسن: میری دو بیٹیاں ہیں، عالیانہ ماشاء اللہ سولہ سال کی ہوچکی ہے، اس کی آواز بہت اچھی ہے جب کہ چھوٹی بیٹی میاہ تیرہ سال کی ہے، وہ کی بورڈ بڑی مہارت سے بجاتی ہے اور ایسی ایسی دھنیں ترتیب دیتی ہے جن کو سن کر مجھے تو بعض اوقات یہ لگتا ہے کہ وہ کہیں سے کاپی کیے گئے ہیں۔ دونوں بچیوں کو میوزک ورثے میں ملا ہے۔ میں اپنی اولاد کو زبردستی میوزک میں نہیں لے کر آسکتا۔ ہاں اگر ان میں ٹیلنٹ ہے اور وہ اپنے آپ کو منوانے کے لیے سخت محنت کرسکتی ہیں تو پھر میں بھی انھیں ویلکم کروں گا، مگر وہ اگر یہ سوچیں کے ان کے والد زوہیب حسن ہیں اور وہ انھیں پروموٹ کریں گے تو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
سوال: پاکستان میں موسیقی کی زبوںحالی کی آپ کے خیال میں کیا وجوہات ہیں؟
زوہیب حسن: پاکستان میں میوزک انڈسٹری کو میرے خیال میں سب سے زیادہ پائریسی نے نقصان پہنچایا ہے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں میوزک کے شعبے میں کچھ تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاید بہت سی جگہوں پر ہم دنیا سے قدم ملا کر نہیں چل سکے۔ پاکستان میں موسیقی کا فن سکھانے والے اداروں کی بھی کمی رہی ہے، جن کی تعداد بڑھنی چاہیے، کیوںکہ موسیقی کی تربیت دینے والے اداروں کا نئی آوازوں کو متعارف کروانے اور موسیقی اور نئے گلوکاروں کی حوصلہ افزائی میں کلیدی کردار ہوتا ہے، کیوںکہ آپ کے پاس کسی بھی شعبے میں اگر عصرِحاضر کے عین مطابق آلات اور مہارت رکھنے والے لوگو ں کا فقدان ہو تو پھر ساتھ نہیں چل سکتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں، ماضی کے مقابلے میں اب گانے والوں اور سننے والوں کے تقاضوں میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ پہلے پورے پورے البم ریلیز ہوتے تھے، مگر اب عموماً گلوکار اکثروبیشتر ایک ویڈیو ریلیز کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ میوزک انڈسٹری پر جو جمود طاری ہے وہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا، پاکستان میں کا نیا ٹیلنٹ ایک امید ہے۔
سوال: نوآموز گلوکاروں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
زوہیب حسن: پاکستان میں سریلی آوازوں اور فن کی کوئی کمی نہیں ہے۔ گذشتہ برسوں میں پرانے گانے والوں کے ساتھ پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں بہت ساری آوازیں ایسی بھی ابھری ہیں جنھوں نے نہ صرف پاکستان بل کہ ملک سے باہر بھی موسیقی سننے والوں کو چونکا دیا ہے۔ تاہم میوزک کے شعبے سے وابستہ ہونے والے نوآموز گلوکار عموماً شارٹ کٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ راتوں رات مشہور ہوکر ایک دم سے بلندی پر پہنچ جائیں، مگر ہوتا یہ ہے کہ اس عجلت کی وجہ سے وہ گلوکار پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دراصل یہ چیزیں وقت لیتی ہیں۔ وہ بچے جو اس فن سے وابستہ ہوئے ہیں اور موسیقی میں نام پیدا کرنا چاہتے ہیں، ان کو چاہیے کہ سخت محنت کو اپنا وطیرہ بنائے، کسی دوسرے گلوکار کا سرقہ یعنی کاپی نہ کریں، اپنا الگ انداز اپناکر لگن سے کام کریں اور خاص طور پر کسی گانے کے فلاپ ہونے ہرگز دل برداشتہ نہ ہوں، کیوںکہ آگ میں جل کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔
دوبارہ ذہن مائل نہیں ہوتا تھا اور چھوڑ دیتا تھا۔ ایک دن اسی وجہ سے میوزک کمپنی والوں کا فون آیا کہ بھائی آپ گانا بنار ہے ہیں یا بلڈنگ بنارہے ہیں؟ (ہنستے ہوئے)۔ بہرحال دس سال کے بعد اب یہ البم مکمل ہوگیا ہے۔ اس کا ایک گانا ''سلسلے'' ترکی میں شوٹ ہوا ہے، جس کی سافٹ لانچنگ ہوچکی ہے جب کہ مکمل میوزک البم کی باقاعدہ لانچنگ اب ہونے جارہی ہے۔
سوال: نازیہ حسن کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے کچھ بتائیے؟
