اور قاضی واجد بھی چل دیے۔۔۔۔
اس سوشل میڈیا کا بھی کیا کہیے کہ قاضی صاحب کے مرتے ہی ایسی ہی پوسٹیں کرنا شروع کردیں
ہم تسلیم کرتے ہیں ہمیں فرصت نہیں ملتی
مگر جب یادکرتے ہیں زمانہ بھول جاتے ہیں
ایک بار پی ٹی وی کے نئے چیئرمین نے سینئر فنکاروں کے فن اور زندگی سے متعلق پروگرام کرنے کا کہا،اس میٹنگ میں قاضی واجد نے کہا تھا کہ جب ہونگے سینئر فنکار تو اوپر جانے کا پروگرام بنا لیں گے۔
قاضی صاحب کی عادت تھی وہ سنجیدگی سے چٹکلے چھوڑ دیا کرتے تھے پر ان کا یہ چٹکلا شاید ان کے دل سے ابھرا تھا۔ غالباً اسی پروگرام کی جھلکیاں چلتے پھرتے دیکھیں، پرانے ڈرامے، یادگار ڈرامے اور ساتھی فنکاروں کے تاثرات تو ذہن میں اس وقت پہلا خیال یہی ابھرا تھا کیا قاضی واجد کا انتقال ہوگیا؟ لیکن دوسری ہی جھلکی میں سوٹڈ بوٹڈ قاضی صاحب بڑی متانت سے اپنے اور اپنے فن سے متعلق خیالات کا اظہار کر رہے تھے پھر سوچا تف ہے ایسی فضول سوچ پر۔ اچھے بھلے قاضی صاحب ہیں شاید کوئی نئی سوچ ہے، چلو اچھا ہی ہے بڑے فنکاروں کی زندگی میں ہی ان کے اعزاز میں کوئی پروگرام کرلیا جائے۔ پر یہ خبر نہ تھی کہ اس کے چند روز بعد ہی ان کے گزرنے کی خبر ملے گی۔
قاضی واجد کو ہم نے پہلی بار ریڈیو پاکستان کراچی میں دیکھا تھا۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں اس پرانے سعید منزل کے سامنے ریڈیو اسٹیشن پرکام کرنے کا موقعہ ملا جس سے جڑے بڑے فنکاروں کی بڑی باتیں آج بھی ماضی کی عظیم داستان سناتی ہیں۔ جب کہ خود قاضی صاحب کا تعلق ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنھیں بچپن سے ہی بڑے لوگوں اور بڑی جگہوں پرکام کرنے کا موقعہ ملا، چاہے وہ ریڈیو پاکستان ہو یا ٹی وی اسٹیشن، تھیٹر ہو یا فلم ہر جگہ ان کے فن نے اپنا آپ منوایا۔ مخصوص انداز میں بات کرنا، سنجیدگی طاری کرلینا، سنجیدگی سے مزاح پر اترآنا، شعر و شاعری ہو یا ادبی موضوعات۔ اس شخص کا جواب نہ تھا، شیشوں کے کنچے جیسی آنکھیں،گلابی رنگت، سنہری گھنگھریالے بال، اسمارٹ، چہرے پر ہر دم کھلتی مسکراہٹ یہ تھے اپنے قاضی واجد۔ بچوں کی دنیا کے لیے قاضی انکل اور پورے ریڈیو پاکستان کے لیے قاضی صاحب۔
اس سوشل میڈیا کا بھی کیا کہیے کہ قاضی صاحب کے مرتے ہی ایسی ہی پوسٹیں کرنا شروع کردیں، مثلاً قاضی واجد کی بیٹی کون؟ آپ جان کر حیران رہ جائیں گے اور پھر واقعی ہم حیران رہ گئے کیونکہ فضیلہ قاضی کی تصویر چسپاں تھی۔۔۔۔ایں۔۔۔۔فضیلہ قاضی جنھیں فضیلہ قیصر بنے بھی سالوں گزر چکے ہیں پر ایسا کب۔۔۔۔دراصل ہماری خوبصورت سی فضیلہ قاضی کے نام کے ساتھ کبھی قاضی لگا ہوتا تھا، لہٰذا فوراً دل والوں نے انھیں قاضی واجد کی بیٹی قرار دے دیا۔ جہاں تک ہمارے علم میں ہے کہ ان کی صاحبزادی کو قطعاً اداکاری سے شغف نہ تھا اور کم ازکم وہ فضیلہ قاضی تو ہرگز نہیں ہیں دونوں کے درمیان عمروں کا اچھا بھلا فرق ہے۔ دوسری دلچسپ بات یہ کہ قاضی واجد کی تاریخ پیدائش 1930ء نظر آئی۔
