پیپلزپارٹی کے پاس بلاول کی باضابطہ تخت نشینی واحد راستہ

حاضر اسٹاک میں کوئی بڑا شہید ہے نہ حکومت کی قبل از وقت معزولی کا نوحہ، بی بی سی

کوئی بلاول کے والد، چچا، پھوپھی کو یاد دلائے نصرت کو بھی بیٹی کے حق میں دستبردار ہونا پڑا۔ فوٹو: فائل

انتخابات سے قبل بلاول بھٹو زرداری کے پارٹی معاملات پر اپنے والد اور پھوپھی سے اختلافات کی خبریں میڈیا میں گرم ہیں۔

45 سالہ پیپلز پارٹی نے پہلا الیکشن 1970 میں ایک عوامی، خوشحال اور استحصال سے پاک پاکستان کے وعدے پر جیتا تھا، اس جیت پر پارٹی قیادت بھی خوش تھی اور اس کا ووٹر بھی ایک خواب ناک فضا میں ناچ رہا تھا۔ بی بی سی کے مطابق تب سے اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں پیپلز پارٹی نے سینہ کوبی، نوحہ گری اور مظلومیت کو ہی اپنا پرچم بنایا۔85ء کے غیر جماعتی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا جذباتی فیصلہ اس بنیاد پر ہوا کہ بھٹو کے قاتل کے بنائے گئے انتخابی نظام کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

88 کے انتخاب پر چونکہ قاتل کا سایہ نہیں تھا لہٰذا ووٹروں نے مقتول کے خون کا قرض اپنی گردن پر محسوس کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی دار و رسن زدہ جماعت کو ضیا کے سیاسی بچوں کے مقابلے میں اتنی اکثریت ضرور دلوادی کہ وہ ایک مخلوط حکومت تشکیل دے سکے۔ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتیں بدانتظامی، کرپشن اور امن و امان کی ابتری کے جھوٹے سچے الزامات لگا کر برطرف کردی گئیں اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی کسی ٹھوس پرکشش پروگرام کی تشکیل اور تنظیم سازی میں دلچسپی لینے کے بجائے 'ہمیں تو مدت ہی پوری نہیں کرنے دی گئی' کے نوحے پر اٹک گئی۔




2002ء میں پیپلز پارٹی کو فوجی اسٹیبلشمنٹ نے مقدمات کی پلیٹ میں اقتدار کی گاجر اس شرط پر دکھائی اگر بھٹو خاندان حکومت سے دور رہے۔ پیپلز پارٹی نے اگرچہ اس وقت تو میاں مشرف کی گیم کا حصہ بننے سے انکار کردیا لیکن بعد ازاں بطور موثر پارلیمانی حزبِ اختلاف قانون سازی میں توانائی لگانے کے بجائے ایک روتی گاتی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھانے میں سہولت جانی۔2006ء میں نواز شریف کے ساتھ چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کے باوجود 2008ء کے انتخابات سے پہلے مشرف بے نظیر ڈیل ہوچکی تھی بی بی ڈیل ہونے کے باوجود سیاسی مخمصے کا شکار ہوگئیں اور پھر سیاسی مخمصے کا شکار بی بی تاک میں بیٹھے شکاری کا شکار ہوگئیں۔

اتنے بڑے سانحے کے باوجود فروری 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی راجیو گاندھی والی کانگریس نہ بن سکی جس نے 1984ء میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں لوک سبھا کی دو تہائی سے زائد نشستیں لوٹ لی تھیں۔ ہمایوں کی وفات کے وقت ولی عہد کی عمر بارہ برس تھی لہٰذا شہزادے کو رموزِ حکمرانی سکھانے کی ذمے داری بیرم خان پر آن پڑی جب یہ بچہ بڑا ہو کر اکبرِ اعظم ہوگیا تو بیرم خان نے اقتدار کی کنجی بادشاہ کے حوالے کی ، سلام کیا اور حج پر روانہ ہوگیا۔ فرض کریں بیرم خان اکڑ جاتا اور شہزادہ اکبر سے کہتا کہ آؤ تم ہندوستان کے تخت کو میرے ساتھ شیئر کرو اور شریک بادشاہ بن جاؤ تو کیا اکبر یہ مطالبہ مان لیتا۔

کیا کسی نے سنا ہے کہ اورنگ زیب نے شاہجہاں سے کبھی یہ کہا ہو کہ ابا حضور آپ ہندوستان کے بادشاہ بنے رہیں اور میں آپ کا اسسٹنٹ بادشاہ لگا رہوں گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس حاضر اسٹاک میں نہ تو کوئی بڑا شہید ہے جسے وہ آج کی انتخابی مارکیٹ میں بھنا سکے۔ نہ ہی وہ5 برس کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد قبل از وقت معزولی کا نوحہ پڑھنے کے قابل ہے۔ لہٰذا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے بھٹو اور نصرت کے نواسے اور بے نظیر کے 25 سالہ بیٹے بلاول کی باضابطہ تخت نشینی۔

Recommended Stories

Load Next Story