گردشی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم‘لمحہ فکریہ

گزشتہ10سال کے دوران دہشتگردی کے خلاف جنگ پر 297 ارب روپے خرچ کیے گئے

گزشتہ10سال کے دوران دہشتگردی کے خلاف جنگ پر 297 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ فوٹو: فائل

وزارت خزانہ کی جانب سے ایوان بالا میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گردشی قرضوں کا حجم 4کھرب 72 ارب 67 کروڑ 80 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ بدھ کو پیش کردہ رپورٹ کے مطابق گردشی قرضوں میںگیس کمپنیوں، آئل کمپنیوں، آئی پی پیز، نیوکلیئر پلانٹس، واپڈا اور دیگر اداروں کے ذمے کھربوں روپے کے گردشی قرضے واجب الادا ہیں۔ گزشتہ 4برس کے دوران غیر ملکی قرضوں پر مجموعی طور پر 4 ارب 10کروڑ 96 لاکھ ڈالر سود ادا کیاگیا۔


گزشتہ10سال کے دوران دہشتگردی کے خلاف جنگ پر 297 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ آپریشن ضرب عضب میں عسکری اداروں کو 152ارب 19کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد جاری کیے گئے، اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن کو 33 ارب اور پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے اور روشنی کا انتظام کرنے کے لیے 19ارب 42کروڑ روپے جاری کیے گئے۔ وزارت خزانہ کے مطابق دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے امریکا نے 13کروڑ 20 لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم اس مد میں 11کروڑ 10 لاکھ ڈالر وصول ہوئے۔ حکومتوں کو اپنے اخراجات پورے کرنے اور ترقیاتی منصوبے تشکیل دینے کے لیے قرضے لینے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن قرضے لیتے وقت اس امر کا خیال رکھنا ناگزیر ہے کہ ریاست کا معاشی نظام اتنے دباؤ کا شکار نہ ہوجائے کہ قرضوں کے بغیر وہ قائم ہی نہ رہ سکے' اتنے ہی قرضے لیے جائیں جنھیں واپس کرنا بھی آسان ہو۔ لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ پاکستانی حکومتوں نے اپنے شاہانہ اور غیرضروری اخراجات کم کرنے کے بجائے قرضوں پر قرضے لینے شروع کر دیے اور یہ روایت بدستور تقویت پکڑتی چلی گئی۔

موجودہ حکومت نے ساڑھے چار سال کے دوران صرف اسٹیٹ بینک سے 579 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے۔ اگر حکومت قرضوں پر قرضے لینے کے بجائے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرتی اور ملک میں موجود معدنیات کے ذخائر کو نکالنے اور کارخانے لگانے کی جانب توجہ دیتی تو اس سے جہاں روز گار کے وسیع مواقع پیدا ہوتے وہاں حکومت کے معاشی وسائل بڑھنے سے اسے کم سے کم قرضے لینے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ لیکن حکومت کی معاشی پالیسیوں میں ایسی کوئی صورت حال نظر نہیں آتی جس سے ملک میں ترقی اور خوشحالی کی ایسی جہت تشکیل پا جائے جس سے حکومت کو آیندہ قرضے لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ غیرملکی کرنسی کی اسمگلنگ روکنے کا فیصلہ صائب ہے لیکن حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں پر بھی نظرثانی کرنی چاہیے۔
Load Next Story