کمال کی بات یہ ہے کہ فلم ''بیداری'' جس میں قاضی واجد نے اپنے بچپن میں ایک طالب علم کا کردار ادا کیا تھا اور غالباً سنتوش کمار مشہور فلمی ستارہ جنھوں نے آزادی پاکستان سے متعلق اس تاریخی اور یادگار فلم میں استاد کا کردار ادا کیا تھا، ابھی چند برس پیشتر ہی اس فلم کی جھلکیاں دیکھی تھیں، موقعے وہی چودہ اگست کا تھا جس میں قاضی صاحب کے بچپن کو دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے تھے مشہور زمانہ گانا۔
آؤ بچو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
۔۔۔پاکستان زندہ باد۔۔۔۔پاکستان زندہ باد
اسی فلم کا گانا ہے، یہ فلم 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی اب اگر قاضی واجد 1930ء میں پیدا ہوئے تو اس اعتبار سے ''بیداری'' میں انھیں پورے چھبیس برس کا ہونا چاہیے۔ بہرحال یہ ایک عام سی ذہنی مشق ہے جسے ہر عقل والا انسان سمجھ سکتا ہے۔
قاضی واجد اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے، اردو زبان کے گویا استاد تھے۔ الفاظ کے اتار چڑھاؤ اور صحیح تلفظ کی ادائیگی میں ریڈیو پروڈیوسرز کے علاوہ قاضی صاحب جیسے عظیم فنکاروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ سنا تھا کہ کبھی اسٹوڈیو نمبر نو۔۔۔۔جس کی اپنی ایک تاریخی حیثیت ہے بڑا آباد ہوا کرتا تھا۔
جب کہ ''حامد میاں کے یہاں'' میں بھی قاضی صاحب کا ایک کردار تھا جو اس زمانے کے تمام گھروں میں گھومتا پھرتا اور اپنی حیثیت منواتا تھا۔ جب کہ اسٹوڈیو نمبر نوکے ڈراموں میں بھی قاضی صاحب کی منفرد صداکاری نے اپنا جادو جگایا۔ بزم طلبا کے زمانے میں ریڈیو پاکستان کراچی میں ایک بڑا مشاعرہ منعقد ہوا۔ ہمارے لیے سوال تھا کہ رات دیر ہونے کے باعث گھر سے اجازت نہ ملے گی تو طے پایا کہ قاضی صاحب واپسی میں ڈراپ کردیں گے کیونکہ ان کا گھر نزدیک ہی تھا۔ لہٰذا قاضی صاحب کی وجہ سے ہمیں پہلی بار بڑے بڑے شعرا کو سننے کا موقعہ ملا وہ ایک شفیق انسان تھے۔
