یہ تماشا عوام ہی دکھائیں گے
وطن عزیز میں جس طرح کے رنگ سیاست آج کل دکھا رہی ہے اس طرح کے رنگ پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے
پاکستان کی سیاست اور سیاستدانوں کے متعلق لکھتے لکھتے عمر گزر گئی صحافت اور سیاست دونوں کا ساتھ چولی دامن سے بھی کچھ زیادہ ہی ہے، تیزی سے بدلتی سیاست اور سیاسی حالات میں اخبار نویس بھی بے بس ہوگئے ہیں کہ پاکستانی سیاست دانوں کی سیاست کے بارے میں کس طرح تجزیہ کریں کہ دن چڑھے ان سیاست دانوں کے حالات کچھ اور ہوتے ہیں اور رات گئے یہی سیاست دان کچھ نئی کہانیاں سنا رہے ہوتے ہیں، وہ تو بھلا ہو الیکڑانک میڈیا کا جو ان کے دن رات کو ریکارڈ کر رہا ہے اور ان کی کہی ہوئی باتیں ان کے سامنے لے آتا ہے، دوسرے لفظوں میں صحافت کی کچھ عزت رہ جاتی ہے ورنہ یہ سیاست دان تو جس طرح جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ۔
ان کے جھوٹوں میں صحافت خوار ہو جاتی ۔ سیاست کے بدلتے حالات میں تجزیئے کرتے ہوئے اب انتہائی محتاط رہنا پڑتا ہے کہ کچھ علم نہیں کہ آنے والے کل میں کیا ہوجائے اور آپ کے فلسفیانہ خیالات دھرے کے دھرے رہ جائیں، عمر بھر کی کمائی غارت ہوتی نظر آتی ہے جیسا کہ آجکل اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ سیاست کے بارے میں اندازے اور قیا فے غلط ثابت ہو جاتے ہیں اور میرے جیسے اخبار نویس جنھوں نے اچھے وقتوں میں بھلے مانس سیاست دانوں کے ساتھ رپورٹنگ کر کے صحافت کمائی ہے وہ اس عمر میں ان نئے نویلے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے سیاستدانوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کہاں ممتاز دولتانہ اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسی جماندرو سیاسی شخصیات جن کی سیاسی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی لطف محسوس ہوتا ہے ۔
سیاسی اختلاف اور نظریات کے باوجود لوگ مخالف سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں مقررین کی تقریریں سننے آتے اور ان کے زبان و بیان سے بہت کچھ نیا سیکھ کر واپس لوٹتے۔ اگر کسی آج کل کے رپورٹر کو ان کی باتیں سنائیں تو وہ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ ایسے بھی لوگ سیاست کرتے تھے اور پھر بھی کامیاب رہتے تھے، ان کا موازنہ وہ آج کے نئے وارداتیئے چوہدری قسم کے سیاستدانوں کے ساتھ کرتے ہیں جنھوں نے سیاست کے نام پر اپنے زمینی خداؤں کی خدمت کا ہی بیڑا اُٹھایا ہوا ہے، ان کی مداح سرائی میں دن سے رات کرتے ہیں اور اس کے عوض وزارت یا دوسری حکومتی مراعات کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔
وطن عزیز میں جس طرح کے رنگ سیاست آج کل دکھا رہی ہے اس طرح کے رنگ پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے جو زبان سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے بارے میں استعمال کرتے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا بلکہ سیاسی لیڈروں کی خوبصورت اور شائستہ گفتگو سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا جب کہ آج کل گالم گلوچ اوراس قبیلے کے نئے نئے القابات سیاسی زبان کا حصہ بن گئے ہیں اور سیاست ان کی نذر ہو گئی ہے۔ سیاست میں اختلاف سیاست کا حسن ہے اور یہ سیاسی اختلاف ہمیشہ برقرار رہتا ہے، شائستگی کے ساتھ بھی اس اختلاف کو برقرار رکھا جا سکتا ہے لیکن آج کی برق رفتار سیاست اور تلخ سیا سی ماحول میں سے شائستگی نام کی جنس رخصت ہو چکی ہے اور اب الزام در الزام کی سیاست کا رواج اور عروج ہے ۔
جس میں فریقین موقعہ پر ہی حساب چکتا کر دینے کے چکر میں رہتے ہیں اور اگر کسی ایک طرف سے غلطی ہو بھی جائے تو اس کی معافی سے پہلے ہی اس پر حملہ کر دیا جاتا ہے اور معافی تلافی یا غلطی کی اصلاح کا موقع ہی نہیں دیا جاتا بلکہ جواب یہ ملتا ہے کہ جیسا کہو گے ویسا ہی جواب بھی ملے گا۔ اس کا گلہ کس سے کریں کہ نئے نوخیز سیاستدانوں کے ساتھ ہمارے پرانے سیاستدان بھی اسی ماحول کا شکار نظر آتے ہیں اوروہ بھی اسی کے زلف کے اسیر ہو گئے ہیں۔
