نگراں حکومت اور آٹا
2008 سے پہلے مشرف کے دور میں آٹا 16-17 روپے کلو دستیاب تھا، اب جمہوری دور میں آٹا 40-45 روپے کلو ہے۔
انتخابات کی گہما گہمی اور وعدوں اور دعوؤں کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ عوام کے غم میں دبلے ہونے والے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو اس بات کا ہوش تک نہیں کہ عوام پر کیسے کیسے ظلم سب کی آنکھوں کے سامنے ڈھائے جارہے ہیں۔
ان مظالم کی فہرست تو بڑی لمبی ہے لیکن ہم ایک ایسے ظلم کی طرف ہمارے نگراں وزیر اعظم اور عدالت عظمیٰ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیںجس کا شکار اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام ہورہے ہیں اور کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا نہیں دکھائی دیتا۔ آٹا اس ملک کے غریب عوام کی غذائی ضرورتوں میں سب سے پہلی ضرورت ہے۔ آٹا کچھ عرصے پہلے تک 30 روپے کلو فروخت ہورہا تھا کہ اچانک فلور ملوں کی طرف سے غلغلہ بلند ہوا کہ انھیں ضرورت کے مطابق گندم فراہم نہیں کی جارہی ہے۔
اس شور شرابے کے ساتھ ہی میڈیا میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ گندم کی قلت کی وجہ سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے لیے جیسے ہی گراؤنڈ پورا ہوا آٹے کی قیمت 30 روپے سے بڑھ کر 45.50 کلو تک پہنچ گئی۔ یہ ہماری عوامی حکومت کا جاتے جاتے ایک ایسا کارنامہ تھا جس کا عوام براہ راست شکار ہوگئے۔ اس سازش میں کتنوں نے اپنے ہاتھ رنگ لیے اس کا حساب کون لے گا؟
آٹے کی قیمت میں اس ظالمانہ اضافے کے خلاف کسی عوام دوست سیاستدان اور مذہبی رہنما نے کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹے کی قیمتوں میں بلا جواز اضافے کی یہ سازش کامیاب ہوگئی اور سارے ملک میں 30 روپے کلو فروخت ہونے والا آٹا اب 40-45 روپے کلو فروخت ہورہا ہے اور عوام کے غم میں ہلکان ہونے والی قیادتوں کے بے حس کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ میڈیا میں آٹے کی قلت، آٹے کی مہنگائی کے حوالے سے خبریں آتی رہیں، لیکن سیاست سمیت ملک کے عوام کو انصاف فراہم کرنے کے دعویدار تمام ادارے بے حس و حرکت رہے۔
کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے اس کھلے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی نہ تحریک چلائی، نہ کوئی اتحاد بنایا۔ 1 کلو آٹے کی قیمت میں 10 سے 15 روپے کا اضافہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ یہ اربوں روپوں کی ایسی کرپشن ہے جس میں حکومت، وزارت خوراک، فلورملز سب شامل ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں کسی چیز کی قیمت میں ایک پینی کا بھی اضافہ کرنا ہوتا ہے تو پرائس کنٹرول کے اداروں کو اس کا جواز فراہم کرنا پڑتا ہے اگر جواز معقول ہو تو پرائس کمیشن قیمت میں اضافے کی اجازت دیتا ہے اگر جواز ناقابل قبول ہو تو کسی کی مجال نہیں کہ قیمت میں ایک پینی یا پائی کا اضافہ کرے۔
اپنی پانچ سالہ مدت کامیابی سے مکمل کرنے والی حکومت کے حاکمان اپنی پانچ سالہ کارکردگی بتاتے وقت سب سے بڑی کارکردگی یہ بتاتے رہے ہیں اور الیکشن کمیشن میں بھی بتا رہے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کے دوران گندم باہر سے منگوانا پڑتی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ اعزاز ہے کہ وہ گندم امپورٹ نہیں کر رہی ہے بلکہ ایکسپورٹ کر رہی ہے اور اس کے گوداموں میں اب بھی لاکھوں ٹن فاضل گندم پڑی ہوئی ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو فلور ملوں کو ان کے کوٹے کے مطابق گندم کیوں سپلائی نہیں کی گئی؟ اور اگر یہ فلور ملوں کا بہانہ یا جھوٹ تھا تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور انھیں فی کلو 10 سے 15 روپے اضافے کی کھلی چھوٹ کیوں دی گئی؟
