مہنگائی کا سونامی

نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غریب گھرانوں میں دووقت کی روٹی کے لالے پڑچکے ہیں۔

مہنگائی کی لہریں سونامی طوفان بنتی جا رہی ہیں جس میں عوام خاک و خس کی طرح بہہ رہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس/ فائل

اشیائے خورونوش اور روز مرہ استعمال کی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، قوم ایک قسم کے ہولناک معاشی سونامی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ رہی ہے۔منافع خور اور ذخیرہ اندوزوں کوکھلی چھوٹ مل گئی ہے ۔قیمتوں پرکنٹرول کرنے والے اداروں کی غفلت ولاپروائی کا خمیازہ عوام ہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔

اب تو اضافہ روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے کہ چاہے وہ گندم، دال ، چاول، سبزی، مسالہ جات ، گھی ،خوردنی تیل، چینی کی قیمتیں ہوں یا افراط زر میں اضافہ کوئی رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔غربت اور مہنگائی کا جن بھی بے قابو ہوچکا ہے جس کے باعث عوام کے گھریلو بجٹ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔ پیاز جو تقریبا ہر سالن کا لازمی جزو ہے اور پاکستان میں وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے، لیکن قلت کا فائدہ اٹھانا تو کوئی ہمارے تاجروں اور آڑھتیوں سے سیکھے، یہ سبزی وطن عزیز میں اتنی مہنگی ہے کہ توبہ ہی بھلی ۔پیاز کی نئی فصل آنے میں ابھی تھوڑی دیر ہے کہ منافع خوروں کی چاندی ہوگئی ہے پیاز 50 تا70روپے کلو فروخت کی جا رہی ہے ۔

پشاور، اسلام آباد راولپنڈی میں تو پیاز 70روپے ، لاہور 65، سیالکوٹ، فیصل آباد، سرگودھا، ملتان اور بنوں میں 60 روپے کلو، بہاول پور55، گوجرانوالا 52، کراچی، سکھر اورلاڑکانہ میں 50 روپے فی کلو گرام ہے۔ کہنے کو تو وسیع پیمانے پر بھارت سے بھی پیاز درآمد کی جاتی ہے لیکن قیمت پھر بھی آسمان کو چھو رہی ہے ، سات روزہ مدت میں ہفتہ وار بنیادوں پر زندہ مرغی کے نرخ میںاوسطاً 8.72 اور چینی کی قیمت میں 6.75 فیصد اضافہ ہوا۔ ملک میں جاری توانائی کے بحران اور امن وامان کی مخدوش صورتحال نے ملکی معیشت کو بہت کمزورکردیا ہے، ترقی و خوشحالی ایک خواب بنتی جا رہی ہے، ہزاروں فیکٹریوں پر تالے اور ان میں کام کرنے والے مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کی قوت خرید روزبروز کم ہوتی جا رہی ہے۔


نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غریب گھرانوں میں دووقت کی روٹی کے لالے پڑچکے ہیں۔ یہ سب ایک دم تو نہیں ہوگیا ، اس کے پیچھے حکومتوں کی ناکام معاشی پالیسیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور رہی سہی کسر آئی ایم ایف کے قرضے نے پوری کردی ہے۔حد تو یہ ہے کہ صارف ایک دن دکان سے ایک چیزخریدتا ہے تو دوسرے دن جب وہی آئٹم خریدنے جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے،مڈل کلاس کا ایک بڑا حصہ مہنگائی کے سبب لوئر مڈل کلاس بن چکا ہے ۔معاشی واقتصادی بحران نے عوام کی کمر توڑ دی ہے تو دوسری جانب تاجر امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں،ذخیرہ اندوزی اور بے پناہ منافعے کے لالچ نے ہوس پرستوں کو اندھا کردیا ہے اور انھوں نے اندھیر نگر ی چوپٹ راج والی مثل کو درست ثابت کردیا ہے۔

قیمتوں پر کنٹرول رکھنے کے فرض سے اغماض برتنے والے محکمے کے قیام کا کیا فائدہ ۔ یہ سب محکمانہ کرپشن کی وجہ سے ہی ممکن ہے جب تک کرپشن کے ناسور کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک بہتری کی امید کرنا عبث ہے۔ مہنگائی کی لہریں سونامی طوفان بنتی جا رہی ہیں جس میں عوام خاک و خس کی طرح بہہ رہے ہیں۔ پاکستان بیورو شماریات سے جاری اعدادوشمار کے مطابق سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں 6.13 فیصد اضافہ ہوا، ہفتہ وار بنیادوں پر تمام آمدنی والے گروپوں پر کم وبیش یکساں اثر پڑا تاہم سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ اثر 12ہزارماہانہ تک کمانے والوں پر 10فیصد،18ہزار تک کمانے والوں پر 9.35فیصد،8ہزار ماہانہ آمدنی والوں پر8.57فیصد،35ہزار آمدن والے طبقے پر5.06فیصد اور 35ہزار سے زیادہ کمانے والوں پر سب سے کم 2.25 فیصد بوجھ پڑا۔

یاد رہے کہ مارچ کے پورے ہفتے میں مہنگائی کی لہر برقرار رہی، اس دوران افراط زر کی شرح میں مجموعی طور پر 1.16فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ فروری میں قیمتوں میں اتارچڑھائو رہا تھا۔ اب جب کہ ایک جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرچکی ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نگراں حکومت اقتصادی محاذ پر خصوصی توجہ مرکوز کرے تاکہ ملک کو جن بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کے لیے معاشی مشیران باتدبیر قوم کو معاشی ثمرات سے بھی نوازیں۔ایک اہم شعبہ توانائی یا پاور سیکٹر کا ہے جس کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران غیر معمولی سبسڈیزکے باعث مالی خسارہ جی ڈی پی کے 8 فی صد سے بڑھ جائے گا ۔ لہٰذا غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے مسئلہ کا حل بھی ضروری ہے۔عام آدمی کو اس عبوری دور میں ہر قسم کا معاشی اطمینان ملنا چاہیے۔
Load Next Story