بلھے شاہ پر سوشل میڈیا کا دھاوا
بلھے شاہ کا کلام اور فلسفہ عام لوگوں میں عشق ومحبت کے مجازی اور حقیقی جذبے کو جگاتا ہے
ایک صاحب کی ٹائم لائن پر بلھے شاہ کے جو اشعار میری نظروں سے گزرے انھیں اس سے قبل میں نے کسی کتاب میں دیکھا نہ کسی قوال سے سنا اور نہ ہی ان کے مزارکے احاطے کی کسی دیوار پر درج تھے۔ میں نے سمجھا شاید بلھے شاہ کی کتاب کا کوئی نیا ایڈیشن آیا ہے، مگر یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ تو 1758ء میں انتقال کرگئے تھے۔
صوفی شعرا سے عقیدت رکھنے والوں کا خیال ہے کہ وہ جسمانی طور پر تو ہم سے جدا ہو جاتے ہیں مگر اپنے خیالات کی روشنی لیے صدیوں تک بھولے بھٹکے انسانوں کی تاریک راہوں کو منور رکھتے ہیں۔جب فیس بک پر تسلسل کے ساتھ دوسرے صوفی شعرا اور بلھے شاہ کے ایسے اشعار نظر آنے لگے جو اس سے پہلے کبھی نظروں سے نہیں گزرے تھے تو تھوڑا شک ہوا کہ ہو نہ ہو بلھے شاہ اپنے سنہری اقوال وخیالات کے ساتھ جسمانی طور پر بھی زندہ ہیں اور تواترکے ساتھ شاعری بھی کررہے ہیں۔ کتابوں میں ان کے انتقال کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لگ بھگ ڈیڑھ صدی قبل تک زندہ تھے مگر اصل حقائق تو پنجابی زبان وادب کا کوئی محقق ہی بتاسکتا ہے۔
پنجابی ادب کے اہم نقاد سبط الحسن ضیغم بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں محمد آصف خان، شریف صابر اور شفقت تنویر مرزا جیسے فقیر منش کو بھی دنیا سے منہ موڑے عرصہ گزرچکا ہے اس کے باوجود بہت ساری غلطیوں سے بچنے کے لیے ان جیسے کئی محققین کی کتابوں کا قابل فخر سرمایہ مختلف لائیبریریوں میں موجود ہے لیکن اس نفا نفسی کے عالم میں لائیبریریوں اورکتابوں کو کون پوچھتا ہے۔ بزرگوں سے سنی اس بات پر عمل کرتے ہوئے کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر ہوتی ہے اور نہ انتہا، ہم نے بھی انٹرنیٹ پر بہنے والے علمی اور تحقیقی دریاؤں میں غوطہ زنی کے خیال سے بسم اللہ پڑھ کر گوگل کے ریسرچ والے خانے میں بلھے شاہ لکھا تواشعارکی اتنی بڑی تعداد سامنے آئی کہ حیران رہ گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم کتابوں میں ان کا نام بلھے شاہ پڑھتے چلے آرہے تھے مگر گوگل پر ان کے نام سے منسوب کچھ اشعار کے نیچے جب ''بھلے شاہ'' لکھا ہوا دیکھا تو اپنی کم علمی پر مزید شرمندگی ہوئی۔
بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں مظلوم طبقوں کی حمایت اور استحصالی طبقے کی مخالفت میں جوکچھ لکھا،اس سے ایک جہان واقف ہے مگر پچھلی ایک صدی سے برصغیر کے قوالوں کے ہاتھوں ان کی شاعری اور خیالات کا جو استحصال ہوا اس سے صرف وہی واقف ہیں جن کے پاس بلھے شاہ کی ایسی کتابیں موجود ہیں جنھیں مستند اداروں میں بیٹھے محققین نے شبانہ روز محنت سے مرتب کیا اور ان کے نام سے منسوب بہت سارے کلام کو چھانٹ کر الگ کردیا۔
قصور میں حافظ غلام مرتضیٰ جیسے نامور عالم سے قرآن، حدیث، فقہ اور منطق کا علم حاصل کرنے والے بلھے شاہ نے ایسے پڑھے لکھوں کی ہمیشہ مخالفت کی جو جسم پر اچھا لباس زیب تن کرنے کے باوجود علم کی اس تہہ تک نہ پہنچ سکے جہاں پھٹے پرانے کپڑوں میں جسم چھپانے والے عارف اور درویش پہنچ سکتے ہیں۔ انھوں نے شاید ایسے ہی کسی عالم سے چڑ کر کہا تھا۔
علموں بس کریں او یار
اکو الف تینوں درکار
