مختار مسعود۔۔۔۔محفوظ ہیں سب یادیں
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسکول دو حصوں پر مشتمل تھا
امر شاہد نے مختار مسعود کی یادوں اور باتوں کو کچھ ان پر لکھے گئے مضامین اور کچھ خود ان کی نگارشات سے اس کتاب میں محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ قابل تحسین ہے ان کی یہ کوشش۔ یہ مضامین ان صاحبان کے ہیں جنھوں نے مختار مسعود کو نزدیک و دور سے دیکھا تھا۔
زیادہ تر یہ ان کی کتاب ''آواز دوست'' کے حوالے سے ان کی شخصیت، ان کے علم اور کردار پر ان کے تاثرات ہیں۔ ''آواز دوست'' درحقیقت مختار مسعود کی پہچان بن گئی ہے۔ محمد طفیل لکھتے ہیں کہ ''ایک بار جب ''آواز دوست'' پر ایک تقریب کا پروگرام بن رہا تھا تو سوال پیدا ہوا کہ موصوف کی شخصیت پر لکھے گا کون؟ ادھر ادھر دیکھا گیا۔ ادھر ادھر دیکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک بار خود مسعود نے کہا تھا ''ہماری شخصیت پر کوئی کیا لکھے گا اس لیے کہ ہم نے تو کسی کو قریب آنے ہی نہیں دیا۔'' بات سچی تھی اور سچی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسکول دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک ابتدائی یعنی پہلی سے چوتھی کلاس تک جو ظہور وارڈ میں تھا اور دوسرا پانچویں سے دسویں تک جو منٹو سرکل میں تھا۔ مختار مسعود نے پہلی کلاس سے دسویں کلاس تک اس اسکول میں پڑھا، پھر یونیورسٹی میں پہنچے بی اے آنرز کیا، ایم اے کیا۔ میں نے بھی اسی اسکول میں پڑھا اور اسی سے میٹرک پاس کیا۔ مختار مسعود جب دسویں کلاس میں تھے تو اسکول میگزین کے ایڈیٹر تھے۔ یہ میگزین سال میں ایک بار نکلتا تھا۔ میں اس سال چھٹی کلاس کا طالب علم تھا منٹو سرکل میں۔ میرا جی چاہا کہ میں بھی اسکول میگزین کے لیے ایک مضمون لکھوں۔ میگزین میں طلبا ہی کے مضمون ہوتے تھے۔
چنانچہ میں نے ایک مضمون لکھا اور اسکول میں انھیں دینے کی بجائے ان کے گھر انھیں دینے گیا۔ یونیورسٹی کیمپس میں اساتذہ کے مکانات تھے۔ مختار مسعود کے والد شیخ عطا اللہ صاحب جس علاقے میں رہتے تھے وہ تار والا بنگلہ کہلاتا تھا۔ میں حالی روڈ پر نمبر 4 بنگلے میں رہتا تھا۔ یہاں سے وہ جگہ دور نہیں تھی۔ میں شام کو اپنا مضمون لے کر نکلا اور شیخ صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو مختار مسعود نکل آئے۔ میں نے سلام کیا اور اپنا مضمون انھیں پیش کیا۔
ایک نظر دیکھا، وہ مجھے پہنچاتے تھے مسکرائے کہنے لگے شکریہ، پھر کہا نہیں نہیں۔ بہت بہت شکریہ۔ میں بہت خوش ہوا۔ ان کی شخصیت بڑی دل آویز تھی۔ وہ ہمارے سینئر تھے اور سینئر کی علی گڑھ میں بڑی توقیر ہوتی تھی۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ میرا مضمون میگزین میں چھپ گیا اور میں خوش ہوگیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جب میں خود دسویں کلاس میں آیا تو اسکول میگزین کا ایڈیٹر بنا۔ ہمارے استاد، سید محمد ٹونکی ہمارے اسکول میگزین کے نگران تھے۔ مختار مسعود سے میری دوسری ملاقات پھر پاکستان میں ہوئی۔ وہ ان دنوں ملتان میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ میرے چھوٹے بھائی اقبال زبیری وہاں اخبار ''کوہستان'' کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ میں آزاد کشمیر ریڈیو جوائن کرنے کے لیے کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے دو تین دن کے لیے ملتان میں ٹھہرا۔ اقبال نے بتایا کہ مختار مسعود یہاں ڈپٹی کمشنر ہیں۔ میں نے کہا چلو مل آئیں۔