یہ باتیں اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہیں، ہمارے سیاست دانوں نے غیر شائستہ زبان کو عوامی جلسوں میں استعمال کر کے عوام سے ووٹ تو حاصل کر لیے اور عوام نے ان کے نعروں کا جواب بھی دیا لیکن بعد میں جب وہ اپنے ان نعروں کو حقیقت میں بدلنے میں ناکام رہے اور ان کے اپنے ہی خلاف یہ نعرے لگنے لگے تو ان کا جواب اس کے پاس نہیں اور یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اگر ایک موقع اور ملا تو یہ کر دیں وہ کر دیں گے لیکن ان نعروں میں اب جان نہیں رہی اور یہ اپنی موت آپ مر چکے ہیں کیونکہ یہ نعرے لگانے والے پہچانے گئے ہیں اور قابل اعتبار نہیں رہے جب ایک لیڈر قابل اعتبار نہ رہے تو وہ عوامی حمایت کھو دیتا ہے اور اس کا نتیجہ اس کی شکست کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
متوقع جنرل الیکشن کا طبل بجنے کو ہے، عوام اپنے لیڈروں کو ان کی زبان کو ان کے وعدوں کو پہچان چکے ہیں، ان کی شائستہ اور غیرپارلیمانی زبان پر عوام اب واہ واہ کرنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ دیکھ چکے ہیںکہ سوائے عوام کو بے وقوف بنانے کے اور کچھ نہیں کیا جا رہا، صرف اپنی جیبیں بھری جار ہی ہیں اور عوام کے لیے وہی اذیت ہے جو آج سے کچھ سال پہلے تھی اور آنے والا وقت بھی عوام کے لیے کوئی اچھی خبریں نہیں لا رہا کیونکہ کوئی ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا سکے۔
جس کی وجہ سے حالات بدلنے کی توقع کی جا سکے ۔ وعدے بہت ہوں گے، سبز باغ بھی دکھائے جائیں گے، اس کے علاوہ ان سیاستدانوں کی پٹاری میں ایسا مواد بہت ہوتا ہے جو آس و امید رکھتے عوام کو خوش کن نعروں اورو عدوں کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی پٹاری سے اب کیا نکلتا ہے اور عوام مزید کتنا بے وقوف بنتے ہیں یا پھر تقدیر بدلنے کے لیے کوئی نیا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ سب عوام پر منحصر ہے اور عوام کو اب واضح فیصلہ کرنا ہوگا ، نہیں تو ہم آگے کے بجائے مزید پیچھے کا سفر جاری رکھیں گے اورتاریک مصائب کے انبار میں سے اجالے نہیں پھوٹیں گے۔ مفادات کی جنگ جاری ہے اور عوام ہی اس کا فیصلہ کریں گے ۔عوام کیا کرتے ہیں یہ تو خدا ہی جانتا ہے اور ہماری عوام سے آگے کوئی رسائی نہیں۔
ان کے جھوٹوں میں صحافت خوار ہو جاتی ۔ سیاست کے بدلتے حالات میں تجزیئے کرتے ہوئے اب انتہائی محتاط رہنا پڑتا ہے کہ کچھ علم نہیں کہ آنے والے کل میں کیا ہوجائے اور آپ کے فلسفیانہ خیالات دھرے کے دھرے رہ جائیں، عمر بھر کی کمائی غارت ہوتی نظر آتی ہے جیسا کہ آجکل اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ سیاست کے بارے میں اندازے اور قیا فے غلط ثابت ہو جاتے ہیں اور میرے جیسے اخبار نویس جنھوں نے اچھے وقتوں میں بھلے مانس سیاست دانوں کے ساتھ رپورٹنگ کر کے صحافت کمائی ہے وہ اس عمر میں ان نئے نویلے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے سیاستدانوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کہاں ممتاز دولتانہ اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسی جماندرو سیاسی شخصیات جن کی سیاسی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی لطف محسوس ہوتا ہے ۔
سیاسی اختلاف اور نظریات کے باوجود لوگ مخالف سیاسی پارٹیوں کے جلسوں میں مقررین کی تقریریں سننے آتے اور ان کے زبان و بیان سے بہت کچھ نیا سیکھ کر واپس لوٹتے۔ اگر کسی آج کل کے رپورٹر کو ان کی باتیں سنائیں تو وہ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ ایسے بھی لوگ سیاست کرتے تھے اور پھر بھی کامیاب رہتے تھے، ان کا موازنہ وہ آج کے نئے وارداتیئے چوہدری قسم کے سیاستدانوں کے ساتھ کرتے ہیں جنھوں نے سیاست کے نام پر اپنے زمینی خداؤں کی خدمت کا ہی بیڑا اُٹھایا ہوا ہے، ان کی مداح سرائی میں دن سے رات کرتے ہیں اور اس کے عوض وزارت یا دوسری حکومتی مراعات کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔
