تبدیلی
حقیقی تبدیلی کیا ہوتی ہے اوراس کے لوازمات کیا ہوتے ہیں، یہ صرف تبدیلی کے نعروں سے معلوم نہیں ہوپاتے۔
جمہوریت کا یہ حسن ہے کہ اس کو جب بھی موقع ملتا ہے، یہ اپنا بھر پور رنگ دکھا جاتی ہے، جمہوریت نام ہی آزادی کا ہے اور اس پیدائشی آزادی کو انسان سے کوئی نہیں چھین سکتا البتہ اس کے راستے میں روڑے ضرور اٹکائے جاتے ہیں لیکن جیسے ہی راستے کے یہ پتھرصاف ہوتے ہیں جمہوریت اپنا رنگ دکھا دیتی ہے اور انسانی آزادی کے رنگ چہار سو بکھر جاتے ہیں۔
جمہوریت آزادی ہے اور انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اظہار رائے کا حق حاصل ہے لیکن ہوتا یوں ہے کہ یہ فطری حق سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اوراس کو وہ کچھ بولنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جو وہ نہیں چاہتا لیکن جب حالات جمہوریت مخالف بن جائیں تو یہ سب ممکن ہو جاتا ہے اور ملوکیت اپنا رنگ دکھانا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سب تب ہوتا ہے جب جمہوریت اتنی کمزرو ہو جاتی ہے کہ وہ اپنا دفاع کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے اور جو اس کے دفاع کا بیڑا اٹھائے ہوتے ہیں وہ مجبوراً ملوکیت پسند قوتوں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور جمہوریت کو کسی اچھے وقت کے لیے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت اس کو دوبارہ سے استعمال کیا جاسکے اور عوام کو جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنایا جا سکے۔
جمہوریت میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ موروثیت کے بغیر نہیں چل سکتی بلکہ جمہوریت کی روح اس موروثیت سے مجروح ضرور ہوتی ہے لیکن ہمارے جیسے تیسری دنیا کے عوام اور ملکوں کی یہ بد قسمتی ہے کہ ہم جمہوریت کے لبادے میں چھپی ہوئی ملوکیت کی حاکمیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں اور باوجود کوشش کے اس سے جان چھڑانے کے لیے اپنے آپ کو اس سے الگ نہیں کر پاتے ۔سیاست کے ان ناخداؤں کے ہم اس قدرعادی ہوچکے ہیں کہ ہر دفعہ ان سے جان چھڑانے کا عہد کرنے کے باوجود پھر انھی کو منتخب کر کے اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں اوراگلی مدت میں اپنی اس غلطی کا پھر سے ماتم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
حقیقی تبدیلی کیا ہوتی ہے اوراس کے لوازمات کیا ہوتے ہیں، یہ صرف تبدیلی کے نعروں سے معلوم نہیں ہوپاتے بلکہ تبدیلی لانے کوکے اپنا بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے اور ہم تبدیلی کی خواہش رکھنے کے باوجود اپنا یہ سب کچھ قربان کرنے پر تیار نہیں بس یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی نہ کرنا پڑے اور ہمارے منشاء کے مطابق تبدیلی آجائے جو کہ ایسی ہو جس میں ہم آرام سے زندگی گزار سکیں حالانکہ دہائیوں سے بگڑے ہوئے معاشرے میں تبدیلی محض ایک علامت نہیں ہوتی بلکہ یہ تبدیلی قربانی مانگتی ہے اور معاشرے یا ملک کو درست سمت میں چلانے کے لیے عوام کو ہی قربانیاں دینی پڑتی ہیں کیونکہ اشرافیہ کو ان تبدیلیوں سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا بلکہ وہ تو تبدیلی کے ہی مخالف ہوتے ہیں اور یہ چاہتے ہی نہیں کہ تبدیلی کی ہوا چل پڑے اور عوام کا مقدر تبدیل ہو جائے اس لیے تبدیلی کے لیے جتنی بھی قربانی دینی ہے وہ عوام نے ہی دینی ہے یعنی کہ تبدیلی کے لیے بھی قربانی کا بکرا عوام ہی ہیں جس کے لیے میرے مشاہدے کے مطابق عوام ابھی بالکل بھی تیار نہیں اور اس بات کا مشاہدہ ہم کر رہے ہیں کہ معاشرہ تبدیلی تو چاہ رہا ہے لیکن اس کے لیے عملی طور پر تیار نہیں۔
بازاروں کا وہی حال ہے، ذخیرہ اندوزی بھی جاری ہے اور غیر حقیقت پسندانہ منافع بھی کمایا جارہا ہے ، ناپ تول میں کمی کا ہمیں کوئی خوف ہی نہیں ، جھوٹ ، فریب اور دھوکا دہی عام ہے، حکومتی ادارے انصاف فراہم نہیں کر رہے، رشوت اور چو ربازاری اسی طرح جاری ہے ، ملک میں آئین کی پامالی کا حال سب دیکھ رہے ہیں، امن و مان کی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے ، مہنگائی اور غربت میں اضافہ سے غریب کے ساتھ متوسط طبقہ بھی پریشانیوں کا شکار ہے ، اسکولوں ، اسپتالوں اورعوامی بھلائی کے دوسرے ادارے دن بدن خراب سے خراب ترصورتحال کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