ان کے دفتر پہنچے۔ ان کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے کہلوایا کہ شام کوگھر آجاؤ۔ دفتر میں کیا ملنا۔ شام کو ان کے گھر اور خاصی دیر ان کے ساتھ رہے، ذکر منٹو سرکل کے دنوں کا ہی رہا۔ پھر دو بارکراچی میں اور دو بار اسلام آباد میں فرائض منصبی کے سلسلے میں مختصر سی ملاقات اور ایک بار جناح سپر مارکیٹ کے قریب ایک مسجد میں نماز تراویح کے بعد۔ یہ آخری ملاقات تھی بہت سال پہلے 1983ء میں۔ہم جب بھی ملے یہی لگا کہ جیسے ہمیشہ ملتے رہے ہیں۔ نہ میرے احترام میں کمی ہوئی اور نہ ان کی محبت میں۔ میں جانتا ہوں وہ کیسے تھے۔
امر شاہد کی کتاب میں ایک مضمون نورالحسن جعفری کا ہے۔ ''مختار مسعود ۔۔۔۔ایک عکس'' انھوں نے مختار مسعود کو قریب سے دیکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''اپنی پہلی ملاقات کی یاد تازہ ہے۔ ایک خوش رو اور خوش پوشاک صاحب جن کی گفتگو کا انداز بہت محتاط تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ لیکن اس پر بھی کچھ ابتسام کا شبہ'' جعفری صاحب نے مختار مسعود کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے:
بہت محنتی، سمجھ دار، وضعدار، شریف۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے، کینہ پرور نہیں۔اس کی ذاتی اور سرکاری زندگی میں ایک ٹھہراؤ،ایک سلیقہ اور ترتیب ہے۔ اسے جزئیات کا شوق ہے، اس کی یادداشت غیر معمولی ہے۔ مختار مسعود اصول توڑنے کا قائل نہیں ہے۔ وہ حساس ہے لیکن جذباتی نہیں۔ وہ دل نہیں دکھائے گا لیکن بے مروتی کرسکتا ہے۔ اسے اچھے کپڑوں، اچھے کھانوں اور اچھی چیزوں کا شوق ہے لیکن ان کا حصول زندگی کا مقصد نہیں۔ وہ اپنے وقت کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرتا ہے۔ شاید وہ اپنی زندگیٔ مستوار کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھتا ہے جس کے لیے ایک ایک لمحے کے استعمال کا اس کو حساب دینا ہوگا۔
سلطان ناصر کو مختار مسعود سے ملاقات کا اشتیاق تھا۔ یہی حال امر شاہد کا تھا۔ پھر اتفاق یہ دیکھیے کہ دونوں کو ایک ہی دن ایک ہی وقت میں ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ سلطان ناصر لکھتے ہیں۔ دوران گفتگو مختار مسعود کہنے لگے۔ ''علی گڑھ میں طالب علمی کے دور میں، میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میرا دن اس وقت تک شروع نہ ہوگا جب تک کلام الٰہی کا مطالعہ نہ کرلوں۔ پچاس سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے اور للہ الحمد صحت ہو یا بیماری، مصروفیت ہو یا فراغت، میری زندگی میں اس کے بعد کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس کا آغاز کم یا زیادہ مطالعہ، کلام باری تعالیٰ سے نہ ہوا ہو۔'' یہ 18 مارچ 2017ء کا دن تھا اور امر شاہد، ان کے بھائی گگن اور سلطان ناصر کی مختار مسعود سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
ڈاکٹر الطاف یوسف زئی نے مختار مسعود کی نثر نگاری کا ذکرکیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ''مختار مسعود کی تحریر اور اسلوب سے لطف اندوز ہونے کے لیے خاص علمی اُپچ رکھنا قاری کے لیے انتہائی لازمی ہے۔ ان کے ہاں ایک روشن فکر اور مطمئن روح کا اثر ہر جگہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ گہرے مطالعے اور وسیع تجربے کی بنیاد پر اپنے مخاطب اور پڑھنے والے کو نئی منزلوں اور اچھوتی حقیقتوں سے آشنا کراتے ہیں۔ تخیل کی بلند پروازی، علوم کے فکری اور فنی لوازمات سے آگاہی، نازک خیالی، نکتہ سنجی، معنی آفریں واقفیت، پیرایۂ اظہار اور زبان دانی ان کی تحریروں میں عیاں نظر آتی ہے۔''
