رنگا رنگ انتخابی تصویر
سیاسی لہر اور عدالتی فیصلے کے لیے پیش نظر مسلم لیگ ن کے لیے انتخابات جلد از جلد ہونا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
یوں تو عام انتخابات 2018 کے وسط میں متوقع ہیں۔ البتہ روز بہ روز بدلتی سیاسی صورت حال کے باعث عوامی توقعات اور امکانات میں تغیر دکھائی دیتا ہے۔انتخابی اصلاحات کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے میاں نواز شریف پارٹی صدارت کے لیے نااہل قرار پائے، اس واقعے نے انتخابی عمل اور اس کے نتائج سے متعلق کی جانے والے کئی پیش گوئیوں اور اندازے کو سبوتاژ کر دیا ۔
این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں، جو ستمبر 2017 میں منعقد ہوئے، ن لیگ کی جانب سے بیگم کلثوم نواز نے 61 ہزار ووٹ لے کر پی ٹی آئی کی یاسمین راشد کو شکست دی، جو47 ہزار ووٹ حاصل کر سکی تھیں۔ اب لودھراں کے این اے 154 پر نظر ڈالیں۔ جہانگیر ترین کے صاحب زادہ علی ترین اپنے والد کی نااہلی کے بعد میدان میں اترے۔ انھوں نے 90 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے،مگر انھیں مسلم لیگ ن کے اقبال شاہ سے معقول فرق سے شکست ہوئی۔ لودھراں میں ن لیگ کی کامیابی اہم تھی۔ یہ پی ٹی آئی کا مضبوط حلقہ تھا۔ جہانگیر ترین نے 2015 میں یہاں سے چالیس ہزار ووٹوں کے بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی۔
ن لیگ کی برتری کے باوجود پنجاب میں پی ٹی آئی اور حکمران جماعت میں گھمسان کا رن پڑنے کی توقعات اب بدلیں گی۔ن لیگ کے کیمپ کی مایوسی کے باعث، جو نواز شریف کی پاناما کیس میں نا اہلی کے بعد مسلسل بڑھی ہے، پی ٹی آئی کے لیے حالات سازگار ہونا امکانی معلوم ہوتا ہے۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں پیپلزپارٹی کی گرفت مضبوط ہے،ماسوائے ان حلقوں کے جہاں مسلم لیگ فنکشنل کا ووٹ بینک ہیں۔1967سے پیپلزپارٹی کے امیدوار یہاں سہولت سے جیتتے آئے ہیں، گو ان کی فتح سے سندھ کے باسیوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری یا تبدیلی نہیں آئی۔ انتظامی مشینری کے ساتھ انتخابات میں ، کل کی طرح آج بھی، دھاندلی یقینی ہے۔شہروں پر نظر ڈالیں، تو ایم کیو ایم کے انتشار سے سابق میئر کراچی مصطفی کمال کی جماعت پاک سر زمین پارٹی فائدہ اٹھائے گی۔
پیپلزپارٹی کے لیے راؤ انوار غیرمتوقع مصیبت بن سکتے ہیں۔ پولیس مقابلوں کے لیے مشہور افسر، جسے آصف علی زرداری ٹی وی انٹرویو میںایک بہادر آدمی قرار دے چکے ہیں۔ عوامی سطح پر راؤ انوار کو حمایت کا پیغام دینے کی بہ ظاہر کوشش میں زرداری کا مخصوص طریقہ پنہاں ہے۔اس کے پیچھے راؤ انوار کے عذیر بلوچ کے مانند زرداری کے لیے بدترین خواب بننے کا خطرہ کارفرما ہے۔
راؤ انوار کے ناقدین تو ان کی گرفتاری کے خواہش مند ہیں، تا کہ وہ مقدمات کا سامنا کریں، البتہ ان کے ''دوست''، جن میں سے چند سندھ پولیس میں بھی ہیں، انھیں کسی صورت زندہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ زرداری صاحب کے خلاف موجود گواہان کے قتل کی تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے راؤ انوار نے، جو اب مفرورہے،یہاں مناسب جانا کہ دوست اور دشمن، سب کی آنکھوں سے اوجھل ہونا بہتر ہے۔
