شارع فیصل پر مقابلے کے دوران شہری کی ہلاکت کا مقدمہ 4 اہلکاروں کیخلاف درج
مقدمہ میں اے ایس آئی طارق، پولیس کانسٹیبل عبدالوحید،شوکت علی اور اکبر نامزد کر دیے گئے
LONDON:
شارع فیصل پر پولیس مقابلے کے دوران ہلاک ہونے والے مقصود کے اہل خانہ کی درخواست پر 4 پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
20 جنوری کو شارع فیصل پر فضائیہ ڈگری کالج کے قریب پولیس مقابلے کے دوران مقصود نامی شہری جاں بحق ہوگیا تھا جبکہ دو ڈاکو زخمی ہوئے تھے ، ابتدا میں پولیس نے اسے ہی ڈاکو قرار دیا لیکن بعد میں جب صورتحال کلیئر ہوئی تو پولیس نے اسے عام شہری تسلیم کرلیا، زخمی ہونے والے2 ڈاکوئوں میں سے بھی ایک ڈاکو چند روز اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔
پولیس نے واقعے کا مقدمہ سرکاری مدعیت میں پولیس مقابلے کی دفعات کے تحت درج کرلیا تھا لیکن واقعے کے بعد سے اہل خانہ مضطرب تھے ، ان کا کہنا تھا کہ مقصود پیشے کے اعتبار سے ٹیلر ماسٹر تھا جبکہ وہ 6 بہنوں کا اکلوتا بھائی اور گھر کا واحد کفیل تھا ، اس کی چند روز بعد شادی طے تھی جس کے باعث خوشیوں بھرا گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوگیا تھا، اس کا آبائی تعلق ساہیوال سے تھا۔
اہل خانہ نے واقعے کے فوراً بعد ہی سی سی ٹی وی فوٹیج کا تقاضہ کیا جبکہ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ مقصود پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کے باعث ہلاک ہوا ، ان کا مطالبہ تھا کہ پولیس اہلکاروں اور ڈاکوئوں کے اسلحے کی فارنسک کرائی جائے تاکہ اصل حقائق معلوم ہو سکیں۔
پولیس نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے واقعے کے عینی شاہد رکشا میں سوار مسافر کا وڈیو بیان جاری کر دیا جس میں اس نے بتایا تھا کہ رکشا نہ روکنے پر ڈاکوئوں نے فائرنگ کردی تھی، ساہیوال میں تدفین کے بعد کراچی واپس آکر اہل خانہ نے ایف آئی آر کے لیے تھانے میں درخواست بھی دی تھی لیکن پولیس نے محض درخواست وصول کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا جس کے بعد ورثا نے عدالت سے رجوع کرلیا اور عدالت نے ہفتہ کو حکم دیا کہ ورثا کے بیان کے مطابق ایف آئی آر درج کی جائے۔
بعدازاں اتوار کو شارع فیصل تھانے میں مقصود کے والد شیر محمد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا جس میں اے ایس آئی طارق خان، پولیس کانسٹیبل عبدالوحید، کانسٹیبل شوکت علی اور کانسٹیبل اکبر خان کو نامزد کیا گیا ہے، یہ چاروں پولیس افسران و اہلکار مقابلے میں شریک تھے۔
واضح رہے کہ مقدمہ قتل کی دفعہ 302 کے تحت درج کیا گیا ہے تاہم یہ مقدمہ درج ہونے کے بعد شارع فیصل پر ہونے والے مقابلے کے مقدمات کی تعداد دو ہوگئی ہے۔
شارع فیصل پر پولیس مقابلے کے دوران ہلاک ہونے والے مقصود کے اہل خانہ کی درخواست پر 4 پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
20 جنوری کو شارع فیصل پر فضائیہ ڈگری کالج کے قریب پولیس مقابلے کے دوران مقصود نامی شہری جاں بحق ہوگیا تھا جبکہ دو ڈاکو زخمی ہوئے تھے ، ابتدا میں پولیس نے اسے ہی ڈاکو قرار دیا لیکن بعد میں جب صورتحال کلیئر ہوئی تو پولیس نے اسے عام شہری تسلیم کرلیا، زخمی ہونے والے2 ڈاکوئوں میں سے بھی ایک ڈاکو چند روز اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔
پولیس نے واقعے کا مقدمہ سرکاری مدعیت میں پولیس مقابلے کی دفعات کے تحت درج کرلیا تھا لیکن واقعے کے بعد سے اہل خانہ مضطرب تھے ، ان کا کہنا تھا کہ مقصود پیشے کے اعتبار سے ٹیلر ماسٹر تھا جبکہ وہ 6 بہنوں کا اکلوتا بھائی اور گھر کا واحد کفیل تھا ، اس کی چند روز بعد شادی طے تھی جس کے باعث خوشیوں بھرا گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوگیا تھا، اس کا آبائی تعلق ساہیوال سے تھا۔
اہل خانہ نے واقعے کے فوراً بعد ہی سی سی ٹی وی فوٹیج کا تقاضہ کیا جبکہ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ مقصود پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کے باعث ہلاک ہوا ، ان کا مطالبہ تھا کہ پولیس اہلکاروں اور ڈاکوئوں کے اسلحے کی فارنسک کرائی جائے تاکہ اصل حقائق معلوم ہو سکیں۔
پولیس نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے واقعے کے عینی شاہد رکشا میں سوار مسافر کا وڈیو بیان جاری کر دیا جس میں اس نے بتایا تھا کہ رکشا نہ روکنے پر ڈاکوئوں نے فائرنگ کردی تھی، ساہیوال میں تدفین کے بعد کراچی واپس آکر اہل خانہ نے ایف آئی آر کے لیے تھانے میں درخواست بھی دی تھی لیکن پولیس نے محض درخواست وصول کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا جس کے بعد ورثا نے عدالت سے رجوع کرلیا اور عدالت نے ہفتہ کو حکم دیا کہ ورثا کے بیان کے مطابق ایف آئی آر درج کی جائے۔
بعدازاں اتوار کو شارع فیصل تھانے میں مقصود کے والد شیر محمد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا جس میں اے ایس آئی طارق خان، پولیس کانسٹیبل عبدالوحید، کانسٹیبل شوکت علی اور کانسٹیبل اکبر خان کو نامزد کیا گیا ہے، یہ چاروں پولیس افسران و اہلکار مقابلے میں شریک تھے۔
واضح رہے کہ مقدمہ قتل کی دفعہ 302 کے تحت درج کیا گیا ہے تاہم یہ مقدمہ درج ہونے کے بعد شارع فیصل پر ہونے والے مقابلے کے مقدمات کی تعداد دو ہوگئی ہے۔