دہشت گردی کا خاتمہ اولین ترجیح
فاٹا میں خود کش اورڈرون حملے جب کہ بلوچستان میں شورش اورپنجاب میں فرقہ وارانہ اور مجرمانہ واقعات کا سلسلہ جاری ہے
ملک کو دہشت گردی، انتہا پسندی، قانون شکنی اور بہیمانہ جرائم میں ملوث عناصر کے پیدا کردہ ایک ہولناک چیلنج کا سامنا ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ضروری وسائل استعمال کیے جانے چاہییں کیونکہ امن و امان کا مسئلہ گھمبیر تر ہوتا جا رہا ہے اور اس کی آڑ میں اپنے شیطانی عزائم کی تکمیل کے لیے انتہا پسند اور جرائم پیشہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
سماجیات کے ماہرین کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ جو قوتیں سماجی شیرازے کو بکھیرنے کی دیوانگی میں مبتلا ہو جائیں، اور ارباب اختیار ان کو نکیل ڈالنے میں سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو جائیں تو صورتحال کی ابتری کو کوئی نہیں روک سکتا یوں مجرمانہ گینگز کو اپنے مفادات کے حصول میں اخلاقی ضابطوں اور آئین و قانون کی دھجیاں اپنے غیر انسانی افعال و اقدامات سے اڑانے کا گویا لائسنس مل جاتا ہے لہٰذا ان کی سرکوبی ناگزیر ہے، اس میں تاخیر کی گئی تو اس کے بھیانک نتائج سے ملک بچ نہیں سکتا، جمہوری عمل، قانون کی حکمرانی، امن و استحکام اور ملکی خوشحالی کے سارے منصوبے خاک میں مل سکتے ہیں۔
ملک اسی قسم کے بحرانی اور ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے، دہشت گردی اور قانون شکنی کے طفیل سیاسی، معاشی اور نفسیاتی طاقت کا جنون ان عناصر کو گینگز کے قیام پر اکساتا ہے اور آج چھوٹے موٹے مجرم بھی دیو قامت کرمنلز کی شکل اختیار کر چکے ہیں جب کہ ان عناصر اور کالعدم مذہبی تنظیموں کی بات الگ ہے جو ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کا اپنا مخصوص ایجنڈا رکھتے ہیں۔ یہ تفریق ضروری ہے تا کہ قانون شکنی کے مسئلے کو بخوبی سمجھا جا سکے۔ جمعہ کو پشاور میں ایف سی کے قافلے پر خود کش حملے میں12افراد جاں بحق جب کہ 30 زخمی ہو گئے۔
اس کا موازنہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے 12 شہریوں کے ناحق قتل سے کیا جائے تو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا تعلق اندوہ ناک بن جاتا ہے جس میں بنیادی ناکامی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کے انٹیلی جنس میکنزم کے غیر موثر اور ناکارہ ہونے کی ہے اور یہی ان اداورں کے بارے میں عام تاثر بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دہشت گرد تو اپنے اہداف پر پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک ان خوں آشام قوتوں کو نیست و نابود کرنے کے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس سے ہر گز یہ مفہوم نہیں نکالنا چاہیے کہ قانون شکن یا دہشت گرد عناصر کوئی بہت مہیب اور ناقابل شکست طاقت ہیں۔
جرم و سزا کے حوالے سے پاکستان کی پوری تاریخ پولیس اور اس کی سراغرسانی کے نظام کی ایک شاندار روایت رکھتی ہے اور چاروں صوبوں میں امن کے قیام کی کوششوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دلیر افسروں اور جوانوں کی شہادتیں اور جان نثاری کے واقعات فراموش نہیں کیے جا سکتے، لیکن جن حالات سے آج کا پاکستانی معاشرہ گزر رہا ہے اس میں غیر قانونی اسلحے سے لیس مجرم گروہوں نے سیاست کے اندر تک اپنی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں اور پولیس کو سیاست زدہ کر کے اس کے احتسابی اور انتظامی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا ہے۔
فاٹا میں خود کش اور ڈرون حملے جب کہ بلوچستان میں شورش اور پنجاب میں فرقہ وارانہ اور مجرمانہ واقعات کا سلسلہ جاری ہے جب کہ ضرورت ہمہ وقت چوکسی اور فوری کارروائی کی ہے۔ فرار کا کوئی راستہ کسی مجرم کو نہ ملے۔ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ کراچی کو اوپن کرنا اور قاتلوں کو پکڑنا ہے۔ بدامنی یا دہشت گردی کے خلاف پولیس، ایف سی، رینجرز اور پاک فوج کے جوان اپنی ماضی کی سرفروشی اور قانون کی بالادستی اور مجرموں کے خلاف کارروائی کا نیا باب رقم کریں۔