وطن عزیز میں جس طرح کے رنگ سیاست آج کل دکھا رہی ہے اس طرح کے رنگ پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے جو زبان سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے بارے میں استعمال کرتے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا بلکہ سیاسی لیڈروں کی خوبصورت اور شائستہ گفتگو سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا جب کہ آج کل گالم گلوچ اوراس قبیلے کے نئے نئے القابات سیاسی زبان کا حصہ بن گئے ہیں اور سیاست ان کی نذر ہو گئی ہے۔ سیاست میں اختلاف سیاست کا حسن ہے اور یہ سیاسی اختلاف ہمیشہ برقرار رہتا ہے، شائستگی کے ساتھ بھی اس اختلاف کو برقرار رکھا جا سکتا ہے لیکن آج کی برق رفتار سیاست اور تلخ سیا سی ماحول میں سے شائستگی نام کی جنس رخصت ہو چکی ہے اور اب الزام در الزام کی سیاست کا رواج اور عروج ہے ۔
جس میں فریقین موقعہ پر ہی حساب چکتا کر دینے کے چکر میں رہتے ہیں اور اگر کسی ایک طرف سے غلطی ہو بھی جائے تو اس کی معافی سے پہلے ہی اس پر حملہ کر دیا جاتا ہے اور معافی تلافی یا غلطی کی اصلاح کا موقع ہی نہیں دیا جاتا بلکہ جواب یہ ملتا ہے کہ جیسا کہو گے ویسا ہی جواب بھی ملے گا۔ اس کا گلہ کس سے کریں کہ نئے نوخیز سیاستدانوں کے ساتھ ہمارے پرانے سیاستدان بھی اسی ماحول کا شکار نظر آتے ہیں اوروہ بھی اسی کے زلف کے اسیر ہو گئے ہیں۔
یہ باتیں اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہیں، ہمارے سیاست دانوں نے غیر شائستہ زبان کو عوامی جلسوں میں استعمال کر کے عوام سے ووٹ تو حاصل کر لیے اور عوام نے ان کے نعروں کا جواب بھی دیا لیکن بعد میں جب وہ اپنے ان نعروں کو حقیقت میں بدلنے میں ناکام رہے اور ان کے اپنے ہی خلاف یہ نعرے لگنے لگے تو ان کا جواب اس کے پاس نہیں اور یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اگر ایک موقع اور ملا تو یہ کر دیں وہ کر دیں گے لیکن ان نعروں میں اب جان نہیں رہی اور یہ اپنی موت آپ مر چکے ہیں کیونکہ یہ نعرے لگانے والے پہچانے گئے ہیں اور قابل اعتبار نہیں رہے جب ایک لیڈر قابل اعتبار نہ رہے تو وہ عوامی حمایت کھو دیتا ہے اور اس کا نتیجہ اس کی شکست کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
متوقع جنرل الیکشن کا طبل بجنے کو ہے، عوام اپنے لیڈروں کو ان کی زبان کو ان کے وعدوں کو پہچان چکے ہیں، ان کی شائستہ اور غیرپارلیمانی زبان پر عوام اب واہ واہ کرنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ دیکھ چکے ہیںکہ سوائے عوام کو بے وقوف بنانے کے اور کچھ نہیں کیا جا رہا، صرف اپنی جیبیں بھری جار ہی ہیں اور عوام کے لیے وہی اذیت ہے جو آج سے کچھ سال پہلے تھی اور آنے والا وقت بھی عوام کے لیے کوئی اچھی خبریں نہیں لا رہا کیونکہ کوئی ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا سکے۔
جس کی وجہ سے حالات بدلنے کی توقع کی جا سکے ۔ وعدے بہت ہوں گے، سبز باغ بھی دکھائے جائیں گے، اس کے علاوہ ان سیاستدانوں کی پٹاری میں ایسا مواد بہت ہوتا ہے جو آس و امید رکھتے عوام کو خوش کن نعروں اورو عدوں کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی پٹاری سے اب کیا نکلتا ہے اور عوام مزید کتنا بے وقوف بنتے ہیں یا پھر تقدیر بدلنے کے لیے کوئی نیا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ سب عوام پر منحصر ہے اور عوام کو اب واضح فیصلہ کرنا ہوگا ، نہیں تو ہم آگے کے بجائے مزید پیچھے کا سفر جاری رکھیں گے اورتاریک مصائب کے انبار میں سے اجالے نہیں پھوٹیں گے۔ مفادات کی جنگ جاری ہے اور عوام ہی اس کا فیصلہ کریں گے ۔عوام کیا کرتے ہیں یہ تو خدا ہی جانتا ہے اور ہماری عوام سے آگے کوئی رسائی نہیں۔