نواز شریف کی پشاور میں ہونے والی بڑی ریلی کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی کو شکست نہیں دے سکتے۔ مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) پی پی پی،جے ڈبلیو پی اکا دکا سیٹیں نکال سکتی ہیں۔ایسے میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی کے اتحاد کے ساتھ خیبرپختون خوا میں پھر حکومت بنا سکے گی۔
ووٹرز کو لبھانے والے نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کے، جو سرگرم شخصیت ہیں، آنے سے ن لیگ کی انتخابی مہم شدید متاثر ہوگی۔پنجاب میں ن لیگ اکثریت حاصل کرنے کے باوجود مرکز میں حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروں کی محتاج ہوگی۔پی پی پی،جو کبھی ملک گیر جماعت ہوا کرتی تھی،لگتا ہے درجن بھر سیٹیں ہی حاصل کر پائے گی۔بلاول بھٹو اب سیاسی طور پر بالغ ہو رہے ہیں۔ وہ ڈیوس 2018 کے بعد ایک معنوں میں سیاست میں ''ری لانچ ''ہوئے۔ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کے ڈیوس میں ہونے والے اجلاس میں ایک بھارتی صحافی کو انٹرویودیتے ہوئے مشکل سوالات کے نپے تلے جواب دے کر انھوں نے ناقدین کو متوجہ اور متاثر کیا ہے۔
سینیٹ انتخابات کے لیے ہونے والی جوڑ توڑ نے عیاں کر دیا کہ اس وقت بدترین قسم کی ہارس ٹریڈنگ جاری ہے۔سینیٹ کے سابق اسپیکر وسیم سجاد برملا کہہ چکے ہیں کہ سینیٹ کے لیے براہ راست انتخاب کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔جو طریقہ کار رائج ہے، یہ سیاسی بدعنوانی کو بڑھاوا دیتا ہے اور جمہوریت پر سوال کھڑا کر دیتا ہے۔
مسلم لیگ ن کو سینیٹ انتخابات میں ایک بڑے بحران کا سامنا ہے، جس کا سبب میاں صاحب کا بہ طور پارٹی سربراہ پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا جذباتی فیصلہ تھا۔کورٹ آرڈر کے تحت28 جولائی کے بعد نواز شریف کے تمام فیصلے کالعدم قرار پائے۔(الیکشن کمیشن کی جانب سے راجا ظفر الحق کے بہ طور چیئرمین مسلم لیگ ن جاری کردہ ٹکٹس مسترد ہونے کے بعد اب ن لیگ کے امیدوار، آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے پر مجبور ہیں)
نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کے کیس کی سماعت کے دوران جج صاحب کی جانب سے چند ریمارکس دیے گئے، جن کے خلاف ن لیگیوں نے محاذ کھول لیا ۔ دنیا کے کئی ممالک میں جج صاحبان اس طرح کے ریمارکس دیتے ہیں، مگر اصل اہمیت ان کے قانونی فیصلے کی ہوتی ہے۔
عدالتی فیصلے سے قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ،تمام تر اختیارات کے ساتھ پارلیمنٹ کے حق قانون سازی پرسپریم کورٹ اور شاید آرمی کے سامنے فصاحت سے دلائل دینا، متوقع فیصلے پر قبل از وقت ردعمل ہی تھا۔خاقان عباسی اس حق سے متعلق درست تھے، البتہ انھیں اس میں اتنا اضافہ ضرور کرنا چاہیے تھا کہ یہ سپریم کورٹ کی بھی اخلاقی ذمے داری اور حق ہے کہ آئین سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دے ۔بدھ کو سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ کیس کی شق 203 کو کالعدم قرار دے کر اپنے اس حق کا عملی مظاہرہ کیا۔