زوہیب حسن: بولی ووڈ کے فلم میکر نے مجھ سے نازیہ کی زندگی پر بننے والی فلم کے لیے رجوع کیا، مگر میں نے ابتدا میں ہی انھیں یہ بات باور کروادی تھی کہ چوںکہ انڈین فلم فارمولا بیسڈ ہوتی ہے اور اس میں غیرضروری طور پر ناچ گانا بھی شامل ہوتا ہے، تو اگر فلم میں حقائق کے برعکس کو ئی چیز شامل کی گئی، جس کی ہماری معاشرتی اقدار اجازت نہیں دیتیں یا پھر ہماری گھریلو روایات کے منافی ہوئیں تو پھر شاید ہم یہ فلم نہ کرسکیں۔ تاہم ان کا جوا ب تھا کہ دراصل وہ نازیہ اور میرے اصل حالات وواقعات پر فلم بنانا چاہتے ہیں کہ کس طرح سے کراچی میں سہیل رعنا کے پروگرام سے دو کم سِن بہن بھائی نے اپنا فنی سفر شروع کیا اور پھر لندن پہنچ کر انھوں نے اپنی محنت سے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔
اس فلم کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ کراچی کے بعد جب ہم لندن پہنچے تو ہماری راہوں میں اس وقت کوئی ریڈکارپٹ نہیں بچھائے گئے، بل کہ اس دور میں وہاں کے لوگوں کا عجیب ہتک آمیز رویہ تھا، ایک طرف اگر ہماری اپنے آپ کو منوانے کی جدوجہد تھی تو دوسری طرف وہاں پر کچھ لوگوں کی کوشش تھی کہ ہمارے حوصلے پست ہوجائیں، مگر نازیہ چوںکہ مجھ سے بڑی تھیں اور ان میں بلا کی خود اعتمادی تھی، تو وہ اکثر ڈٹ جاتی تھیں، اور ان تمام لوگوں کے سامنے میرے لیے ڈھال بن جاتی تھیں۔
نازیہ کی زندگی پر فلم لندن میں بنے گی اور اس میں یقیناً پاکستان والے دور کی منظرکشی بھی شامل ہوگی۔ فلم کا اسکرپٹ مکمل ہے۔ یوں تو فلم کے رائٹر کا تعلق بھارت سے ہی ہے مگر اس کی کہانی کے دوران میری معاونت اور مشورے بھی شامل رہے ہیں۔ اس فلم میں بولی وڈ والوں نے کچھ اداکاروں کا انتخاب بھارت سے کیا تھا، مگر میرا مدعا یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت سے فلم میں کردار نگاری کے لیے مساوی اداکاروں کا چناؤ کیا جائے، ورنہ میں یہ فلم نہیں کرسکوں گا۔ اب فلم کے لیے نازیہ حسن سے ملتی جلتی کسی لڑکی کی تلاش ہے اور نوجوان زوہیب کا کردار ادا کرنے والے لڑکے کی تلاش بھی کی جارہی ہے۔ جب یہ مراحل گزر جائیں گے، تو یقیناً پھر فلم اگلے مرحلے میں سیٹ پر چلی جائے گی۔
سوال: ایک مثالی محبت کرنے والی بہن جو اب اس دنیا میں نہیں ہے، سترہ سال بعد آج بھی ان کی کمی اور کسک یقیناً محسوس ہوتی ہوگی؟
زوہیب خان: جن دنوں نازیہ بیمار تھیں وہ ہماری فیملی کے لیے انتہائی مشکل اور کڑ ا وقت تھا۔ آج بھی جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں کہ نادیہ کینسر کی وجہ سے بستر علالت پر تھیں اور میں اور میرے گھر والے اسپتال کے چکر پر چکر لگاتے تھے، مگر جس طر ح میں نے پہلے بتایا کہ نازیہ حسن بہت ہی مضبوط اعصاب کی مالک تھیں اور شدید بیمار ہونے کے باوجود گھر والوں کی پریشانی کی وجہ سے اکثر غلط بیانی بھی کرجاتی تھیں۔ اس دوران بھی میوزک البم کی تیار ی کے بارے میں مجھ سے اکثروبیشتر باز پرس کرتی تھیں، تو میرا جواب یہ ہوتا کہ آپ کی طبیعت خراب ہے تو فوراً جواب آتا کہ کس نے کہہ دیا کہ میری طبیعت خراب ہے میں بلکہ ٹھیک تو ہوں۔ وہ چاہتی تھیں کہ میوزک کے حوالے سے میری رغبت کم نہ ہو۔ ان کی شخصیت کے دو مختلف پہلو تھے، ایک نرم خو ئی اور دوسرا سخت مزاجی۔ جن دنوں وہ اسپتال میں داخل تھیں اور کینسر کی وجہ سے کیموتھراپی جیسے مشکل مرحلے سے گزر رہی تھیں، وہ وقت یا د کرکے آج بھی افسردہ ہوجا تا ہوں (آنکھوں میں نمی آگئی) کیوںکہ آہستہ آہستہ وہ میری آنکھوں کے سامنے ختم ہوتی جارہی تھیں۔ وہ لندن میں بیماری کے دوران دو سال میرے پاس رہیں۔ میں شاید نازیہ کے خلا کو کبھی بھی پر نہ کرسکوں۔
سوال: کسی فلم یا ڈرامے میں اداکاری کی پیش کش ہوئی تو کیا جواب ہوگا؟
زوہیب حسن: بنیادی طور پر اداکاری میرا شعبہ نہیں ہے، اور نہ ہی کبھی اس حوالے سے سنجیدگی سے کبھی سوچا، نہ ہی مجھے اداکاری میں کوئی دل چسپی ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیانے لوگوں کا یہ مقولہ صحیح ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ دراصل اداکاری کا شعبہ اپنے مزاج کے اعتبار سے بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ میں نے ایک نجی ٹی وی چینل کی ٹی وی سیریل میں اداکاری ضرور کی تھی، مگر اس ڈراما سیریل کا مقصد بھی دراصل اپنے میوزک کو پروموٹ کرنا تھا، مگر اگر آپ کا سوال آئندہ کی اداکاری کے متعلق ہے تو مستقبل میں ٹیلی ویژن یا سلور اسکرین پر میرا کسی فلم یا ٹی وی ڈرامے میں اداکاری کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
