مسٹک میوزک صوفی فیسٹیول

معروف گلوکاروں کے ُسروں سے سجے میلے نے لاہوریوں کے دل جیت لئے۔

معروف گلوکاروں کے ُسروں سے سجے میلے نے لاہوریوں کے دل جیت لئے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

LONDON:
رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کے زیراہتمام تین روزہ ' مسٹک میوزک صوفی فیسٹیول ' لاہورمیں جب شروع ہوا توکوئی یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس میں شرکت کے خواہشمندوں کی اتنی بڑی تعداد الحمراء اوپن ائیرکلچرل کمپلیکس میں دکھائی دے گی۔

تین روز تک جاری رہنے والے اس فیسٹیول نے جہاں ایک مرتبہ پھر سے رفیع پیر تھیٹرورکشاپ کی ٹیم کوورلڈ پرفارمنگ آرٹ فیسٹیول کے انعقاد بارے نئی سوچ کو پروان چڑھایا، وہیں کلچرل کمپلیکس جیسی خوبصورت عمارت کی ویرانیوں میں بھی کمی کی۔ اپنی نوعیت کے منفرد میوزک فیسٹیول میں ملک کے چاروں صوبوں کے فنکاروں نے حصہ لیا، مختلف زبانوں میں صوفی شعراء کے کلام اورسازوں کی دھوم نے شرکاء کو خوب محظوظ ہونے کا بہترین موقع فراہم کیا۔

ایک طرف منتظمین اپنی کاوش پرخوش دکھائی دے رہے تھے تودوسری جانب بے پناہ مسائل میں گھری عوام بھی موسم بہارمیں سجنے والے اس بین الاقوامی معیار کے فیسٹیول میں شرکت کے بعد تازہ دم نظرآرہے تھے۔ بس یوں کہئے کہ '' موسیقی روح کی غذا ہے'' والی مثال اس ایونٹ پرپوری اترتی تھی۔

فیسٹیول کے پہلے روزبین الاقوامی شہرت یافتہ قوال استاد راحت فتح علی خاں نے اپنی شاندار پرفارمنس سے سماں باندھ دیا۔ ان کی عمدہ پرفارمنس کے دوران شرکاء ان کوتالیاں بجاکرداد دیتے رہے اور رقص کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس موقع پر راحت علی خان نے اپنی مقبول قوالیاں اورگیت سنائے اور شائقین کی فرمائش کوبھی پورا کیا۔ طویل عرصہ کے بعد راحت فتح علی خاں جیسے عظیم فنکارکواپنے بیچ دیکھ کرشائقین واقعی بے حد خوش دکھائی دے رہے تھے۔



ان کے علاوہ فوک گلوکار عارف لوہار، معروف کتھک رقاصہ شیما کرمانی، نَے نواز محمدخان ، نغمہ اسرافی گلگت بلتستان ، تحسین سکینہ اورڈھول ماسٹرپپوسائیں نے شائقین کوخوب محظوظ کیا۔ اس موقع پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوںکی بڑی تعداد موجود تھی، جبکہ بیرون ممالک کے لوگ بھی فیسٹیول سے لطف اندوز ہونے کیلئے الحمراء اوپن ائیرکلچرل کمپلیکس میں موجود تھے۔

اس موقع پرضلعی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی کے سخت انتظامات توکئے گئے تھے' لیکن لاہور آرٹس کونسل کے اعلیٰ افسران کی جانب سے پچھلے گیٹ کے ذریعے بنا ٹکٹ ''مہمانوں '' کو فیسٹیول میں لانے کے سلسلہ نے رفیع پیرتھیٹرکے منتظمین کو خاصا پریشان کیا۔ اب منتظمین احتجاج کرتے توکس سے کرتے کیونکہ جن کوکنٹرول کرنا چاہئے تھا، وہ خود ہی خلاف ورزی کرنے پرلگے تھے۔

دوسری جانب لاہورآرٹس کونسل کے ایگزیکٹوڈائریکٹرجواپنی فیملی کے ہمراہ '' پروٹوکول '' میں پروگرام دیکھنے کی خواہش لئے آئے تھے، ان کودرمیان کی بجائے سائیڈ پرسیٹیں ملنے پربھی تلخی نے جنم لیا اورپھر یہ سلسلہ تین روز ہی جاری رہا۔ اس صورتحال کے باوجود فیسٹیول بڑا کامیاب رہا اورشائقین کی بڑی تعداد بہترین گلوکاروں کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہوتی رہی۔ لوگوں نے الحمراء میں لگائے گئے سٹالز سے لذیزپکوان کا مزہ بھی خوب اٹھایا۔