پروفیسر ناصر عباس بشیرکسی سخن شناس کا مختار مسعود کی کتابوں کے بارے میں یہ تبصرہ نقل کرتے ہیں۔ ''آواز دوست'' لفظ لفظ قابل داد، بعض فقرے لاجواب اور بعض صفحات داد سے بالاتر۔ ''سفر نصیب'' چشم بینا کا سفر جو زاد حیات سمیٹے تلاش حق میں سرگرداں ہے۔ اس میں شامل دو خاکے اردو کے بہترین خاکوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں اور ''لوح ایام''، موضوع ایران کا انقلاب، مخاطب اہل پاکستان، لکھنے والا انقلاب کا چشم دید گواہ۔ واقعات حیران کن، بیان مسحور کن۔ نتیجہ ایک منفرد ادبی شاہکار۔''
بک کارنر، جہلم کی مطبوعہ اس کتاب میں مختار مسعود کی تینوں کتابوں سے اقتباسات بھی شامل ہیں۔ ''آواز دوست'' میں مختار مسعود لکھتے ہیں۔
''اس بر عظیم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا وہ مینار قرارداد پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گردوارہ اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہے، تین صدیوں پر محیط ہے۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گم شدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا۔ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہوجائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے، ملک کے بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہوجائے، تو صدیاں یوں ہی گم ہوجاتی ہیں۔''
مینار پاکستان کی تعمیر میں مختار مسعود کا جو کردار رہا وہ تو رہا ایک کام انھوں نے خوب کیا۔ چار سو دنوں میں مینار کو مکمل کرکے جب انھوں نے ایک شاہکار بنادیا تو صبح فجرکی نماز یہاں رکھی، ٹیپ ریکارڈ اور دوستوں کو بلالیا، نماز پڑھی، دعا مانگی اور مینار پاکستان کا افتتاح کردیا اور کہا کہ اس کی افتتاحی تقریب نمازکے ساتھ کردی ہے تو اب یہ جانے اور اس کا کام۔
زیادہ تر یہ ان کی کتاب ''آواز دوست'' کے حوالے سے ان کی شخصیت، ان کے علم اور کردار پر ان کے تاثرات ہیں۔ ''آواز دوست'' درحقیقت مختار مسعود کی پہچان بن گئی ہے۔ محمد طفیل لکھتے ہیں کہ ''ایک بار جب ''آواز دوست'' پر ایک تقریب کا پروگرام بن رہا تھا تو سوال پیدا ہوا کہ موصوف کی شخصیت پر لکھے گا کون؟ ادھر ادھر دیکھا گیا۔ ادھر ادھر دیکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک بار خود مسعود نے کہا تھا ''ہماری شخصیت پر کوئی کیا لکھے گا اس لیے کہ ہم نے تو کسی کو قریب آنے ہی نہیں دیا۔'' بات سچی تھی اور سچی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسکول دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک ابتدائی یعنی پہلی سے چوتھی کلاس تک جو ظہور وارڈ میں تھا اور دوسرا پانچویں سے دسویں تک جو منٹو سرکل میں تھا۔ مختار مسعود نے پہلی کلاس سے دسویں کلاس تک اس اسکول میں پڑھا، پھر یونیورسٹی میں پہنچے بی اے آنرز کیا، ایم اے کیا۔ میں نے بھی اسی اسکول میں پڑھا اور اسی سے میٹرک پاس کیا۔ مختار مسعود جب دسویں کلاس میں تھے تو اسکول میگزین کے ایڈیٹر تھے۔ یہ میگزین سال میں ایک بار نکلتا تھا۔ میں اس سال چھٹی کلاس کا طالب علم تھا منٹو سرکل میں۔ میرا جی چاہا کہ میں بھی اسکول میگزین کے لیے ایک مضمون لکھوں۔ میگزین میں طلبا ہی کے مضمون ہوتے تھے۔