سوال: مستقبل میں کیا اپنے بچوں کو میوزک انڈسٹری سے منسلک کروانے کا ارادہ ہے؟
زوہیب حسن: میری دو بیٹیاں ہیں، عالیانہ ماشاء اللہ سولہ سال کی ہوچکی ہے، اس کی آواز بہت اچھی ہے جب کہ چھوٹی بیٹی میاہ تیرہ سال کی ہے، وہ کی بورڈ بڑی مہارت سے بجاتی ہے اور ایسی ایسی دھنیں ترتیب دیتی ہے جن کو سن کر مجھے تو بعض اوقات یہ لگتا ہے کہ وہ کہیں سے کاپی کیے گئے ہیں۔ دونوں بچیوں کو میوزک ورثے میں ملا ہے۔ میں اپنی اولاد کو زبردستی میوزک میں نہیں لے کر آسکتا۔ ہاں اگر ان میں ٹیلنٹ ہے اور وہ اپنے آپ کو منوانے کے لیے سخت محنت کرسکتی ہیں تو پھر میں بھی انھیں ویلکم کروں گا، مگر وہ اگر یہ سوچیں کے ان کے والد زوہیب حسن ہیں اور وہ انھیں پروموٹ کریں گے تو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
سوال: پاکستان میں موسیقی کی زبوںحالی کی آپ کے خیال میں کیا وجوہات ہیں؟
زوہیب حسن: پاکستان میں میوزک انڈسٹری کو میرے خیال میں سب سے زیادہ پائریسی نے نقصان پہنچایا ہے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں میوزک کے شعبے میں کچھ تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاید بہت سی جگہوں پر ہم دنیا سے قدم ملا کر نہیں چل سکے۔ پاکستان میں موسیقی کا فن سکھانے والے اداروں کی بھی کمی رہی ہے، جن کی تعداد بڑھنی چاہیے، کیوںکہ موسیقی کی تربیت دینے والے اداروں کا نئی آوازوں کو متعارف کروانے اور موسیقی اور نئے گلوکاروں کی حوصلہ افزائی میں کلیدی کردار ہوتا ہے، کیوںکہ آپ کے پاس کسی بھی شعبے میں اگر عصرِحاضر کے عین مطابق آلات اور مہارت رکھنے والے لوگو ں کا فقدان ہو تو پھر ساتھ نہیں چل سکتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں، ماضی کے مقابلے میں اب گانے والوں اور سننے والوں کے تقاضوں میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ پہلے پورے پورے البم ریلیز ہوتے تھے، مگر اب عموماً گلوکار اکثروبیشتر ایک ویڈیو ریلیز کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ میوزک انڈسٹری پر جو جمود طاری ہے وہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا، پاکستان میں کا نیا ٹیلنٹ ایک امید ہے۔
سوال: نوآموز گلوکاروں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
زوہیب حسن: پاکستان میں سریلی آوازوں اور فن کی کوئی کمی نہیں ہے۔ گذشتہ برسوں میں پرانے گانے والوں کے ساتھ پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں بہت ساری آوازیں ایسی بھی ابھری ہیں جنھوں نے نہ صرف پاکستان بل کہ ملک سے باہر بھی موسیقی سننے والوں کو چونکا دیا ہے۔ تاہم میوزک کے شعبے سے وابستہ ہونے والے نوآموز گلوکار عموماً شارٹ کٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ راتوں رات مشہور ہوکر ایک دم سے بلندی پر پہنچ جائیں، مگر ہوتا یہ ہے کہ اس عجلت کی وجہ سے وہ گلوکار پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دراصل یہ چیزیں وقت لیتی ہیں۔ وہ بچے جو اس فن سے وابستہ ہوئے ہیں اور موسیقی میں نام پیدا کرنا چاہتے ہیں، ان کو چاہیے کہ سخت محنت کو اپنا وطیرہ بنائے، کسی دوسرے گلوکار کا سرقہ یعنی کاپی نہ کریں، اپنا الگ انداز اپناکر لگن سے کام کریں اور خاص طور پر کسی گانے کے فلاپ ہونے ہرگز دل برداشتہ نہ ہوں، کیوںکہ آگ میں جل کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔
80ء کی دہائی میں ٹیلی ویژن اسکرین پر چلنے والے پروگرام ''کلیوں کی مالا'' اور ''سنگ سنگ چلیں'' سے متعارف ہونے والے ننھے فن کاروں نے پہلے کراچی اور بعدازاں لندن میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھائی اور یوں ان کے چرچے بھارتی فلم صنعت تک جاپہنچے، انتہائی قلیل مدت میں دونوں بہن بھائی نے منفرد اور بہترین گائیگی پر 12گولڈ، 4 پلاٹینیم اور 2 ڈبل پلاٹینیم ڈسک ایوارڈ اپنے نام کیے۔
نازیہ حسن کی وفات سے اب تک گذشتہ سترہ برسوں کے دوران زوہیب حسن نے کچھ مکمل اور کچھ ادھورے کام کے ذریعے اپنی موجودگی کا وقتاًفوقتاً احساس ضرور دلایا مگر بات اگر پچھلے دس سالوں کی کی جائے تو اس دوران زوہیب کی جانب سے گائیکی کے حوالے سے ایک ان دیکھا جمود طاری رہا۔ نازیہ کی موت اور اور زوہیب کی طویل خاموشی سے ان کے مداحوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا پاکستانی میوزک کو نئی جدتوں سے روشناس کروانے والی یہ سریلی آوازیں قصہ پارینہ بن جائیں گی ۔