سارے راستے قاضی صاحب نصیحتیں،کچھ زمانے کی شکایتیں اور لوگوں کے برے رویوں کے بارے میں بتاتے رہے، اس زمانے میں بہت سے پروڈیوسرز اور فنکار ریڈیو پرکام نہ ہونے کے باعث ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچ رہے تھے، بہت سے اداس بھی تھے کہ یہ اسٹیشن کبھی آباد تھا اور اب۔۔۔۔بہرحال کچھ عرصے بعد اتفاقاً قاضی صاحب کا انٹرویو اپنے میگزین کے لیے کرنے کا سوچا۔ ایک نئے فنکار بھی ہماری ساتھ زبردستی ہولیے ان کا خیال تھا کہ ہمارے بہانے وہ بھی قاضی صاحب سے ملاقات کرلیں گے۔ بہرحال ہم سب ایک ٹیم کی طرح ان کے گھر پہنچے۔ قاضی صاحب ہم سب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
'' ارے میاں! کہاں ہو تم، تمہیں فلاں صاحب بڑا پوچھ رہے تھے اور میرے پاس تمہارا کوئی نمبر بھی نہ تھا۔''
''کیا واقعی۔۔۔؟'' وہ صاحب (نام لکھنا مناسب نہیں) کھل گئے، ''اچھا تم جلدی سے اپنا نمبر دو، تاکہ اگر کوئی مجھ سے مانگے تو کم ازکم میرے پاس تمہارا نمبر تو ہو۔'' ان صاحب نے جلدی سے اپنا نمبر لکھوایا اور سلام علیک کرکے چل دیے ان کے جانے کے بعد قاضی صاحب نے ہم سے پوچھا۔
''یہ کون تھا؟'' ان کے اس سوال پر ہم ذرا سٹپٹائے کہ ابھی تو قاضی صاحب بڑی باتیں کررہے تھے جیسے بڑی جان پہچان ہو۔ ''قاضی صاحب! یہ آرٹسٹ ہیں آج کل کافی ڈراموں میں آرہے ہیں۔''
''ہاں ٹھیک کہتی ہو تم، دیکھا دیکھا سا تو لگتا ہے ۔ اچھا یہ بتاؤ کیا نام ہے اس کا تاکہ میں اس کا نام تو سیوکرلوں۔'' ہم نے نام بتایا۔ پوچھا اب ریڈیو نہیں جاتے۔ کہنے لگے ''بیٹا وہاں اب کام نہیں ہوتا ریٹائرمنٹ لے لی ہے بلاوجہ روز جاؤ حاضری لگاؤ وقت گزارو۔ سوچا ریٹائرمنٹ ہی لے لوں۔ اس وقت تک ان کے گھر دودھ والا نہیں آیا تھا ذرا دیر سے آیا تو بالکل ڈرامائی انداز میں اسے کہنے لگے۔ اماں اتنی دیرکردی کہ مہمان آکر بھی چلا جائے پھر دودھ لے کر اندر آواز لگائی ارے بھئی چائے بنادو۔ بچی آئی ہے، گو اس وقت تک ہم بزم طلبا کے نہ رہے تھے لیکن ان کی نظر میں ہم تب بھی بچے ہی تھے۔
واپسی پر ہمارے فوٹو گرافر عظیم انکل نے بتایا کہ چھوٹے آرٹسٹ اسی طرح بڑے آرٹسٹوں کے پاس جاکر کام مانگتے ہیں اور وہ آرٹسٹ بھی یہ سن کر کہ ہم قاضی واجد کے گھر جا رہے ہیں ہمارے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوگئے تھے کہ اسی بہانے انھیں کام مل جائے گا، قاضی صاحب کے رویے پر ہم دونوں کافی محظوظ ہوئے تھے پر اب جاکر سمجھ میں آتا ہے کہ دراصل قاضی صاحب نے اس آرٹسٹ کا جن کے نام سے بھی وہ واقف نہ تھے جان لیا تھا کہ ان کی آمد کا مقصد کیا ہے۔ ان کا دل رکھا اور یقینا انھوں نے اس فنکار کا نمبر دوسرے پروڈیوسرز کو بھی دیا ہوگا۔ یقینا وہ آرٹسٹ جو بڑے مان سے ان کے پاس گیا تھا اگر قاضی صاحب یوں ہی پوچھ لیتے کہ میاں تمہارا نام کیا ہے اور یہ کہ ان کا فون نمبر محفوظ کرتے وقت ہی پوچھ لیتے تو اس شخص کا دل کس قدر ٹوٹتا۔ واقعی قاضی صاحب عظیم انسان تھے ان کی یادیں تو بہت ہیں جسے تحریرکرنا عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔
مگر جب یادکرتے ہیں زمانہ بھول جاتے ہیں
ایک بار پی ٹی وی کے نئے چیئرمین نے سینئر فنکاروں کے فن اور زندگی سے متعلق پروگرام کرنے کا کہا،اس میٹنگ میں قاضی واجد نے کہا تھا کہ جب ہونگے سینئر فنکار تو اوپر جانے کا پروگرام بنا لیں گے۔
قاضی صاحب کی عادت تھی وہ سنجیدگی سے چٹکلے چھوڑ دیا کرتے تھے پر ان کا یہ چٹکلا شاید ان کے دل سے ابھرا تھا۔ غالباً اسی پروگرام کی جھلکیاں چلتے پھرتے دیکھیں، پرانے ڈرامے، یادگار ڈرامے اور ساتھی فنکاروں کے تاثرات تو ذہن میں اس وقت پہلا خیال یہی ابھرا تھا کیا قاضی واجد کا انتقال ہوگیا؟ لیکن دوسری ہی جھلکی میں سوٹڈ بوٹڈ قاضی صاحب بڑی متانت سے اپنے اور اپنے فن سے متعلق خیالات کا اظہار کر رہے تھے پھر سوچا تف ہے ایسی فضول سوچ پر۔ اچھے بھلے قاضی صاحب ہیں شاید کوئی نئی سوچ ہے، چلو اچھا ہی ہے بڑے فنکاروں کی زندگی میں ہی ان کے اعزاز میں کوئی پروگرام کرلیا جائے۔ پر یہ خبر نہ تھی کہ اس کے چند روز بعد ہی ان کے گزرنے کی خبر ملے گی۔
قاضی واجد کو ہم نے پہلی بار ریڈیو پاکستان کراچی میں دیکھا تھا۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں اس پرانے سعید منزل کے سامنے ریڈیو اسٹیشن پرکام کرنے کا موقعہ ملا جس سے جڑے بڑے فنکاروں کی بڑی باتیں آج بھی ماضی کی عظیم داستان سناتی ہیں۔ جب کہ خود قاضی صاحب کا تعلق ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنھیں بچپن سے ہی بڑے لوگوں اور بڑی جگہوں پرکام کرنے کا موقعہ ملا، چاہے وہ ریڈیو پاکستان ہو یا ٹی وی اسٹیشن، تھیٹر ہو یا فلم ہر جگہ ان کے فن نے اپنا آپ منوایا۔ مخصوص انداز میں بات کرنا، سنجیدگی طاری کرلینا، سنجیدگی سے مزاح پر اترآنا، شعر و شاعری ہو یا ادبی موضوعات۔ اس شخص کا جواب نہ تھا، شیشوں کے کنچے جیسی آنکھیں،گلابی رنگت، سنہری گھنگھریالے بال، اسمارٹ، چہرے پر ہر دم کھلتی مسکراہٹ یہ تھے اپنے قاضی واجد۔ بچوں کی دنیا کے لیے قاضی انکل اور پورے ریڈیو پاکستان کے لیے قاضی صاحب۔
اس سوشل میڈیا کا بھی کیا کہیے کہ قاضی صاحب کے مرتے ہی ایسی ہی پوسٹیں کرنا شروع کردیں، مثلاً قاضی واجد کی بیٹی کون؟ آپ جان کر حیران رہ جائیں گے اور پھر واقعی ہم حیران رہ گئے کیونکہ فضیلہ قاضی کی تصویر چسپاں تھی۔۔۔۔ایں۔۔۔۔فضیلہ قاضی جنھیں فضیلہ قیصر بنے بھی سالوں گزر چکے ہیں پر ایسا کب۔۔۔۔دراصل ہماری خوبصورت سی فضیلہ قاضی کے نام کے ساتھ کبھی قاضی لگا ہوتا تھا، لہٰذا فوراً دل والوں نے انھیں قاضی واجد کی بیٹی قرار دے دیا۔ جہاں تک ہمارے علم میں ہے کہ ان کی صاحبزادی کو قطعاً اداکاری سے شغف نہ تھا اور کم ازکم وہ فضیلہ قاضی تو ہرگز نہیں ہیں دونوں کے درمیان عمروں کا اچھا بھلا فرق ہے۔ دوسری دلچسپ بات یہ کہ قاضی واجد کی تاریخ پیدائش 1930ء نظر آئی۔