چنانچہ میں نے ایک مضمون لکھا اور اسکول میں انھیں دینے کی بجائے ان کے گھر انھیں دینے گیا۔ یونیورسٹی کیمپس میں اساتذہ کے مکانات تھے۔ مختار مسعود کے والد شیخ عطا اللہ صاحب جس علاقے میں رہتے تھے وہ تار والا بنگلہ کہلاتا تھا۔ میں حالی روڈ پر نمبر 4 بنگلے میں رہتا تھا۔ یہاں سے وہ جگہ دور نہیں تھی۔ میں شام کو اپنا مضمون لے کر نکلا اور شیخ صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو مختار مسعود نکل آئے۔ میں نے سلام کیا اور اپنا مضمون انھیں پیش کیا۔
ایک نظر دیکھا، وہ مجھے پہنچاتے تھے مسکرائے کہنے لگے شکریہ، پھر کہا نہیں نہیں۔ بہت بہت شکریہ۔ میں بہت خوش ہوا۔ ان کی شخصیت بڑی دل آویز تھی۔ وہ ہمارے سینئر تھے اور سینئر کی علی گڑھ میں بڑی توقیر ہوتی تھی۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ میرا مضمون میگزین میں چھپ گیا اور میں خوش ہوگیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جب میں خود دسویں کلاس میں آیا تو اسکول میگزین کا ایڈیٹر بنا۔ ہمارے استاد، سید محمد ٹونکی ہمارے اسکول میگزین کے نگران تھے۔ مختار مسعود سے میری دوسری ملاقات پھر پاکستان میں ہوئی۔ وہ ان دنوں ملتان میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ میرے چھوٹے بھائی اقبال زبیری وہاں اخبار ''کوہستان'' کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ میں آزاد کشمیر ریڈیو جوائن کرنے کے لیے کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے دو تین دن کے لیے ملتان میں ٹھہرا۔ اقبال نے بتایا کہ مختار مسعود یہاں ڈپٹی کمشنر ہیں۔ میں نے کہا چلو مل آئیں۔
ان کے دفتر پہنچے۔ ان کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے کہلوایا کہ شام کوگھر آجاؤ۔ دفتر میں کیا ملنا۔ شام کو ان کے گھر اور خاصی دیر ان کے ساتھ رہے، ذکر منٹو سرکل کے دنوں کا ہی رہا۔ پھر دو بارکراچی میں اور دو بار اسلام آباد میں فرائض منصبی کے سلسلے میں مختصر سی ملاقات اور ایک بار جناح سپر مارکیٹ کے قریب ایک مسجد میں نماز تراویح کے بعد۔ یہ آخری ملاقات تھی بہت سال پہلے 1983ء میں۔ہم جب بھی ملے یہی لگا کہ جیسے ہمیشہ ملتے رہے ہیں۔ نہ میرے احترام میں کمی ہوئی اور نہ ان کی محبت میں۔ میں جانتا ہوں وہ کیسے تھے۔
امر شاہد کی کتاب میں ایک مضمون نورالحسن جعفری کا ہے۔ ''مختار مسعود ۔۔۔۔ایک عکس'' انھوں نے مختار مسعود کو قریب سے دیکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ''اپنی پہلی ملاقات کی یاد تازہ ہے۔ ایک خوش رو اور خوش پوشاک صاحب جن کی گفتگو کا انداز بہت محتاط تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ لیکن اس پر بھی کچھ ابتسام کا شبہ'' جعفری صاحب نے مختار مسعود کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے:
بہت محنتی، سمجھ دار، وضعدار، شریف۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے، کینہ پرور نہیں۔اس کی ذاتی اور سرکاری زندگی میں ایک ٹھہراؤ،ایک سلیقہ اور ترتیب ہے۔ اسے جزئیات کا شوق ہے، اس کی یادداشت غیر معمولی ہے۔ مختار مسعود اصول توڑنے کا قائل نہیں ہے۔ وہ حساس ہے لیکن جذباتی نہیں۔ وہ دل نہیں دکھائے گا لیکن بے مروتی کرسکتا ہے۔ اسے اچھے کپڑوں، اچھے کھانوں اور اچھی چیزوں کا شوق ہے لیکن ان کا حصول زندگی کا مقصد نہیں۔ وہ اپنے وقت کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرتا ہے۔ شاید وہ اپنی زندگیٔ مستوار کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھتا ہے جس کے لیے ایک ایک لمحے کے استعمال کا اس کو حساب دینا ہوگا۔