آج ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں عوام کی خدمت، عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوؤں سے آسمان سر پر اٹھائے کھڑی ہیں۔ کیا یہ انتہائی دروغ گوئی، دھوکا اور فریب نہیں کہ عوام کے اس ایک تباہ کن مسئلے پر کوئی آواز اٹھاتا دکھائی دیتا ہے نہ کوئی تحریک چلاتا نظر آتا ہے۔ اس سیاست کو دھوکا کہا جائے، جھوٹ کہا جائے، دوغلی سیاست کہا جائے، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی سیاست کہا جائے؟
ایک خاندان جس کے ارکان کی تعداد اوسطاًپانچ سے آٹھ ہوتی ہے اسے روزانہ دو تین کلو آٹے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ چاول خریدنے اور استعمال کرنے کی سکت سے محروم ہوتا ہے اس ایک غذائی آئٹم پر اسے اگر روزانہ 30 سے 40 روپے فی فرد خرچ کرنا پڑے تو 8-7 ہزار ماہانہ کمانے والا خاندان روزانہ 40-30 اور ماہانہ ہزار سے بارہ سو روپے اضافی خرچ کیوں اور کیسے برداشت کرسکتا ہے، کیا اس ظلم کا پیزا، کیک اور برگر کھانے والی ایلیٹ کو احساس ہے؟
میں نے یہاں صرف ایک غذائی آئٹم کی مہنگائی کی طرف توجہ دلائی ہے حالانکہ ضروریات زندگی کی کوئی ایسی چیز نہیں جو بے لگام مہنگائی کی زد میں نہ ہو۔ سبزی، گوشت، دال، چاول، تیل، گھی، چینی سمیت تمام غذائی آئٹمز کی مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے، کچن چلانے والی خواتین سر پکڑے بیٹھی ہیں، روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے لگانے والی حکومت نے عوام کو روٹی کپڑا مکان تو نہ دیا، البتہ روٹی جیسی بنیادی ضرورت کو اس طرح بے لگام، بے جواز مہنگائی کے حوالے کردیا کہ وہ غریب جو تین ٹائم کھاتا تھا۔ اب دو ٹائم پر آگیا ہے اور جو دو ٹائم پر گزارہ کررہا تھا وہ ایک ٹائم پر آگیا ہے اور جو دن بھر میں ایک وقت روٹی کھاتا تھا وہ ناغوں یا فاقوں کی طرف آگیا ہے۔ ہوسکتا ہے ہماری یہ باتیں محض افسانوی لگیں، لیکن ہماری پیزا، برگر، انڈے، مکھن، چکن تکے کھانے والی قیادت اگر غریب بستیوں میں جانے کی زحمت کرے تو ہماری یہ افسانوی باتیں ایسی تلخ حقیقت لگیں گی کہ ان المیوں کا مشاہدہ کرنے والوں کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہے گا بشرطیکہ ان کا ضمیر زندہ ہو۔
آج کل ہر سیاستدان عوام سے دودھ اور شہد کی نہریں جاری کرنے کی بات کر رہا ہے۔ یہ وعدے، یہ دعوے اس لیے بکواس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے کہ یہ معزز صاحبان اپنی نظروں کے سامنے عوام کو لٹتے، منافع خوروں کو کروڑوں اربوں لوٹتے دیکھ رہے ہیں لیکن ان کی زبانوں پر تالے اس لیے پڑے ہیں کہ وہ خود اس لوٹ مار کے براہ راست یا بالواسطہ شراکت دار ہیں۔ عوام فوجی حکومتوں کو بالکل پسند نہیں کرتے لیکن جب وہ فوجی حکومتوں اور جمہوری حکومتوں کی کارکردگی اور گورننس کا موازنہ کرتے ہیں تو جمہوری حکومتوں کوکارکردگی اور گڈ گورننس کے حوالے سے فوجی حکومتوں کے مقابلے میں اس قدر بدتر پاتے ہیں کہ جمہوریت اور سیاست ہی پر سے ان کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