اب عدالتی فیصلے جو بھی ہوں، یہ طے ہے کہ مریم نواز ن لیگ کے سینئر رہنماؤں، جیسے چوہدری نثار کے لیے بہ طور قائد قابل قبول نہیں، جو واضح طور پر انھیں سربراہ کے لیے غیرموزوں قرار دے چکے ہیں۔ وہ لوگ جو مریم کو جانتے ہیں یا ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں، ان کے سیاسی فہم اور دیگر صلاحیتوں کو سراہتے ہیں۔ منطق کا تقاضا تو یہی ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم بنیں۔البتہ حمزہ شریف کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کی مریم نواز کی جانب سے مخالفت ہو سکتی ہے۔ چوں کہ شہباز شریف پنجاب کے معاملے میں کسی اور پر بھروسا نہیں کرسکتے، اس لیے ممکنہ طورپر وہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ اپنے پاس ہی رکھیں گے۔مسلم لیگ ن کو شائد خاقان عباسی کے مانند کسی وزیر اعظم پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
ویسے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی انتظامی صلاحیتوں سے بہت سوں کو متاثر کیا ۔ڈیوس میں کچھ گھاگ غیرملکی صحافی مجھ سے پوچھنے لگے: ''ان صاحب کو کہاں چھپا کر رکھا تھا؟ ''اگر اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ٹھہرے، تو وہ اگلے وزیر اعظم کے لیے بھی چنے جاسکتے ہیں۔
ہمارے معاشی ، ملکی اور سیاسی مسائل کے پیش نظر الیکشن ستمبر تک موخر ہوسکتے ہیں یا پھر شاید یہ اکتوبر تک چلے جائیں۔البتہ سیاسی لہر اور عدالتی فیصلے کے لیے پیش نظر مسلم لیگ ن کے لیے انتخابات جلد از جلد ہونا مناسب معلوم ہوتا ہے۔شاید سینیٹ انتخابات کے فوراً بعد اس کی بنیاد رکھ دی جائے اور نوے دنوں میں یہ مرحلے طے ہوجائے۔کیا ماہ رمضان اور گرمیوں میں الیکشن ممکن ہیں؟شاید اس وقت خدا بہتر سیاسی لیڈر شپ کے لیے ہماری دعا سن لے۔
(فاضل مصنف ایک دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)
این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں، جو ستمبر 2017 میں منعقد ہوئے، ن لیگ کی جانب سے بیگم کلثوم نواز نے 61 ہزار ووٹ لے کر پی ٹی آئی کی یاسمین راشد کو شکست دی، جو47 ہزار ووٹ حاصل کر سکی تھیں۔ اب لودھراں کے این اے 154 پر نظر ڈالیں۔ جہانگیر ترین کے صاحب زادہ علی ترین اپنے والد کی نااہلی کے بعد میدان میں اترے۔ انھوں نے 90 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے،مگر انھیں مسلم لیگ ن کے اقبال شاہ سے معقول فرق سے شکست ہوئی۔ لودھراں میں ن لیگ کی کامیابی اہم تھی۔ یہ پی ٹی آئی کا مضبوط حلقہ تھا۔ جہانگیر ترین نے 2015 میں یہاں سے چالیس ہزار ووٹوں کے بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی۔
ن لیگ کی برتری کے باوجود پنجاب میں پی ٹی آئی اور حکمران جماعت میں گھمسان کا رن پڑنے کی توقعات اب بدلیں گی۔ن لیگ کے کیمپ کی مایوسی کے باعث، جو نواز شریف کی پاناما کیس میں نا اہلی کے بعد مسلسل بڑھی ہے، پی ٹی آئی کے لیے حالات سازگار ہونا امکانی معلوم ہوتا ہے۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں پیپلزپارٹی کی گرفت مضبوط ہے،ماسوائے ان حلقوں کے جہاں مسلم لیگ فنکشنل کا ووٹ بینک ہیں۔1967سے پیپلزپارٹی کے امیدوار یہاں سہولت سے جیتتے آئے ہیں، گو ان کی فتح سے سندھ کے باسیوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری یا تبدیلی نہیں آئی۔ انتظامی مشینری کے ساتھ انتخابات میں ، کل کی طرح آج بھی، دھاندلی یقینی ہے۔شہروں پر نظر ڈالیں، تو ایم کیو ایم کے انتشار سے سابق میئر کراچی مصطفی کمال کی جماعت پاک سر زمین پارٹی فائدہ اٹھائے گی۔