اسی دوران خوش آئند بات یہ رہی کہ زوہیب حسن نے اپنی مسحور کن دھنوں سے سجے میوزک البم کے ساتھ ماضی سے ٹوٹا ہوا سلسلہ ازسر نو جوڑنے کا تہیہ کرلیا۔ کچھ عرصے میں منظر عام پر آنے والی میوزک البم سگ نیچر میں شامل کچھ گانے ایسے بھی ہیں، جو نازیہ اور زوہیب نے مل کر گانے تھے، زوہیب حسن بولی ووڈ میں نازیہ حسن کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے بھی متحرک ہیں۔ زوہیب حسن کے ساتھ ایک نشست ہوئی جو ایکسپریس کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے ۔
سوال: دس سال کے لمبے عرصے تک میوزک انڈسٹری سے غیرحاضر رہنے کا کیا پس منظر ہے؟
زوہیب حسن: دراصل میری زندگی میں میوزک کے علاوہ اور بہت سی چیزیں ہوتی رہی ہیں۔ خاص طور پر نازیہ کی وفات کے بعد گھر کا ہر فرد شدید ذہنی کرب سے دوچار تھا اور ایسے میں ہم سب کے لیے والدہ کو سنبھالنا بہت مشکل ہورہا تھا۔ اس وقت میں نے کچھ عرصے کے بعد کوشش بھی کی کہ حالات سے سمجھوتا کرلوں، اور دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آؤں، مگر فن کار جب کوئی تخلیقی کام کررہا ہو اور اس کا دل آمادہ نہ ہوتو اس وقت تخلیق کرنا ممکن نہیں ہوتا یا پھر آپ یوں کہہ لیں کہ وہ اپنے کام سے انصاف نہیں کرپاتا، جہاں تک میری بات ہے تو میں آرٹ کے اس شعبے میں جسے فن موسیقی کہتے ہیں، نوٹ کمانے نہیں آیا تھا، بل کہ اس کے پس پردہ میر ی موسیقی سے وابستگی اور اس فن کی خدمت کا جذبہ تھا۔
موسیقی سے کنارہ کشی کے دوران کئی دوستوں نے دوبارہ موسیقی کی طرف آنے کا مشورہ دیا جب کہ کئی کمپنیز نے پُرکشش آفرز بھی دیں، مگر دل نہیں مان رہا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ میوزک میں جو کرنا تھا وہ کرلیا، یہی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے موسیقی کو وقت نہیں دے پایا اور میوزک کو ری کور کرنا انتہائی مشکل تھا۔ پھر نازیہ کا بیٹا بھی تھا، جو اب بھی ہمارے پاس ہے اور ماشاء اللہ اکیس سال کا چھے فٹ کا کڑیل جوان ہے، اس کی پڑھائی اور پھر لندن اور پاکستان میں اپنے پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے بزنس کی بھی کچھ مصروفیات رہیں۔
اس دوران میں نے آزمائشی طور پر نازیہ حسن کو ایک ٹری بیوٹ بھی دیا، مگر یقین جانیے کہ اس میں بھی پرفارم کرنا انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔ اس میوزیکل کنسرٹ میں نازیہ کے بغیر پرفارم کرنا بہت ہی عجیب لگ رہا تھا، اور مجھے لگا کہ اگر ذہن پر یہ خیالات حاوی رہے تو پھر شاید میں اس طرح سے نہیں گا سکوں گا جو اس گانے کی ڈیمانڈ ہوگی۔ تو غیرحاضری کے پس پردہ یہی وجوہات تھیں، مگر میں انتہائی شکرگزار ہوں تمام پاکستانیوں کا جنھوں نے آج تک ہمیں یاد رکھا ہوا ہے۔ ان کی محبت کو میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔
سوال: آپ کے اور نازیہ کے غالباً کچھ مشترکہ گانے ایسے بھی تھے جو ان کے انتقال کی وجہ سے ادھورے رہ گئے؟
زوہیب حسن: جی بالکل اس دور میں کچھ گانے تھے جو میں نے اور نازیہ نے مل کر گانے تھے، مگر نازیہ کی بیماری اور پھر انتقال کی وجہ سے یہ دُھنیں باقاعدہ گانے بننے سے رہ گئیں۔ اس وقت ہم پرفارم نہیں کرسکے تھے ، اب جو میرا ''سگنیچر'' کے نام سے میوزک البم مارکیٹ میں آرہا ہے، جو میں نے دس سال پہلے شروع کیا تھا۔ اس کے بننے پر دس سال نہیں لگے مگر جیسے میں بتا رہا تھا کہ دل نہیں مان رہا تھا میوزک پر کام کرنے کے حوالے سے، اس البم میں کچھ گانے ہیں، خاص طور پر ایک گانا ہے۔
جس کے بول ہیں ''ہمت سے''، جو مجھے اور نازیہ کو ڈوئٹ گانا تھا، مگر بعدازاں جو حالات پیدا ہوئے تو یہ گانا مجھے اکیلے گانا پڑا ہے۔ میں ان چند برسوں کے دوران کبھی گانا شروع کردیتا تھا پھر دوبارہ ذہن مائل نہیں ہوتا تھا اور چھوڑ دیتا تھا۔ ایک دن اسی وجہ سے میوزک کمپنی والوں کا فون آیا کہ بھائی آپ گانا بنار ہے ہیں یا بلڈنگ بنارہے ہیں؟ (ہنستے ہوئے)۔ بہرحال دس سال کے بعد اب یہ البم مکمل ہوگیا ہے۔ اس کا ایک گانا ''سلسلے'' ترکی میں شوٹ ہوا ہے، جس کی سافٹ لانچنگ ہوچکی ہے جب کہ مکمل میوزک البم کی باقاعدہ لانچنگ اب ہونے جارہی ہے۔
