لے سانس بھی آہستہ
عمر بھر میں اندازہ یہ ہے کہ پانچ ارب مرتبہ پھیپھڑوں کو پھلایا جاتا ہے، پھیپھڑوں میں بیک وقت اٹھارہ گیلن کھینچی۔۔۔
کالم کی ابتدا میں یہ باور کرادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ احقر کو کسی طور پر بھی روحانی و مخفی علوم کا ماہر نہ سمجھا جائے، جیسا کہ گزشتہ دنوں متواتر ایسی فون کالز اور ای میل موصول ہوئی ہیں جن میں اس کالم کے پڑھنے والوں نے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔
آپ کے جذبات اور احترام کا تہہ دل سے مشکور ہوں لیکن جیسا کہ گزشتہ کالموں میں بھی وضاحت کی جاچکی ہے کہ یہ کالم عاشق حسین البدوی مرحوم کی یاد میں اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا اور اب بھی مطمع نظر محض علم کے پیاسوں کو نفسیات و مابعد نفسیات کے موضوع پر معلومات فراہم کرنا ہے، یہ معلومات وہ مستند کتابوں اور شخصیات کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور آزمودہ ہیں۔ ہم نے جب ان مشقوں کی ذاتی طور پر ابتدا کی تو مطمع نظر کبھی بھی روحانی یا خفیہ علوم کا حصول نہیں رہا اور ہم اپنے قارئین کو بھی یہی مشورہ دیں گے کہ وہ ان مشقوں کو تنظیم شخصیت و کردار سازی کے تناظر میں دیکھیں، یہ اور بات کہ بلاشبہ یہ مشقیں کثیر جہتی فوائد کی حامل ہیں۔
تنظیم شخصیت و کردار سازی کے حوالے سے سانس کی مشقوں کے فوائد پر سیر حاصل بحث کی جاچکی ہے اور ''مشق تنفس نور'' کا احوال بھی بیان کرچکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی سانس کی سادہ مشق کے فوائد بھی کم نہیں ہیں۔ ہم سانس کے ذریعے آکسیجن جسم میں داخل کرتے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ آکسیجن کے ذریعے پروٹو پلازم (مادہ حیات) کی تکسید ہو کر توانائی پیدا ہوتی ہے، سانس کے عمل میں ناک، نگلنے کی جگہ، حنجرہ اور پھیپھڑے سب کے سب حصہ لیتے ہیں۔ ناک کا اندرونی حصہ ایک منفی ہڈی کے ذریعے دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ دونوں حصے سانس کے ذریعے اندر جانے والی ہوا گرم کرنے کی خدمت انجام دیتے ہیں۔
ان حصوں کی ہڈیوں کے گرد ایسی بافتیں ہوتی ہیں جنھیں خون کافی تعداد میں بہم پہنچایا جاتا ہے۔ جب سانس (ناک کے اندر) ان بافتوں کے اندر سے گزرتا ہے تو گرم ہو کر ریڈی ایٹر (آلہ حرارت آفریں) کا کام انجام دیتی ہیں۔ موسم سرد ہو تو خون کی شریانیں پھیل کر زیادہ حرارت پیدا کرنے لگتی ہیں۔ موسم گرما ہو تو برعکس عمل ہوتا ہے۔ ہوا میں گیسوں کے ساتھ مختلف ذرات اور جراثیم شامل ہوتے ہیں، یہ اگر پھیپھڑوں میں داخل ہوجائیں تو اسے ناکارہ کردیتے ہیں، ناک کی چھلنی سانس کے ذریعے کھینچے جانے والی ہوا کو گرد و غبار اور جراثیم سے صاف کرکے پھیپھڑے کے اندر بھیجتی ہے۔
