سیاسی مخمصہ
کسی بھی سیاسی پارٹی کو اپنے ہی لوگوں کی بے عزتی کرنا ہمیشہ ہی مہنگا پڑا ہے۔
ایم کیو ایم جو پہلے کبھی ناقابل شکست سمجھی جاتی تھی، اب خود اپنے ہی لوگوں سے شکست کھا چکی ہے ۔ قائد کی ایم کیو ایم تو 22 اگست کو ہی اپنے انجام کو پہنچ چکی تھی ، اب فاروق ستارکی ایم کیو ایم بھی دو حصوں میں منقسم ہوکر پی آئی بی اور بہادر آباد گروپوں کی نذر ہوچکی ہے۔ دونوں گروپوں کی بڑھتی ہوئی رقابت نے دونوں کے ہی مستقبل پرسوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا زوال تو اسی دن شروع ہوگیا تھا جس دن لندن سے جاری کیے گئے حکم پر پارٹی کے کچھ سینیٹر اور اپنی زندگیاں ایم کیو ایم کے لیے وقف کردینے والے رہنماؤں کی تذلیل کی گئی اور ان کی خدمات کا صلہ انھیں دھکے مارکردیا گیا ۔ پارٹی کے جانثاروں کے ساتھ ایسا جابرانہ برتاؤ قیادت کی ناقص سوجھ بوجھ کا آئینہ دار تھا ۔اسی دن کئی تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں نے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ اب متحدہ متحد نہیں رہ سکے گی اورکئی گروپوں میں تقسیم ہوکر رہے گی،کسی بھی سیاسی پارٹی کو اپنے ہی لوگوں کی بے عزتی کرنا ہمیشہ ہی مہنگا پڑا ہے۔
یہ اقدام سراسر پارٹی کے مفادات کے خلاف تھا جس سے یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ مہاجر متحدہ کو اپنی صلاحیتوں سے چلارہے تھے ورنہ پارٹی میں رہنمائی کا فقدان تھا اور بالآخر یہ بات بعد میں ثابت بھی ہوگئی جب 22 اگست کو وطن عزیز کے خلاف نعرے لگوائے گئے اور مہاجروں کو ریاست کے خلاف کھڑا کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ۔ یہ وطن پرستی سے سراسر انحراف تھا جسے مہاجروں نے یکسر ناکام بنا دیا تھا ۔
مہاجروں کی حب الوطنی روز روشن کی طرح عیاں ہے وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف کچھ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے، چونکہ وہ بانیان پاکستان کی اولاد ہیں اور یہ پاک سرزمین ان کی بزرگوں کی میراث ہے۔ وہ اس میراث کو بھلا کیسے ہاتھوں تباہ و برباد ہوتا دیکھ سکتے تھے، اگر مہاجروں کو پہلے ہی علم ہوجاتا کہ انھیں ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے استعمال کیا جارہا ہے تو وہ بہت پہلے ہی اپنی راہ جدا کرلیتے ۔
اب مہاجر تیس سال تک اپنی تباہی و بربادی کے پس پشت چلتی رہی، سازش سے آگاہ ہوکر اپنا رشتہ پاکستان زندہ باد سے مضبوطی سے جوڑ چکے ہیں تاہم وہ لوگ جو اس سے بھی پہلے تین مارچ 2016 کو ہی مہاجروں اور وطن کے خلاف سازش کو بھانپ کر ایم کیو ایم سے اپنا رشتہ توڑ کر پاکستان دشمن ایجنڈے کو بے نقاب کرچکے تھے وہ لوگ واقعی قابل ستائش ہیں۔ آج ان کی دلیری اور بے باکی سے ہی ہمت پاکر مہاجر تیس سالہ یرغمالی شکنجے سے باہر آچکے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کا سحر توڑ چکے ہیں ۔
کراچی اور حیدرآباد میں جتنا بھی خون بہا اور مالی نقصان ہوا وہ مہاجروں کا اپنا تھا۔ عوام کی غربت ، بیروزگاری اور کاروبار میں پستی نفرت کی سیاست کے سبب تھی جو وطن عزیز کو دشمن کے لیے تر نوالہ بنانے کے لیے بھی استعمال کی جارہی تھی۔ تاہم اس حالت سے عوام کو نکالنے کا کریڈٹ بلاشبہ مصطفی کمال اور ان کے رفقا کو جاتا ہے۔
ایم کیو ایم واضح طور پر دو دھڑوں میں منقسم ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ صرف ایک شخص ہے جوکامران ٹیسوری کے نام سے موسوم ہیں وہ پہلے منی چینجر تھے بعد میں سونے کے بیوپاری بن گئے۔ یہ زمینوں کا کاروبار بھی کرتے رہے اور اس میں بہت کامیاب رہے انھیں کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی بہت شغف ہے۔