سلطان ناصر کو مختار مسعود سے ملاقات کا اشتیاق تھا۔ یہی حال امر شاہد کا تھا۔ پھر اتفاق یہ دیکھیے کہ دونوں کو ایک ہی دن ایک ہی وقت میں ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ سلطان ناصر لکھتے ہیں۔ دوران گفتگو مختار مسعود کہنے لگے۔ ''علی گڑھ میں طالب علمی کے دور میں، میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میرا دن اس وقت تک شروع نہ ہوگا جب تک کلام الٰہی کا مطالعہ نہ کرلوں۔ پچاس سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے اور للہ الحمد صحت ہو یا بیماری، مصروفیت ہو یا فراغت، میری زندگی میں اس کے بعد کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس کا آغاز کم یا زیادہ مطالعہ، کلام باری تعالیٰ سے نہ ہوا ہو۔'' یہ 18 مارچ 2017ء کا دن تھا اور امر شاہد، ان کے بھائی گگن اور سلطان ناصر کی مختار مسعود سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
ڈاکٹر الطاف یوسف زئی نے مختار مسعود کی نثر نگاری کا ذکرکیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ''مختار مسعود کی تحریر اور اسلوب سے لطف اندوز ہونے کے لیے خاص علمی اُپچ رکھنا قاری کے لیے انتہائی لازمی ہے۔ ان کے ہاں ایک روشن فکر اور مطمئن روح کا اثر ہر جگہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ گہرے مطالعے اور وسیع تجربے کی بنیاد پر اپنے مخاطب اور پڑھنے والے کو نئی منزلوں اور اچھوتی حقیقتوں سے آشنا کراتے ہیں۔ تخیل کی بلند پروازی، علوم کے فکری اور فنی لوازمات سے آگاہی، نازک خیالی، نکتہ سنجی، معنی آفریں واقفیت، پیرایۂ اظہار اور زبان دانی ان کی تحریروں میں عیاں نظر آتی ہے۔''
پروفیسر ناصر عباس بشیرکسی سخن شناس کا مختار مسعود کی کتابوں کے بارے میں یہ تبصرہ نقل کرتے ہیں۔ ''آواز دوست'' لفظ لفظ قابل داد، بعض فقرے لاجواب اور بعض صفحات داد سے بالاتر۔ ''سفر نصیب'' چشم بینا کا سفر جو زاد حیات سمیٹے تلاش حق میں سرگرداں ہے۔ اس میں شامل دو خاکے اردو کے بہترین خاکوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں اور ''لوح ایام''، موضوع ایران کا انقلاب، مخاطب اہل پاکستان، لکھنے والا انقلاب کا چشم دید گواہ۔ واقعات حیران کن، بیان مسحور کن۔ نتیجہ ایک منفرد ادبی شاہکار۔''
بک کارنر، جہلم کی مطبوعہ اس کتاب میں مختار مسعود کی تینوں کتابوں سے اقتباسات بھی شامل ہیں۔ ''آواز دوست'' میں مختار مسعود لکھتے ہیں۔
''اس بر عظیم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا وہ مینار قرارداد پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گردوارہ اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہے، تین صدیوں پر محیط ہے۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گم شدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا۔ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہوجائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے، ملک کے بجائے مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہوجائے، تو صدیاں یوں ہی گم ہوجاتی ہیں۔''
مینار پاکستان کی تعمیر میں مختار مسعود کا جو کردار رہا وہ تو رہا ایک کام انھوں نے خوب کیا۔ چار سو دنوں میں مینار کو مکمل کرکے جب انھوں نے ایک شاہکار بنادیا تو صبح فجرکی نماز یہاں رکھی، ٹیپ ریکارڈ اور دوستوں کو بلالیا، نماز پڑھی، دعا مانگی اور مینار پاکستان کا افتتاح کردیا اور کہا کہ اس کی افتتاحی تقریب نمازکے ساتھ کردی ہے تو اب یہ جانے اور اس کا کام۔