کرائے کی مائیں
آج بھی حوا کی بیٹی کی حیثیت بازار میں فروخت ہونے والی ایک ایسی جنس کے طور پر ہے۔
بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق یوکرین، جس کا شمار یورپ کے غریب ممالک میں ہوتا ہے، تیزی سے کرائے کی ماؤں (سروگیسی) کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے امیر ممالک کے ایسے جوڑے جو خود کسی وجہ سے بچے پیدا کرنے سے قاصر ہیں، وہ یوکرین کی نوجوان عورتوں کو کرائے پر حاصل کر رہے ہیں۔
بی بی سی نے اپنی خبر میں ایک ایسی لڑکی کا ذکر کیا ہے کہ جو سیکنڈری اسکول سے فارغ ہوکر ایک ہوٹل میں ملازمت کرلیتی ہے اور جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کو کرائے پر دے کر زیادہ پیسے کما سکتی ہے تو وہ زیادہ پیسہ کمانے کے راستے کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ لڑکی کسی غریب گھرانے سے تعلق نہیں رکھتی، مگر اس کا کہنا ہے کہ وہ جب خود کو کرائے پر دے کر بیس ہزار ڈالر کما سکتی ہے تو وہ محض دو سو ڈالر کی ملازمت کیوں کرے۔
خبر کے مطابق اس لڑکی نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت چاہتی ہے تاکہ گھر کی تزئین و آرائش کرسکے اور گاڑی بھی خرید سکے۔ یوکرین میں سروگیسی کا یہ کاروبار عروج پر ہے اور بھارت، نیپال اور تھائی لینڈ وغیرہ سے عورتیں یہاں آرہی ہیں، کیونکہ ان کے ممالک میں اس کاروبار پر پابندی عائد ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق اداکارہ و مصنفہ میرا سیال نے اس موضوع پر اپنا نیا ناول لکھا ہے، جس کا نام ہے ''دی ہاؤس آف ہیڈن مدرز''۔ مصنفہ کے مطابق بھارت میں سروگیسی صنعت کا حجم چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ہے۔ سروگیسی کا امریکا میں خرچہ تقریباً ایک لاکھ ڈالر ہے، جب کہ بھارت جیسے ملک میں محض بیس ڈالر ہے، اسی لیے مغرب سے لوگ مشرق میں جاکر یہ کام کروا رہے ہیں۔
یہ خبریں اپنے اندر بے شمار سوالات رکھتی ہیں اور یہ حقیقت بھی بیان کررہی ہیں کہ آج بھی حوا کی بیٹی کی حیثیت بازار میں فروخت ہونے والی ایک ایسی جنس کے طور پر ہے اور بڑھتی ہوئی مادی ترقی کے ساتھ اس جنس کے استعمال کے بھی نئے پہلو سامنے آرہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب دنیا میں نت نئی ایجادات ہورہی ہیں، دنیا میں انسانی حقوق کی پہلے سے کہیں زیادہ بازگشت سنائی دے رہی ہے تو پھر حضرت انسان خاص کر حوا کی بیٹی کے ماتھے پر کیوں 'برائے فروخت' کا بورڈ لگا ہوا ہے؟ ہر کوئی کیوں دولت کے حصول کے لیے اپنے آپ کو بھی فروخت کرنے پر تلا ہوا ہے؟ یہ تصورات کون دے رہا ہے کہ تمھارے پاس جتنی دولت ہے وہ کم ہے، اور کماؤ، اور کماؤ اور کماتے ہی چلے جاؤ، چاہے انسانی رشتے اور انسانیت ہی شرما جائے؟
آخر کیوں یوکرین کی ایک ایسی دوشیزہ جو غریب گھرانے سے تعلق بھی نہیں رکھتی مگر پھر بھی سیکنڈری اسکول پاس کرتے ہی دولت کمانے کے لیے کسی ہوٹل میں ملازمت کرنے چل نکلتی ہے اور مزید دولت حاصل کرنے کے لیے کرائے کی ماں بننے پر بھی تیار ہے، صرف اس لیے کہ وہ اپنے گھر کو قیمتی اشیاء سے سجا سکے؟ گاڑی خرید سکے؟
