بینظیر بھٹو وزیراعظم اور ایک ماں
1988 میں میری والدہ نے ملک بھر میں جاری الیکشن مہم میں حصہ لیا، بیسٹ سیلنگ کتاب لکھی
جیسنڈا آرڈن کے متعلق خبر نے میری بہنوں اور مجھے بہت متاثر کیا۔ یقیناً یہ دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے کہ دنیا اس کی خوش قسمتی پر شادمان ہے۔ جہاں عیب گو اور ناقدین کی کمی نہیں، سماجی رابطوں کے ذرائع #knitforJacinda مہم اور اس طرح کے دیگر بے شمار نیک خواہشات کی علامات خوش آیند ہیں۔ لیکن یہ ایک فطری عمل ہے کہ تب میں ماضی کو یاد کروں اور موجودہ صورتحال کا ان حالات سے موازنہ کروں جن کا میری والدہ نے 28 سال قبل سامنا کیا تھا، جب وہ دنیا کی پہلی رہنما تھیں۔ جنھوں نے اقتدار کے دوران کسی بچے کو جنم دیا تھا۔ لیکن بطور ان کے بچوں کے، ہم اس وقت اس بات کو محسوس نہیں کرسکے کہ ان کی زندگی کتنی غیر معمولی تھی۔
ماضی کی طرف دیکھیں تو بالکل واضح نظر آتا ہے کہ باوجود ان کی کامیابیوں و کامرانیوں کے، انھیں اپنی زندگی کے سفر کے دوران ہر دن اور ہر قدم پر یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ بطور ایک خاتون وہ یہ سب کچھ کرسکتی ہیں اور انھوں نے کر دکھایا۔ میری والدہ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز جنرل ضیا الحق کی جابرانہ، رجعت پرست اور مذہبی انتہاپسندانہ دور حکومت کے خلاف امید و مزاحمت کی علامت کے طور پر کیا تھا۔ ضیا نے آمریت نافذ کرکے میرے نانا، جوکہ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم تھے، کو جھوٹے الزامات پر پھانسی دے دی تھی اور شخصی آمریت کے زیر تسلط پاکستانی معاشرے کو ایسی وحشت کا نشانہ بنایا، جس کا ہمارے ملک کے عوام نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔
اس نے پاکستان میں بنیادپرستی کو اس طرح تقویت دی کہ ہم آج تک اسے بھگت رہے ہیں۔ خواتین سے نفرت پر مبنی اس کی جانب سے کی گئی انتہاپسندانہ قانون سازی اتنی جارحانہ اور اثرانگیز تھی کہ پاکستان کرۂ ارض پر وہ واحد ملک بنا، جہاں خواتین کو پہلے سے حاصل حقوق کو بھی محدود کردیا گیا تھا۔ ضیا رجیم نے فیصلہ دیا کہ قانون کی نظر میں عورت کا مول مرد کے مقابلے میں آدھا ہوگا۔ اس طرح کے حالات میں میری والدہ نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی قیادت کی۔ قید و بند، جلاوطنی اور خاندان کے افراد سمیت پارٹی ساتھیوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور اس جواں سال خاتون کو ان کے درمیان آگے بڑھنا تھا۔ اس وقت کے ایک شاعر نے میری والدہ کے خوف میں مبتلا اس آمریت کی کیفیت کو یوں محفوظ کیا کہ: ڈرتے ہیں بندوقوں والے، ایک نہتی لڑکی سے۔۔۔
1988 میں میری والدہ نے ملک بھر میں جاری الیکشن مہم میں حصہ لیا، بیسٹ سیلنگ کتاب لکھی، اپنے پہلے بچے کو جنم دیا اور دنیا کی کم عمر و مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ سب کچھ صرف ایک سال کی قلیل مدت میں کیا۔ لیکن ان کے ناقدین کے لیے یہ سب کچھ اچھا نہ تھا۔ وہ ناقابل قبول تھیں، کیونکہ وہ ایک خاتون تھیں۔
عوام میں ان کی انتہائی مقبولیت اور مینڈیٹ کے باوجود ایک مہم چلائی گئی کہ اسلام میں خاتون کی حکمرانی کی اجازت نہیں نام نہاد مذہبی عالموں نے فتوے جاری کیے کہ جو کوئی انھیں ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ جب تک میری والدہ وزیراعظم رہیں، اس طرح کی عورت دشمنی پر مبنی مہمات جاری رہیں۔ سب سے زیادہ ان کی وزارت عظمیٰ کو متنازع تب بنانے کی کوشش کی گئی جب وہ حاملہ تھیں اور میری بہن بختاور ان کے بطن میں تھی۔