بلھے شاہ صرف شاعر نہیں تھے بلکہ ان کا سینہ قرآن کی حکمت، اولیاء کے اقوال اور علمی وراثت سے دمک رہا تھا۔ وہ ہر اس علم کو صرف دکھاوے کا علم سمجھتے تھے جو خلق خدا کے بجائے ذاتی مفاد کے لیے حاصل کیا جائے یا کسی لالچ کے تحت لوگوں تک پہنچایا جائے۔ بلھے شاہ کی مشکلات سے بھری زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ اپنے استاد سے علم حاصل کرنے کے بعداپنے مرشد شاہ عنایت کے دروازے پر پہنچے۔
بلھا ! شوہ نے آندا، مینوں عنایت دے بوہے
جس مینوں پوائے، چولے ساوے تے سوہے
جاں میں ماری اے اڈی، مل پیا ہے وہیّا
تیرے عشق نچائیا کر تھیا تھیا
حکومت وقت، ظالم بادشاہوں اورآمریت کے خلاف بات کرنے والے دانشوروں، شاعروں،ادیبوں اورسماجی کارکنوں کے خیالات و اقوال سے تاریخ کے صفحات جگمگا رہے ہیں مگر ان میں سے زیادہ ترکو مرنے کے بعد ہی سمجھا اور سراہا گیا۔ دور مت جائیے ماضی قریب کے دانشور اور شاعر فیض احمد فیضؔ کی شخصیت اور خیالات کو ہی دیکھ لیجیے جن پر اعتراض کرنے والے حلقے اب مختلف مسائل کے لیے احتجاج کے دوران اپنے جھنڈوں کو ان کے اشعار سے سجانے اور ان کے مخالفین ان کے ساتھ بنائی گئی تصویروں کو سوشل میڈیا پر لگا تے ہوئے قابل فخر عمل سمجھنے لگے ہیں۔
بلھے شاہ کی زندگی بھی مخالفین کے اعتراضات سے بھری ہوئی تھی کہ ان کی سوچ وقت سے بہت آگے تھی اور وہ دوسروں سے بہت مختلف باتیںکر رہے تھے۔ انھوں نے پنجابی زبان میں شاعری کی مگر ان کاآفاقی پیغام کسی ایک علاقے یا مخصوص افراد کے بجائے ساری دنیا کے مظلوموں اور محکوموں کے دکھوں اور مصیبتوں کا ترجمان تھاجس بنا پر یہ پیغام پنجاب کے ساتھ سندھ اور راجستھان کے صحراؤں میں گونجتے ہوئے پورے برصغیر میں پھیل گیا۔
انٹر نیٹ نے ہمیں نہ صرف پوری دنیا سے جوڑا بلکہ اس کے ذریعے علم و ادب کے ایسے خزانوں سے بھی شناسائی ہوئی جو شاید پوری زندگی نظروں سے اوجھل رہتے۔ اس خزانے میں دنیا بھر کی زبانوں کی ایسی کتابیں موجود ہیں جو کتابوں کی دکانوں پر دستیاب نہیں۔ ان کتابوںمیں دوسرے صوفی شعرا کے علاوہ بلھے شاہ کی کتابوں کا پی ڈی ایف بھی دستیاب ہے جسے ان کا درست کلام کہا جا سکتا ہے اور ان غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے قارئین تک پہنچ رہی ہیں۔
ان کے کلام پر اب تک جو تحقیق ہوئی ہے اس کے مطابق چند دوسری کتابوں کے علاوہ ان کا کلام ایک سو چھپن کافیوں پر مشتمل ہے، مگر بعض کتابوں میں اس سے کم اور زیادہ کافیاں بھی شامل ہیں۔ بلھے شاہ کے کلام پر ہونے والی تحقیق کا جائزہ لیا جائے تو درجن بھر ایسے محققین سامنے آئیں گے جنہوں نے انتہائی محنت کے ساتھ ان کے کلام زندگی اور فلسفے کے بارے میں انتہائی جامع تحقیق کی ہے۔ دوسروں کے علاوہ ان میں انور روہتکی، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، ڈاکٹر نذیر احمد اور محمد آصف خان کانام بھی شامل ہے جنہوں نے ماضی میں چھپنے والے مختلف نسخوں کی مدد سے ان کے اصل کلام کو یکجا کیا ۔
بلھے شاہ کا کلام اور فلسفہ جہاں عام لوگوں میں عشق ومحبت کے مجازی اور حقیقی جذبے کو جگاتا ہے وہاں ان لکھنے والوں کی ڈھارس بھی بندھاتا ہے جو اپنے قلم کے ذریعے خلق خدا پر ہونے والے مظالم کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں سیاسی اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کے موجودہ دور میں ایسے لکھاریوں کی ضرورت کل کی نسبت زیادہ محسوس کی جا رہی ہے جو نہ صرف بلھے شاہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کے استحصالی طبقوں اور سامراجی عزائم رکھنے والی بیرونی قوتوں کو پوری طاقت سے للکارسکیںبلکہ ایسے نادان دوستوں کی بھی مدد کر سکیں جو صوفیائے کرام کے اقوال و اشعار بغیر تحقیق کے سوشل میڈیا کی پیشانی پر آوایزاں کرتے ہوئے ادبی اور علمی جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