کمال کی بات یہ ہے کہ فلم ''بیداری'' جس میں قاضی واجد نے اپنے بچپن میں ایک طالب علم کا کردار ادا کیا تھا اور غالباً سنتوش کمار مشہور فلمی ستارہ جنھوں نے آزادی پاکستان سے متعلق اس تاریخی اور یادگار فلم میں استاد کا کردار ادا کیا تھا، ابھی چند برس پیشتر ہی اس فلم کی جھلکیاں دیکھی تھیں، موقعے وہی چودہ اگست کا تھا جس میں قاضی صاحب کے بچپن کو دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے تھے مشہور زمانہ گانا۔
آؤ بچو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
۔۔۔پاکستان زندہ باد۔۔۔۔پاکستان زندہ باد
اسی فلم کا گانا ہے، یہ فلم 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی اب اگر قاضی واجد 1930ء میں پیدا ہوئے تو اس اعتبار سے ''بیداری'' میں انھیں پورے چھبیس برس کا ہونا چاہیے۔ بہرحال یہ ایک عام سی ذہنی مشق ہے جسے ہر عقل والا انسان سمجھ سکتا ہے۔
قاضی واجد اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے، اردو زبان کے گویا استاد تھے۔ الفاظ کے اتار چڑھاؤ اور صحیح تلفظ کی ادائیگی میں ریڈیو پروڈیوسرز کے علاوہ قاضی صاحب جیسے عظیم فنکاروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ سنا تھا کہ کبھی اسٹوڈیو نمبر نو۔۔۔۔جس کی اپنی ایک تاریخی حیثیت ہے بڑا آباد ہوا کرتا تھا۔
جب کہ ''حامد میاں کے یہاں'' میں بھی قاضی صاحب کا ایک کردار تھا جو اس زمانے کے تمام گھروں میں گھومتا پھرتا اور اپنی حیثیت منواتا تھا۔ جب کہ اسٹوڈیو نمبر نوکے ڈراموں میں بھی قاضی صاحب کی منفرد صداکاری نے اپنا جادو جگایا۔ بزم طلبا کے زمانے میں ریڈیو پاکستان کراچی میں ایک بڑا مشاعرہ منعقد ہوا۔ ہمارے لیے سوال تھا کہ رات دیر ہونے کے باعث گھر سے اجازت نہ ملے گی تو طے پایا کہ قاضی صاحب واپسی میں ڈراپ کردیں گے کیونکہ ان کا گھر نزدیک ہی تھا۔ لہٰذا قاضی صاحب کی وجہ سے ہمیں پہلی بار بڑے بڑے شعرا کو سننے کا موقعہ ملا وہ ایک شفیق انسان تھے۔
سارے راستے قاضی صاحب نصیحتیں،کچھ زمانے کی شکایتیں اور لوگوں کے برے رویوں کے بارے میں بتاتے رہے، اس زمانے میں بہت سے پروڈیوسرز اور فنکار ریڈیو پرکام نہ ہونے کے باعث ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچ رہے تھے، بہت سے اداس بھی تھے کہ یہ اسٹیشن کبھی آباد تھا اور اب۔۔۔۔بہرحال کچھ عرصے بعد اتفاقاً قاضی صاحب کا انٹرویو اپنے میگزین کے لیے کرنے کا سوچا۔ ایک نئے فنکار بھی ہماری ساتھ زبردستی ہولیے ان کا خیال تھا کہ ہمارے بہانے وہ بھی قاضی صاحب سے ملاقات کرلیں گے۔ بہرحال ہم سب ایک ٹیم کی طرح ان کے گھر پہنچے۔ قاضی صاحب ہم سب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