مطالبے کیے گئے کہ نگران حکومت قائم کی جائے کیونکہ ایک حاملہ خاتون کو حق نہیں ہے کہ وہ وزیراعظم بنیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ملکی دستور میں میٹرنٹی کی چھٹی نہیں تھی۔ میری والدہ نے ان تمام حالات کا سامنا، جیساکہ وہ ہمیشہ کرتی رہیں، خندہ پیشانی سے کیا اور ایک مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے رکھی، انھوں نے بچی کو جنم دینے کو مخفی رکھا اور دوسرے دن صبح اپنے معمول کے مطابق آفس میں تھیں۔ عورت سے نفرت کرنے والوں کے آگے عورت کچھ بھی کرلے، ان کے لیے کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ جب میری والدہ غیر شادی شدہ تھیں، تو کہتے تھے کہ اچھی خواتین تو شادی کرتی ہیں، یہ کیوں نہیں کرتی؟ جب انھوں نے شادی کی تو کہتے کہ اس نے ان کو بطور اپنا خاوند کیوں پسند کیا؟ پھر کہتے کہ اس کے ہاں بچے کیوں نہیں ہیں؟ اور پھر جب بچے ہوئے تو کہتے کہ جب دیکھو یہ حاملہ رہتی ہیں۔ دوران پرورش، ہم اس طرح کے چیلنجز کو محسوس نہیں کرسکے۔
ان کی آخری تحریک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف اور ملک میں بڑھتی ہوئی پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف تھی۔ انھوں نے مشرف کے خلاف طویل جدوجہد کی، جمہوریت کے لیے ثابت قدمی سے لڑیں، اور تمام سیاسی قیدیوں، بشمول میرے والد، جو کوئی جرم نہ کرنے کے باوجود ساڑھے 11 سال سے جیل میں تھے، کی رہائی کے لیے آواز اٹھاتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تن تنہا اپنے بچوں کی پرورش کرتی رہیں، گزر و معاش کیلیے لیکچرز اور تقاریر کرتیں، روزانہ ہمارے ساتھ کھانا کھانے کیلیے وقت نکالتیں، ہر جمعہ ہمیں مسجد لے جاتیں، ہمارا اسکول ہوم ورک کراتیں، اور پیرنٹس ٹیچرز میٹنگز میں ہر حال میں شرکت کرتیں۔ ایک منزل کی تلاش اور اپنے لوگوں کی خدمت کا احساس لیے وہ پاکستان لوٹیں کہ انتہا پسندی اور آمریت کے خلاف جدوجہد کی قیادت کریں۔ اسی دوران انھوں نے اپنے ہم عصر مرد سیاستدانوں کے مقابلے میں مذہبی فاشسٹوں کے خلاف زیادہ بے باکی سے آواز اٹھائی۔
بالآخر آمریت اور انتہا پسند قوتوں نے مجھ سے میری ماں چھین لی، لیکن وہ ایک امید کی علامت اور پوری دنیا میں خواتین کے لیے بطور رول ماڈل زندہ ہیں۔ انھوں نے توقعات سے زیادہ ثابت کرکے دکھایا کہ عورت سب کچھ کرسکتی ہے۔ ان کی ہمیشہ مخالفت کرنے والے سیاسی بونوں کو کوئی یاد نہیں کرے گا لیکن وہ تاریخ میں عالمی رہنما کی صورت میں زندہ ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ہر بچہ اپنی ماں کو سپر وومن سمجھتا ہے اور میں بھی۔
ماضی کی طرف دیکھیں تو بالکل واضح نظر آتا ہے کہ باوجود ان کی کامیابیوں و کامرانیوں کے، انھیں اپنی زندگی کے سفر کے دوران ہر دن اور ہر قدم پر یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ بطور ایک خاتون وہ یہ سب کچھ کرسکتی ہیں اور انھوں نے کر دکھایا۔ میری والدہ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز جنرل ضیا الحق کی جابرانہ، رجعت پرست اور مذہبی انتہاپسندانہ دور حکومت کے خلاف امید و مزاحمت کی علامت کے طور پر کیا تھا۔ ضیا نے آمریت نافذ کرکے میرے نانا، جوکہ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم تھے، کو جھوٹے الزامات پر پھانسی دے دی تھی اور شخصی آمریت کے زیر تسلط پاکستانی معاشرے کو ایسی وحشت کا نشانہ بنایا، جس کا ہمارے ملک کے عوام نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔
اس نے پاکستان میں بنیادپرستی کو اس طرح تقویت دی کہ ہم آج تک اسے بھگت رہے ہیں۔ خواتین سے نفرت پر مبنی اس کی جانب سے کی گئی انتہاپسندانہ قانون سازی اتنی جارحانہ اور اثرانگیز تھی کہ پاکستان کرۂ ارض پر وہ واحد ملک بنا، جہاں خواتین کو پہلے سے حاصل حقوق کو بھی محدود کردیا گیا تھا۔ ضیا رجیم نے فیصلہ دیا کہ قانون کی نظر میں عورت کا مول مرد کے مقابلے میں آدھا ہوگا۔ اس طرح کے حالات میں میری والدہ نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی قیادت کی۔ قید و بند، جلاوطنی اور خاندان کے افراد سمیت پارٹی ساتھیوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور اس جواں سال خاتون کو ان کے درمیان آگے بڑھنا تھا۔ اس وقت کے ایک شاعر نے میری والدہ کے خوف میں مبتلا اس آمریت کی کیفیت کو یوں محفوظ کیا کہ: ڈرتے ہیں بندوقوں والے، ایک نہتی لڑکی سے۔۔۔