2008 سے پہلے مشرف کے دور میں آٹا 16-17 روپے کلو دستیاب تھا، چینی کی قیمت 25 روپے کلو تھی، دالیں 50-40 روپے کلو تھیں، چاول 30 روپے کلو تھا، تیل گھی 60-55 روپے کلو مل جاتا تھا، روٹی دو روپے میں فروخت ہوتی تھی، دودھ 40 روپے کلو تھا، دہی 45 روپے کلو تھا، گوشت 200 روپے، سبزیاں 15-10 روپے کلو فروخت ہوتی تھیں۔ اب جمہوری دور میں آٹا 40-45 روپے کلو، چینی 50-55 روپے کلو، دالیں 100-130 روپے کلو، چاول 100 سے 140 روپے کلو، تیل گھی 170-160 روپے کلو، روٹی 8 روپے، دودھ 80 روپے، دہی100 روپے گوشت 420 روپے، سبزیاں 80-120 تک فروخت ہورہے ہیں۔ عوام کس دور کو پسند کریں گے؟
ہمارے سیاستدان دیہاڑی دار مزدوروں کے بڑے بڑے جلسے کرکے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ سیاستدانوں کے بڑے سے بڑے جلسوں کی حاضری لاکھ سوا لاکھ سے زیادہ نہیں ہوتی، ان میں بھی مراعات یافتہ کارکن ہاری، مزارع یا دیہاڑی دار مزدور شامل ہوتے ہیں جب کہ اٹھارہ کروڑ کی خاموش اکثریت سیاست سے بیزار نظر آتی ہے۔ لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے پاس چوروں، لٹیروں اور وعدے اور دعوے فروشوں کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں۔
مہنگائی زدہ تمام اشیاء کی تحقیق موجودہ حالات میں ایک دشوار کام ہے لیکن اگر صرف ایک غذائی جنس آٹے کی قیمت میں 10-15 روپے کے شرمناک اضافے کی تحقیق کرائی جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس ملک کے غریب عوام کو کس دیدہ دلیری سے لوٹا جارہا ہے اور اس لوٹ مار میں کون کون شامل ہیں، ہماری نگراں حکومت کا تو واحد ٹاسک ''فیئر اینڈ فری'' الیکشن ہے لہٰذا وہ آٹے جیسے فضول چیز کی بے لگام اور سازشانہ مہنگائی کا نوٹس تو نہیں لے گی۔
لیکن عوام اپنی آزاد اور فعال اعلیٰ عدلیہ خاص طور پر افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان سے بہرحال یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کہ گندم برآمد کرنے اور لاکھوں ٹن کا ذخیرہ رکھنے والی حکومت کی ناک کے نیچے آٹے کی قیمت میں یکایک 10-15 روپے فی کلو کا اضافہ کیوں ہوا، اس کی ذمے داری کس کس پر عائد ہوتی ہے اور اس عوام دشمن گھناؤنی سازش میں کون کون ملوث ہیں؟ سپریم کورٹ میں یہ 18 کروڑ عوام کی پٹیشن ہے جو جعلی ڈگریوں، نوگوایریاز، دودھ دہی سے زیادہ اہم ہے جس کا نوٹس لیا جانا اعلیٰ عدلیہ کی ذمے داری بھی ہے فرض بھی۔
ان مظالم کی فہرست تو بڑی لمبی ہے لیکن ہم ایک ایسے ظلم کی طرف ہمارے نگراں وزیر اعظم اور عدالت عظمیٰ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیںجس کا شکار اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام ہورہے ہیں اور کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا نہیں دکھائی دیتا۔ آٹا اس ملک کے غریب عوام کی غذائی ضرورتوں میں سب سے پہلی ضرورت ہے۔ آٹا کچھ عرصے پہلے تک 30 روپے کلو فروخت ہورہا تھا کہ اچانک فلور ملوں کی طرف سے غلغلہ بلند ہوا کہ انھیں ضرورت کے مطابق گندم فراہم نہیں کی جارہی ہے۔
اس شور شرابے کے ساتھ ہی میڈیا میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ گندم کی قلت کی وجہ سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے لیے جیسے ہی گراؤنڈ پورا ہوا آٹے کی قیمت 30 روپے سے بڑھ کر 45.50 کلو تک پہنچ گئی۔ یہ ہماری عوامی حکومت کا جاتے جاتے ایک ایسا کارنامہ تھا جس کا عوام براہ راست شکار ہوگئے۔ اس سازش میں کتنوں نے اپنے ہاتھ رنگ لیے اس کا حساب کون لے گا؟