یہ مشرف دور میں سیاست میں داخل ہوئے اور سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کے بہت قریب رہے ارباب غلام رحیم ان سے اتنے قریب تھے کہ جو بھی ان کے قریب جانا چاہتا تھا اسے پہلے کامران ٹیسوری سے رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ ان کی یہ حیثیت ارباب غلام رحیم اور امتیاز شیخ میں اختلافات پیدا ہونے کے بعد ختم ہوگئی کیونکہ ان دونوں کے درمیان اختلاف کی وجہ یہی تھے۔
پیپلزپارٹی کے دور میں سندھ کے اس وقت کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے بدین میں زمینوں پر ناجائز قبضے کے سلسلے میں ان پر مقدمات قائم کیے جن کی وجہ سے انھیں جیل جانا پڑا تھا۔ وہاں سے رہائی کے بعد فنکشنل مسلم لیگ جوائن کرلی اور بہت جلد اس پارٹی میں اعلیٰ مقام حاصل کرلیا مگر وہاں بھی پارٹی کے چوٹی کے رہنماؤں میں ان کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوگئے ۔ چنانچہ انھیں وہاں سے فارغ کردیاگیا۔
اس کے بعد انھوں نے ایم کیو ایم میں جگہ بنانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے چنانچہ سابق گورنر سندھ عشرت العباد کے ذریعے ایم کیو ایم میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر حماد صدیقی، عادل صدیقی اور بابر غوری کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔
بعد میں ایم کیو ایم پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد فاروق ستار کے ذریعے 3 فروری 2017 کو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور فاروق ستار کی نظر کرم سے بہت جلد پارٹی میں اعلیٰ مقام حاصل کرلیا پھر مختصر سی مدت میں ہی صوبائی اسمبلی حلقہ 114 کے ضمنی الیکشن کے لیے امیدوار نامزد کردیے گئے مگر الیکشن میں ناکام رہے اس کے باوجود رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر کے عہدے پر فائز کردیے گئے ان کی اس تیز رفتار ترقی پر پارٹی میں اعتراضات اٹھائے جانے لگے۔
اس مرحلے پر پارٹی میں کافی گرما گرمی ہوئی۔ کامران کو پارٹی کے دیگر پرانے رہنماؤں پر ترجیح دینے پر فاروق ستار پر اعتراضات کی بوچھاڑ کی جانے لگی جس سے وہ ناراض ہوکر اپنے گھر میں بیٹھ گئے جب کہ کامران نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ۔ مگر بعد میں دونوں ہی ماؤں کے منانے پر پارٹی میں واپس آگئے۔
کامران پارٹی کا دو بارہ حصہ تو بن گئے مگر ان کے خلاف لاوا پکتا رہا ساتھ ہی فاروق ستار بھی شک و شبہ کے دائرے میں رہے کہ وہ آخر کامران کوکیوں اتنی اہمیت دے رہے ہیں۔ ایسے میں سینیٹ کے الیکشن قریب آگئے اور یہاں بھی فاروق ستار نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں پر فوقیت دیتے ہوئے کامران کو سینیٹ کے الیکشن کے لیے بھی ہری جھنڈی دکھادی جس پر پوری کی پوری رابطہ کمیٹی فاروق ستار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور نوبت فاروق ستار کو کنوینر شپ سے ہٹانے تک جا پہنچی۔