فیسٹیول کے دوسرے معروف پلے بیک سنگر حمیرا چنا، کتھک ڈانسر نگہت چوہدری، اخترچنال، تحسین سکینہ ، جاوید بشیر، ماہم سہیل، وحدت رمیز، گونگا سائیں، مٹھوسائیں، بشریٰ ماروی، صابرسائیں اوردیگرشامل تھے۔ جبکہ فیسٹیول کے تیسرے روزبین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکارہ صنم ماروی، سائیں ظہور، فرید ایاز قوال،رفاقت علی خاں، تاج بلیدی، کرشن لال بھیل، شاہ جو راگ فقیرا، شوکت علی، وہاب شاہ، نیوبابوبراس بینڈ، میاں میری قوال اوردیگرشامل تھے۔



اس موقع پر بین الاقوامی مہمانوں کی بڑی تعداد بھی فیسٹیول کے ماحول سے خوش دکھائی دے رہی تھی، جس سے دہشتگردی کا نہیں بلکہ امن ، دوستی اور بھائی چارے کا پیغام ان کے ذریعے دنیابھرمیں پہنچ رہا تھا۔

مسٹک میوزک صوفی فیسٹیول کے دوران ''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال استاد راحت فتح علی خان نے کہا کہ میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا بھرمیں پرفارم کرتاہوں اورلوگوں کی بڑی تعداد ان پروگراموں اورفیسٹیولز میں شریک ہوتی ہے لیکن عرصہ کے بعد جومزہ مجھے اپنے ملک میں پرفارم کرکے ملا، اس کولفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ ایک طرف توموسم بہت شاندارتھا اور دوسری جانب شرکاء کے بہترین رسپانس نے میری پرفارمنس کومزید بہتربنادیا۔


میں سمجھتا ہوں کہ ایک فنکار اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کوداد دینے والا نہ ہو۔ یہ میرے لئے یادگارپرفارمنس رہے گی، کیونکہ شائقین نے جس طرح سے میری اورمیری ٹیم کی حوصلہ افزائی کی ہے،اس کوبرسوں یاد رکھوں گا۔ واقعی ہی لاہورکے لوگ فن کے بڑے قدردان ہیں اوران کی یہی ادا انہیں دوسروں سے منفرد بناتی ہے۔

گلوکارہ صنم ماروی نے کہا کہ رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ نے مجھے ایک انٹرنیشنل لیول کی گلوکارہ بنانے میں اہم کردارادا کیا ہے۔ انہوں نے مجھے اس وقت سپورٹ کی جب میں بہت چھوٹی سی فنکارہ کے طورپرکام کرتی تھی۔ انہوں نے مجھے ایسے بہت سے مواقع فراہم کئے اورآج مجھے ہر کوئی جانتا ہے۔ اس لئے میں رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ کی جانب سے دعوت کی منتظر رہتی ہوں اورجب بھی یہ لوگ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں تومیری پہلی ترجیح ان کے فیسٹیولز میں پرفارم کرنا ہوتی ہے۔ اس ادارے نے پاکستان کا سافٹ امیج پوری دنیا تک پہنچایاہے۔

گلوکارعارف لوہاراوررفاقت علی خاں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں ایسے ایونٹس کا انعقاد ہونا ہی بڑی بات ہے ۔ کیونکہ جس طرح کہ ہمارے ملکی حالات ہیں اورسیاسی صورتحال ہے، اس کودیکھ کرتویہاں فن وثقافت کی بات کرنا ہی بے معنی سا لگتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود رفیع پیرتھیٹر کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پرفیسٹیول کا انعقاد حیران کن ہے۔ جہاں تک ہماری پرفارمنس اوراس فیسٹیول کا حصہ بننے کی بات ہے توہماری پہچان صوفی ازم ہے اور صوفی فیسٹیول میں پرفارم کرنا توضروری تھا۔ سچ بتائیں توہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہاں پرفارم کرکے بے حد اچھا لگا۔



کلاسیکل رقاصہ شیماکرمانی، نگہت چوہدری اور وہاب شاہ نے کہا کہ پاکستان میں یہ واحد ایونٹ ہے جس میں شرکت کی خواہش ہرکوئی کرتا ہے۔ ویسے تودنیا بھرمیں بڑے بڑے فیسٹیولز ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ بات بہت کم جانتے ہوںگے کہ لاہورمیں سجنے والے رفیع پیرتھیٹرکے فیسٹیول کا شماردنیا کے تیسرے بڑے فیسٹیول کے طور پر ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں تواپنے ملک میں ہونے والے فیسٹیولز میں پرفارم کرکے بہت اچھا لگتا ہے۔