ایک اور یورپی ملک میں جب یہ بات سامنے آئی کہ بڑھتے ہوئے جرائم میں بزرگ مجرموں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے تو اس کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیق کی گئی، معلوم ہوا کہ یہ وہ بزرگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کی ملنے والی پنشن میں اچھی اور ٹھاٹ والی زندگی گزر نہیں سکتی، چنانچہ یہ بزرگ کوئی چھوٹا موٹا جرم کرتے ہیں تاکہ جیل چلے جائیں اور کچھ وقت جیل میں مفت کی روٹی کھائیں اور اس عرصے میں جو پنشن جمع ہو، رہا ہونے کے بعد اس سے اچھی زندگی گزاریں۔ گویا ان بزرگوں کو پنشن کی رقم میں بسر کرنے والی سادہ زندگی پسند نہیں بلکہ اس کے بدلے وہ جرائم کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ آگے کی زندگی میں ان کے پاس زیادہ پیسہ ہو اور زندگی مزے میں گزرے۔
حال ہی میں پنجاب صوبے میں ایک اور اسکینڈل سامنے آیا جس میں بہت سی خواتین کی ریڑھ کی ہڈیوں سے ایک خاص قسم کا پانی دھوکا دے کر نکال لیا گیا، جس کے بعد سے ان خواتین کی حالت خراب تر ہوگئی ہے۔ ان خواتین کو مفت میں جہیز دینے کا لالچ دیا گیا تھا، سو اس لالچ میں کہ کچھ مال مل جائے گا انھوں نے بخوشی اپنی کمر سے پانی نکالنے دیا۔
اس سے قبل صوبہ پنجاب ہی سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے اسکینڈل میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ بچوں پر جنسی تشدد کی ویڈیو بنا کر اچھی قیمت پر فروخت کیا جاتا تھا۔ یہ کیسی دولت کی تمنا ہے کہ جو مشرق و مغرب میں انسانیت کی دھجیاں اڑا رہی ہے؟ یہ کیسی ترقی ہے جو ماں جیسے عظیم رتبے کو کرائے کی ماں میں تبدیل کر رہی ہے؟
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج کل ہم سب ہی زیادہ سے زیادہ دھن حاصل کرنے کی دُھن میں لگے ہوئے ہیں اور اس دُھن میں ہم سب انسانیت کو پچھے چھوڑتے جارہے ہیں۔ کس قدر سادہ سی بات ہے کہ ایک سرمایہ دار اپنی پروڈکٹ بنا کر فروخت کرنے کے لیے بازار میں پیش کرتا ہے، اشتہار والے اس پروڈکٹ کا سحر انگیز اور دل کو چھو لینے والا اشتہار بنا ڈالتے ہیں.
میڈیا والے اس اشتہار کو عوام تک پہنچاتے ہیں، عوام اس کے سحر میں کہیں گم ہوجاتے ہیں اور اس پروڈکٹ کو خریدنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور خریداری کے نتیجے میں ایک جانب تو سرمایہ دار کو خوب منافع مل جاتا ہے مگر اس سارے پروسس میں انسان اپنی عظمت کہیں کھو بیٹھتا ہے اور حوا کی بیٹی جس کا مقام عروج ماں جیسے عظیم لفظ تک پہنچنا ہوتا ہے، اپنے مقام سے نیچے گر کر محض 'کرائے کی ماں' تک محدود رہ جاتا ہے۔
ہم سب صبح و شام میڈیا کے توسط سے نت نئی اشیاء سے متعارف ہو رہے ہیں اور میڈیا کے دکھائے جانے والے خوبصورت سپنے دیکھ رہے ہیں اور ان کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے انسانیت کو پامال کر رہے ہیں۔ آج ان ہی سپنوں کی تعبیر حاصل کرنے کی دوڑ میں ایک طالب علم، علم حاصل کرنے کی تمنا اپنے دل میں نہیں رکھتا بلکہ 'جاب اورینٹڈ ڈگری' والے شعبوں میں ہی داخلہ لینے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