یہ افسوس ناک تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ کراچی یا کسی بھی جگہ قانون نافذ کرنے والوں کا پلہ بھاری نہیں رہا۔ عوام قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ کسی کو نہ لگے کہ قانون شکنون کا غلبہ نظر آتا ہے بلکہ ان عناصر کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار معاشرے کو عدم استحکام سے بچانے، جمہوری عمل کو رواں دواں رکھنے اور عوام کو سکون، عافیت اور زندگی کے تحفظ کا یقین دلانے کے لیے دلیرانہ اقدامات کریں گے۔
سماجیات کے ماہرین کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ جو قوتیں سماجی شیرازے کو بکھیرنے کی دیوانگی میں مبتلا ہو جائیں، اور ارباب اختیار ان کو نکیل ڈالنے میں سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو جائیں تو صورتحال کی ابتری کو کوئی نہیں روک سکتا یوں مجرمانہ گینگز کو اپنے مفادات کے حصول میں اخلاقی ضابطوں اور آئین و قانون کی دھجیاں اپنے غیر انسانی افعال و اقدامات سے اڑانے کا گویا لائسنس مل جاتا ہے لہٰذا ان کی سرکوبی ناگزیر ہے، اس میں تاخیر کی گئی تو اس کے بھیانک نتائج سے ملک بچ نہیں سکتا، جمہوری عمل، قانون کی حکمرانی، امن و استحکام اور ملکی خوشحالی کے سارے منصوبے خاک میں مل سکتے ہیں۔
ملک اسی قسم کے بحرانی اور ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے، دہشت گردی اور قانون شکنی کے طفیل سیاسی، معاشی اور نفسیاتی طاقت کا جنون ان عناصر کو گینگز کے قیام پر اکساتا ہے اور آج چھوٹے موٹے مجرم بھی دیو قامت کرمنلز کی شکل اختیار کر چکے ہیں جب کہ ان عناصر اور کالعدم مذہبی تنظیموں کی بات الگ ہے جو ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کا اپنا مخصوص ایجنڈا رکھتے ہیں۔ یہ تفریق ضروری ہے تا کہ قانون شکنی کے مسئلے کو بخوبی سمجھا جا سکے۔ جمعہ کو پشاور میں ایف سی کے قافلے پر خود کش حملے میں12افراد جاں بحق جب کہ 30 زخمی ہو گئے۔
اس کا موازنہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے 12 شہریوں کے ناحق قتل سے کیا جائے تو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا تعلق اندوہ ناک بن جاتا ہے جس میں بنیادی ناکامی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کے انٹیلی جنس میکنزم کے غیر موثر اور ناکارہ ہونے کی ہے اور یہی ان اداورں کے بارے میں عام تاثر بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دہشت گرد تو اپنے اہداف پر پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک ان خوں آشام قوتوں کو نیست و نابود کرنے کے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس سے ہر گز یہ مفہوم نہیں نکالنا چاہیے کہ قانون شکن یا دہشت گرد عناصر کوئی بہت مہیب اور ناقابل شکست طاقت ہیں۔
جرم و سزا کے حوالے سے پاکستان کی پوری تاریخ پولیس اور اس کی سراغرسانی کے نظام کی ایک شاندار روایت رکھتی ہے اور چاروں صوبوں میں امن کے قیام کی کوششوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دلیر افسروں اور جوانوں کی شہادتیں اور جان نثاری کے واقعات فراموش نہیں کیے جا سکتے، لیکن جن حالات سے آج کا پاکستانی معاشرہ گزر رہا ہے اس میں غیر قانونی اسلحے سے لیس مجرم گروہوں نے سیاست کے اندر تک اپنی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں اور پولیس کو سیاست زدہ کر کے اس کے احتسابی اور انتظامی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا ہے۔
فاٹا میں خود کش اور ڈرون حملے جب کہ بلوچستان میں شورش اور پنجاب میں فرقہ وارانہ اور مجرمانہ واقعات کا سلسلہ جاری ہے جب کہ ضرورت ہمہ وقت چوکسی اور فوری کارروائی کی ہے۔ فرار کا کوئی راستہ کسی مجرم کو نہ ملے۔ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ کراچی کو اوپن کرنا اور قاتلوں کو پکڑنا ہے۔ بدامنی یا دہشت گردی کے خلاف پولیس، ایف سی، رینجرز اور پاک فوج کے جوان اپنی ماضی کی سرفروشی اور قانون کی بالادستی اور مجرموں کے خلاف کارروائی کا نیا باب رقم کریں۔
یہ افسوس ناک تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ کراچی یا کسی بھی جگہ قانون نافذ کرنے والوں کا پلہ بھاری نہیں رہا۔ عوام قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ کسی کو نہ لگے کہ قانون شکنون کا غلبہ نظر آتا ہے بلکہ ان عناصر کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار معاشرے کو عدم استحکام سے بچانے، جمہوری عمل کو رواں دواں رکھنے اور عوام کو سکون، عافیت اور زندگی کے تحفظ کا یقین دلانے کے لیے دلیرانہ اقدامات کریں گے۔