ناک کے اندرونی استر پر باریک باریک بال ہوتے ہیں۔ گرد کے بڑے ذرّے ان ہی میں اٹک کر رہ جاتے ہیں، ننھے ذرات کو ہوا کی نالیوں میں صاف کیا جاتا ہے۔ ناک کی نالیوں میں چند غدود ہیں جن سے لیس دار مادہ خارج ہوتا رہتا ہے۔ اس مادہ کا فعل اس کاغذ سے مشابہ ہے جس پر بیٹھتے ہی مکھیاں چپک جاتی ہیں۔ اسی طرح ننھے منے مہلک ذرات ناک کی نالیوں کے غدود کے لیس دار مادہ سے چپک کر رہ جاتے ہیں اور پھیپھڑوں میں صاف شفاف ہوا داخل ہوتی ہے۔ ہم ایک منٹ میں 14 سے 18 مرتبہ سانس لیتے ہیں، ہر سانس میں 1/8 گیلن ہوا یعنی ایک منٹ میں اوسطاً دو گیلن ہوا پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہیں۔
عمر بھر میں اندازہ یہ ہے کہ پانچ ارب مرتبہ پھیپھڑوں کو پھلایا جاتا ہے، پھیپھڑوں میں بیک وقت اٹھارہ گیلن کھینچی ہوئی ہوا سما سکتی ہے۔ لیکن ہم صرف دو گیلن فی منٹ پر قانع رہتے ہیں۔ یہ حقیقت کتنی افسوسناک ہے۔ پھیپھڑوں میں ہوا داخل ہوتی ہے تو پھول جاتے اور خارج ہوتی ہے تو سکڑ جاتے ہیں اور زندگی بھر یہ خودکار قدرتی مشین اسی طرح کام کرتی ہے۔ جتنی زیادہ آکسیجن پھیپھڑوں میں سمائے گی، اتنی ہی زیادہ روح حیات (جس کا تفصیلاً ذکر گزشتہ کالم میں کیا جاچکا ہے) ہم اپنے اندر جذب کرسکیں گے۔ ایک مرتبہ پھر ان حقیقتوں پر غور کیجیے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اگر نور کے بغیر بھی مشق تنفس نور کی جائے تو کتنی مفید ثابت ہوگی۔
سانس کی ابتدائی مشق جس سے اس نصاب کا آغاز ہوتا ہے، یہ ہے کہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیے۔ کمر، گردن اور پشت ایک سیدھ میں کرلیں۔ اس طرح بیٹھ کر آنکھیں اور ہونٹ بند کرلیں اور ناک کے سوراخوں سے جتنی دیر میں سانس کھینچیں، اتنی ہی دیر سینے میں روکیں اور اتنی ہی دیر میں ناک کے راستے خارج کردیں۔ بہتر یہ ہے کہ تمام مشقیں شمال کی طرف منہ اور جنوب کی طرف پشت کرکے کی جائیں۔ شمال رویہ مشق کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے درمیان جو برقی مقناطیسی لہریں چلتی رہتی ہیں وہ سانس کی رو میں شامل ہوجاتی ہیں ۔
(2) ہونٹوں کی وہ شکل بنائیے جو بوسہ یا سیٹی بجاتے وقت قدرتی طور پر بن جاتی ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ سانس کو باہر نکال دیں اور پھر کچھ دیر رک کر ناک کے سوراخوں سے ہوا خارج کردیں، پھر ہونٹوں سے سانس لیں اور ناک سے نکالیں۔ یہ عمل (ہونٹوں سے سانس خارج کرنا اور ناک کے راستے کھینچنا) خون کی صفائی کے لیے بے حد مفید ہے۔ پھر اس کے برعکس کریں، یعنی ہونٹوں سے سانس ہولے ہولے کھینچیں اور ناک سے دھیرے دھیرے نکال دیں۔ ہر بار ایسا ہی کریں۔
(3) آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں اور نظریں ناک کی نوک پر جمادیں اور کوشش کریں کہ خیال اور توجہ کی تمام قوت نظروں کے ساتھ ناک کی نوک پر مرکوز ہوجائے، اس عالم میں ناک کے سوراخوں سے سانس اندر کھینچتے اور اسی راستے سے خارج کرتے رہیے۔
(4) دوزانو آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں اور نظریں ناف پر جما کر زبان تالو سے لگا لیجیے، منہ بند رہنا چاہیے اور ناک کے راستے سانس اندر کھینچ کر سینے میں روک لینا چاہیے۔ جب جی گھبرانے لگے تو ناک کے راستے خارج کردیں۔
