تھر کی ترقی کا نوحہ
تھر کی یہ ترقی تھر کی خوبصورتی اور فطرتی نظاروں کی بربادی ثابت نہ ہو۔
تھر، جس کے نام میں پیاس ہے...جس کے نام میں بارش کی آس ہے۔ تھر کی طرف لوگ تب متوجہ ہوتے ہیں جب یہ صحرا بارش میں بھیگ کر گلزار کی صورت اختیار کرتا ہے۔ جب کارونجھر کا علاقہ بارش سے سرسبز ہوتا ہے۔ ندی، نالے پانی سے بھر جاتے ہیں۔
تھر کی جانب لوگ تب بھی متوجہ ہوتے ہیں جب وہاں سے درد اور پیاس کی صدائیں آنی شروع ہوں، جب بھوک سے بلکتے بچے مرنے لگیں، جب مائیں بچے جنتے ہوئے مرنے لگیں، جب مویشی، پرندے اور مور مرنے لگیں۔
ہاں ! تھر کی خواتین جب تپتے صحرا میں ننگے پاؤں دو دو گھڑے سر پر اٹھائے پانی بھرنے میلوں پیدل چلتی ہیں تو ان کی تصویریں دنیا کو بہت پرکشش لگتی ہیں۔ تصویر کے رنگ ان کو متوجہ کرتے ہیں۔ تصویر کے پس منظر میں بکھرا درد کا صحرا کوئی محسوس ہی نہیں کرتا۔
ماضی قریب میں تھرپارکر مزاحمت کی علامت بھی ہے۔ جب برطانیہ سے جنگ جاری تھی تو سندھ کے اس خطے کے لوگ انگریز سرکار سے آخری دم تک لڑتے رہے اور سندھ کے اس خطے کے لوگوں نے سب سے آخر میں ہتھیار ڈالے تھے۔ دھرتی سے جڑے یہ لوگ اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ بھلے پیاس کا صحرا ہو، لیکن یہ تپتے پیاسے صحرا بھی لوگوں کی محبت سے سرشار ہیں۔ صحرائے تھر کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔
جغرافیائی حوالے سے تھر کی اپنی بہت سی خصوصیات ہیں۔ تھرپارکر کا علاقہ بظاہر تو بہت ویران بیابان لگتا ہے لیکن اس کی زمین کے اندر معدنیات کے ذخائر ہیں۔ یہاں چراغ تلے اندھیرا والی کہاوت فٹ بیٹھتی ہے۔ تھر کے غریب ان پڑھ لوگ ان چیزوں سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ کچھ عرصہ پہلے تھر کے کوئلے کے ذخیرے زیر بحث آئے، پھر پتا چلا کہ کوئلہ نکالنے کا کام کسی کمپنی کو دیا گیا ہے۔
حکومت سندھ کی جانب سے تھر کی ترقی کے دعوے 2013 اور 2014 کے اشتہاروں کی صورت میں ظاہر ہونے لگے۔ خوشحالی اور ترقی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے اور سارے پاکستان کو روشن کرنے کے منصوبے منظرعام پر آنے لگے۔ لیکن ان ترقی کے خوشنما منظروں کے پیچھے ہلکی ہلکی سی آنچ سلگ رہی تھی جوکہ عوام کی جانب سے اٹھ رہی تھی۔
ضلع تھرپارکر کے تعلقہ اسلام کوٹ یوسی گڑیانچو کے گاؤں گوڑانو جوکہ اسلام کوٹ سے 36 کلومیٹر دور ہے، وہاں کے لوگوں نے احتجاج شروع کیا اور پریس کلب اسلام کوٹ کے آگے بیٹھ گئے۔ کراچی پریس کلب کے آگے بھی علامتی بھوک ہڑتال کی۔ وہ لوگ یہ بتانا چاہ رہ تھے کہ ان کے گاؤں گوڑانو میں بننے والے ڈیم سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
حسب روایت حکمرانوں کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ گاؤں کے کچھ پڑھے لکھے لڑکوں نے حیدرآباد ہائی کورٹ میں پٹیشن فائل کردی۔ 10 فروری 2018 کو حیدرآباد کی سول سوسائٹی سے کچھ لوگوں نے تھر جانے کا پروگرام بنایا، وہاں کے لوگوں نے کہا تھا کہ آکر دیکھیں، پھر فیصلہ کریں کہ لوگوں کا احتجاج صحیح ہے یا نہیں؟
حیدرآباد اور کراچی سے کچھ ادیب، کچھ وکیل، کچھ کیمسٹری کے ریسرچ اسکالر، کچھ سول سوسائٹی کے مختلف سماجی تنظیموں سے وابستہ لوگوں کا قافلہ 10 فروری 2018 کو تھرپارکر کی جانب روانہ ہوا۔