اب فاروق ستار کی کامران ٹیسوری سے چاہت پوری پارٹی کو لے ڈوبی ہے۔ اب پارٹی پی آئی بی اور بہادر آباد کیمپوں میں بٹ کر عوامی حمایت سے دور ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ اس کی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی رہی ہے۔ اس وقت فاروق ستار قطعی بے اختیار ہوچکے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ کاش وہ مصطفی کمال کی پیشکش کو قبول کرکے دونوں پارٹیوں کو یکجا کرکے ایک نئی پارٹی بنالیتے تو انھیں آج جیسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا تاہم وہ اپنے گروپ کے ساتھ اب بھی پی ایس پی میں شامل ہوجائیں تو یہ ان کے لیے مہنگا سودا نہیں ہوگا۔ اب فاروق ستار رابطہ کمیٹی کی ان کے خلاف کارروائی کو مائنس ٹو فارمولے کا رنگ دے رہے ہیں یعنی کہ الطاف حسین کے بعد اب انھیں نشانہ بناکر پارٹی کو ختم کرنے کی سازش کی گئی ہے۔
مبصرین کا کہناہے کہ فاروق ستار کے اس بیان نے واضح کردیا ہے کہ وہ اب بھی بانی متحدہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب ہی وہ خود کو ان سے جوڑ رہے ہیں اس کے ساتھ ہی مبصرین ان کے کنوینر شپ سے ہٹائے جانے کو اسٹیبلشمنٹ کے بجائے ایم کیو ایم کے اندر کی ہی سازش قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد ایم کیو ایم پاکستان سے عوام کو بد دل کرکے عام انتخابات میں ایم کیو ایم لندن کے آزاد امیدواروں کو کامیابی دلانا ہوسکتا ہے۔
فاروق ستار نے پارٹی پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے اب پارٹی کے نئے انتخابات کا اعلان ضرور کردیا ہے مگر آگے سوائے ٹوٹ پھوٹ کے کچھ نظر نہیں آتا لگتا ہے ، اب ایم کیو ایم کا سفر تمام ہوا۔ اس کی بدولت چند لوگوں کو ضرور فائدہ پہنچا جو اب ارب پتی بن کر باہر بیٹھے ہیں البتہ بے چارے مہاجر آج بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔
ایسے میں تمام ہی سیاسی پارٹیاں سندھ کے شہری عوام کی غم خوار بن کر موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگ گئی ہیں، مگر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اب ایم کیو ایم سے بد دل ہوکر عوام نے مصطفی کمال کی ماضی میں عوامی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ایس پی پر نظر مرکوز کرلی ہیں چنانچہ اب پی ایس پی سندھ کے شہروں میں اہم مقام بناتی اور نفرت کو دفن کرتی نظر آتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا زوال تو اسی دن شروع ہوگیا تھا جس دن لندن سے جاری کیے گئے حکم پر پارٹی کے کچھ سینیٹر اور اپنی زندگیاں ایم کیو ایم کے لیے وقف کردینے والے رہنماؤں کی تذلیل کی گئی اور ان کی خدمات کا صلہ انھیں دھکے مارکردیا گیا ۔ پارٹی کے جانثاروں کے ساتھ ایسا جابرانہ برتاؤ قیادت کی ناقص سوجھ بوجھ کا آئینہ دار تھا ۔اسی دن کئی تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں نے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ اب متحدہ متحد نہیں رہ سکے گی اورکئی گروپوں میں تقسیم ہوکر رہے گی،کسی بھی سیاسی پارٹی کو اپنے ہی لوگوں کی بے عزتی کرنا ہمیشہ ہی مہنگا پڑا ہے۔
یہ اقدام سراسر پارٹی کے مفادات کے خلاف تھا جس سے یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ مہاجر متحدہ کو اپنی صلاحیتوں سے چلارہے تھے ورنہ پارٹی میں رہنمائی کا فقدان تھا اور بالآخر یہ بات بعد میں ثابت بھی ہوگئی جب 22 اگست کو وطن عزیز کے خلاف نعرے لگوائے گئے اور مہاجروں کو ریاست کے خلاف کھڑا کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ۔ یہ وطن پرستی سے سراسر انحراف تھا جسے مہاجروں نے یکسر ناکام بنا دیا تھا ۔