صوفی شعرا سے عقیدت رکھنے والوں کا خیال ہے کہ وہ جسمانی طور پر تو ہم سے جدا ہو جاتے ہیں مگر اپنے خیالات کی روشنی لیے صدیوں تک بھولے بھٹکے انسانوں کی تاریک راہوں کو منور رکھتے ہیں۔جب فیس بک پر تسلسل کے ساتھ دوسرے صوفی شعرا اور بلھے شاہ کے ایسے اشعار نظر آنے لگے جو اس سے پہلے کبھی نظروں سے نہیں گزرے تھے تو تھوڑا شک ہوا کہ ہو نہ ہو بلھے شاہ اپنے سنہری اقوال وخیالات کے ساتھ جسمانی طور پر بھی زندہ ہیں اور تواترکے ساتھ شاعری بھی کررہے ہیں۔ کتابوں میں ان کے انتقال کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لگ بھگ ڈیڑھ صدی قبل تک زندہ تھے مگر اصل حقائق تو پنجابی زبان وادب کا کوئی محقق ہی بتاسکتا ہے۔
پنجابی ادب کے اہم نقاد سبط الحسن ضیغم بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں محمد آصف خان، شریف صابر اور شفقت تنویر مرزا جیسے فقیر منش کو بھی دنیا سے منہ موڑے عرصہ گزرچکا ہے اس کے باوجود بہت ساری غلطیوں سے بچنے کے لیے ان جیسے کئی محققین کی کتابوں کا قابل فخر سرمایہ مختلف لائیبریریوں میں موجود ہے لیکن اس نفا نفسی کے عالم میں لائیبریریوں اورکتابوں کو کون پوچھتا ہے۔ بزرگوں سے سنی اس بات پر عمل کرتے ہوئے کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر ہوتی ہے اور نہ انتہا، ہم نے بھی انٹرنیٹ پر بہنے والے علمی اور تحقیقی دریاؤں میں غوطہ زنی کے خیال سے بسم اللہ پڑھ کر گوگل کے ریسرچ والے خانے میں بلھے شاہ لکھا تواشعارکی اتنی بڑی تعداد سامنے آئی کہ حیران رہ گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم کتابوں میں ان کا نام بلھے شاہ پڑھتے چلے آرہے تھے مگر گوگل پر ان کے نام سے منسوب کچھ اشعار کے نیچے جب ''بھلے شاہ'' لکھا ہوا دیکھا تو اپنی کم علمی پر مزید شرمندگی ہوئی۔
بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں مظلوم طبقوں کی حمایت اور استحصالی طبقے کی مخالفت میں جوکچھ لکھا،اس سے ایک جہان واقف ہے مگر پچھلی ایک صدی سے برصغیر کے قوالوں کے ہاتھوں ان کی شاعری اور خیالات کا جو استحصال ہوا اس سے صرف وہی واقف ہیں جن کے پاس بلھے شاہ کی ایسی کتابیں موجود ہیں جنھیں مستند اداروں میں بیٹھے محققین نے شبانہ روز محنت سے مرتب کیا اور ان کے نام سے منسوب بہت سارے کلام کو چھانٹ کر الگ کردیا۔
قصور میں حافظ غلام مرتضیٰ جیسے نامور عالم سے قرآن، حدیث، فقہ اور منطق کا علم حاصل کرنے والے بلھے شاہ نے ایسے پڑھے لکھوں کی ہمیشہ مخالفت کی جو جسم پر اچھا لباس زیب تن کرنے کے باوجود علم کی اس تہہ تک نہ پہنچ سکے جہاں پھٹے پرانے کپڑوں میں جسم چھپانے والے عارف اور درویش پہنچ سکتے ہیں۔ انھوں نے شاید ایسے ہی کسی عالم سے چڑ کر کہا تھا۔
علموں بس کریں او یار
اکو الف تینوں درکار
بلھے شاہ صرف شاعر نہیں تھے بلکہ ان کا سینہ قرآن کی حکمت، اولیاء کے اقوال اور علمی وراثت سے دمک رہا تھا۔ وہ ہر اس علم کو صرف دکھاوے کا علم سمجھتے تھے جو خلق خدا کے بجائے ذاتی مفاد کے لیے حاصل کیا جائے یا کسی لالچ کے تحت لوگوں تک پہنچایا جائے۔ بلھے شاہ کی مشکلات سے بھری زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ اپنے استاد سے علم حاصل کرنے کے بعداپنے مرشد شاہ عنایت کے دروازے پر پہنچے۔