اسلام کوٹ سے 36 کلومیٹر دور آگے تھر کی ریتیلی بھٹیں ہیں، اونچی بھٹ سے مقامی لوگ گوڑانو ڈیم کی لوکیشن دکھا رہے تھے۔ کچھ پڑھے لکھے نوجوان بتا رہے تھے کہ تھرپارکر کا علاقہ 19,638 مربع کلومیٹر ہے۔ اس میں سروے کے مطابق 9000 کلومیٹر کے علاقے میں کوئلہ پایا جاتا ہے۔ آبادی 2 لاکھ کے قریب ہے۔ اور اس علاقے میں مویشی 28 سے 29 ہزار کے قریب ہیں اور 2 لاکھ 90 ہزار کلومیٹر کے علاقے میں سرسبز درخت ہیں۔ گوڑانو کا علاقہ تھرپارکر کا سرسبز علاقہ ہے جہاں کی زمین میں درخت ہیں اور مویشیوں کے کھانے کے لیے گھاس ہوتی ہے۔
کوئلے کی اراضی والی زمین کو چھوڑ کر باقی جو زمین بچتی ہے جس میں درخت ہیں اور جوکہ لوگوں کا ذریعہ معاش ہے، لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کا دار و مدار انھی درختوں اور گھاس پر ہے۔ ان کے مویشی یہ گھاس کھاتے ہیں اور مقامی لوگ ان درختوں سے لکڑی بھی لیتے ہیں اور پھل اور پتے بھی استعمال کرتے ہیں۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ کنڈی کا درخت صدیوں میں اگتا ہے اور بڑھتا ہے اور ہر سال وہ اس میں سے پھل اور گھاس لیتے ہیں۔
گوڑانو کے رہائشیوں کو جبر اور خوف سے وہاں سے کوچ کروایا گیا، مقامی لوگ جو صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، جن کے آباؤ اجداد یہاں دفن ہیں، ان کی جذباتی وابستگی فطری ہے۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ کمپنی نے لوگوں کو مزید نوکریاں دینے کا اعلان کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں جو ان منصوبوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔
کوئلے کو نکالنے کے دوران جو کیمیکل سے آلودہ پانی خارج ہو رہا ہے وہ وہاں کے سرسبز علاقوں میں چھوڑا جا رہا ہے، اس جگہ کھڑے ہوکر ہم سب نے دیکھا کہ ہرے بھرے درخت کیمیکل سے آلودہ پانی میں ڈوب رہے تھے۔
جب کمپنی نے معاہدہ کیا تھا تو اس پانی کو رن آف کچھ میں چھوڑنے کا پروگرام تھا لیکن انڈیا سے رامسر معاہدے کے مطابق انڈیا نے اس پانی کو رن آف کچھ میں چھوڑنے کی اجازت نہیں دی، اس لیے اس آلودہ پانی کو لوگوں کی زمینوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں لوگ آباد ہیں، پانی ہے، وہاں صدیوں پرانے درخت ہیں، کنڈی کے درخت جس سے لوگ اپنی غذائی اور معاشی ضروریات پوری کرتے ہیں، لوگ یہاں اناج اگاتے ہیں جس پر سارا سال گزارا کرتے ہیں۔
یہ ساری معلومات ہم سے عام لوگوں نے آنسوؤں میں بھیگی آوازوں سے شیئر کی ہیں جو صدیوں سے آباد ہیں۔ اپنے وطن اپنے خطے کی محبت سے سرشار ہیں۔ ان لوگوں کو ترقی کے نام پر وطن بدر کرنا انسانی حقوق کی نفی ہے۔ ترقی کے نام پر کسی علاقے کا پورا لینڈ اسکیپ تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جن مقامی لوگوں کے رہائشی علاقوں کو ڈیم کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے ان لوگوں کو بدلے میں کچھ بھی نہیں مل رہا۔ یہ لوگ تو اپنی دھرتی سے جڑے ہیں، یہ ریتیلے پہاڑ، درخت، بھٹیں، سب ان کو اپنے بچوں کی طرح عزیز ہیں۔ یہ علاقہ ان لوگوں کا زرعی علاقہ ہے۔ مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ڈیم کی جگہ تبدیل کی جائے اور کمپنی کے پاس ماحولیات کے حوالے سے اگر تحریری اجازت نامہ ہے تو وہ ظاہر کیا جائے۔