پیپلزپارٹی کے لیے راؤ انوار غیرمتوقع مصیبت بن سکتے ہیں۔ پولیس مقابلوں کے لیے مشہور افسر، جسے آصف علی زرداری ٹی وی انٹرویو میںایک بہادر آدمی قرار دے چکے ہیں۔ عوامی سطح پر راؤ انوار کو حمایت کا پیغام دینے کی بہ ظاہر کوشش میں زرداری کا مخصوص طریقہ پنہاں ہے۔اس کے پیچھے راؤ انوار کے عذیر بلوچ کے مانند زرداری کے لیے بدترین خواب بننے کا خطرہ کارفرما ہے۔
راؤ انوار کے ناقدین تو ان کی گرفتاری کے خواہش مند ہیں، تا کہ وہ مقدمات کا سامنا کریں، البتہ ان کے ''دوست''، جن میں سے چند سندھ پولیس میں بھی ہیں، انھیں کسی صورت زندہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ زرداری صاحب کے خلاف موجود گواہان کے قتل کی تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے راؤ انوار نے، جو اب مفرورہے،یہاں مناسب جانا کہ دوست اور دشمن، سب کی آنکھوں سے اوجھل ہونا بہتر ہے۔
نواز شریف کی پشاور میں ہونے والی بڑی ریلی کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی کو شکست نہیں دے سکتے۔ مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) پی پی پی،جے ڈبلیو پی اکا دکا سیٹیں نکال سکتی ہیں۔ایسے میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی کے اتحاد کے ساتھ خیبرپختون خوا میں پھر حکومت بنا سکے گی۔
ووٹرز کو لبھانے والے نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کے، جو سرگرم شخصیت ہیں، آنے سے ن لیگ کی انتخابی مہم شدید متاثر ہوگی۔پنجاب میں ن لیگ اکثریت حاصل کرنے کے باوجود مرکز میں حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروں کی محتاج ہوگی۔پی پی پی،جو کبھی ملک گیر جماعت ہوا کرتی تھی،لگتا ہے درجن بھر سیٹیں ہی حاصل کر پائے گی۔بلاول بھٹو اب سیاسی طور پر بالغ ہو رہے ہیں۔ وہ ڈیوس 2018 کے بعد ایک معنوں میں سیاست میں ''ری لانچ ''ہوئے۔ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کے ڈیوس میں ہونے والے اجلاس میں ایک بھارتی صحافی کو انٹرویودیتے ہوئے مشکل سوالات کے نپے تلے جواب دے کر انھوں نے ناقدین کو متوجہ اور متاثر کیا ہے۔
سینیٹ انتخابات کے لیے ہونے والی جوڑ توڑ نے عیاں کر دیا کہ اس وقت بدترین قسم کی ہارس ٹریڈنگ جاری ہے۔سینیٹ کے سابق اسپیکر وسیم سجاد برملا کہہ چکے ہیں کہ سینیٹ کے لیے براہ راست انتخاب کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔جو طریقہ کار رائج ہے، یہ سیاسی بدعنوانی کو بڑھاوا دیتا ہے اور جمہوریت پر سوال کھڑا کر دیتا ہے۔