خاص طورپرجب پبلک کا بہترین رسپانس ملے توایک فنکاردل وجان سے مزید اچھا پرفارم کرتا ہے۔ ہم توچاہیں گے کہ اس طرح کے فیسٹیول لاہورہی نہیں بلکہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ہوں اوران کے بعد دنیا کے بیشترممالک میں بھی پاکستانی ثقافت کومتعارف کروایا جائے۔

گلوکارسائیں ظہور اورفریداعجاز قوال نے کہاکہ کسی بھی ملک کی پہچان اس کے فن وثقافت سے ہوتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ جب بھی ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں پرفارمنس کیلئے جاتے ہیں تواپنی شاندارپرفارمنس سے امن کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ ویسے بھی صوفیاء کرام نے تواپنی تمام عمر امن، سلامتی کا درس دیا۔ جہاں تک بات فیسٹیول کی ہے تو ایسے بڑے ایونٹ کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ لاہورمیں سجنے والے اس فیسٹیول کے شرکاء کی داد ہمیں یہ بتا رہی تھی کہ وہ انتہائی خوش ہیں اوراس طرح کے مزید ایونٹس کے انعقاد کی خواہش رکھتے ہیں۔

گلوکارکرشن لال بھیل اورتاج بلیدی نے کہا کہ رفیع پیرتھیٹر کا پاکستان کی فن وثقافت پریہ بہت بڑا احسان ہے کہ وہ اپنے ادارے کے ذریعے جس طرح سے دنیا بھرمیں فنکاروں کوپرفارم کرنے کا موقع دیتے ہیں۔خاص طورپردوردراز علاقوں میں رہنے والے فنکاروں کے پاس اپنا فن متعارف کروانے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ لیکن صوفی فیسٹیولز نے ہمیں ایک نئی شناخت دی۔ ہم صحراؤں اورپہاڑوں میں بسنے والے لوگ ہیں، اگریہ لوگ ہمیں اپنا پلیٹ فارم مہیا نہ کرتے توشاید آج ہمیں کوئی بھی نہ جانتا۔



اس لئے ہم رفیع پیر تھیٹرکے منتظمین فیضان پیرزادہ مرحوم، سادان پیرزادہ اوردیگرکے مشکورہیں،جنہوں نے ہمیں اپنا فن دوسروںتک پہنچانے کا موقع دیا۔ جس طرح ہم ہرسال لاہورمیں پرفارم کرنے کے لئے آتے ہیں، اسی طرح کے ایونٹس اگرحکومت پاکستان بھی دوسرے ممالک میں منعقد کرے توامن، شانتی کا پیغام دنیا بھرتک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم فن وثقافت کے ذریعے پاکستان کا ایک خوبصورت امیج دنیا بھرمیں پہنچائیں اوراس کیلئے رفیع پیرتھیٹرکی طرح حکومت کے ثقافتی اداروں کوبھی آگے آنے کی ضرورت ہوگی۔

آخر میں عثمان پیرزادہ کا کہنا تھا کہ یہ میرے لئے بھی حیران کن بات ہے کہ آج بھی لوگوںکی اتنی بڑی تعداد فیسٹیول میں شرکت کیلئے پہنچی ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں، لاہورکے باسی ثقافتی میلوںمیں ضرور شرکت کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس طرح کے میلے ہی ہماری پہنچان رہے ہیں اوروہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرتی ، جواپنی روایات اورثقافت سے دورہوجاتی ہیں۔ جہاں تک بات صوفی فیسٹیول کے انتظامات اورفنڈز کی ہیں تو ہم نے ہرممکن کوشش کی ہے کہ شائقین کوایک ٹکٹ میں ایک ایسا میلہ دیکھنے کاموقع فراہم کیا جائے ، جس کووہ ہمیشہ یاد رکھیں اوردوبارہ بھی اس کا حصہ بننے کی خواہش رکھیں۔

استاد راحت فتح علی خاں، شیما کرمانی، عارف لوہار ، صنم ماروی، نگہت چوہدری، جاوید بشیر، رفاقت علی خاں، سائیں ظہور اورپپوسائیں جیسے فنکارایک ہی فیسٹیول میں بہت کم پرفارم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ہم نے ہمیشہ ہی ایسے پروگرام ترتیب دیئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہمیں اس سلسلہ میں بہتررسپانس ملے گا اورآئندہ ہمیں فنڈز کی مد میں بہترسپورٹ حاصل ہوگی۔
Load Next Story