1988 میں میری والدہ نے ملک بھر میں جاری الیکشن مہم میں حصہ لیا، بیسٹ سیلنگ کتاب لکھی، اپنے پہلے بچے کو جنم دیا اور دنیا کی کم عمر و مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ سب کچھ صرف ایک سال کی قلیل مدت میں کیا۔ لیکن ان کے ناقدین کے لیے یہ سب کچھ اچھا نہ تھا۔ وہ ناقابل قبول تھیں، کیونکہ وہ ایک خاتون تھیں۔
عوام میں ان کی انتہائی مقبولیت اور مینڈیٹ کے باوجود ایک مہم چلائی گئی کہ اسلام میں خاتون کی حکمرانی کی اجازت نہیں نام نہاد مذہبی عالموں نے فتوے جاری کیے کہ جو کوئی انھیں ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ جب تک میری والدہ وزیراعظم رہیں، اس طرح کی عورت دشمنی پر مبنی مہمات جاری رہیں۔ سب سے زیادہ ان کی وزارت عظمیٰ کو متنازع تب بنانے کی کوشش کی گئی جب وہ حاملہ تھیں اور میری بہن بختاور ان کے بطن میں تھی۔
مطالبے کیے گئے کہ نگران حکومت قائم کی جائے کیونکہ ایک حاملہ خاتون کو حق نہیں ہے کہ وہ وزیراعظم بنیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ملکی دستور میں میٹرنٹی کی چھٹی نہیں تھی۔ میری والدہ نے ان تمام حالات کا سامنا، جیساکہ وہ ہمیشہ کرتی رہیں، خندہ پیشانی سے کیا اور ایک مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے رکھی، انھوں نے بچی کو جنم دینے کو مخفی رکھا اور دوسرے دن صبح اپنے معمول کے مطابق آفس میں تھیں۔ عورت سے نفرت کرنے والوں کے آگے عورت کچھ بھی کرلے، ان کے لیے کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ جب میری والدہ غیر شادی شدہ تھیں، تو کہتے تھے کہ اچھی خواتین تو شادی کرتی ہیں، یہ کیوں نہیں کرتی؟ جب انھوں نے شادی کی تو کہتے کہ اس نے ان کو بطور اپنا خاوند کیوں پسند کیا؟ پھر کہتے کہ اس کے ہاں بچے کیوں نہیں ہیں؟ اور پھر جب بچے ہوئے تو کہتے کہ جب دیکھو یہ حاملہ رہتی ہیں۔ دوران پرورش، ہم اس طرح کے چیلنجز کو محسوس نہیں کرسکے۔
ان کی آخری تحریک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف اور ملک میں بڑھتی ہوئی پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف تھی۔ انھوں نے مشرف کے خلاف طویل جدوجہد کی، جمہوریت کے لیے ثابت قدمی سے لڑیں، اور تمام سیاسی قیدیوں، بشمول میرے والد، جو کوئی جرم نہ کرنے کے باوجود ساڑھے 11 سال سے جیل میں تھے، کی رہائی کے لیے آواز اٹھاتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تن تنہا اپنے بچوں کی پرورش کرتی رہیں، گزر و معاش کیلیے لیکچرز اور تقاریر کرتیں، روزانہ ہمارے ساتھ کھانا کھانے کیلیے وقت نکالتیں، ہر جمعہ ہمیں مسجد لے جاتیں، ہمارا اسکول ہوم ورک کراتیں، اور پیرنٹس ٹیچرز میٹنگز میں ہر حال میں شرکت کرتیں۔ ایک منزل کی تلاش اور اپنے لوگوں کی خدمت کا احساس لیے وہ پاکستان لوٹیں کہ انتہا پسندی اور آمریت کے خلاف جدوجہد کی قیادت کریں۔ اسی دوران انھوں نے اپنے ہم عصر مرد سیاستدانوں کے مقابلے میں مذہبی فاشسٹوں کے خلاف زیادہ بے باکی سے آواز اٹھائی۔
بالآخر آمریت اور انتہا پسند قوتوں نے مجھ سے میری ماں چھین لی، لیکن وہ ایک امید کی علامت اور پوری دنیا میں خواتین کے لیے بطور رول ماڈل زندہ ہیں۔ انھوں نے توقعات سے زیادہ ثابت کرکے دکھایا کہ عورت سب کچھ کرسکتی ہے۔ ان کی ہمیشہ مخالفت کرنے والے سیاسی بونوں کو کوئی یاد نہیں کرے گا لیکن وہ تاریخ میں عالمی رہنما کی صورت میں زندہ ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ہر بچہ اپنی ماں کو سپر وومن سمجھتا ہے اور میں بھی۔