چین میں روبوٹ جنگی بحری جہازوں کا سب سے بڑا تحقیقی مرکز
225 مربع ناٹیکل میل پر محیط ’وانشین میرین ٹیسٹ سائٹ‘ میں ہر طرح کی جدید سہولیات موجود ہیں
HYDERABAD:
چین نے ٹیکنالوجی کے اگلے شعبے میں جست لگاتے ہوئے ایک اور بڑا قدم اٹھایا ہے جس کے تحت وہ روبوٹ بحری جہاز بلکہ خودکار بحری جنگی جہازوں کا سب سے بڑا عالمی مرکز قائم کررہا ہے۔
یہ مرکز مکاؤ کے شمال میں 'وانشین میرین ٹیسٹ سائٹ ' کے نام سے قائم کیا جارہا ہے جو منصوبے کے تحت 225 مربع ناٹیکل میل پر پھیلا ہوا ہوگا جہاں سمندر کے ساتھ ساتھ جزائر بھی ہیں۔ روبوٹک بحری جہاز الیکٹرو آپٹیکل سنسر، سیٹلائٹ نیوی گیشن، سونار، مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا لنکس سے منسلک ہوگا۔
اس مرکز میں چینی ماہرین اور انجینئر نت نئی ٹیکنالوجی کی آزمائش بھی کریں گے جن میں جہازوں کی ازخود اسٹیرنگ اور رکاوٹوں سے عبور کرنے والے خودکار نظام اور مصنوعی ذہانت کے مختلف الگورتھم بھی شامل ہیں۔
یہ مرکز خود کار بحری جہازوں کے معیارات اور سرٹیفکیشن پر بھی کام کرے گا۔ چینی بحریہ کے علاوہ کئی جامعات اور سول ادارے مل کر ریل گن، الیکٹرو میگنیٹک ٹیکنالوجیز اور بحریہ کے مختلف امور پر بھی تحقیق کریں گے۔
اگر وزن کے لحاظ سے بات کی جائے تو دنیا میں سب سے بڑی شپ بلڈنگ کی صلاحیت اس وقت چین ہی کے پاس ہے جب کہ خود جاپان اور جنوبی کوریا بھی چینی بحری مصنوعات پر کام کر رہے ہیں۔ اس مرکز میں جہازوں کے نئے ایندھن اور سپر بحری جہازوں پر بھی کام ہوگا۔
پوری دنیا میں انسانوں کے بغیر بحری جہازوں پر کام ہورہا ہے جن میں جنگی کشتیاں سرِ فہرست ہیں۔ چینی ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وانشین مرکز سمندری بیڑوں کے لیے آرٹیفشل انٹیلی جنس کا بھی سب سے بڑا مرکز ثابت ہوگا۔
چین نے ٹیکنالوجی کے اگلے شعبے میں جست لگاتے ہوئے ایک اور بڑا قدم اٹھایا ہے جس کے تحت وہ روبوٹ بحری جہاز بلکہ خودکار بحری جنگی جہازوں کا سب سے بڑا عالمی مرکز قائم کررہا ہے۔
یہ مرکز مکاؤ کے شمال میں 'وانشین میرین ٹیسٹ سائٹ ' کے نام سے قائم کیا جارہا ہے جو منصوبے کے تحت 225 مربع ناٹیکل میل پر پھیلا ہوا ہوگا جہاں سمندر کے ساتھ ساتھ جزائر بھی ہیں۔ روبوٹک بحری جہاز الیکٹرو آپٹیکل سنسر، سیٹلائٹ نیوی گیشن، سونار، مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا لنکس سے منسلک ہوگا۔
اس مرکز میں چینی ماہرین اور انجینئر نت نئی ٹیکنالوجی کی آزمائش بھی کریں گے جن میں جہازوں کی ازخود اسٹیرنگ اور رکاوٹوں سے عبور کرنے والے خودکار نظام اور مصنوعی ذہانت کے مختلف الگورتھم بھی شامل ہیں۔
یہ مرکز خود کار بحری جہازوں کے معیارات اور سرٹیفکیشن پر بھی کام کرے گا۔ چینی بحریہ کے علاوہ کئی جامعات اور سول ادارے مل کر ریل گن، الیکٹرو میگنیٹک ٹیکنالوجیز اور بحریہ کے مختلف امور پر بھی تحقیق کریں گے۔
اگر وزن کے لحاظ سے بات کی جائے تو دنیا میں سب سے بڑی شپ بلڈنگ کی صلاحیت اس وقت چین ہی کے پاس ہے جب کہ خود جاپان اور جنوبی کوریا بھی چینی بحری مصنوعات پر کام کر رہے ہیں۔ اس مرکز میں جہازوں کے نئے ایندھن اور سپر بحری جہازوں پر بھی کام ہوگا۔
پوری دنیا میں انسانوں کے بغیر بحری جہازوں پر کام ہورہا ہے جن میں جنگی کشتیاں سرِ فہرست ہیں۔ چینی ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وانشین مرکز سمندری بیڑوں کے لیے آرٹیفشل انٹیلی جنس کا بھی سب سے بڑا مرکز ثابت ہوگا۔