پستی تک گر چکے

خاموش ہو کر کسی مخالف یا دوسرے کی بات سننا بہت بڑا فن ہے، جو معاشرے سے ختم ہوتا جا رہا ہے

احترام آدمیت ایک آفاقی اخلاقی اصول ہے، جس کا تقاضا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک بحیثیت انسان اپنی آراء، نظریات، فکر وعمل اور فلسفہ حیات کو اپنانے کا مجاز ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے نظریات و خیالات، فکر و عمل بالکل درست ہوں، غلط بھی ہوسکتے ہیں، ان سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن ان کی وجہ سے آدمیت کے احترام میں فرق نہیں آنا چاہیے، مگر افسوس معاشرے سے برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔ کسی کی رائے ہماری رائے سے ٹکرائے یا کسی کے سیاسی و مذہبی نظریات سے ہمیں اختلاف ہو تو ہم لوگ احترام آدمیت کے اصول کو اپنے پیروں تلے روندے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ فوراً اخلاقیات کا سبق بھول جاتے ہیں۔

اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے بجائے مدمقابل کی توہین و تذلیل کرنے پر اتر آتے ہیں۔ روز کسی نئے ایشو پر اخلاقیات کی دھجیاں اڑانا ہمارا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ کبھی کسی سیاسی معاملے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان مخالف سیاسی جماعت کے قائدین اور جماعت سے وابستہ افراد سے متعلق گھٹیا زبان استعمال کر کے اخلاقیات پامال کر رہے ہوتے ہیں اور مخالف جماعت اور افراد کو بدنام کرنے کے لیے بہت نیچے تک گرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے ایک لمحہ بھر بھی عار محسوس نہیں ہوتی اور کبھی کسی مذہبی معاملے پر مخالف مسلک و فرقے کے افراد اور مذہبی رہنماؤں پر بے سروپا نت نئے الزامات لگا کر اپنی اخلاقی پستی کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں۔ مخالف فرقے و مسلک کے نظریات اور معتبر شخصیات کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور جھوٹے الزامات لگاتے ہوئے ذرہ بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔

ہم لوگ کبھی کبھی تو نظریاتی اختلاف کی وجہ سے اتنی پستی میں گر جاتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ ضمیر اور احساس مر چکے ہیں۔ حالانکہ کسی معاشرے میں اختلاف رائے کا ہونا اس معاشرے میں زندہ انسانوں کے وجود کا ثبوت ہے۔ اختلاف رائے انسانی ذہن کے دریچوں کو کھولتا ہے اور اندازِ تفکر میں وسعت پیدا کرتا ہے، لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں اختلاف رائے کرنے والے کو دشمن سمجھا جانے لگتا ہے۔ کوئی دوسرے کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا اور اپنی بات کی صداقت کو ثابت کرنے میں انتہاپسندی کی حد بھی عبور کر جاتے ہیں، حالانکہ دنیا کا ہر معاشرہ اختلاف رائے کو تسلیم کرنے کا قائل ہے، دنیا کا ہر مذہب اور ہر قانون اختلاف رائے کی اجازت دیتا ہے اور اسلام نے تو اختلاف رائے پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھرپور اختلاف کرتے رہے، لیکن اختلاف رائے کی وجہ سے اس طرح کسی کو دشمن نہیں سمجھا جاتا تھا، جس طرح آج سمجھا جاتا ہے۔ آج تو اختلاف رائے پر اخلاقی روایات کو پاؤں تلے روندتا جا رہا ہے۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور دوسرے کی بات ماننا تو بہت دور کی بات ہے، ہم کسی مخالف کی بات سننے کے قائل ہی نہیں رہے۔

خاموش ہو کر کسی مخالف یا دوسرے کی بات سننا بہت بڑا فن ہے، جو معاشرے سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ مخالف کی بات سننا اور اس پر غور کرنا اس بات کا اظہار ہے کہ میں کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھ میں برداشت ہے، میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں، میں انسان ہوں، حرف آخر نہیں ہوں، اس لیے میں غلط بھی ہوسکتا ہوں۔ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ میرے پاس علم ہے اور میں آپ کی بات سننے کی استطاعت رکھتا ہوں، لیکن بدقسمتی سے بات سننے اور کچھ دیر خاموش رہنے کا فن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ہم لوگ ہر حال میں مدمقابل کو غلط ثابت کرنے کے لیے تل جاتے ہیں۔ اگرچہ مدمقابل میں کوئی اچھائی ہی ہو، تب بھی اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاشرے سے اخلاقیات کا فقدان ہورہا ہے۔ اخلاقی اقدار اور تربیت کا ہمارے ہاں قحط ہے۔ روز مرہ زندگی میں ہمارے رویے اخلاقی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔


اخلاق کسی بھی قوم کی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں۔ جس معاشرہ میں اخلاق ناپید ہو وہ کبھی مہذب نہیں بن سکتا، اس میں کبھی اجتماعی رواداری، مساوات،اخوت و باہمی بھائی چارہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔ جس معاشرہ میں اخلاقیات کوئی قیمت نہ رکھتی ہوں ، اس معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے۔ اخلاقی خوبیوں کا فروغ ہی وہ چیز ہے جو معاشرے کے مختلف طبقات میں باہمی الفت و محبت پیدا کرتا ہے۔

صور ت حال اگر برعکس ہو تو باہمی آویزش قومی اتحاد کو پارہ پارہ کردیتی ہے جو آخر کار تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے، وہ اپنے فرائض کو ذمے داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور جب یہ حس مردہ ہو جاتی ہے تو پورے معاشرے کو مردہ کر دیتی ہے اورایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔ اخلاق سے مقصود باہم بندوں کے حقوق و فرائض ہیں جن کو ادا کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر ایک مضبوط و مستحکم اور صحت مند و توانا معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ ہرمذہب نے اپنے اپنے طرز پر اخلاقیات کے اصول پیش کیے۔ اخلاقِ حسنہ کو مذہب کا معیار قرار دیا اور اخلاق ذمیمہ سے ناگواری کا اظہار کیا۔اسلام نے تو اس معاملے میں بہت ہی ہدایات دی ہیں۔

اسلام میں ایمان اور اخلاق دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ مسلمان کی پہچان ہی اخلاق سے ہے۔ یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک مسلمان ایمان کا دعویٰ توکرے، مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات میں اخلاقیات کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہیں، جس پر اللہ کریم جل شانہ کی کتابِ لاریب مہرتصدیق ثبت کر رہی ہے۔ بے شک آپ بڑے عظیم اخلاق کے مالک ہے۔ ( القلم) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکارم اخلاق کے اعلیٰ معارج کی تعلیم و تربیت اور درستگی کے لیے مبعوث فرمائے گئے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ میں اعلیٰ اخلاقی شرافتوں کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔

ہمارے نبی نے قدم قدم پر ہماری اخلاقی تربیت کی ہے، اگر ہمارا معاشرہ اس پر عمل کرے تو معاشرہ سے تمام اخلاقی خرابیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں اور معاشرہ امن، اخوت، بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان اْس شخص کا ہے، جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہوں۔ بدقسمتی سے ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ سے دوری اختیار کرتے جار ہے ہیں۔ وہ دین جس کی حقیقی پہچان اخلاقیات کا عظیم باب تھا اور جس کی تکمیل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے تھے، آج اسی دین کے ماننے والے اخلاقیات میں پستی تک گر چکے ہیں۔
Load Next Story