نقیب اللہ محسود کیس راؤ انوار…دہشت گردوں کے پیچھے بھاگنے والا خود کیوں بھاگ رہا ہے
سابق ایس پی کی پُراسرارگمشدگی نے کئی سوالات کو جنم دے دیا،دلیری کے دعوے ہوا ہوئے
گزشتہ کئی سالوں سے سابق ایس پی راؤ انوار اپنی بنائی گئی ضلع ملیر کی '' ریاست '' میں روایتی انداز اختیار کرتے ہوئے مبینہ پولیس مقابلوں میں دہشت گردوں کو ہلاک کر کے ان کا شجرہ نسب میڈیا کو بتاتے تھے کہ وہ کتنے بڑے دہشت گرد تھے اور شہر میں وہ کیا تباہی پھیلانے چاہتے تھے، لیکن گزشتہ ماہ 13 جنوری بروز ہفتے کی سہ پہر ان کی خود ساختہ ریاست میں اس وقت ایسا بھونچال آگیا جب شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے میں ہونے والا مبینہ پولیس مقابلہ راؤ انوار کے حلق کی ایسی ہڈی بن گیا جو نہ تو وہ نگل پا رہے ہیں اور نہ ہی اب تک اگل سکے ہیں، جس دن مقابلہ ہوا اس دن اور اگلے چند روز تک تو مقابلے کے حوالے سے تمام حالات و واقعات راؤ انوار کے حق میں رہے۔
مقابلے کے بعد سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے جائے وقوعہ پر بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے کہا کہ مارے جانے والے 4 دہشت گردوں میں سے 2 کی شناخت نذر محمد اور مولوی اسحاق کے نام سے ہوئی ہے جبکہ دیگر کی فوری شناخت نہیں ہو سکی۔ تاہم چند روز کے بعد مارے جانے والے 2 نامعلوم میں سے ایک کی شناخت صابر کے نام سے ہوئی اور اس کے چند روز کے بعد چوتھی نعش کی شناخت نسیم اﷲ عرف نقیب اﷲ محسود کے نام سے ہوئی جس کے بعد سوشل میڈیا اور دیگر ٹی وی چینلز پر نقیب اﷲ محسود کی تصاویر آنے لگیں اور ان کے اہلخانہ اور دوستوں کی جانب سے بھی یہ بیان آیا کہ نقیب کو 3 جنوری کو سچل کے علاقے سے پولیس نے حراست میں لیا تھا بعدازاں نقیب اﷲ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے کا اتنا چرچا ہوا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو بھی نوٹس لینا پڑ گیا اور انھوں نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اﷲ عباسی کی سربراہی میں 3 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔
جس نے محض 24 گھنٹوں میں اس مقابلے کو جعلی قرار دے کر راؤ انوار سمیت ان کی دیگر پولیس پارٹی کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کر ڈالی، انکوائری کمیٹی کی جانب سے راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو ذمہ دار قرار دیئے جانے کے بعد راؤ انوار اور ان کی ٹیم میں شامل دیگر پولیس افسران و اہلکار ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے دفتر میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے آئے اور اس کے بعد ایسے روپوش ہوئے کہ سندھ پولیس ملک بھر میں چھاپے مارتی رہی لیکن نہ تو راؤ انوار کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی ان کی ٹیم میں دیگر پولیس افسران کا کوئی سراغ لگایا جا سکا۔ دہشت گردوں کے تعاقب میں بھاگنے والا ایس پی راؤ انوار اب خود اپنی گرفتاری کے خوف سے بھاگنے پر مجبور ہے۔
نقیب اﷲ محسود کی ورثا کی جانب سے شناخت کے بعد ملیر ڈویژن پولیس نے نقیب سے متعلق 12 نکات پر مشتمل چارج شیٹ جاری کی گئی جس میں پہلے نمبر پر اس کی پیدائش اور آبائی علاقے سے متعلق بتایا گیا ، دوسرے نمبر پر اس کی کراچی میں رہائش سے متعلق بتایا گیا جبکہ تیسرے نمبر پر لکھا تھا کہ وہ غیر شادی شدہ اور اس کے تین بھائی ہیں اس کے علاوہ دیگر نکات میں 2007 سے 2009 تک نقیب اﷲ محسود کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی وارداتوں اور دیگر افراد کے قتل سے متعلق تفصیلات بتائی گئیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے بہنوئی کے ساتھ مل کر اپنا اسلحہ سہراب گوٹھ مچھر کالونی میں کالعدم تنظیم کو فروخت کرنے میں بھی ملوث ہے تاہم پولیس کی جانب سے فراہم کی جانے والی ان معلومات میں نقیب اﷲ کو غیر شادی شدہ بتایا گیا جبکہ وہ 3 بچوں کا باپ تھا۔