ان سب کے ساتھ تبدیلی کے معنی' چہ معنی دار ہی' کہے جا سکتے ہیں اور ان سب خرابیوں کی ذمے دار حکومت ہوتی ہے عوام تو بے چارے حکومت کے بنائے گئے قواعد و ضوابط کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں، اگر یہ سب ٹھیک ہو جائے تو پھر کیا ہو گا عوام کو ایک پُرسکون زندگی نصیب ہو گی اور وہ روز مرہ کی پریشانیوں سے نجات حاصل کر لیں گے لیکن جنہوں نے یہ تبدیلی لانی ہے وہ تو یہ نہیں چاہتے ان کے لیے موجودہ صورتحال ہی آئیڈیل ہے کہ عوام ان کے محکوموں کی طرح ہی زندگی بسر کرتے رہیںاور وہ ان پر حکمرانی کے مزے لوٹتے رہیں لیکن آخر کب تک ہم اس نسل در نسل حکمرانی کے شکنجے میں جکڑے رہیں گے اور انھی چند خاندانوں میں سے کوئی نہ کوئی ہمارے اورپر مسلط رہے گا ،کبھی باپ تو کبھی بیٹا تو کبھی بیٹی تو کبھی کوئی اور قریبی رشتہ دار ہی ہماری حکمرانی کے لیے چنا جائے گا۔
اس کو بدلنا ہو گا اور کوئی باہر سے آکر اس کو تبدیل کرنے میں ہمارے مدد نہیں کرے گا بلکہ اس کے ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت بطور قوم ایک واضح فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمارے حکمران کون ہوں گے اور یہ فیصلہ عوام ہی کر سکتے ہیں کوئی حکمران اس کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ عوام اتنی بڑی طاقت ہے جس کا ابھی تک ہم عوام کو اندازہ ہی نہیں ہوا جس دن ہم یہ سمجھ گئے وہ وقت تبدیلی کے آغاز کا ہوگا اور پھر کوئی ہمیں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانک کر کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف نہیں لے جا سکے گا جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے۔
ہمیں جمہوریت کی طاقت کوسمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا، براہ راست مارشل لائی حکومتوں کے علاوہ ان کے پروردہ سیاستدانوں نے عوام کو ان کی طاقت سے بے خبر رکھ کر ہی حکمرانی کی ہے اور حکمران بنانے والوں کو محکوم بنا کر رکھا ہے۔ یہ فیصلہ عوام کا ہے کہ وہ محکوم رہنا چاہتے ہیں یا پھر اپنی طاقت سے اپنی مرضی کے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ فیصلہ عوام کی عدالت میں ہے۔
جمہوریت آزادی ہے اور انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اظہار رائے کا حق حاصل ہے لیکن ہوتا یوں ہے کہ یہ فطری حق سلب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اوراس کو وہ کچھ بولنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جو وہ نہیں چاہتا لیکن جب حالات جمہوریت مخالف بن جائیں تو یہ سب ممکن ہو جاتا ہے اور ملوکیت اپنا رنگ دکھانا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سب تب ہوتا ہے جب جمہوریت اتنی کمزرو ہو جاتی ہے کہ وہ اپنا دفاع کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے اور جو اس کے دفاع کا بیڑا اٹھائے ہوتے ہیں وہ مجبوراً ملوکیت پسند قوتوں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور جمہوریت کو کسی اچھے وقت کے لیے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت اس کو دوبارہ سے استعمال کیا جاسکے اور عوام کو جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنایا جا سکے۔
جمہوریت میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ موروثیت کے بغیر نہیں چل سکتی بلکہ جمہوریت کی روح اس موروثیت سے مجروح ضرور ہوتی ہے لیکن ہمارے جیسے تیسری دنیا کے عوام اور ملکوں کی یہ بد قسمتی ہے کہ ہم جمہوریت کے لبادے میں چھپی ہوئی ملوکیت کی حاکمیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں اور باوجود کوشش کے اس سے جان چھڑانے کے لیے اپنے آپ کو اس سے الگ نہیں کر پاتے ۔سیاست کے ان ناخداؤں کے ہم اس قدرعادی ہوچکے ہیں کہ ہر دفعہ ان سے جان چھڑانے کا عہد کرنے کے باوجود پھر انھی کو منتخب کر کے اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں اوراگلی مدت میں اپنی اس غلطی کا پھر سے ماتم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
