ہاکی کے فروغ کیلیے ملک بھر میں اکیڈمیاں بنانے کا پروگرام

10 سے 15 اکیڈمیز قائم، پلیئرز پول کو 100 تک بڑھاتے ہوئے ان ہی میں سے قومی ٹیموں کا انتخاب کیا جائے گا، شہباز سینئر

10 سے 15 اکیڈمیز قائم، پلیئرز پول کو 100 تک بڑھاتے ہوئے ان ہی میں سے قومی ٹیموں کا انتخاب کیا جائے گا، شہباز سینئر۔ فوٹو:فائل

قومی کھیل کو دوبارہ عروج دلانے کے لیے ملک بھر میں اکیڈمیاں بنانے کا پروگرام بن گیا۔

ہاکی وہ واحد کھیل ہے جس نے پاکستان کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ میڈلز جتوائے ہیں تاہم 1994 کے ورلڈ کپ کے بعد سے گرین شرٹس انٹرنیشنل سطح پر کوئی بڑا ٹائٹل اپنے نام نہیں کرسکی، اچھے اور بہترین صلاحیتوں کے حامل پلیئرز ناپید ہونے کی وجہ سے عالمی مقابلوں میں مایوسیاں اور ناکامیاں پاکستانی ٹیم کا مقدر بن چکی ہیں۔

پی ایچ ایف حکام کی طرف سے مستقبل میں اچھے کھلاڑیوں کی تلاش کے لیے اکیڈمی پروگرام بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ذرائع کے مطابق ملک بھر میں 10 سے 15 اکیڈمیاں بناکر ان میں پلیئرز کو ملکی اور غیر ملکی کوچز سے ٹریننگ دی جائے گی۔

سیکریٹری پی ایچ ایف شہباز احمد سینئر کا کہنا ہے کہ کلب ہاکی کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، اسکول ہاکی کو بھی10 برس تک متعارف نہیں کروا سکتے، 10 سے 15 مقامی اکیڈمیاں بنانے کی ضرورت ہے اور ان میں کوچز من پسند یا قریبی دوست، رشتہ دار کی بجائے میرٹ پر ہونے چاہئیں۔ ان اکیڈمیوں میں غیر ملکی کوچز کو مدعو کریں گے، آسٹریلیا اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے یہ کوچز 10 سے 15 روز تک ہمارے بچوں کو ٹریننگ دیں گے۔


شہباز احمد سینئر کا کہنا ہے کہ اگر اس منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے تو ہاکی کو اس کے اصل مقام کی طرف واپس لایا جاسکتا ہے۔ 1994 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا کہ میں نے 5ورلڈ کپ کھیلے صرف1994 کا ہی عالمی کپ کیوں جیت سکا، پلیئرز کچھ سال کھیلتا ہے، گروم ہوتا ہے، اس سے آپ کی توقعات بھی بڑھ جاتی ہیں۔

سیکریٹری پی ایچ ایف نے کہا کہ موجودہ لڑکے 8سے 10سال سے کھیل رہے ہیں، یہ کھلاڑی مزید 10سال بھی کھیل لیں لیکن یہ نتائج کو زیادہ تبدیل نہیں کرسکتے، میری رائے میں موجودہ لڑکوں کی فزیکل فٹنس کا معیار اور گیم میں مہارت ایسی نہیں کہ یہ ورلڈ چیمپئن یا اولمپک چیمپئن بن سکتے ہیں۔ پول آف پلیئرز بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، پلیئرز کی تعداد100 تک لے جانا ہدف ہے۔ کوشش ہو گی کہ ان 100 کھلاڑیوں میں سے قومی ٹیم کا انتخاب کیا جائے۔

شہباز سینئر کا کہنا تھا کہ میری کوشش ہے کہ ہمارا کھلاڑی سال میں کم از کم 10 سے 15 لاکھ روپے ضرور کمائے، موجودہ کھلاڑیوں کے پاس ملازمتیں نہیں ہیں، جو بھی لڑکا ٹیم میں آیا اس کی پہلی ترجیح بنگلہ دیش، اومان اور ملائشیا کی لیگز ہوتی ہیں، جب کھلاڑی اس طرح کی غیر معیاری اور سب اسٹینڈرڈ لیگز کھیلیں گے تو پلیئرز کیسے سیکھ سکتے ہیں۔

سیکریٹری پی ایچ ایف نے بتایا کہ میں نے دنیا کی ٹاپ ہالینڈ لیگ 4 سال کھیلی، وہ چیزیں جو میں قومی ٹیم میں رہ کر نہ سیکھ سکا وہ میں نے لیگ کھیلنے کے دوران سیکھیں۔ ہاکی کو پروفیشنل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہاکی لیگ کا بجٹ 20 تا 25 روپے کروڑ ہوگا، کوشش ہو گی کہ فیڈریشن اس میں سے ایک بھی روپیہ خرچ نہ کرے، ہم اس کو مارکیٹنگ کمپنی کے ذریعے جنریٹ کریں گے۔

 
Load Next Story