سوال: نازیہ حسن کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے کچھ بتائیے؟
زوہیب حسن: بولی ووڈ کے فلم میکر نے مجھ سے نازیہ کی زندگی پر بننے والی فلم کے لیے رجوع کیا، مگر میں نے ابتدا میں ہی انھیں یہ بات باور کروادی تھی کہ چوںکہ انڈین فلم فارمولا بیسڈ ہوتی ہے اور اس میں غیرضروری طور پر ناچ گانا بھی شامل ہوتا ہے، تو اگر فلم میں حقائق کے برعکس کو ئی چیز شامل کی گئی، جس کی ہماری معاشرتی اقدار اجازت نہیں دیتیں یا پھر ہماری گھریلو روایات کے منافی ہوئیں تو پھر شاید ہم یہ فلم نہ کرسکیں۔ تاہم ان کا جوا ب تھا کہ دراصل وہ نازیہ اور میرے اصل حالات وواقعات پر فلم بنانا چاہتے ہیں کہ کس طرح سے کراچی میں سہیل رعنا کے پروگرام سے دو کم سِن بہن بھائی نے اپنا فنی سفر شروع کیا اور پھر لندن پہنچ کر انھوں نے اپنی محنت سے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔ اس فلم کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ کراچی کے بعد جب ہم لندن پہنچے تو ہماری راہوں میں اس وقت کوئی ریڈکارپٹ نہیں بچھائے گئے۔
بل کہ اس دور میں وہاں کے لوگوں کا عجیب ہتک آمیز رویہ تھا، ایک طرف اگر ہماری اپنے آپ کو منوانے کی جدوجہد تھی تو دوسری طرف وہاں پر کچھ لوگوں کی کوشش تھی کہ ہمارے حوصلے پست ہوجائیں، مگر نازیہ چوںکہ مجھ سے بڑی تھیں اور ان میں بلا کی خود اعتمادی تھی، تو وہ اکثر ڈٹ جاتی تھیں، اور ان تمام لوگوں کے سامنے میرے لیے ڈھال بن جاتی تھیں۔ نازیہ کی زندگی پر فلم لندن میں بنے گی اور اس میں یقیناً پاکستان والے دور کی منظرکشی بھی شامل ہوگی۔ فلم کا اسکرپٹ مکمل ہے۔ یوں تو فلم کے رائٹر کا تعلق بھارت سے ہی ہے مگر اس کی کہانی کے دوران میری معاونت اور مشورے بھی شامل رہے ہیں۔ اس فلم میں بولی وڈ والوں نے کچھ اداکاروں کا انتخاب بھارت سے کیا تھا، مگر میرا مدعا یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت سے فلم میں کردار نگاری کے لیے مساوی اداکاروں کا چناؤ کیا جائے، ورنہ میں یہ فلم نہیں کرسکوں گا۔ اب فلم کے لیے نازیہ حسن سے ملتی جلتی کسی لڑکی کی تلاش ہے اور نوجوان زوہیب کا کردار ادا کرنے والے لڑکے کی تلاش بھی کی جارہی ہے۔ جب یہ مراحل گزر جائیں گے، تو یقیناً پھر فلم اگلے مرحلے میں سیٹ پر چلی جائے گی۔
سوال: ایک مثالی محبت کرنے والی بہن جو اب اس دنیا میں نہیں ہے، سترہ سال بعد آج بھی ان کی کمی اور کسک یقیناً محسوس ہوتی ہوگی؟
زوہیب خان: جن دنوں نازیہ بیمار تھیں وہ ہماری فیملی کے لیے انتہائی مشکل اور کڑ ا وقت تھا۔ آج بھی جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں کہ نادیہ کینسر کی وجہ سے بستر علالت پر تھیں اور میں اور میرے گھر والے اسپتال کے چکر پر چکر لگاتے تھے، مگر جس طر ح میں نے پہلے بتایا کہ نازیہ حسن بہت ہی مضبوط اعصاب کی مالک تھیں اور شدید بیمار ہونے کے باوجود گھر والوں کی پریشانی کی وجہ سے اکثر غلط بیانی بھی کرجاتی تھیں۔ اس دوران بھی میوزک البم کی تیار ی کے بارے میں مجھ سے اکثروبیشتر باز پرس کرتی تھیں، تو میرا جواب یہ ہوتا کہ آپ کی طبیعت خراب ہے تو فوراً جواب آتا کہ کس نے کہہ دیا کہ میری طبیعت خراب ہے میں بلکہ ٹھیک تو ہوں۔ وہ چاہتی تھیں کہ میوزک کے حوالے سے میری رغبت کم نہ ہو۔ ان کی شخصیت کے دو مختلف پہلو تھے، ایک نرم خو ئی اور دوسرا سخت مزاجی۔ جن دنوں وہ اسپتال میں داخل تھیں اور کینسر کی وجہ سے کیموتھراپی جیسے مشکل مرحلے سے گزر رہی تھیں، وہ وقت یا د کرکے آج بھی افسردہ ہوجا تا ہوں (آنکھوں میں نمی آگئی) کیوںکہ آہستہ آہستہ وہ میری آنکھوں کے سامنے ختم ہوتی جارہی تھیں۔ وہ لندن میں بیماری کے دوران دو سال میرے پاس رہیں۔ میں شاید نازیہ کے خلا کو کبھی بھی پر نہ کرسکوں۔
سوال: کسی فلم یا ڈرامے میں اداکاری کی پیش کش ہوئی تو کیا جواب ہوگا؟
