قیدی خواتین سے ناروا سلوک کیوں
خواتین کی بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اتنا بڑا المیہ ہے جسے چند سطورمیں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
بد انتظامی، عدم توجہی کے ساتھ ساتھ عوامی مشکلات کو نظراندازکرنا ہمارا قومی وطیرہ بن چکا ہے ۔ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ایکسپریس کی ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں قید خواتین کی قانونی امداد کے لیے سن انیس سو چھیانوے میں قائم کیے گئے فنڈ ''ویمن ان ڈسٹریس اینڈ ڈی ٹینشن فنڈ'' کو تیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی فنکشنل نہ کیا جاسکا ہے۔
ملک بھر میں جیلوں کی صورتحال کے حوالے سے متعدد رپورٹیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں جس کے مطابق جیل میں موجود قیدیوں سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے ۔ چہ جائیکہ خواتین قیدیوں کی داد رسی اور ان کی مشکلات کو کم کرنے کی غرض سے جو فنڈز قائم کیا گیا اوراس ضمن میں کھولے گئے دو مختلف بینک اکاؤنٹس میں چھ کروڑ روپے سے زائد کی رقم موجود ہونے کے باوجود استعمال میں نہیں لائی گئی، اس امر پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے کیونکہ ہماری جیلوںمیں چودہ سو سے زائد خواتین قیدی موجود ہیں جن میں گیارہ غیر ملکی ہیں۔
کئی شہروں میں قائم شیلٹر ہاؤسز اور دارالامان میں بھی خواتین موجود ہیں۔ عدالتی نظام میں سقم اور مقدمات کی کثرت کی وجہ سے برسہا برس کیسوں کے فیصلے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے بے گناہ خواتین بھی زد میں آتی ہیں اور جو استطاعت نہیں رکھتیں وہ ظلم کی چکی میں پستی رہتی ہیں ، ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ وہ خواتین اپنا وکیل کرسکتی ہیں اور نہ ہی جیل حکام اور عدالتی عملے کی توجہ ایسی خواتین پر ہوتی ہیں ، ان بیچاریوں کے کیس بھی نہیں لگتے نہ پیشیاں ہوتی ہیں کیونکہ وہ کچھ خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتیں ، یہ سراسر ظلم اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔
خواتین کی بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اتنا بڑا المیہ ہے جسے چند سطورمیں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ جیل مینول پر شاذ و نادر ہی عمل ہوتا ہے ، وزارت حقوق انسانی کے ذرایع کے مطابق یہ بل آخری بار قائم کمیٹی کے زیر غور چند سال قبل آیا تھا ۔ تاہم ابھی تک قانون پاس نہ ہونے کی وجہ سے فنڈ نان فنکشنل ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق اور خواتین کو انصاف کی فراہمی سے جڑا انتہائی اہم ترین مسئلہ ہے جسے انسانی بنیادوں پر فوری طور پر حل ہونا چاہیے ۔
ملک بھر میں جیلوں کی صورتحال کے حوالے سے متعدد رپورٹیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں جس کے مطابق جیل میں موجود قیدیوں سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے ۔ چہ جائیکہ خواتین قیدیوں کی داد رسی اور ان کی مشکلات کو کم کرنے کی غرض سے جو فنڈز قائم کیا گیا اوراس ضمن میں کھولے گئے دو مختلف بینک اکاؤنٹس میں چھ کروڑ روپے سے زائد کی رقم موجود ہونے کے باوجود استعمال میں نہیں لائی گئی، اس امر پر جتنا افسوس کیا جائے وہ کم ہے کیونکہ ہماری جیلوںمیں چودہ سو سے زائد خواتین قیدی موجود ہیں جن میں گیارہ غیر ملکی ہیں۔
کئی شہروں میں قائم شیلٹر ہاؤسز اور دارالامان میں بھی خواتین موجود ہیں۔ عدالتی نظام میں سقم اور مقدمات کی کثرت کی وجہ سے برسہا برس کیسوں کے فیصلے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے بے گناہ خواتین بھی زد میں آتی ہیں اور جو استطاعت نہیں رکھتیں وہ ظلم کی چکی میں پستی رہتی ہیں ، ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ وہ خواتین اپنا وکیل کرسکتی ہیں اور نہ ہی جیل حکام اور عدالتی عملے کی توجہ ایسی خواتین پر ہوتی ہیں ، ان بیچاریوں کے کیس بھی نہیں لگتے نہ پیشیاں ہوتی ہیں کیونکہ وہ کچھ خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتیں ، یہ سراسر ظلم اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔
خواتین کی بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اتنا بڑا المیہ ہے جسے چند سطورمیں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ جیل مینول پر شاذ و نادر ہی عمل ہوتا ہے ، وزارت حقوق انسانی کے ذرایع کے مطابق یہ بل آخری بار قائم کمیٹی کے زیر غور چند سال قبل آیا تھا ۔ تاہم ابھی تک قانون پاس نہ ہونے کی وجہ سے فنڈ نان فنکشنل ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق اور خواتین کو انصاف کی فراہمی سے جڑا انتہائی اہم ترین مسئلہ ہے جسے انسانی بنیادوں پر فوری طور پر حل ہونا چاہیے ۔