مہاجروں کی حب الوطنی روز روشن کی طرح عیاں ہے وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف کچھ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے، چونکہ وہ بانیان پاکستان کی اولاد ہیں اور یہ پاک سرزمین ان کی بزرگوں کی میراث ہے۔ وہ اس میراث کو بھلا کیسے ہاتھوں تباہ و برباد ہوتا دیکھ سکتے تھے، اگر مہاجروں کو پہلے ہی علم ہوجاتا کہ انھیں ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے استعمال کیا جارہا ہے تو وہ بہت پہلے ہی اپنی راہ جدا کرلیتے ۔
اب مہاجر تیس سال تک اپنی تباہی و بربادی کے پس پشت چلتی رہی، سازش سے آگاہ ہوکر اپنا رشتہ پاکستان زندہ باد سے مضبوطی سے جوڑ چکے ہیں تاہم وہ لوگ جو اس سے بھی پہلے تین مارچ 2016 کو ہی مہاجروں اور وطن کے خلاف سازش کو بھانپ کر ایم کیو ایم سے اپنا رشتہ توڑ کر پاکستان دشمن ایجنڈے کو بے نقاب کرچکے تھے وہ لوگ واقعی قابل ستائش ہیں۔ آج ان کی دلیری اور بے باکی سے ہی ہمت پاکر مہاجر تیس سالہ یرغمالی شکنجے سے باہر آچکے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کا سحر توڑ چکے ہیں ۔
کراچی اور حیدرآباد میں جتنا بھی خون بہا اور مالی نقصان ہوا وہ مہاجروں کا اپنا تھا۔ عوام کی غربت ، بیروزگاری اور کاروبار میں پستی نفرت کی سیاست کے سبب تھی جو وطن عزیز کو دشمن کے لیے تر نوالہ بنانے کے لیے بھی استعمال کی جارہی تھی۔ تاہم اس حالت سے عوام کو نکالنے کا کریڈٹ بلاشبہ مصطفی کمال اور ان کے رفقا کو جاتا ہے۔
ایم کیو ایم واضح طور پر دو دھڑوں میں منقسم ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ صرف ایک شخص ہے جوکامران ٹیسوری کے نام سے موسوم ہیں وہ پہلے منی چینجر تھے بعد میں سونے کے بیوپاری بن گئے۔ یہ زمینوں کا کاروبار بھی کرتے رہے اور اس میں بہت کامیاب رہے انھیں کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی بہت شغف ہے۔
یہ مشرف دور میں سیاست میں داخل ہوئے اور سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کے بہت قریب رہے ارباب غلام رحیم ان سے اتنے قریب تھے کہ جو بھی ان کے قریب جانا چاہتا تھا اسے پہلے کامران ٹیسوری سے رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ ان کی یہ حیثیت ارباب غلام رحیم اور امتیاز شیخ میں اختلافات پیدا ہونے کے بعد ختم ہوگئی کیونکہ ان دونوں کے درمیان اختلاف کی وجہ یہی تھے۔
پیپلزپارٹی کے دور میں سندھ کے اس وقت کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے بدین میں زمینوں پر ناجائز قبضے کے سلسلے میں ان پر مقدمات قائم کیے جن کی وجہ سے انھیں جیل جانا پڑا تھا۔ وہاں سے رہائی کے بعد فنکشنل مسلم لیگ جوائن کرلی اور بہت جلد اس پارٹی میں اعلیٰ مقام حاصل کرلیا مگر وہاں بھی پارٹی کے چوٹی کے رہنماؤں میں ان کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوگئے ۔ چنانچہ انھیں وہاں سے فارغ کردیاگیا۔
اس کے بعد انھوں نے ایم کیو ایم میں جگہ بنانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے چنانچہ سابق گورنر سندھ عشرت العباد کے ذریعے ایم کیو ایم میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر حماد صدیقی، عادل صدیقی اور بابر غوری کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔
بعد میں ایم کیو ایم پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد فاروق ستار کے ذریعے 3 فروری 2017 کو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور فاروق ستار کی نظر کرم سے بہت جلد پارٹی میں اعلیٰ مقام حاصل کرلیا پھر مختصر سی مدت میں ہی صوبائی اسمبلی حلقہ 114 کے ضمنی الیکشن کے لیے امیدوار نامزد کردیے گئے مگر الیکشن میں ناکام رہے اس کے باوجود رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر کے عہدے پر فائز کردیے گئے ان کی اس تیز رفتار ترقی پر پارٹی میں اعتراضات اٹھائے جانے لگے۔