مسلم لیگ ن کو سینیٹ انتخابات میں ایک بڑے بحران کا سامنا ہے، جس کا سبب میاں صاحب کا بہ طور پارٹی سربراہ پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا جذباتی فیصلہ تھا۔کورٹ آرڈر کے تحت28 جولائی کے بعد نواز شریف کے تمام فیصلے کالعدم قرار پائے۔(الیکشن کمیشن کی جانب سے راجا ظفر الحق کے بہ طور چیئرمین مسلم لیگ ن جاری کردہ ٹکٹس مسترد ہونے کے بعد اب ن لیگ کے امیدوار، آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے پر مجبور ہیں)
نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کے کیس کی سماعت کے دوران جج صاحب کی جانب سے چند ریمارکس دیے گئے، جن کے خلاف ن لیگیوں نے محاذ کھول لیا ۔ دنیا کے کئی ممالک میں جج صاحبان اس طرح کے ریمارکس دیتے ہیں، مگر اصل اہمیت ان کے قانونی فیصلے کی ہوتی ہے۔
عدالتی فیصلے سے قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ،تمام تر اختیارات کے ساتھ پارلیمنٹ کے حق قانون سازی پرسپریم کورٹ اور شاید آرمی کے سامنے فصاحت سے دلائل دینا، متوقع فیصلے پر قبل از وقت ردعمل ہی تھا۔خاقان عباسی اس حق سے متعلق درست تھے، البتہ انھیں اس میں اتنا اضافہ ضرور کرنا چاہیے تھا کہ یہ سپریم کورٹ کی بھی اخلاقی ذمے داری اور حق ہے کہ آئین سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دے ۔بدھ کو سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ کیس کی شق 203 کو کالعدم قرار دے کر اپنے اس حق کا عملی مظاہرہ کیا۔
اب عدالتی فیصلے جو بھی ہوں، یہ طے ہے کہ مریم نواز ن لیگ کے سینئر رہنماؤں، جیسے چوہدری نثار کے لیے بہ طور قائد قابل قبول نہیں، جو واضح طور پر انھیں سربراہ کے لیے غیرموزوں قرار دے چکے ہیں۔ وہ لوگ جو مریم کو جانتے ہیں یا ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں، ان کے سیاسی فہم اور دیگر صلاحیتوں کو سراہتے ہیں۔ منطق کا تقاضا تو یہی ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم بنیں۔البتہ حمزہ شریف کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کی مریم نواز کی جانب سے مخالفت ہو سکتی ہے۔ چوں کہ شہباز شریف پنجاب کے معاملے میں کسی اور پر بھروسا نہیں کرسکتے، اس لیے ممکنہ طورپر وہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ اپنے پاس ہی رکھیں گے۔مسلم لیگ ن کو شائد خاقان عباسی کے مانند کسی وزیر اعظم پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
ویسے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی انتظامی صلاحیتوں سے بہت سوں کو متاثر کیا ۔ڈیوس میں کچھ گھاگ غیرملکی صحافی مجھ سے پوچھنے لگے: ''ان صاحب کو کہاں چھپا کر رکھا تھا؟ ''اگر اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ٹھہرے، تو وہ اگلے وزیر اعظم کے لیے بھی چنے جاسکتے ہیں۔
ہمارے معاشی ، ملکی اور سیاسی مسائل کے پیش نظر الیکشن ستمبر تک موخر ہوسکتے ہیں یا پھر شاید یہ اکتوبر تک چلے جائیں۔البتہ سیاسی لہر اور عدالتی فیصلے کے لیے پیش نظر مسلم لیگ ن کے لیے انتخابات جلد از جلد ہونا مناسب معلوم ہوتا ہے۔شاید سینیٹ انتخابات کے فوراً بعد اس کی بنیاد رکھ دی جائے اور نوے دنوں میں یہ مرحلے طے ہوجائے۔کیا ماہ رمضان اور گرمیوں میں الیکشن ممکن ہیں؟شاید اس وقت خدا بہتر سیاسی لیڈر شپ کے لیے ہماری دعا سن لے۔
(فاضل مصنف ایک دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)