سیاسی رہنما اور عوامی عدالت

سابق نااہل منتخب وزیراعظم کی دردناک فریاد ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ سے شروع ہوتی ہے

سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو عوام کی عدالت میں پیشی سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ عوام کی عدالت پختہ عدالت میں نہیں لگتی بلکہ سڑکوں پر سماعت ہوتی ہے، فیصلے فٹ پاتھ سے جاری ہوتے ہیں اور پھانسی گھاٹ چوراہوں پر لگ جاتے ہیں۔ تاخیری حربے کام نہیں آتے۔ جیل نہیں ہوتی، اس لیے A کلاس، B کلاس کی تفریق نہیں ہوتی۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب عدالتی نظام تلپٹ ہوجاتا ہے۔ قانون طاقتور کی حفاظت کرتا اور سزا کمزور کا مقدر بنتی ہے۔

سابق نااہل منتخب وزیراعظم کی دردناک فریاد ''مجھے کیوں نکالا'' سے شروع ہوتی ہے اور پانچ غیر منتخب سپریم کورٹ کے ججوں سے ہوتی ہوئی نااہلی کے الم ناک فیصلے تک پہنچتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا وزیراعظم تھا جس نے سپریم کورٹ کے فلور پر یہ تسلیم کیا کہ اس نے قومی اسمبلی اجلاس میں (رضاکارانہ) 20 کروڑ عوام کے منتخب نمایندوں کے سامنے لندن کے چار فلیٹوں کی ملکیت کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ سب کا سب جھوٹ تھا۔ تازہ سچ قطری شہزادے کا خط ہے جو پیش خدمت ہے۔ (بعد میں وہ بھی بوگس نکلے)حقیقت یہ ہے کہ 1973ء کا آئین درحقیقت اس لیے کہلاتا ہے کہ یہ اس وقت کے قد آور مختلف نظریات و مسالک سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں (مثلاً مسٹر بھٹو، مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور، ولی خان، بزنجو، وغیرہ) نے پارٹی پولیٹکس سے بالاتر ہوکر صرف ملک اور قوم کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر تشکیل دیا تھا۔ اس میں کوئی ڈبہ نمبر 10 نہیں رکھا گیا۔ جس میں خفیہ طور پر کسی لاڈلے وزیراعظم کے لیے آئین سے انحراف کی اور جھوٹ سے چھوٹ کی اجازت دی گئی ہو۔

یہ طے ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور قوم کے مستقبل کو بیرونی دشمن سے نہیں اندرونی دشمن سے خطرہ ہے۔ پچھلے دنوں یوٹیوب پر ایک سیاسی تقریب کی کارروائی دیکھنے کا موقع ملا جس کے مہمان خصوصی فاروق عبداﷲ (فرزند شیخ عبداﷲ) سابق وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر تھے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ جب پاکستان نے کارگل پر قبضہ کیا تھا تو انھوں نے کیا کارروائی کی؟ فاروق عبداﷲ نے جواباً کہاکہ انھوں نے فوراً بھارتی فوجی حکام سے رابطہ کیا اور کارگل کے محاذ کی تازہ ترین صورتحال دریافت کی۔ جواباً بھارتی فوجی حکام نے ان کو خفیہ طور پر بذریعہ ہیلی کاپٹر کارگل کے محاذ پر پہنچادیا۔ جہاں انھوں نے دیکھا کہ بھارتی فوجیوں کی آگے بڑھنے کی ہر کوشش کارگل کی چوٹیوں سے ہونے والی اندھا دھند فائرنگ سے بری طرح ناکام بنادیتی تھی اور لاشوں کے انبار لگ جاتے تھے۔ یہ دیکھ کر مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ شدید متاثر ہوئے اور وہاں کے فوجی جنرل سے دریافت کیا کہ وہ فضائی کارروائی (یعنی چوٹیوں پر بمباری) کیوں نہیں کررہے ہیں؟ جواب ملا ''ہم روایتی جنگ کو نیوکلیئر جنگ میں بدلنے کا رسک نہیں لے سکتے'' چنانچہ پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کردینے کے لیے بیرونی دشمن کے دو نکاتی ایجنڈے پر عمل در آمد شروع کردیا گیا۔

دہشت گردی کو فروغ دے کر پاکستان کا معاشی ڈھانچہ تباہ کردینا۔جواباً پاک فوج نے فوجی آپریشن ''ضرب عضب'' سے کام لے کر پاکستان کے مغربی بارڈر کے ساتھ ساتھ پاکستانی علاقے میں واقع دہشتگردی کے ڈھانچے کو ہی تباہ کردیا۔ ورنہ ضرب عضب آپریشن سے پہلے دہشت گردی اور خودکش بمباری سے مسجدیں محفوظ تھیں نہ امام بارگاہیں۔ بزرگان دین کے مزارات محفوظ تھے عاشورہ کے ماتمی جلوس، تجارتی مراکز محفوظ تھے نہ صنعتی یونٹ۔ سرمایہ کاری زیرو تھی اور بیروزگاری عام۔


B کرپشن کو فروغ دے کر ریاستی اداروں (NAB, FIA, ECP, SB, CBR)وغیرہ کو مفلوج کردینا۔تمام ریاستی اداروں کے سربراہ اپنی پسند کے انتہائی کرپٹ اور نا اہل افراد کو لگاکر ایک طرف اداروں کو مفلوج کردیاگیا ہے تو دوسری طرف لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کیے گئے۔ اگر کوئی لے کے رشوت پھنس جاتا تھا تو دے کے رشوت چھوٹ بھی جاتا تھا۔

آج پتا چلا کہ پاکستان کو مملکت خداداد کیوں کہا جاتا ہے۔ کرپٹ مافیا نے تو اپنا کام کردیا تھا۔ عوام روٹی کے چکر میں پھنسے ہوئے تھے۔ صبح کی روٹی کا بندوبست ہوا تو شام کی روٹی کی فکر، شام کی روٹی کا بندوبست ہو تو صبح کی۔ اچانک پاناما لیکس کی صورت میں خدا کا قہر نازل ہوا اور کرپٹ مافیا اﷲ کی پکڑ میں آگئی جس کے ثبوت میں چند حیرت انگیز واقعات و اتفاقات کا ذکر کروںگا۔جس سے حقیقت آشکارا ہوجائے گی۔ آپ صرف ٹائمنگ پر غور کیجیے۔

(1) آج پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام، فوج اور عدلیہ ایک پیج پر تھے۔

(2) گلوبل ولیج کا پاکٹ ایڈیشن اسمارٹ فون انٹرنیٹ کی بدولت ہر نوجوان کی ہتھیلی پر نظر آتا ہے۔ یہ سٹیزن میڈیا کا دور ہے۔ ادھر حادثہ ہوتا ہے ادھر اس کی فوٹیج TV پر چلنے لگتی ہے۔ آج اکیسویں صدی کے باخبر عوام آگے آگے بیسویں صدی کے بے خبر سیاسی رہنما پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت عوام جانتے ہیں کہ پاناما کا کیس تھا اقامہ پر کیوں نکالا؟ منی لانڈرنگ کے تعلق سے وزارت عظمیٰ پر بھاری کیوں ہے۔
Load Next Story