(5) صبح و شام ننگے پائوں گھاس پر چلیں، کمر و گردن میں ٹیڑھ نہ ہو۔ چند قدم چلتے ہوئے ناک کے راستے سانس اندر کھینچیے، روک لیں اور پھر ناک کے راستے خارج کردیجیے۔ سانس کھینچتے، روکتے اور نکالتے وقت آہستہ آہستہ سر اٹھا کر چلتے رہیں، قدم روکنے کی ضرورت نہیں۔
بھرپور سانس وہ ہے جس میں پھیپھڑے، سینہ اور پیٹ ہوا سے بھر جائیں، بھرپور سانس کے معنی ہیں بھرپور حیات! اور جسے یہ دولت میسر ہے اسے اور کس نعمت و دولت کی تمنا ہوسکتی ہے۔ دھونکنی کی طرح تیز تیز سانس لینا بھی جسمانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ اس مشق میں آدمی پسینے میں نہا جاتا ہے، دوران مشق پسینہ آنا، مخفی قوت کی بیداری کی علامت ہے۔ سیدھے بیٹھ کر یا سیدھے کھڑے ہو کر، جس قدر نرمی اور آہستگی کے ساتھ ممکن ہو، بھرپور سانس ناک کے راستے کھینچیے اور جتنی دیر ممکن ہو سینے میں روکیں اور پھر ہونٹوں کو گول کرکے (جس طرح سیٹی بجاتے ہیں) اندر کی تمام گندی ہوا کو باہر نکالیے، مگر رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر اور تھم تھم کر! گویا سانس خارج کرنے کا عمل قسطوں میں ہونا چاہیے۔
مشق تنفس کے طالب علم کو سانس کے ادخال اور اخراج کی مدت میں رفتہ رفتہ اضافہ کرنا چاہیے ورنہ اعصابی نظام کو سخت نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔ شروع میں سانس کھینچنے کی مدت آٹھ سیکنڈ، روکنے کی مدت آٹھ سیکنڈ اور خارج کرنے کی مدت بھی آٹھ سیکنڈ ہو تو بہتر ہے۔ چالیس روز کے بعد سانس کھینچنے کی مدت دس سیکنڈ، روکنے کی مدت بیس سیکنڈ اور خارج کرنے کی مدت دس سیکنڈ۔ قابل اطمینان طریق کار یہ ہے کہ تمام مشقیں کسی ماہر فن کی نگرانی میں کی جائیں، بطور خود کسی شخص کو یہ کوشش ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔
(نوٹ:پرانے آرٹیکل پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.faceboock.com/shayan.tamseel)
آپ کے جذبات اور احترام کا تہہ دل سے مشکور ہوں لیکن جیسا کہ گزشتہ کالموں میں بھی وضاحت کی جاچکی ہے کہ یہ کالم عاشق حسین البدوی مرحوم کی یاد میں اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا اور اب بھی مطمع نظر محض علم کے پیاسوں کو نفسیات و مابعد نفسیات کے موضوع پر معلومات فراہم کرنا ہے، یہ معلومات وہ مستند کتابوں اور شخصیات کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور آزمودہ ہیں۔ ہم نے جب ان مشقوں کی ذاتی طور پر ابتدا کی تو مطمع نظر کبھی بھی روحانی یا خفیہ علوم کا حصول نہیں رہا اور ہم اپنے قارئین کو بھی یہی مشورہ دیں گے کہ وہ ان مشقوں کو تنظیم شخصیت و کردار سازی کے تناظر میں دیکھیں، یہ اور بات کہ بلاشبہ یہ مشقیں کثیر جہتی فوائد کی حامل ہیں۔
تنظیم شخصیت و کردار سازی کے حوالے سے سانس کی مشقوں کے فوائد پر سیر حاصل بحث کی جاچکی ہے اور ''مشق تنفس نور'' کا احوال بھی بیان کرچکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی سانس کی سادہ مشق کے فوائد بھی کم نہیں ہیں۔ ہم سانس کے ذریعے آکسیجن جسم میں داخل کرتے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ آکسیجن کے ذریعے پروٹو پلازم (مادہ حیات) کی تکسید ہو کر توانائی پیدا ہوتی ہے، سانس کے عمل میں ناک، نگلنے کی جگہ، حنجرہ اور پھیپھڑے سب کے سب حصہ لیتے ہیں۔ ناک کا اندرونی حصہ ایک منفی ہڈی کے ذریعے دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ دونوں حصے سانس کے ذریعے اندر جانے والی ہوا گرم کرنے کی خدمت انجام دیتے ہیں۔