اتنی بڑی مقدار میں کوئلے کا اخراج ماحول کو کتنا آلودہ کرے گا، لوگوں کی صحت پر کیا اثرات ڈالے گا؟
یہ کمپنی سندھ سرکار کے ساتھ مل کر جو ترقیاتی کام کر رہی ہے جس سے سارے پاکستان کو فائدہ ہونے جا رہا ہے، تو یہ بات بھی واضح ہو کہ کیا یہ علاقہ لیز پر دیا جا رہا ہے یا کمپنی کو مالکانہ حقوق دیے جا رہے ہیں۔ ہر قسم کی قانونی دستاویزات عام لوگوں کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ سائنسدان تو کہتے ہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کوئلے سے بجلی بنانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ پھر کیا ان کے پاس کوئی تحریری اجازت نامہ ہے جس کو ملک کے سائنسدانوں کے دیکھ بھال کے ریسرچ سے ثابت کیا ہو کہ اس سے لوگوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور علاقے میں بیماریاں نہیں پھیلیں گی۔
حالانکہ وہاں گوڑانو کے علاقے میں جو کیمیکل والا پانی موجود ہے، شام ہوتے ہی وہاں مچھروں کے لشکر ڈیرا ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں ملیریا کا وائرس پھیلتا جا رہا ہے اور لوگ وہاں سے مجبوراً اپنے گھر چھوڑ کر نکل رہے ہیں۔
تھر واسیوں کے پاس شعور ہے، خودداری ہے، وہ ترقی کی اس غلامانہ صورت سے انکار کرتے ہیں۔
سندھ میں اس کمپنی کے حامی بھی بہت ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ لیکن تھر واسیوں کا شعور اس کو رد کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں پہلے ان کے سوالوں کے جواب دیے جائیں۔
تھر کی یہ ترقی تھر کی خوبصورتی اور فطرتی نظاروں کی بربادی ثابت نہ ہو۔ لہلہاتے درخت اور بہتے جھرنوں، ناچتے موروں کی جگہ مصنوعی عمارتوں اور کیمیکل سے آلودہ فضاؤں کو مقامی رہائشی قبول نہیں کرتے۔ جہاں زندگی ہے وہاں زندگی کو سانس لینے دو۔ لوگوں سے جینے کا حق نہ چھینو۔
تھر کی جانب لوگ تب بھی متوجہ ہوتے ہیں جب وہاں سے درد اور پیاس کی صدائیں آنی شروع ہوں، جب بھوک سے بلکتے بچے مرنے لگیں، جب مائیں بچے جنتے ہوئے مرنے لگیں، جب مویشی، پرندے اور مور مرنے لگیں۔
ہاں ! تھر کی خواتین جب تپتے صحرا میں ننگے پاؤں دو دو گھڑے سر پر اٹھائے پانی بھرنے میلوں پیدل چلتی ہیں تو ان کی تصویریں دنیا کو بہت پرکشش لگتی ہیں۔ تصویر کے رنگ ان کو متوجہ کرتے ہیں۔ تصویر کے پس منظر میں بکھرا درد کا صحرا کوئی محسوس ہی نہیں کرتا۔
ماضی قریب میں تھرپارکر مزاحمت کی علامت بھی ہے۔ جب برطانیہ سے جنگ جاری تھی تو سندھ کے اس خطے کے لوگ انگریز سرکار سے آخری دم تک لڑتے رہے اور سندھ کے اس خطے کے لوگوں نے سب سے آخر میں ہتھیار ڈالے تھے۔ دھرتی سے جڑے یہ لوگ اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ بھلے پیاس کا صحرا ہو، لیکن یہ تپتے پیاسے صحرا بھی لوگوں کی محبت سے سرشار ہیں۔ صحرائے تھر کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔
جغرافیائی حوالے سے تھر کی اپنی بہت سی خصوصیات ہیں۔ تھرپارکر کا علاقہ بظاہر تو بہت ویران بیابان لگتا ہے لیکن اس کی زمین کے اندر معدنیات کے ذخائر ہیں۔ یہاں چراغ تلے اندھیرا والی کہاوت فٹ بیٹھتی ہے۔ تھر کے غریب ان پڑھ لوگ ان چیزوں سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ کچھ عرصہ پہلے تھر کے کوئلے کے ذخیرے زیر بحث آئے، پھر پتا چلا کہ کوئلہ نکالنے کا کام کسی کمپنی کو دیا گیا ہے۔
