الیکشن کمیشن کے درست اقدامات

جمہوری عمل کو مستحکم بنانے کے لیے الیکشن کمیشن، عدلیہ، فوج اور سیاسی جماعتوں میں مکمل اتفاق رائے موجود اور اس پر۔۔۔

جمہوری عمل کو مستحکم بنانے کے لیے الیکشن کمیشن‘ عدلیہ‘ فوج اور سیاسی جماعتوں میں مکمل اتفاق رائے موجود اور اس پر عملدرآمد بھی کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

ملک بھر میں آیندہ عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ مجموعی طور پر7 ہزار سے زائد کاغذات نامزدگی وصول ہوئے۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن وجود میں آیا ہے حتیٰ کہ نگراں وزیراعظم کی نامزدگی بھی الیکشن کمیشن ہی کے ذریعے عمل میں آئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے سربراہ فخر الدین جی ابراہیم کی ایمانداری اور صلاحیتوں پر تمام سیاسی جماعتوں کو مکمل اعتماد ہے اور انھیں اس امر کا یقین ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی انتخابات کا عمل شفاف' منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن نے بھی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ان تمام قباحتوں کو دور کیا جائے جو انتخابات میں دھونس اور دھاندلی کا باعث بنتی چلی آ رہی ہیں۔ اس نے سرکاری بھرتیوں پر پابندی عائد کرکے انتخابی دھاندلی کے بارے میں خدشات ختم کر دیے کیونکہ بعض ناقدین کے یہ اعتراضات سامنے آئے کہ سابق حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمتیں دینے کا عمل انتخابی رگنگ کے زمرے میں آتا ہے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کر دیا اور اس پر عملدرآمد کرانے کی مکمل یقین دہانی کرائی۔ یہ الیکشن کمیشن کی کامیابی ہے کہ مختلف اداروں کے نادہندگان سیاسی رہنما اور سابق ارکان اسمبلی نے نا اہلی سے بچنے کے لیے اپنے واجبات جمع کرانے شروع کر دیے۔ امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد ان کی اسکروٹنی کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ تمام امیدواروں کی اسکروٹنی نیب' نادرا' اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے تعاون سے قائم الیکٹرانک فلٹر کے ذریعے کرنے کے بعد الیکشن کمیشن اہل امیدواروں کے نام ریٹرننگ افسران کو ارسال کرے گا جب کہ ریٹرننگ افسران امیدواروں پر اٹھائے گئے اعتراضات اور دستیاب تفصیلات کا جائزہ لینے کے بعد کاغذات نامزدگی کو منظور یا نا منظور کرنے کا فیصلہ کریں گے۔

جانچ پڑتال کا عمل 7 اپریل تک جاری رہے گا۔ اعتراضات اور ان پر اپیلوں کا فیصلہ ہونے کے بعد امیدواروں کی حتمی فہرست 19اپریل کو شایع کی جائے گی۔ اس بار ملک بھر میں کسی سیاسی جماعت کے بجائے نگراں حکومتیں ہیں لہذا اپوزیشن کی جانب سے حزب اقتدار پر انتخابات میں دھاندلی اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کے الزامات عائد کرنے کا سلسلہ اس بار دہرایا نہیں جائے گا ۔ اس سے قبل ہونے والے عام انتخابات میں اپوزیشن حکومت پر دھاندلی کے ذریعے جیتنے کے الزامات عائد کر کے اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے اور احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکی دیتی رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنے دعوؤں کے برعکس مختلف بدعنوانیوں میں مبتلا مگر طاقتور امیدواروں کو جتوا کر اسمبلیوں میں پہنچاتی رہی ہیں۔


