ایران نے چابہار کا انتظام بھارت کے حوالے کر دیا
بھارت اس راستے سے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست افغانستان پہنچ سکتا ہے۔
گوادر کی بندرگاہ کو پاکستان کے لیے گیم چینجر منصوبے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا جس کے ذریعے اس کی نہ صرف مشرق وسطی بلکہ وسطی ایشیا تک رسائی آسان ہو سکتی تھی جس کے بعد پاکستان کے لیے دنیا بھر کی نعمتوں کا حصول ممکن ہو جاتا مگر اب اس معاملے میں ایک نیا موڑ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ ایران نے چا بہار بندر گاہ 18 ماہ کے لیے بھارت کو لیز پر دیدی ہے۔
ایران نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا آپریشنل کنٹرول بھارت کے سپرد کرنے سمیت 9 معاہدوں پر دستخط کر دیے ہیں۔ دونوں ملکوں کی جانب سے دہشتگردانہ عناصر کو روکنے کے عزم کا اظہارکیا گیا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے گزشتہ روز نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں اور علاقے سے دہشتگردی کا مسئلہ ختم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن دہشتگردی کو کسی مذہب سے منسوب نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایرانی چا بہار بندرگاہ پاکستان کی گوادر پورٹ سے صرف 90 کلومیٹر دور ہے، اس معاہدے کے تحت بھارت کو 18 مہینوں کے لیے بندرگاہ کے پہلے فیز کا آپریشنل کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ چابہار بندرگاہ میں بھارت کی خاص دلچسپی ہے کیونکہ اس راستے سے وہ پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست افغانستان پہنچ سکتا ہے۔
بھارت افغانستان اور ایران نے گزشتہ برس اس سلسلے میں ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے اور بھارت نے افغانستان کو گندم سپلائی کرنے کے لیے اسی راستے کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
دوآزاد اور خود مختار ملکوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کو مدنظررکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ جیسے چاہیں تعلقات رکھ سکتے ہیں تاہم پاکستان کو اس صورت حال میں اپنی اسٹرٹیجی ضرور بنانی چاہیے کیونکہ پاکستان ان دونوں ملکوں کے درمیان میں ہے' اگر اس خطے کی جغرافیائی صورت حال کو دیکھیں تو پاکستان تین ایسے ملکوں کے درمیان واقع ہے جس میں سے دو یعنی بھارت اور افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں جب کہ بھارت' ایران اور افغانستان تجارتی' کاروباری اور اسٹرٹیجک رشتوں میں بندھتے چلے جا رہے ہیں' ایسی صورت حال میں پاکستان کو اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی تاکہ وطن عزیزکے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
ایران نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا آپریشنل کنٹرول بھارت کے سپرد کرنے سمیت 9 معاہدوں پر دستخط کر دیے ہیں۔ دونوں ملکوں کی جانب سے دہشتگردانہ عناصر کو روکنے کے عزم کا اظہارکیا گیا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے گزشتہ روز نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں اور علاقے سے دہشتگردی کا مسئلہ ختم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن دہشتگردی کو کسی مذہب سے منسوب نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایرانی چا بہار بندرگاہ پاکستان کی گوادر پورٹ سے صرف 90 کلومیٹر دور ہے، اس معاہدے کے تحت بھارت کو 18 مہینوں کے لیے بندرگاہ کے پہلے فیز کا آپریشنل کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ چابہار بندرگاہ میں بھارت کی خاص دلچسپی ہے کیونکہ اس راستے سے وہ پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست افغانستان پہنچ سکتا ہے۔
بھارت افغانستان اور ایران نے گزشتہ برس اس سلسلے میں ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے اور بھارت نے افغانستان کو گندم سپلائی کرنے کے لیے اسی راستے کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
دوآزاد اور خود مختار ملکوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کو مدنظررکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ جیسے چاہیں تعلقات رکھ سکتے ہیں تاہم پاکستان کو اس صورت حال میں اپنی اسٹرٹیجی ضرور بنانی چاہیے کیونکہ پاکستان ان دونوں ملکوں کے درمیان میں ہے' اگر اس خطے کی جغرافیائی صورت حال کو دیکھیں تو پاکستان تین ایسے ملکوں کے درمیان واقع ہے جس میں سے دو یعنی بھارت اور افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں جب کہ بھارت' ایران اور افغانستان تجارتی' کاروباری اور اسٹرٹیجک رشتوں میں بندھتے چلے جا رہے ہیں' ایسی صورت حال میں پاکستان کو اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی تاکہ وطن عزیزکے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