حکومت سندھ کی جانب سے تھر کی ترقی کے دعوے 2013 اور 2014 کے اشتہاروں کی صورت میں ظاہر ہونے لگے۔ خوشحالی اور ترقی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے اور سارے پاکستان کو روشن کرنے کے منصوبے منظرعام پر آنے لگے۔ لیکن ان ترقی کے خوشنما منظروں کے پیچھے ہلکی ہلکی سی آنچ سلگ رہی تھی جوکہ عوام کی جانب سے اٹھ رہی تھی۔
ضلع تھرپارکر کے تعلقہ اسلام کوٹ یوسی گڑیانچو کے گاؤں گوڑانو جوکہ اسلام کوٹ سے 36 کلومیٹر دور ہے، وہاں کے لوگوں نے احتجاج شروع کیا اور پریس کلب اسلام کوٹ کے آگے بیٹھ گئے۔ کراچی پریس کلب کے آگے بھی علامتی بھوک ہڑتال کی۔ وہ لوگ یہ بتانا چاہ رہ تھے کہ ان کے گاؤں گوڑانو میں بننے والے ڈیم سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
حسب روایت حکمرانوں کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ گاؤں کے کچھ پڑھے لکھے لڑکوں نے حیدرآباد ہائی کورٹ میں پٹیشن فائل کردی۔ 10 فروری 2018 کو حیدرآباد کی سول سوسائٹی سے کچھ لوگوں نے تھر جانے کا پروگرام بنایا، وہاں کے لوگوں نے کہا تھا کہ آکر دیکھیں، پھر فیصلہ کریں کہ لوگوں کا احتجاج صحیح ہے یا نہیں؟
حیدرآباد اور کراچی سے کچھ ادیب، کچھ وکیل، کچھ کیمسٹری کے ریسرچ اسکالر، کچھ سول سوسائٹی کے مختلف سماجی تنظیموں سے وابستہ لوگوں کا قافلہ 10 فروری 2018 کو تھرپارکر کی جانب روانہ ہوا۔
اسلام کوٹ سے 36 کلومیٹر دور آگے تھر کی ریتیلی بھٹیں ہیں، اونچی بھٹ سے مقامی لوگ گوڑانو ڈیم کی لوکیشن دکھا رہے تھے۔ کچھ پڑھے لکھے نوجوان بتا رہے تھے کہ تھرپارکر کا علاقہ 19,638 مربع کلومیٹر ہے۔ اس میں سروے کے مطابق 9000 کلومیٹر کے علاقے میں کوئلہ پایا جاتا ہے۔ آبادی 2 لاکھ کے قریب ہے۔ اور اس علاقے میں مویشی 28 سے 29 ہزار کے قریب ہیں اور 2 لاکھ 90 ہزار کلومیٹر کے علاقے میں سرسبز درخت ہیں۔ گوڑانو کا علاقہ تھرپارکر کا سرسبز علاقہ ہے جہاں کی زمین میں درخت ہیں اور مویشیوں کے کھانے کے لیے گھاس ہوتی ہے۔
کوئلے کی اراضی والی زمین کو چھوڑ کر باقی جو زمین بچتی ہے جس میں درخت ہیں اور جوکہ لوگوں کا ذریعہ معاش ہے، لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کا دار و مدار انھی درختوں اور گھاس پر ہے۔ ان کے مویشی یہ گھاس کھاتے ہیں اور مقامی لوگ ان درختوں سے لکڑی بھی لیتے ہیں اور پھل اور پتے بھی استعمال کرتے ہیں۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ کنڈی کا درخت صدیوں میں اگتا ہے اور بڑھتا ہے اور ہر سال وہ اس میں سے پھل اور گھاس لیتے ہیں۔
گوڑانو کے رہائشیوں کو جبر اور خوف سے وہاں سے کوچ کروایا گیا، مقامی لوگ جو صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، جن کے آباؤ اجداد یہاں دفن ہیں، ان کی جذباتی وابستگی فطری ہے۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ کمپنی نے لوگوں کو مزید نوکریاں دینے کا اعلان کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں جو ان منصوبوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔
کوئلے کو نکالنے کے دوران جو کیمیکل سے آلودہ پانی خارج ہو رہا ہے وہ وہاں کے سرسبز علاقوں میں چھوڑا جا رہا ہے، اس جگہ کھڑے ہوکر ہم سب نے دیکھا کہ ہرے بھرے درخت کیمیکل سے آلودہ پانی میں ڈوب رہے تھے۔
