کینیڈین محققین نے توانائی ذخیرہ کرنے کا سستا طریقہ ایجاد کرلیا

زنگ کا کیمیائی تعامل میں بطور عامل استعمال، بجلی توانائی میں تبدیل کر کے اسٹور کرلی گئی۔

کمپنی قائم، تجارتی پراڈکٹ 2014، گھریلو استعمال کیلیے 2015 میں پیش کردی جائیگی۔ فوٹو: فائل

کینیڈین محققین نے توانائی کو ذخیرہ کرنے کیلیے منفرد طریقہ تیار کرلیا جس کے ذریعے ونڈ ٹربائنز اور سولر پینلز سے پیدا کی جانے والی اضافی توانائی کو بعد کے استعمال کے لیے اسٹور کیا جاسکے گا۔

یونیورسٹی آف کلگیری کے 2 محققین نے سائنس نامی جریدے میںدعویٰ کیا کہ انھوں نے ایک ایسا نسبتاً سستا نظام ایجاد کیا ہے جس میں برق پاشیدگی کے ذریعے توانائی جمع کرنے کیلیے زنگ کو بطور عامل استعمال کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی میں کیمسٹری کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کرٹیز برلنگوئٹے نے کہاکہ اس بریک تھرو کے ذریعے پن چکیوں اور شمسی پینلز کے ذریعے تیار کی جانے والی بجلی کو ذخیرہ کرنے اور بعد میں استعمال کیلیے سستا طریقہ دستیاب ہوگیا ہے، ہمارے کام سے بڑے پیمانے پر صاف توانائی پر مبنی معیشت کواستعمال میں لانے کے سلسلے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے۔




کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر سمن ٹروڈیل نے کہا کہ اس نئی دریافت سے عامل مواد کی تیاری کے لیے ایک نئے شعبے کے دروازے کھل گئے ہیں، اب ہمارے سامنے دریافت کے لیے ایک بڑا میدان موجود ہے۔ دونوں محققین نے اپنے الیکٹرولائیزرز کو برق پاشیدگی میں تجارتی بنیادوں پر استعمال میں لانے کیلیے کمپنی بھی قائم کردی ہے، الیکٹرولائیزرز عامل کے استعمال سے کیمیائی تعامل پیدا کرتے ہیں جو پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں توڑ کر بجلی کو توانائی میں تبدیل کردیتا ہے جو پھر ذخیرہ کرلیا جاتا ہے اور جب استعمال کیلیے ضرورت ہوتی ہے تواسے پھرسے بجلی میں تبدیل کردیتا ہے۔

عام طور پر 'عامل' نایاب اور مہنگی دھاتوں سے تیار کیے جاتے ہیں تاہم مذکورہ محققین نے اس کو زنگ جیسے عام دھاتی مواد سے تیار کیا ہے جو مہنگی دھاتوں کی طرح کا کام کرتا ہے، ان محقیقین کو توقع ہے کہ 2014 تک ایک تجارتی پراڈکٹ مارکیٹ میںمتعارف کرادی جائے گی جبکہ گھروں میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلیے چھوٹا الیکٹرولائزر 2015 تک آزمائش کیلیے پیش کردیا جائے گا۔
Load Next Story