انتظار قتل کیس مقدس حیدر مدیحہ کیانی عباس رضا بری الزمہ قرار
جے آئی ٹی نے سابق ایس ایچ او اے سی ایل سی سمیت 8اہلکار قتل کی دفعہ302 میں نامزدکردیا
KARACHI:
جے آئی ٹی نے انتظار قتل کیس کے دوسرے اجلاس کے بعد سابق ایس ایس پی اے سی ایل سی مقدس حیدر، خاتون مدیحہ کیانی اور پولیس اہلکار عباس رضا کو بری الزمہ قرار دیتے ہوئے گرفتار کیے جانے والے اے سی ایل سی کے سابق ایس ایچ او سمیت8 اہلکاروں کو قتل کیس میں دفعہ 302 میں نامزد کرکے چالان کرتے ہوئے رپورٹ جمع کرادی ہے۔
درخشاں تھانے کے علاقے میں13جنوری کو اینٹی کارلفٹنگ سیل پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان انتظار احمد قتل کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی میں شامل ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے پر بتایاکہ جے آئی ٹی کے دوسرے اجلاس کے بعد جے آئی ٹی میں شامل افسران نے انتظار قتل کیس سے متعلق تمام شواہد و ٹیکنکل بنیاد حاصل کی گئی معلومات ملزمان اور مدعی کے بیانات، سابق ایس ایس پی مقدس حیدر، مدیحہ کیانی کے بیانات اور تفتیش کو حتمی شکل دے کر عبوری چالان کی صورت میں ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ میں رپورٹ جمع کرادی ہے جس میں مقدس حیدر، مدیحہ کیانی، پولیس اہلکار عباس رضا کو بری الزمہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران مذکورہ افراد کی قتل میں ملوث ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملی۔
ایکسپریس کی جانب سے رابطہ کرنے پر مقتول انتظار احمد کے والد اشتیاق احمد نے بتایاکہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی نے جے آئی ٹی کے دوسرے اجلاس میں مجھے یقین دہانی کرائی تھی کہ جے آئی ٹی جو فیصلہ کرے گی مجھے اعتماد میں لے کر کرے گی، جے آئی ٹی نے اگر سابق ایس ایس پی مقدس حیدر، مدیحہ کیانی سمیت 3 افراد کو میرے بیٹے کے قتل میں بری الزمہ قرار دیا ہے تو مجھے اس فیصلے سے بے خبر رکھ کر کیا گیا ہے جو غلط ہے۔
اشتیاق احمد نے مزید کہا کہ وہ ایڈیشنل آئی جی ثنااللہ عباسی اور جے آئی ٹی ممبران سے بات کرینگے اگر انھوں نے مجھے اس بات کا یقین دلایا دیا کہ ایس ایس پی مقدس حیدر اور مدیحہ کیانی میرے بیٹے کے قتل میں ملوث نہیں پائے گئے تو جے آئی ٹی کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ کر قبول کرلوںگا اگر وہ ثابت نہیں کرپائے تو اپنے وکیل و دیگر رشتے داروں سے مشورہ کرکے اپنے بیٹے کے قتل میں ملوث ملزمان کو انجام تک پہنچانے کے لیے آخری حد تک لڑوںگا۔ ایس ایس پی مقدس حیدر سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
جے آئی ٹی نے انتظار قتل کیس کے دوسرے اجلاس کے بعد سابق ایس ایس پی اے سی ایل سی مقدس حیدر، خاتون مدیحہ کیانی اور پولیس اہلکار عباس رضا کو بری الزمہ قرار دیتے ہوئے گرفتار کیے جانے والے اے سی ایل سی کے سابق ایس ایچ او سمیت8 اہلکاروں کو قتل کیس میں دفعہ 302 میں نامزد کرکے چالان کرتے ہوئے رپورٹ جمع کرادی ہے۔
درخشاں تھانے کے علاقے میں13جنوری کو اینٹی کارلفٹنگ سیل پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان انتظار احمد قتل کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی میں شامل ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے پر بتایاکہ جے آئی ٹی کے دوسرے اجلاس کے بعد جے آئی ٹی میں شامل افسران نے انتظار قتل کیس سے متعلق تمام شواہد و ٹیکنکل بنیاد حاصل کی گئی معلومات ملزمان اور مدعی کے بیانات، سابق ایس ایس پی مقدس حیدر، مدیحہ کیانی کے بیانات اور تفتیش کو حتمی شکل دے کر عبوری چالان کی صورت میں ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ میں رپورٹ جمع کرادی ہے جس میں مقدس حیدر، مدیحہ کیانی، پولیس اہلکار عباس رضا کو بری الزمہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران مذکورہ افراد کی قتل میں ملوث ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملی۔
ایکسپریس کی جانب سے رابطہ کرنے پر مقتول انتظار احمد کے والد اشتیاق احمد نے بتایاکہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی نے جے آئی ٹی کے دوسرے اجلاس میں مجھے یقین دہانی کرائی تھی کہ جے آئی ٹی جو فیصلہ کرے گی مجھے اعتماد میں لے کر کرے گی، جے آئی ٹی نے اگر سابق ایس ایس پی مقدس حیدر، مدیحہ کیانی سمیت 3 افراد کو میرے بیٹے کے قتل میں بری الزمہ قرار دیا ہے تو مجھے اس فیصلے سے بے خبر رکھ کر کیا گیا ہے جو غلط ہے۔
اشتیاق احمد نے مزید کہا کہ وہ ایڈیشنل آئی جی ثنااللہ عباسی اور جے آئی ٹی ممبران سے بات کرینگے اگر انھوں نے مجھے اس بات کا یقین دلایا دیا کہ ایس ایس پی مقدس حیدر اور مدیحہ کیانی میرے بیٹے کے قتل میں ملوث نہیں پائے گئے تو جے آئی ٹی کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ کر قبول کرلوںگا اگر وہ ثابت نہیں کرپائے تو اپنے وکیل و دیگر رشتے داروں سے مشورہ کرکے اپنے بیٹے کے قتل میں ملوث ملزمان کو انجام تک پہنچانے کے لیے آخری حد تک لڑوںگا۔ ایس ایس پی مقدس حیدر سے رابطہ نہیں ہوسکا۔