جب کمپنی نے معاہدہ کیا تھا تو اس پانی کو رن آف کچھ میں چھوڑنے کا پروگرام تھا لیکن انڈیا سے رامسر معاہدے کے مطابق انڈیا نے اس پانی کو رن آف کچھ میں چھوڑنے کی اجازت نہیں دی، اس لیے اس آلودہ پانی کو لوگوں کی زمینوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اس علاقے میں لوگ آباد ہیں، پانی ہے، وہاں صدیوں پرانے درخت ہیں، کنڈی کے درخت جس سے لوگ اپنی غذائی اور معاشی ضروریات پوری کرتے ہیں، لوگ یہاں اناج اگاتے ہیں جس پر سارا سال گزارا کرتے ہیں۔
یہ ساری معلومات ہم سے عام لوگوں نے آنسوؤں میں بھیگی آوازوں سے شیئر کی ہیں جو صدیوں سے آباد ہیں۔ اپنے وطن اپنے خطے کی محبت سے سرشار ہیں۔ ان لوگوں کو ترقی کے نام پر وطن بدر کرنا انسانی حقوق کی نفی ہے۔ ترقی کے نام پر کسی علاقے کا پورا لینڈ اسکیپ تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جن مقامی لوگوں کے رہائشی علاقوں کو ڈیم کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے ان لوگوں کو بدلے میں کچھ بھی نہیں مل رہا۔ یہ لوگ تو اپنی دھرتی سے جڑے ہیں، یہ ریتیلے پہاڑ، درخت، بھٹیں، سب ان کو اپنے بچوں کی طرح عزیز ہیں۔ یہ علاقہ ان لوگوں کا زرعی علاقہ ہے۔ مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ڈیم کی جگہ تبدیل کی جائے اور کمپنی کے پاس ماحولیات کے حوالے سے اگر تحریری اجازت نامہ ہے تو وہ ظاہر کیا جائے۔
اتنی بڑی مقدار میں کوئلے کا اخراج ماحول کو کتنا آلودہ کرے گا، لوگوں کی صحت پر کیا اثرات ڈالے گا؟
یہ کمپنی سندھ سرکار کے ساتھ مل کر جو ترقیاتی کام کر رہی ہے جس سے سارے پاکستان کو فائدہ ہونے جا رہا ہے، تو یہ بات بھی واضح ہو کہ کیا یہ علاقہ لیز پر دیا جا رہا ہے یا کمپنی کو مالکانہ حقوق دیے جا رہے ہیں۔ ہر قسم کی قانونی دستاویزات عام لوگوں کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ سائنسدان تو کہتے ہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کوئلے سے بجلی بنانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ پھر کیا ان کے پاس کوئی تحریری اجازت نامہ ہے جس کو ملک کے سائنسدانوں کے دیکھ بھال کے ریسرچ سے ثابت کیا ہو کہ اس سے لوگوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور علاقے میں بیماریاں نہیں پھیلیں گی۔
حالانکہ وہاں گوڑانو کے علاقے میں جو کیمیکل والا پانی موجود ہے، شام ہوتے ہی وہاں مچھروں کے لشکر ڈیرا ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں ملیریا کا وائرس پھیلتا جا رہا ہے اور لوگ وہاں سے مجبوراً اپنے گھر چھوڑ کر نکل رہے ہیں۔
تھر واسیوں کے پاس شعور ہے، خودداری ہے، وہ ترقی کی اس غلامانہ صورت سے انکار کرتے ہیں۔
سندھ میں اس کمپنی کے حامی بھی بہت ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ لیکن تھر واسیوں کا شعور اس کو رد کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں پہلے ان کے سوالوں کے جواب دیے جائیں۔
تھر کی یہ ترقی تھر کی خوبصورتی اور فطرتی نظاروں کی بربادی ثابت نہ ہو۔ لہلہاتے درخت اور بہتے جھرنوں، ناچتے موروں کی جگہ مصنوعی عمارتوں اور کیمیکل سے آلودہ فضاؤں کو مقامی رہائشی قبول نہیں کرتے۔ جہاں زندگی ہے وہاں زندگی کو سانس لینے دو۔ لوگوں سے جینے کا حق نہ چھینو۔