زوہیب حسن: بنیادی طور پر اداکاری میرا شعبہ نہیں ہے، اور نہ ہی کبھی اس حوالے سے سنجیدگی سے کبھی سوچا، نہ ہی مجھے اداکاری میں کوئی دل چسپی ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیانے لوگوں کا یہ مقولہ صحیح ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ دراصل اداکاری کا شعبہ اپنے مزاج کے اعتبار سے بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ میں نے ایک نجی ٹی وی چینل کی ٹی وی سیریل میں اداکاری ضرور کی تھی، مگر اس ڈراما سیریل کا مقصد بھی دراصل اپنے میوزک کو پروموٹ کرنا تھا، مگر اگر آپ کا سوال آئندہ کی اداکاری کے متعلق ہے تو مستقبل میں ٹیلی ویژن یا سلور اسکرین پر میرا کسی فلم یا ٹی وی ڈرامے میں اداکاری کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
سوال: مستقبل میں کیا اپنے بچوں کو میوزک انڈسٹری سے منسلک کروانے کا ارادہ ہے؟
زوہیب حسن: میری دو بیٹیاں ہیں، عالیانہ ماشاء اللہ سولہ سال کی ہوچکی ہے، اس کی آواز بہت اچھی ہے جب کہ چھوٹی بیٹی میاہ تیرہ سال کی ہے، وہ کی بورڈ بڑی مہارت سے بجاتی ہے اور ایسی ایسی دھنیں ترتیب دیتی ہے جن کو سن کر مجھے تو بعض اوقات یہ لگتا ہے کہ وہ کہیں سے کاپی کیے گئے ہیں۔ دونوں بچیوں کو میوزک ورثے میں ملا ہے۔ میں اپنی اولاد کو زبردستی میوزک میں نہیں لے کر آسکتا۔ ہاں اگر ان میں ٹیلنٹ ہے اور وہ اپنے آپ کو منوانے کے لیے سخت محنت کرسکتی ہیں تو پھر میں بھی انھیں ویلکم کروں گا، مگر وہ اگر یہ سوچیں کے ان کے والد زوہیب حسن ہیں اور وہ انھیں پروموٹ کریں گے تو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
سوال: پاکستان میں موسیقی کی زبوںحالی کی آپ کے خیال میں کیا وجوہات ہیں؟
زوہیب حسن: پاکستان میں میوزک انڈسٹری کو میرے خیال میں سب سے زیادہ پائریسی نے نقصان پہنچایا ہے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں میوزک کے شعبے میں کچھ تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاید بہت سی جگہوں پر ہم دنیا سے قدم ملا کر نہیں چل سکے۔ پاکستان میں موسیقی کا فن سکھانے والے اداروں کی بھی کمی رہی ہے، جن کی تعداد بڑھنی چاہیے، کیوںکہ موسیقی کی تربیت دینے والے اداروں کا نئی آوازوں کو متعارف کروانے اور موسیقی اور نئے گلوکاروں کی حوصلہ افزائی میں کلیدی کردار ہوتا ہے، کیوںکہ آپ کے پاس کسی بھی شعبے میں اگر عصرِحاضر کے عین مطابق آلات اور مہارت رکھنے والے لوگو ں کا فقدان ہو تو پھر ساتھ نہیں چل سکتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں، ماضی کے مقابلے میں اب گانے والوں اور سننے والوں کے تقاضوں میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ پہلے پورے پورے البم ریلیز ہوتے تھے، مگر اب عموماً گلوکار اکثروبیشتر ایک ویڈیو ریلیز کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ میوزک انڈسٹری پر جو جمود طاری ہے وہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا، پاکستان میں کا نیا ٹیلنٹ ایک امید ہے۔
سوال: نوآموز گلوکاروں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
زوہیب حسن: پاکستان میں سریلی آوازوں اور فن کی کوئی کمی نہیں ہے۔ گذشتہ برسوں میں پرانے گانے والوں کے ساتھ پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں بہت ساری آوازیں ایسی بھی ابھری ہیں جنھوں نے نہ صرف پاکستان بل کہ ملک سے باہر بھی موسیقی سننے والوں کو چونکا دیا ہے۔ تاہم میوزک کے شعبے سے وابستہ ہونے والے نوآموز گلوکار عموماً شارٹ کٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ راتوں رات مشہور ہوکر ایک دم سے بلندی پر پہنچ جائیں، مگر ہوتا یہ ہے کہ اس عجلت کی وجہ سے وہ گلوکار پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دراصل یہ چیزیں وقت لیتی ہیں۔ وہ بچے جو اس فن سے وابستہ ہوئے ہیں اور موسیقی میں نام پیدا کرنا چاہتے ہیں، ان کو چاہیے کہ سخت محنت کو اپنا وطیرہ بنائے، کسی دوسرے گلوکار کا سرقہ یعنی کاپی نہ کریں، اپنا الگ انداز اپناکر لگن سے کام کریں اور خاص طور پر کسی گانے کے فلاپ ہونے ہرگز دل برداشتہ نہ ہوں، کیوںکہ آگ میں جل کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔
دوبارہ ذہن مائل نہیں ہوتا تھا اور چھوڑ دیتا تھا۔ ایک دن اسی وجہ سے میوزک کمپنی والوں کا فون آیا کہ بھائی آپ گانا بنار ہے ہیں یا بلڈنگ بنارہے ہیں؟ (ہنستے ہوئے)۔ بہرحال دس سال کے بعد اب یہ البم مکمل ہوگیا ہے۔ اس کا ایک گانا ''سلسلے'' ترکی میں شوٹ ہوا ہے، جس کی سافٹ لانچنگ ہوچکی ہے جب کہ مکمل میوزک البم کی باقاعدہ لانچنگ اب ہونے جارہی ہے۔
سوال: نازیہ حسن کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے کچھ بتائیے؟
زوہیب حسن: بولی ووڈ کے فلم میکر نے مجھ سے نازیہ کی زندگی پر بننے والی فلم کے لیے رجوع کیا، مگر میں نے ابتدا میں ہی انھیں یہ بات باور کروادی تھی کہ چوںکہ انڈین فلم فارمولا بیسڈ ہوتی ہے اور اس میں غیرضروری طور پر ناچ گانا بھی شامل ہوتا ہے، تو اگر فلم میں حقائق کے برعکس کو ئی چیز شامل کی گئی، جس کی ہماری معاشرتی اقدار اجازت نہیں دیتیں یا پھر ہماری گھریلو روایات کے منافی ہوئیں تو پھر شاید ہم یہ فلم نہ کرسکیں۔ تاہم ان کا جوا ب تھا کہ دراصل وہ نازیہ اور میرے اصل حالات وواقعات پر فلم بنانا چاہتے ہیں کہ کس طرح سے کراچی میں سہیل رعنا کے پروگرام سے دو کم سِن بہن بھائی نے اپنا فنی سفر شروع کیا اور پھر لندن پہنچ کر انھوں نے اپنی محنت سے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔
اس فلم کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ کراچی کے بعد جب ہم لندن پہنچے تو ہماری راہوں میں اس وقت کوئی ریڈکارپٹ نہیں بچھائے گئے، بل کہ اس دور میں وہاں کے لوگوں کا عجیب ہتک آمیز رویہ تھا، ایک طرف اگر ہماری اپنے آپ کو منوانے کی جدوجہد تھی تو دوسری طرف وہاں پر کچھ لوگوں کی کوشش تھی کہ ہمارے حوصلے پست ہوجائیں، مگر نازیہ چوںکہ مجھ سے بڑی تھیں اور ان میں بلا کی خود اعتمادی تھی، تو وہ اکثر ڈٹ جاتی تھیں، اور ان تمام لوگوں کے سامنے میرے لیے ڈھال بن جاتی تھیں۔
نازیہ کی زندگی پر فلم لندن میں بنے گی اور اس میں یقیناً پاکستان والے دور کی منظرکشی بھی شامل ہوگی۔ فلم کا اسکرپٹ مکمل ہے۔ یوں تو فلم کے رائٹر کا تعلق بھارت سے ہی ہے مگر اس کی کہانی کے دوران میری معاونت اور مشورے بھی شامل رہے ہیں۔ اس فلم میں بولی وڈ والوں نے کچھ اداکاروں کا انتخاب بھارت سے کیا تھا، مگر میرا مدعا یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت سے فلم میں کردار نگاری کے لیے مساوی اداکاروں کا چناؤ کیا جائے، ورنہ میں یہ فلم نہیں کرسکوں گا۔ اب فلم کے لیے نازیہ حسن سے ملتی جلتی کسی لڑکی کی تلاش ہے اور نوجوان زوہیب کا کردار ادا کرنے والے لڑکے کی تلاش بھی کی جارہی ہے۔ جب یہ مراحل گزر جائیں گے، تو یقیناً پھر فلم اگلے مرحلے میں سیٹ پر چلی جائے گی۔
سوال: ایک مثالی محبت کرنے والی بہن جو اب اس دنیا میں نہیں ہے، سترہ سال بعد آج بھی ان کی کمی اور کسک یقیناً محسوس ہوتی ہوگی؟
زوہیب خان: جن دنوں نازیہ بیمار تھیں وہ ہماری فیملی کے لیے انتہائی مشکل اور کڑ ا وقت تھا۔ آج بھی جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں کہ نادیہ کینسر کی وجہ سے بستر علالت پر تھیں اور میں اور میرے گھر والے اسپتال کے چکر پر چکر لگاتے تھے، مگر جس طر ح میں نے پہلے بتایا کہ نازیہ حسن بہت ہی مضبوط اعصاب کی مالک تھیں اور شدید بیمار ہونے کے باوجود گھر والوں کی پریشانی کی وجہ سے اکثر غلط بیانی بھی کرجاتی تھیں۔ اس دوران بھی میوزک البم کی تیار ی کے بارے میں مجھ سے اکثروبیشتر باز پرس کرتی تھیں، تو میرا جواب یہ ہوتا کہ آپ کی طبیعت خراب ہے تو فوراً جواب آتا کہ کس نے کہہ دیا کہ میری طبیعت خراب ہے میں بلکہ ٹھیک تو ہوں۔ وہ چاہتی تھیں کہ میوزک کے حوالے سے میری رغبت کم نہ ہو۔ ان کی شخصیت کے دو مختلف پہلو تھے، ایک نرم خو ئی اور دوسرا سخت مزاجی۔ جن دنوں وہ اسپتال میں داخل تھیں اور کینسر کی وجہ سے کیموتھراپی جیسے مشکل مرحلے سے گزر رہی تھیں، وہ وقت یا د کرکے آج بھی افسردہ ہوجا تا ہوں (آنکھوں میں نمی آگئی) کیوںکہ آہستہ آہستہ وہ میری آنکھوں کے سامنے ختم ہوتی جارہی تھیں۔ وہ لندن میں بیماری کے دوران دو سال میرے پاس رہیں۔ میں شاید نازیہ کے خلا کو کبھی بھی پر نہ کرسکوں۔
سوال: کسی فلم یا ڈرامے میں اداکاری کی پیش کش ہوئی تو کیا جواب ہوگا؟
