میمو کیس ایف آئی اے کا حسین حقانی کو واپس لانے کیلیے انٹرپول سے رابطہ
حسین حقانی کو گرفتار کرکے پاکستان لانے کیلئے ریڈوارنٹ جاری کئے جائیں، ایف آئی اے کا انٹرپول کو خط
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کے حکم پر سابق سفیر حسین حقانی کو امریکا سے وطن واپس لانے کے لیے انٹر پول کو خط لکھ دیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایف آئی اے نے عدالت کے حکم پر انٹر پول ہیڈ کوارٹر کو حسین حقانی کی گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کے لیے خط لکھ دیا ہے، خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ حسین حقانی پاکستانی عدلیہ کو حساس مقدمے میں مطلوب ہیں اور وہ عدلیہ کو واپس آنے کی یقین دہانی کے لیے ایک جھوٹا حلف نامے جمع کرا کے امریکا روانہ ہوئے تھے تاہم کئی بار طلبی کے باوجود وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے ہیں اس لیے حسین حقانی کو گرفتار کرکے پاکستان واپس لانے کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کئے جائیں۔
میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی 15 فروری کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈائریکٹر ایف آئی اے بشیر میمن کو سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے ضروری کارروائی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور وزرات داخلہ سے منظوری کے بعد ایف آئی اے انٹرپول کو ریڈ وارنٹ جاری کرنے کے لیے خط لکھے گئی جس کے ساتھ ہی انٹر پول کے ذریعے حسین حقانی کی واپسی کے لیے راست قدم اُٹھائے جائیں گے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس نے دہری شریت رکھنے والے افراد کو انتخابات میں ووٹ دینے کا حق دینے سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ کیا ملک سے غداری کرنے والے حسین حقانی کو بھی ووٹ دینے کا حق دے دیا جائے ؟ جب کہ وہ دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا باعث بننے کے علاوہ عدالت میں جھوٹے حلف نامے درج کرا کر امریکا روانہ ہوگیا تھا اس طرح وہ توہین عدالت کا مرتکب ہوا تو کیوں نہ میمو گیٹ کیس کی سماعت کو دوبارہ شروع کیا جائے اور حسین حقانی سے ان سوالوں کا جواب لیا جائے، اس کے بعد چیف جسٹس نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کے لیے بنچ تشکیل دیا تھا۔
میمو گیٹ اسکینڈل
2011 میں امریکا نے ایبٹ آباد میں ایک گھر پر حملہ کرکے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قتل کردیا تھا، جس کے بعد اس وقت امریکا میں مقرر پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی جانب سے امریکی تاجر منصور اعجاز کی وساطت سے امریکی حکام کو مبینہ طور پر ایک خط بھیجا گیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ آپریشن کے بعد پاکستان میں فوجی بغاوت کا خطرہ ہے اس لئے امریکا پاکستان میں برسراقتدار جمہوری حکومت کی مدد کرے۔ میمو کے مندرجات سامنے آنے کے بعد نواز شریف سمیت کئی افراد نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 2012 کے بعد سے یہ کیس زیر التوا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایف آئی اے نے عدالت کے حکم پر انٹر پول ہیڈ کوارٹر کو حسین حقانی کی گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کے لیے خط لکھ دیا ہے، خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ حسین حقانی پاکستانی عدلیہ کو حساس مقدمے میں مطلوب ہیں اور وہ عدلیہ کو واپس آنے کی یقین دہانی کے لیے ایک جھوٹا حلف نامے جمع کرا کے امریکا روانہ ہوئے تھے تاہم کئی بار طلبی کے باوجود وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے ہیں اس لیے حسین حقانی کو گرفتار کرکے پاکستان واپس لانے کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کئے جائیں۔
میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی 15 فروری کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈائریکٹر ایف آئی اے بشیر میمن کو سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے ضروری کارروائی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور وزرات داخلہ سے منظوری کے بعد ایف آئی اے انٹرپول کو ریڈ وارنٹ جاری کرنے کے لیے خط لکھے گئی جس کے ساتھ ہی انٹر پول کے ذریعے حسین حقانی کی واپسی کے لیے راست قدم اُٹھائے جائیں گے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس نے دہری شریت رکھنے والے افراد کو انتخابات میں ووٹ دینے کا حق دینے سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ کیا ملک سے غداری کرنے والے حسین حقانی کو بھی ووٹ دینے کا حق دے دیا جائے ؟ جب کہ وہ دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا باعث بننے کے علاوہ عدالت میں جھوٹے حلف نامے درج کرا کر امریکا روانہ ہوگیا تھا اس طرح وہ توہین عدالت کا مرتکب ہوا تو کیوں نہ میمو گیٹ کیس کی سماعت کو دوبارہ شروع کیا جائے اور حسین حقانی سے ان سوالوں کا جواب لیا جائے، اس کے بعد چیف جسٹس نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کے لیے بنچ تشکیل دیا تھا۔
میمو گیٹ اسکینڈل
2011 میں امریکا نے ایبٹ آباد میں ایک گھر پر حملہ کرکے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قتل کردیا تھا، جس کے بعد اس وقت امریکا میں مقرر پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی جانب سے امریکی تاجر منصور اعجاز کی وساطت سے امریکی حکام کو مبینہ طور پر ایک خط بھیجا گیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ آپریشن کے بعد پاکستان میں فوجی بغاوت کا خطرہ ہے اس لئے امریکا پاکستان میں برسراقتدار جمہوری حکومت کی مدد کرے۔ میمو کے مندرجات سامنے آنے کے بعد نواز شریف سمیت کئی افراد نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 2012 کے بعد سے یہ کیس زیر التوا تھا۔