ان حصوں کی ہڈیوں کے گرد ایسی بافتیں ہوتی ہیں جنھیں خون کافی تعداد میں بہم پہنچایا جاتا ہے۔ جب سانس (ناک کے اندر) ان بافتوں کے اندر سے گزرتا ہے تو گرم ہو کر ریڈی ایٹر (آلہ حرارت آفریں) کا کام انجام دیتی ہیں۔ موسم سرد ہو تو خون کی شریانیں پھیل کر زیادہ حرارت پیدا کرنے لگتی ہیں۔ موسم گرما ہو تو برعکس عمل ہوتا ہے۔ ہوا میں گیسوں کے ساتھ مختلف ذرات اور جراثیم شامل ہوتے ہیں، یہ اگر پھیپھڑوں میں داخل ہوجائیں تو اسے ناکارہ کردیتے ہیں، ناک کی چھلنی سانس کے ذریعے کھینچے جانے والی ہوا کو گرد و غبار اور جراثیم سے صاف کرکے پھیپھڑے کے اندر بھیجتی ہے۔
ناک کے اندرونی استر پر باریک باریک بال ہوتے ہیں۔ گرد کے بڑے ذرّے ان ہی میں اٹک کر رہ جاتے ہیں، ننھے ذرات کو ہوا کی نالیوں میں صاف کیا جاتا ہے۔ ناک کی نالیوں میں چند غدود ہیں جن سے لیس دار مادہ خارج ہوتا رہتا ہے۔ اس مادہ کا فعل اس کاغذ سے مشابہ ہے جس پر بیٹھتے ہی مکھیاں چپک جاتی ہیں۔ اسی طرح ننھے منے مہلک ذرات ناک کی نالیوں کے غدود کے لیس دار مادہ سے چپک کر رہ جاتے ہیں اور پھیپھڑوں میں صاف شفاف ہوا داخل ہوتی ہے۔ ہم ایک منٹ میں 14 سے 18 مرتبہ سانس لیتے ہیں، ہر سانس میں 1/8 گیلن ہوا یعنی ایک منٹ میں اوسطاً دو گیلن ہوا پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہیں۔
عمر بھر میں اندازہ یہ ہے کہ پانچ ارب مرتبہ پھیپھڑوں کو پھلایا جاتا ہے، پھیپھڑوں میں بیک وقت اٹھارہ گیلن کھینچی ہوئی ہوا سما سکتی ہے۔ لیکن ہم صرف دو گیلن فی منٹ پر قانع رہتے ہیں۔ یہ حقیقت کتنی افسوسناک ہے۔ پھیپھڑوں میں ہوا داخل ہوتی ہے تو پھول جاتے اور خارج ہوتی ہے تو سکڑ جاتے ہیں اور زندگی بھر یہ خودکار قدرتی مشین اسی طرح کام کرتی ہے۔ جتنی زیادہ آکسیجن پھیپھڑوں میں سمائے گی، اتنی ہی زیادہ روح حیات (جس کا تفصیلاً ذکر گزشتہ کالم میں کیا جاچکا ہے) ہم اپنے اندر جذب کرسکیں گے۔ ایک مرتبہ پھر ان حقیقتوں پر غور کیجیے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اگر نور کے بغیر بھی مشق تنفس نور کی جائے تو کتنی مفید ثابت ہوگی۔
سانس کی ابتدائی مشق جس سے اس نصاب کا آغاز ہوتا ہے، یہ ہے کہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیے۔ کمر، گردن اور پشت ایک سیدھ میں کرلیں۔ اس طرح بیٹھ کر آنکھیں اور ہونٹ بند کرلیں اور ناک کے سوراخوں سے جتنی دیر میں سانس کھینچیں، اتنی ہی دیر سینے میں روکیں اور اتنی ہی دیر میں ناک کے راستے خارج کردیں۔ بہتر یہ ہے کہ تمام مشقیں شمال کی طرف منہ اور جنوب کی طرف پشت کرکے کی جائیں۔ شمال رویہ مشق کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے درمیان جو برقی مقناطیسی لہریں چلتی رہتی ہیں وہ سانس کی رو میں شامل ہوجاتی ہیں ۔