زوہیب حسن: بنیادی طور پر اداکاری میرا شعبہ نہیں ہے، اور نہ ہی کبھی اس حوالے سے سنجیدگی سے کبھی سوچا، نہ ہی مجھے اداکاری میں کوئی دل چسپی ہے۔ میرا خیال ہے کہ سیانے لوگوں کا یہ مقولہ صحیح ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ دراصل اداکاری کا شعبہ اپنے مزاج کے اعتبار سے بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ میں نے ایک نجی ٹی وی چینل کی ٹی وی سیریل میں اداکاری ضرور کی تھی، مگر اس ڈراما سیریل کا مقصد بھی دراصل اپنے میوزک کو پروموٹ کرنا تھا، مگر اگر آپ کا سوال آئندہ کی اداکاری کے متعلق ہے تو مستقبل میں ٹیلی ویژن یا سلور اسکرین پر میرا کسی فلم یا ٹی وی ڈرامے میں اداکاری کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
سوال: مستقبل میں کیا اپنے بچوں کو میوزک انڈسٹری سے منسلک کروانے کا ارادہ ہے؟
زوہیب حسن: میری دو بیٹیاں ہیں، عالیانہ ماشاء اللہ سولہ سال کی ہوچکی ہے، اس کی آواز بہت اچھی ہے جب کہ چھوٹی بیٹی میاہ تیرہ سال کی ہے، وہ کی بورڈ بڑی مہارت سے بجاتی ہے اور ایسی ایسی دھنیں ترتیب دیتی ہے جن کو سن کر مجھے تو بعض اوقات یہ لگتا ہے کہ وہ کہیں سے کاپی کیے گئے ہیں۔ دونوں بچیوں کو میوزک ورثے میں ملا ہے۔ میں اپنی اولاد کو زبردستی میوزک میں نہیں لے کر آسکتا۔ ہاں اگر ان میں ٹیلنٹ ہے اور وہ اپنے آپ کو منوانے کے لیے سخت محنت کرسکتی ہیں تو پھر میں بھی انھیں ویلکم کروں گا، مگر وہ اگر یہ سوچیں کے ان کے والد زوہیب حسن ہیں اور وہ انھیں پروموٹ کریں گے تو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
سوال: پاکستان میں موسیقی کی زبوںحالی کی آپ کے خیال میں کیا وجوہات ہیں؟
زوہیب حسن: پاکستان میں میوزک انڈسٹری کو میرے خیال میں سب سے زیادہ پائریسی نے نقصان پہنچایا ہے، مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں میوزک کے شعبے میں کچھ تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاید بہت سی جگہوں پر ہم دنیا سے قدم ملا کر نہیں چل سکے۔ پاکستان میں موسیقی کا فن سکھانے والے اداروں کی بھی کمی رہی ہے، جن کی تعداد بڑھنی چاہیے، کیوںکہ موسیقی کی تربیت دینے والے اداروں کا نئی آوازوں کو متعارف کروانے اور موسیقی اور نئے گلوکاروں کی حوصلہ افزائی میں کلیدی کردار ہوتا ہے، کیوںکہ آپ کے پاس کسی بھی شعبے میں اگر عصرِحاضر کے عین مطابق آلات اور مہارت رکھنے والے لوگو ں کا فقدان ہو تو پھر ساتھ نہیں چل سکتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں، ماضی کے مقابلے میں اب گانے والوں اور سننے والوں کے تقاضوں میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ پہلے پورے پورے البم ریلیز ہوتے تھے، مگر اب عموماً گلوکار اکثروبیشتر ایک ویڈیو ریلیز کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ میوزک انڈسٹری پر جو جمود طاری ہے وہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا، پاکستان میں کا نیا ٹیلنٹ ایک امید ہے۔
سوال: نوآموز گلوکاروں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟
زوہیب حسن: پاکستان میں سریلی آوازوں اور فن کی کوئی کمی نہیں ہے۔ گذشتہ برسوں میں پرانے گانے والوں کے ساتھ پاکستان کی میوزک انڈسٹری میں بہت ساری آوازیں ایسی بھی ابھری ہیں جنھوں نے نہ صرف پاکستان بل کہ ملک سے باہر بھی موسیقی سننے والوں کو چونکا دیا ہے۔ تاہم میوزک کے شعبے سے وابستہ ہونے والے نوآموز گلوکار عموماً شارٹ کٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ راتوں رات مشہور ہوکر ایک دم سے بلندی پر پہنچ جائیں، مگر ہوتا یہ ہے کہ اس عجلت کی وجہ سے وہ گلوکار پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دراصل یہ چیزیں وقت لیتی ہیں۔ وہ بچے جو اس فن سے وابستہ ہوئے ہیں اور موسیقی میں نام پیدا کرنا چاہتے ہیں، ان کو چاہیے کہ سخت محنت کو اپنا وطیرہ بنائے، کسی دوسرے گلوکار کا سرقہ یعنی کاپی نہ کریں، اپنا الگ انداز اپناکر لگن سے کام کریں اور خاص طور پر کسی گانے کے فلاپ ہونے ہرگز دل برداشتہ نہ ہوں، کیوںکہ آگ میں جل کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