والدین بھی اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنے کے بجائے کہیں دور ممالک میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے بھیجنا پسند کرتے ہیں۔ جدید دور کے اس عہد میں یہ کون ہمیں انسانیت کے برخلاف سوچ فراہم کر رہا ہے؟ اور اس میں ریاست کیا کررہی ہے؟ یہ سب بڑے اہم سوال ہیں جن پر ہمیں غور کرنا ہوگا۔ آئیے غور کریں۔
بی بی سی نے اپنی خبر میں ایک ایسی لڑکی کا ذکر کیا ہے کہ جو سیکنڈری اسکول سے فارغ ہوکر ایک ہوٹل میں ملازمت کرلیتی ہے اور جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کو کرائے پر دے کر زیادہ پیسے کما سکتی ہے تو وہ زیادہ پیسہ کمانے کے راستے کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ لڑکی کسی غریب گھرانے سے تعلق نہیں رکھتی، مگر اس کا کہنا ہے کہ وہ جب خود کو کرائے پر دے کر بیس ہزار ڈالر کما سکتی ہے تو وہ محض دو سو ڈالر کی ملازمت کیوں کرے۔
خبر کے مطابق اس لڑکی نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت چاہتی ہے تاکہ گھر کی تزئین و آرائش کرسکے اور گاڑی بھی خرید سکے۔ یوکرین میں سروگیسی کا یہ کاروبار عروج پر ہے اور بھارت، نیپال اور تھائی لینڈ وغیرہ سے عورتیں یہاں آرہی ہیں، کیونکہ ان کے ممالک میں اس کاروبار پر پابندی عائد ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق اداکارہ و مصنفہ میرا سیال نے اس موضوع پر اپنا نیا ناول لکھا ہے، جس کا نام ہے ''دی ہاؤس آف ہیڈن مدرز''۔ مصنفہ کے مطابق بھارت میں سروگیسی صنعت کا حجم چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ہے۔ سروگیسی کا امریکا میں خرچہ تقریباً ایک لاکھ ڈالر ہے، جب کہ بھارت جیسے ملک میں محض بیس ڈالر ہے، اسی لیے مغرب سے لوگ مشرق میں جاکر یہ کام کروا رہے ہیں۔
یہ خبریں اپنے اندر بے شمار سوالات رکھتی ہیں اور یہ حقیقت بھی بیان کررہی ہیں کہ آج بھی حوا کی بیٹی کی حیثیت بازار میں فروخت ہونے والی ایک ایسی جنس کے طور پر ہے اور بڑھتی ہوئی مادی ترقی کے ساتھ اس جنس کے استعمال کے بھی نئے پہلو سامنے آرہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب دنیا میں نت نئی ایجادات ہورہی ہیں، دنیا میں انسانی حقوق کی پہلے سے کہیں زیادہ بازگشت سنائی دے رہی ہے تو پھر حضرت انسان خاص کر حوا کی بیٹی کے ماتھے پر کیوں 'برائے فروخت' کا بورڈ لگا ہوا ہے؟ ہر کوئی کیوں دولت کے حصول کے لیے اپنے آپ کو بھی فروخت کرنے پر تلا ہوا ہے؟ یہ تصورات کون دے رہا ہے کہ تمھارے پاس جتنی دولت ہے وہ کم ہے، اور کماؤ، اور کماؤ اور کماتے ہی چلے جاؤ، چاہے انسانی رشتے اور انسانیت ہی شرما جائے؟
آخر کیوں یوکرین کی ایک ایسی دوشیزہ جو غریب گھرانے سے تعلق بھی نہیں رکھتی مگر پھر بھی سیکنڈری اسکول پاس کرتے ہی دولت کمانے کے لیے کسی ہوٹل میں ملازمت کرنے چل نکلتی ہے اور مزید دولت حاصل کرنے کے لیے کرائے کی ماں بننے پر بھی تیار ہے، صرف اس لیے کہ وہ اپنے گھر کو قیمتی اشیاء سے سجا سکے؟ گاڑی خرید سکے؟