اس مرحلے پر پارٹی میں کافی گرما گرمی ہوئی۔ کامران کو پارٹی کے دیگر پرانے رہنماؤں پر ترجیح دینے پر فاروق ستار پر اعتراضات کی بوچھاڑ کی جانے لگی جس سے وہ ناراض ہوکر اپنے گھر میں بیٹھ گئے جب کہ کامران نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ۔ مگر بعد میں دونوں ہی ماؤں کے منانے پر پارٹی میں واپس آگئے۔
کامران پارٹی کا دو بارہ حصہ تو بن گئے مگر ان کے خلاف لاوا پکتا رہا ساتھ ہی فاروق ستار بھی شک و شبہ کے دائرے میں رہے کہ وہ آخر کامران کوکیوں اتنی اہمیت دے رہے ہیں۔ ایسے میں سینیٹ کے الیکشن قریب آگئے اور یہاں بھی فاروق ستار نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں پر فوقیت دیتے ہوئے کامران کو سینیٹ کے الیکشن کے لیے بھی ہری جھنڈی دکھادی جس پر پوری کی پوری رابطہ کمیٹی فاروق ستار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور نوبت فاروق ستار کو کنوینر شپ سے ہٹانے تک جا پہنچی۔
اب فاروق ستار کی کامران ٹیسوری سے چاہت پوری پارٹی کو لے ڈوبی ہے۔ اب پارٹی پی آئی بی اور بہادر آباد کیمپوں میں بٹ کر عوامی حمایت سے دور ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ اس کی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی رہی ہے۔ اس وقت فاروق ستار قطعی بے اختیار ہوچکے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ کاش وہ مصطفی کمال کی پیشکش کو قبول کرکے دونوں پارٹیوں کو یکجا کرکے ایک نئی پارٹی بنالیتے تو انھیں آج جیسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا تاہم وہ اپنے گروپ کے ساتھ اب بھی پی ایس پی میں شامل ہوجائیں تو یہ ان کے لیے مہنگا سودا نہیں ہوگا۔ اب فاروق ستار رابطہ کمیٹی کی ان کے خلاف کارروائی کو مائنس ٹو فارمولے کا رنگ دے رہے ہیں یعنی کہ الطاف حسین کے بعد اب انھیں نشانہ بناکر پارٹی کو ختم کرنے کی سازش کی گئی ہے۔
مبصرین کا کہناہے کہ فاروق ستار کے اس بیان نے واضح کردیا ہے کہ وہ اب بھی بانی متحدہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب ہی وہ خود کو ان سے جوڑ رہے ہیں اس کے ساتھ ہی مبصرین ان کے کنوینر شپ سے ہٹائے جانے کو اسٹیبلشمنٹ کے بجائے ایم کیو ایم کے اندر کی ہی سازش قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد ایم کیو ایم پاکستان سے عوام کو بد دل کرکے عام انتخابات میں ایم کیو ایم لندن کے آزاد امیدواروں کو کامیابی دلانا ہوسکتا ہے۔
فاروق ستار نے پارٹی پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے اب پارٹی کے نئے انتخابات کا اعلان ضرور کردیا ہے مگر آگے سوائے ٹوٹ پھوٹ کے کچھ نظر نہیں آتا لگتا ہے ، اب ایم کیو ایم کا سفر تمام ہوا۔ اس کی بدولت چند لوگوں کو ضرور فائدہ پہنچا جو اب ارب پتی بن کر باہر بیٹھے ہیں البتہ بے چارے مہاجر آج بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔
ایسے میں تمام ہی سیاسی پارٹیاں سندھ کے شہری عوام کی غم خوار بن کر موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگ گئی ہیں، مگر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اب ایم کیو ایم سے بد دل ہوکر عوام نے مصطفی کمال کی ماضی میں عوامی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ایس پی پر نظر مرکوز کرلی ہیں چنانچہ اب پی ایس پی سندھ کے شہروں میں اہم مقام بناتی اور نفرت کو دفن کرتی نظر آتی ہے۔