اس کے علاوہ اگر ملیر ڈویژن پولیس کے پاس نقیب اﷲ محسود اور اس کے قریبی رشتے دار کے حوالے سے اتنی معلومات تھیں تو مقابلے میں مارے جانے سے لے کر شناخت ہونے تک نقیب اﷲ محسود آخر نامعلوم کیوں رہا ؟ راؤ انوار نے مقابلے کے بعد مارے جانے والے 2 افراد کی شناخت بتاتے ہوئے ان کی کارروائیاں تو ضرور بتائی تھیں لیکن وہ نقیب اﷲ کے حوالے سے کچھ نہیں بتا سکے۔ نقیب اﷲ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے کا الزام عائد ہونے کے بعد سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے یہ بھی دعویٰ سامنے آیا تھا کہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اﷲ مروت نے مجھے بتایا تھا کہ مقابلے میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں، جس کے بعد جب میں جائے وقوعہ پر پہنچا تو نعشیں پڑی ہوئی تھیں اور بعدازاں انہوں نے میڈیا کو اس مقابلے کے حوالے سے آگاہ کیا۔
نقیب اﷲ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد انویسٹی گیشن پولیس نے مجموعی طور پر ایک ڈی ایس پی قمر احمد سمیت 10 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا ہے، تاہم جعلی مقابلے کے اصل کردار تاحال پولیس کی گرفت سے آزاد ہیں ، نقیب اﷲ قتل کیس میں گرفتار ہیڈ کانسٹیبل علی رضا نے پولیس مقابلوں کے حوالے سے تمام راز اگلتے ہوئے انکشافات کیے ہیں کہ پولیس مقابلوں کی جگہ کا انتخاب کرنا اور وہاں پر عارضی کھانے پینے کے سامان کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری مبینہ طور پر شعیب شیخ کرتا تھا جبکہ مبینہ دہشت گردوں کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے دفتر کے قریب ایک مکان میں رکھتے تھے، وہاں کا انچارج معطل سب انسپکٹر انار خان تھا اس کے علاوہ ہیڈ کانسٹیبل چوہدی فیصل بھی معاونت کرتا تھا ، گرفتار ملزم علی رضا بلوچستان پولیس کا اہلکار ہے جو گزشتہ 10 سال سے کراچی میں ڈیوٹی دے رہا تھا۔ شاہ لطیف ٹاؤن جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اﷲ محسود کی ہلاکت راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو کس نہج پر پہنچائی گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکے گا تاہم جتنا زیادہ وہ قانون سے بھاگیں گے اتنا ہی زیادہ ان پر شکنجا کسا جائے گا۔
مقابلے کے بعد سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے جائے وقوعہ پر بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے کہا کہ مارے جانے والے 4 دہشت گردوں میں سے 2 کی شناخت نذر محمد اور مولوی اسحاق کے نام سے ہوئی ہے جبکہ دیگر کی فوری شناخت نہیں ہو سکی۔ تاہم چند روز کے بعد مارے جانے والے 2 نامعلوم میں سے ایک کی شناخت صابر کے نام سے ہوئی اور اس کے چند روز کے بعد چوتھی نعش کی شناخت نسیم اﷲ عرف نقیب اﷲ محسود کے نام سے ہوئی جس کے بعد سوشل میڈیا اور دیگر ٹی وی چینلز پر نقیب اﷲ محسود کی تصاویر آنے لگیں اور ان کے اہلخانہ اور دوستوں کی جانب سے بھی یہ بیان آیا کہ نقیب کو 3 جنوری کو سچل کے علاقے سے پولیس نے حراست میں لیا تھا بعدازاں نقیب اﷲ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے کا اتنا چرچا ہوا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو بھی نوٹس لینا پڑ گیا اور انھوں نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اﷲ عباسی کی سربراہی میں 3 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔
جس نے محض 24 گھنٹوں میں اس مقابلے کو جعلی قرار دے کر راؤ انوار سمیت ان کی دیگر پولیس پارٹی کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کر ڈالی، انکوائری کمیٹی کی جانب سے راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو ذمہ دار قرار دیئے جانے کے بعد راؤ انوار اور ان کی ٹیم میں شامل دیگر پولیس افسران و اہلکار ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے دفتر میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے آئے اور اس کے بعد ایسے روپوش ہوئے کہ سندھ پولیس ملک بھر میں چھاپے مارتی رہی لیکن نہ تو راؤ انوار کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی ان کی ٹیم میں دیگر پولیس افسران کا کوئی سراغ لگایا جا سکا۔ دہشت گردوں کے تعاقب میں بھاگنے والا ایس پی راؤ انوار اب خود اپنی گرفتاری کے خوف سے بھاگنے پر مجبور ہے۔
نقیب اﷲ محسود کی ورثا کی جانب سے شناخت کے بعد ملیر ڈویژن پولیس نے نقیب سے متعلق 12 نکات پر مشتمل چارج شیٹ جاری کی گئی جس میں پہلے نمبر پر اس کی پیدائش اور آبائی علاقے سے متعلق بتایا گیا ، دوسرے نمبر پر اس کی کراچی میں رہائش سے متعلق بتایا گیا جبکہ تیسرے نمبر پر لکھا تھا کہ وہ غیر شادی شدہ اور اس کے تین بھائی ہیں اس کے علاوہ دیگر نکات میں 2007 سے 2009 تک نقیب اﷲ محسود کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی وارداتوں اور دیگر افراد کے قتل سے متعلق تفصیلات بتائی گئیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے بہنوئی کے ساتھ مل کر اپنا اسلحہ سہراب گوٹھ مچھر کالونی میں کالعدم تنظیم کو فروخت کرنے میں بھی ملوث ہے تاہم پولیس کی جانب سے فراہم کی جانے والی ان معلومات میں نقیب اﷲ کو غیر شادی شدہ بتایا گیا جبکہ وہ 3 بچوں کا باپ تھا۔
اس کے علاوہ اگر ملیر ڈویژن پولیس کے پاس نقیب اﷲ محسود اور اس کے قریبی رشتے دار کے حوالے سے اتنی معلومات تھیں تو مقابلے میں مارے جانے سے لے کر شناخت ہونے تک نقیب اﷲ محسود آخر نامعلوم کیوں رہا ؟ راؤ انوار نے مقابلے کے بعد مارے جانے والے 2 افراد کی شناخت بتاتے ہوئے ان کی کارروائیاں تو ضرور بتائی تھیں لیکن وہ نقیب اﷲ کے حوالے سے کچھ نہیں بتا سکے۔ نقیب اﷲ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے کا الزام عائد ہونے کے بعد سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے یہ بھی دعویٰ سامنے آیا تھا کہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اﷲ مروت نے مجھے بتایا تھا کہ مقابلے میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں، جس کے بعد جب میں جائے وقوعہ پر پہنچا تو نعشیں پڑی ہوئی تھیں اور بعدازاں انہوں نے میڈیا کو اس مقابلے کے حوالے سے آگاہ کیا۔
نقیب اﷲ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد انویسٹی گیشن پولیس نے مجموعی طور پر ایک ڈی ایس پی قمر احمد سمیت 10 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا ہے، تاہم جعلی مقابلے کے اصل کردار تاحال پولیس کی گرفت سے آزاد ہیں ، نقیب اﷲ قتل کیس میں گرفتار ہیڈ کانسٹیبل علی رضا نے پولیس مقابلوں کے حوالے سے تمام راز اگلتے ہوئے انکشافات کیے ہیں کہ پولیس مقابلوں کی جگہ کا انتخاب کرنا اور وہاں پر عارضی کھانے پینے کے سامان کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری مبینہ طور پر شعیب شیخ کرتا تھا جبکہ مبینہ دہشت گردوں کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے دفتر کے قریب ایک مکان میں رکھتے تھے، وہاں کا انچارج معطل سب انسپکٹر انار خان تھا اس کے علاوہ ہیڈ کانسٹیبل چوہدی فیصل بھی معاونت کرتا تھا ، گرفتار ملزم علی رضا بلوچستان پولیس کا اہلکار ہے جو گزشتہ 10 سال سے کراچی میں ڈیوٹی دے رہا تھا۔ شاہ لطیف ٹاؤن جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اﷲ محسود کی ہلاکت راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو کس نہج پر پہنچائی گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکے گا تاہم جتنا زیادہ وہ قانون سے بھاگیں گے اتنا ہی زیادہ ان پر شکنجا کسا جائے گا۔