ایک اور یورپی ملک میں جب یہ بات سامنے آئی کہ بڑھتے ہوئے جرائم میں بزرگ مجرموں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے تو اس کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیق کی گئی، معلوم ہوا کہ یہ وہ بزرگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ان کی ملنے والی پنشن میں اچھی اور ٹھاٹ والی زندگی گزر نہیں سکتی، چنانچہ یہ بزرگ کوئی چھوٹا موٹا جرم کرتے ہیں تاکہ جیل چلے جائیں اور کچھ وقت جیل میں مفت کی روٹی کھائیں اور اس عرصے میں جو پنشن جمع ہو، رہا ہونے کے بعد اس سے اچھی زندگی گزاریں۔ گویا ان بزرگوں کو پنشن کی رقم میں بسر کرنے والی سادہ زندگی پسند نہیں بلکہ اس کے بدلے وہ جرائم کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ آگے کی زندگی میں ان کے پاس زیادہ پیسہ ہو اور زندگی مزے میں گزرے۔
حال ہی میں پنجاب صوبے میں ایک اور اسکینڈل سامنے آیا جس میں بہت سی خواتین کی ریڑھ کی ہڈیوں سے ایک خاص قسم کا پانی دھوکا دے کر نکال لیا گیا، جس کے بعد سے ان خواتین کی حالت خراب تر ہوگئی ہے۔ ان خواتین کو مفت میں جہیز دینے کا لالچ دیا گیا تھا، سو اس لالچ میں کہ کچھ مال مل جائے گا انھوں نے بخوشی اپنی کمر سے پانی نکالنے دیا۔
اس سے قبل صوبہ پنجاب ہی سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے اسکینڈل میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ بچوں پر جنسی تشدد کی ویڈیو بنا کر اچھی قیمت پر فروخت کیا جاتا تھا۔ یہ کیسی دولت کی تمنا ہے کہ جو مشرق و مغرب میں انسانیت کی دھجیاں اڑا رہی ہے؟ یہ کیسی ترقی ہے جو ماں جیسے عظیم رتبے کو کرائے کی ماں میں تبدیل کر رہی ہے؟
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج کل ہم سب ہی زیادہ سے زیادہ دھن حاصل کرنے کی دُھن میں لگے ہوئے ہیں اور اس دُھن میں ہم سب انسانیت کو پچھے چھوڑتے جارہے ہیں۔ کس قدر سادہ سی بات ہے کہ ایک سرمایہ دار اپنی پروڈکٹ بنا کر فروخت کرنے کے لیے بازار میں پیش کرتا ہے، اشتہار والے اس پروڈکٹ کا سحر انگیز اور دل کو چھو لینے والا اشتہار بنا ڈالتے ہیں.
میڈیا والے اس اشتہار کو عوام تک پہنچاتے ہیں، عوام اس کے سحر میں کہیں گم ہوجاتے ہیں اور اس پروڈکٹ کو خریدنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور خریداری کے نتیجے میں ایک جانب تو سرمایہ دار کو خوب منافع مل جاتا ہے مگر اس سارے پروسس میں انسان اپنی عظمت کہیں کھو بیٹھتا ہے اور حوا کی بیٹی جس کا مقام عروج ماں جیسے عظیم لفظ تک پہنچنا ہوتا ہے، اپنے مقام سے نیچے گر کر محض 'کرائے کی ماں' تک محدود رہ جاتا ہے۔
ہم سب صبح و شام میڈیا کے توسط سے نت نئی اشیاء سے متعارف ہو رہے ہیں اور میڈیا کے دکھائے جانے والے خوبصورت سپنے دیکھ رہے ہیں اور ان کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے انسانیت کو پامال کر رہے ہیں۔ آج ان ہی سپنوں کی تعبیر حاصل کرنے کی دوڑ میں ایک طالب علم، علم حاصل کرنے کی تمنا اپنے دل میں نہیں رکھتا بلکہ 'جاب اورینٹڈ ڈگری' والے شعبوں میں ہی داخلہ لینے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
والدین بھی اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنے کے بجائے کہیں دور ممالک میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے بھیجنا پسند کرتے ہیں۔ جدید دور کے اس عہد میں یہ کون ہمیں انسانیت کے برخلاف سوچ فراہم کر رہا ہے؟ اور اس میں ریاست کیا کررہی ہے؟ یہ سب بڑے اہم سوال ہیں جن پر ہمیں غور کرنا ہوگا۔ آئیے غور کریں۔