'' ارے میاں! کہاں ہو تم، تمہیں فلاں صاحب بڑا پوچھ رہے تھے اور میرے پاس تمہارا کوئی نمبر بھی نہ تھا۔''
''کیا واقعی۔۔۔؟'' وہ صاحب (نام لکھنا مناسب نہیں) کھل گئے، ''اچھا تم جلدی سے اپنا نمبر دو، تاکہ اگر کوئی مجھ سے مانگے تو کم ازکم میرے پاس تمہارا نمبر تو ہو۔'' ان صاحب نے جلدی سے اپنا نمبر لکھوایا اور سلام علیک کرکے چل دیے ان کے جانے کے بعد قاضی صاحب نے ہم سے پوچھا۔
''یہ کون تھا؟'' ان کے اس سوال پر ہم ذرا سٹپٹائے کہ ابھی تو قاضی صاحب بڑی باتیں کررہے تھے جیسے بڑی جان پہچان ہو۔ ''قاضی صاحب! یہ آرٹسٹ ہیں آج کل کافی ڈراموں میں آرہے ہیں۔''
''ہاں ٹھیک کہتی ہو تم، دیکھا دیکھا سا تو لگتا ہے ۔ اچھا یہ بتاؤ کیا نام ہے اس کا تاکہ میں اس کا نام تو سیوکرلوں۔'' ہم نے نام بتایا۔ پوچھا اب ریڈیو نہیں جاتے۔ کہنے لگے ''بیٹا وہاں اب کام نہیں ہوتا ریٹائرمنٹ لے لی ہے بلاوجہ روز جاؤ حاضری لگاؤ وقت گزارو۔ سوچا ریٹائرمنٹ ہی لے لوں۔ اس وقت تک ان کے گھر دودھ والا نہیں آیا تھا ذرا دیر سے آیا تو بالکل ڈرامائی انداز میں اسے کہنے لگے۔ اماں اتنی دیرکردی کہ مہمان آکر بھی چلا جائے پھر دودھ لے کر اندر آواز لگائی ارے بھئی چائے بنادو۔ بچی آئی ہے، گو اس وقت تک ہم بزم طلبا کے نہ رہے تھے لیکن ان کی نظر میں ہم تب بھی بچے ہی تھے۔
واپسی پر ہمارے فوٹو گرافر عظیم انکل نے بتایا کہ چھوٹے آرٹسٹ اسی طرح بڑے آرٹسٹوں کے پاس جاکر کام مانگتے ہیں اور وہ آرٹسٹ بھی یہ سن کر کہ ہم قاضی واجد کے گھر جا رہے ہیں ہمارے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوگئے تھے کہ اسی بہانے انھیں کام مل جائے گا، قاضی صاحب کے رویے پر ہم دونوں کافی محظوظ ہوئے تھے پر اب جاکر سمجھ میں آتا ہے کہ دراصل قاضی صاحب نے اس آرٹسٹ کا جن کے نام سے بھی وہ واقف نہ تھے جان لیا تھا کہ ان کی آمد کا مقصد کیا ہے۔ ان کا دل رکھا اور یقینا انھوں نے اس فنکار کا نمبر دوسرے پروڈیوسرز کو بھی دیا ہوگا۔ یقینا وہ آرٹسٹ جو بڑے مان سے ان کے پاس گیا تھا اگر قاضی صاحب یوں ہی پوچھ لیتے کہ میاں تمہارا نام کیا ہے اور یہ کہ ان کا فون نمبر محفوظ کرتے وقت ہی پوچھ لیتے تو اس شخص کا دل کس قدر ٹوٹتا۔ واقعی قاضی صاحب عظیم انسان تھے ان کی یادیں تو بہت ہیں جسے تحریرکرنا عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