حقیقی تبدیلی کیا ہوتی ہے اوراس کے لوازمات کیا ہوتے ہیں، یہ صرف تبدیلی کے نعروں سے معلوم نہیں ہوپاتے بلکہ تبدیلی لانے کوکے اپنا بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے اور ہم تبدیلی کی خواہش رکھنے کے باوجود اپنا یہ سب کچھ قربان کرنے پر تیار نہیں بس یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی نہ کرنا پڑے اور ہمارے منشاء کے مطابق تبدیلی آجائے جو کہ ایسی ہو جس میں ہم آرام سے زندگی گزار سکیں حالانکہ دہائیوں سے بگڑے ہوئے معاشرے میں تبدیلی محض ایک علامت نہیں ہوتی بلکہ یہ تبدیلی قربانی مانگتی ہے اور معاشرے یا ملک کو درست سمت میں چلانے کے لیے عوام کو ہی قربانیاں دینی پڑتی ہیں کیونکہ اشرافیہ کو ان تبدیلیوں سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا بلکہ وہ تو تبدیلی کے ہی مخالف ہوتے ہیں اور یہ چاہتے ہی نہیں کہ تبدیلی کی ہوا چل پڑے اور عوام کا مقدر تبدیل ہو جائے اس لیے تبدیلی کے لیے جتنی بھی قربانی دینی ہے وہ عوام نے ہی دینی ہے یعنی کہ تبدیلی کے لیے بھی قربانی کا بکرا عوام ہی ہیں جس کے لیے میرے مشاہدے کے مطابق عوام ابھی بالکل بھی تیار نہیں اور اس بات کا مشاہدہ ہم کر رہے ہیں کہ معاشرہ تبدیلی تو چاہ رہا ہے لیکن اس کے لیے عملی طور پر تیار نہیں۔
بازاروں کا وہی حال ہے، ذخیرہ اندوزی بھی جاری ہے اور غیر حقیقت پسندانہ منافع بھی کمایا جارہا ہے ، ناپ تول میں کمی کا ہمیں کوئی خوف ہی نہیں ، جھوٹ ، فریب اور دھوکا دہی عام ہے، حکومتی ادارے انصاف فراہم نہیں کر رہے، رشوت اور چو ربازاری اسی طرح جاری ہے ، ملک میں آئین کی پامالی کا حال سب دیکھ رہے ہیں، امن و مان کی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے ، مہنگائی اور غربت میں اضافہ سے غریب کے ساتھ متوسط طبقہ بھی پریشانیوں کا شکار ہے ، اسکولوں ، اسپتالوں اورعوامی بھلائی کے دوسرے ادارے دن بدن خراب سے خراب ترصورتحال کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
ان سب کے ساتھ تبدیلی کے معنی' چہ معنی دار ہی' کہے جا سکتے ہیں اور ان سب خرابیوں کی ذمے دار حکومت ہوتی ہے عوام تو بے چارے حکومت کے بنائے گئے قواعد و ضوابط کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں، اگر یہ سب ٹھیک ہو جائے تو پھر کیا ہو گا عوام کو ایک پُرسکون زندگی نصیب ہو گی اور وہ روز مرہ کی پریشانیوں سے نجات حاصل کر لیں گے لیکن جنہوں نے یہ تبدیلی لانی ہے وہ تو یہ نہیں چاہتے ان کے لیے موجودہ صورتحال ہی آئیڈیل ہے کہ عوام ان کے محکوموں کی طرح ہی زندگی بسر کرتے رہیںاور وہ ان پر حکمرانی کے مزے لوٹتے رہیں لیکن آخر کب تک ہم اس نسل در نسل حکمرانی کے شکنجے میں جکڑے رہیں گے اور انھی چند خاندانوں میں سے کوئی نہ کوئی ہمارے اورپر مسلط رہے گا ،کبھی باپ تو کبھی بیٹا تو کبھی بیٹی تو کبھی کوئی اور قریبی رشتہ دار ہی ہماری حکمرانی کے لیے چنا جائے گا۔
اس کو بدلنا ہو گا اور کوئی باہر سے آکر اس کو تبدیل کرنے میں ہمارے مدد نہیں کرے گا بلکہ اس کے ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت بطور قوم ایک واضح فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمارے حکمران کون ہوں گے اور یہ فیصلہ عوام ہی کر سکتے ہیں کوئی حکمران اس کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ عوام اتنی بڑی طاقت ہے جس کا ابھی تک ہم عوام کو اندازہ ہی نہیں ہوا جس دن ہم یہ سمجھ گئے وہ وقت تبدیلی کے آغاز کا ہوگا اور پھر کوئی ہمیں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانک کر کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف نہیں لے جا سکے گا جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے۔
ہمیں جمہوریت کی طاقت کوسمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا، براہ راست مارشل لائی حکومتوں کے علاوہ ان کے پروردہ سیاستدانوں نے عوام کو ان کی طاقت سے بے خبر رکھ کر ہی حکمرانی کی ہے اور حکمران بنانے والوں کو محکوم بنا کر رکھا ہے۔ یہ فیصلہ عوام کا ہے کہ وہ محکوم رہنا چاہتے ہیں یا پھر اپنی طاقت سے اپنی مرضی کے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ فیصلہ عوام کی عدالت میں ہے۔