بلھا ! شوہ نے آندا، مینوں عنایت دے بوہے
جس مینوں پوائے، چولے ساوے تے سوہے
جاں میں ماری اے اڈی، مل پیا ہے وہیّا
تیرے عشق نچائیا کر تھیا تھیا
حکومت وقت، ظالم بادشاہوں اورآمریت کے خلاف بات کرنے والے دانشوروں، شاعروں،ادیبوں اورسماجی کارکنوں کے خیالات و اقوال سے تاریخ کے صفحات جگمگا رہے ہیں مگر ان میں سے زیادہ ترکو مرنے کے بعد ہی سمجھا اور سراہا گیا۔ دور مت جائیے ماضی قریب کے دانشور اور شاعر فیض احمد فیضؔ کی شخصیت اور خیالات کو ہی دیکھ لیجیے جن پر اعتراض کرنے والے حلقے اب مختلف مسائل کے لیے احتجاج کے دوران اپنے جھنڈوں کو ان کے اشعار سے سجانے اور ان کے مخالفین ان کے ساتھ بنائی گئی تصویروں کو سوشل میڈیا پر لگا تے ہوئے قابل فخر عمل سمجھنے لگے ہیں۔
بلھے شاہ کی زندگی بھی مخالفین کے اعتراضات سے بھری ہوئی تھی کہ ان کی سوچ وقت سے بہت آگے تھی اور وہ دوسروں سے بہت مختلف باتیںکر رہے تھے۔ انھوں نے پنجابی زبان میں شاعری کی مگر ان کاآفاقی پیغام کسی ایک علاقے یا مخصوص افراد کے بجائے ساری دنیا کے مظلوموں اور محکوموں کے دکھوں اور مصیبتوں کا ترجمان تھاجس بنا پر یہ پیغام پنجاب کے ساتھ سندھ اور راجستھان کے صحراؤں میں گونجتے ہوئے پورے برصغیر میں پھیل گیا۔
انٹر نیٹ نے ہمیں نہ صرف پوری دنیا سے جوڑا بلکہ اس کے ذریعے علم و ادب کے ایسے خزانوں سے بھی شناسائی ہوئی جو شاید پوری زندگی نظروں سے اوجھل رہتے۔ اس خزانے میں دنیا بھر کی زبانوں کی ایسی کتابیں موجود ہیں جو کتابوں کی دکانوں پر دستیاب نہیں۔ ان کتابوںمیں دوسرے صوفی شعرا کے علاوہ بلھے شاہ کی کتابوں کا پی ڈی ایف بھی دستیاب ہے جسے ان کا درست کلام کہا جا سکتا ہے اور ان غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے قارئین تک پہنچ رہی ہیں۔
ان کے کلام پر اب تک جو تحقیق ہوئی ہے اس کے مطابق چند دوسری کتابوں کے علاوہ ان کا کلام ایک سو چھپن کافیوں پر مشتمل ہے، مگر بعض کتابوں میں اس سے کم اور زیادہ کافیاں بھی شامل ہیں۔ بلھے شاہ کے کلام پر ہونے والی تحقیق کا جائزہ لیا جائے تو درجن بھر ایسے محققین سامنے آئیں گے جنہوں نے انتہائی محنت کے ساتھ ان کے کلام زندگی اور فلسفے کے بارے میں انتہائی جامع تحقیق کی ہے۔ دوسروں کے علاوہ ان میں انور روہتکی، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، ڈاکٹر نذیر احمد اور محمد آصف خان کانام بھی شامل ہے جنہوں نے ماضی میں چھپنے والے مختلف نسخوں کی مدد سے ان کے اصل کلام کو یکجا کیا ۔
بلھے شاہ کا کلام اور فلسفہ جہاں عام لوگوں میں عشق ومحبت کے مجازی اور حقیقی جذبے کو جگاتا ہے وہاں ان لکھنے والوں کی ڈھارس بھی بندھاتا ہے جو اپنے قلم کے ذریعے خلق خدا پر ہونے والے مظالم کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں سیاسی اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کے موجودہ دور میں ایسے لکھاریوں کی ضرورت کل کی نسبت زیادہ محسوس کی جا رہی ہے جو نہ صرف بلھے شاہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کے استحصالی طبقوں اور سامراجی عزائم رکھنے والی بیرونی قوتوں کو پوری طاقت سے للکارسکیںبلکہ ایسے نادان دوستوں کی بھی مدد کر سکیں جو صوفیائے کرام کے اقوال و اشعار بغیر تحقیق کے سوشل میڈیا کی پیشانی پر آوایزاں کرتے ہوئے ادبی اور علمی جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