(2) ہونٹوں کی وہ شکل بنائیے جو بوسہ یا سیٹی بجاتے وقت قدرتی طور پر بن جاتی ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ سانس کو باہر نکال دیں اور پھر کچھ دیر رک کر ناک کے سوراخوں سے ہوا خارج کردیں، پھر ہونٹوں سے سانس لیں اور ناک سے نکالیں۔ یہ عمل (ہونٹوں سے سانس خارج کرنا اور ناک کے راستے کھینچنا) خون کی صفائی کے لیے بے حد مفید ہے۔ پھر اس کے برعکس کریں، یعنی ہونٹوں سے سانس ہولے ہولے کھینچیں اور ناک سے دھیرے دھیرے نکال دیں۔ ہر بار ایسا ہی کریں۔
(3) آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں اور نظریں ناک کی نوک پر جمادیں اور کوشش کریں کہ خیال اور توجہ کی تمام قوت نظروں کے ساتھ ناک کی نوک پر مرکوز ہوجائے، اس عالم میں ناک کے سوراخوں سے سانس اندر کھینچتے اور اسی راستے سے خارج کرتے رہیے۔
(4) دوزانو آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں اور نظریں ناف پر جما کر زبان تالو سے لگا لیجیے، منہ بند رہنا چاہیے اور ناک کے راستے سانس اندر کھینچ کر سینے میں روک لینا چاہیے۔ جب جی گھبرانے لگے تو ناک کے راستے خارج کردیں۔
(5) صبح و شام ننگے پائوں گھاس پر چلیں، کمر و گردن میں ٹیڑھ نہ ہو۔ چند قدم چلتے ہوئے ناک کے راستے سانس اندر کھینچیے، روک لیں اور پھر ناک کے راستے خارج کردیجیے۔ سانس کھینچتے، روکتے اور نکالتے وقت آہستہ آہستہ سر اٹھا کر چلتے رہیں، قدم روکنے کی ضرورت نہیں۔
بھرپور سانس وہ ہے جس میں پھیپھڑے، سینہ اور پیٹ ہوا سے بھر جائیں، بھرپور سانس کے معنی ہیں بھرپور حیات! اور جسے یہ دولت میسر ہے اسے اور کس نعمت و دولت کی تمنا ہوسکتی ہے۔ دھونکنی کی طرح تیز تیز سانس لینا بھی جسمانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ اس مشق میں آدمی پسینے میں نہا جاتا ہے، دوران مشق پسینہ آنا، مخفی قوت کی بیداری کی علامت ہے۔ سیدھے بیٹھ کر یا سیدھے کھڑے ہو کر، جس قدر نرمی اور آہستگی کے ساتھ ممکن ہو، بھرپور سانس ناک کے راستے کھینچیے اور جتنی دیر ممکن ہو سینے میں روکیں اور پھر ہونٹوں کو گول کرکے (جس طرح سیٹی بجاتے ہیں) اندر کی تمام گندی ہوا کو باہر نکالیے، مگر رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر اور تھم تھم کر! گویا سانس خارج کرنے کا عمل قسطوں میں ہونا چاہیے۔
مشق تنفس کے طالب علم کو سانس کے ادخال اور اخراج کی مدت میں رفتہ رفتہ اضافہ کرنا چاہیے ورنہ اعصابی نظام کو سخت نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔ شروع میں سانس کھینچنے کی مدت آٹھ سیکنڈ، روکنے کی مدت آٹھ سیکنڈ اور خارج کرنے کی مدت بھی آٹھ سیکنڈ ہو تو بہتر ہے۔ چالیس روز کے بعد سانس کھینچنے کی مدت دس سیکنڈ، روکنے کی مدت بیس سیکنڈ اور خارج کرنے کی مدت دس سیکنڈ۔ قابل اطمینان طریق کار یہ ہے کہ تمام مشقیں کسی ماہر فن کی نگرانی میں کی جائیں، بطور خود کسی شخص کو یہ کوشش ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔
(نوٹ:پرانے آرٹیکل پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.faceboock.com/shayan.tamseel)