اس لیے جعلی ڈگری رکھنے والے' پوراٹیکس نہ دینے والے اور مختلف اداروں کے نادہندہ اسمبلیوں میں براجمان اور تمام مراعات کے مزے لوٹتے رہے۔ یہ امیدوار ہر جائز و ناجائز طور پر اپنی حکومت اور اس کے حامیوں کا دفاع کرتے رہے۔ ان کا کام حکومت کی ہاں میں ہاں ملانا اورہر معاملے میں ان کا ساتھ دینے تک محدود رہا چاہے حکمرانوں نے کتنی ہی غلط راہ کیوں نہ اپنائی ہو۔ بہت سے امیدوار گھوگھو گھوڑے بنے رہے جو حکومت کے ہر بل پر آنکھیں بند کرکے صرف دستخط کرتے اور مفادات سمیٹتے رہے۔ لیکن اب صورت حال ماضی سے قطعی مختلف ہے۔

جمہوری عمل کو مستحکم بنانے کے لیے الیکشن کمیشن' عدلیہ' فوج اور سیاسی جماعتوں میں مکمل اتفاق رائے موجود اور اس پر عملدرآمد بھی کیا جا رہا ہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن نے تو دو ٹوک انداز میں اعلان کر دیا ہے کہ انتخابات میں امیدواروں کی بے رحمانہ جانچ پڑتال ہو گی اور بندوق کے زور پر کوئی امیدوار نہیں جیت سکے گا بلکہ عوام جسے ووٹ دیں گے وہی امیدوار جیتے گا' اسلحے کی نمائش کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ گزشتہ عام انتخابات میں بعض حلقوں میں امیدوار بلا روک ٹوک اسلحہ کی نمائش اور فائرنگ کرتے رہے بلکہ بعض مقامات پر مخالف امیدواروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔

مگر ان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی بلکہ اسے انتخابات کا ایک روایتی حصہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ انتخابات جیتنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ روبہ عمل لایا جاتا رہا مگر اب آزاد الیکشن کمیشن کے قیام کے بعد حالات میں واضح تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن کا یہ کہنا خوش کن ہے کہ 54 جعلی ڈگری ہولڈرز اور دہری شہریت والے سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے نام ویب سائٹ پر آویزاں کر دیے گئے۔ دھوکا دہی اور جعلسازی کے ذریعے انتخابات میں حصہ لینے اور پھر کامیابی حاصل کرنے والوں کے خلاف کارروائی اور ان کے نام عوام میں لانے سے اب امید پیدا ہوئی ہے کہ غلط لوگوں کا راستہ رکے گا، صحیح اور اہل امیدوار ہی آگے آئیں گے، اس سے نہ صرف جمہوری عمل مستحکم ہو گا بلکہ عوام کے مسائل بھی حل ہوں گے اور ملک جو اس وقت مختلف بحرانوں میں گھرا ہوا ہے سے نکل کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے گا۔

گزشتہ انتخابات میں یہ الزامات بھی سامنے آتے رہے کہ پولیس اور انتظامی اداروں نے امیدوار کی جیت میں بھرپور حصہ ڈالا۔ مگر اس بار الیکشن کمیشن ان تمام منفی ہتھکنڈوں کا راستہ روکنے کے لیے سرگرم ہوچکا ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے واضح طور ر متنبہ کیا ہے کہ اگر انتخابات کے دوران کسی سرکاری افسر یا محکمے نے مداخلت کی کوشش کی تو اس محکمے کے سربراہ اور ملوث افسران کو نوکریوں سے برطرف کر دیا جائے گا۔ ایک اور خوش کن اقدام ملک بھر میں ایک ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کے مقامات کی تبدیلی ہے کیونکہ یہ پولنگ اسٹیشن اہم سیاسی اور با اثر شخصیات نے اپنے ڈیرے کے قریب قائم کروا رکھے تھے۔

الیکشن کمیشن کے حالیہ اقدامات سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اس بار بااثر سیاسی شخصیات کے ناجائز حربے کامیاب نہیں ہوں گے اور انتخابی ضابطہ اخلاق سے انحراف ان کے سیاسی کیرئیر کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر اہل اور باصلاحیت امیدوار کامیاب ہوتے ہیں تو اس سے جمہوری عمل کو تقویت ملے گی اور ملکی پالیسیاں عوامی امنگوں کے عین مطابق درست سمت میں رواں دواں ہو جائیں گی۔
Load Next Story