آٹے کی قیمت میں اس ظالمانہ اضافے کے خلاف کسی عوام دوست سیاستدان اور مذہبی رہنما نے کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹے کی قیمتوں میں بلا جواز اضافے کی یہ سازش کامیاب ہوگئی اور سارے ملک میں 30 روپے کلو فروخت ہونے والا آٹا اب 40-45 روپے کلو فروخت ہورہا ہے اور عوام کے غم میں ہلکان ہونے والی قیادتوں کے بے حس کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ میڈیا میں آٹے کی قلت، آٹے کی مہنگائی کے حوالے سے خبریں آتی رہیں، لیکن سیاست سمیت ملک کے عوام کو انصاف فراہم کرنے کے دعویدار تمام ادارے بے حس و حرکت رہے۔
کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے اس کھلے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی نہ تحریک چلائی، نہ کوئی اتحاد بنایا۔ 1 کلو آٹے کی قیمت میں 10 سے 15 روپے کا اضافہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ یہ اربوں روپوں کی ایسی کرپشن ہے جس میں حکومت، وزارت خوراک، فلورملز سب شامل ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں کسی چیز کی قیمت میں ایک پینی کا بھی اضافہ کرنا ہوتا ہے تو پرائس کنٹرول کے اداروں کو اس کا جواز فراہم کرنا پڑتا ہے اگر جواز معقول ہو تو پرائس کمیشن قیمت میں اضافے کی اجازت دیتا ہے اگر جواز ناقابل قبول ہو تو کسی کی مجال نہیں کہ قیمت میں ایک پینی یا پائی کا اضافہ کرے۔
اپنی پانچ سالہ مدت کامیابی سے مکمل کرنے والی حکومت کے حاکمان اپنی پانچ سالہ کارکردگی بتاتے وقت سب سے بڑی کارکردگی یہ بتاتے رہے ہیں اور الیکشن کمیشن میں بھی بتا رہے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کے دوران گندم باہر سے منگوانا پڑتی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ اعزاز ہے کہ وہ گندم امپورٹ نہیں کر رہی ہے بلکہ ایکسپورٹ کر رہی ہے اور اس کے گوداموں میں اب بھی لاکھوں ٹن فاضل گندم پڑی ہوئی ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو فلور ملوں کو ان کے کوٹے کے مطابق گندم کیوں سپلائی نہیں کی گئی؟ اور اگر یہ فلور ملوں کا بہانہ یا جھوٹ تھا تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور انھیں فی کلو 10 سے 15 روپے اضافے کی کھلی چھوٹ کیوں دی گئی؟
آج ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں عوام کی خدمت، عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوؤں سے آسمان سر پر اٹھائے کھڑی ہیں۔ کیا یہ انتہائی دروغ گوئی، دھوکا اور فریب نہیں کہ عوام کے اس ایک تباہ کن مسئلے پر کوئی آواز اٹھاتا دکھائی دیتا ہے نہ کوئی تحریک چلاتا نظر آتا ہے۔ اس سیاست کو دھوکا کہا جائے، جھوٹ کہا جائے، دوغلی سیاست کہا جائے، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی سیاست کہا جائے؟
ایک خاندان جس کے ارکان کی تعداد اوسطاًپانچ سے آٹھ ہوتی ہے اسے روزانہ دو تین کلو آٹے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ چاول خریدنے اور استعمال کرنے کی سکت سے محروم ہوتا ہے اس ایک غذائی آئٹم پر اسے اگر روزانہ 30 سے 40 روپے فی فرد خرچ کرنا پڑے تو 8-7 ہزار ماہانہ کمانے والا خاندان روزانہ 40-30 اور ماہانہ ہزار سے بارہ سو روپے اضافی خرچ کیوں اور کیسے برداشت کرسکتا ہے، کیا اس ظلم کا پیزا، کیک اور برگر کھانے والی ایلیٹ کو احساس ہے؟
میں نے یہاں صرف ایک غذائی آئٹم کی مہنگائی کی طرف توجہ دلائی ہے حالانکہ ضروریات زندگی کی کوئی ایسی چیز نہیں جو بے لگام مہنگائی کی زد میں نہ ہو۔ سبزی، گوشت، دال، چاول، تیل، گھی، چینی سمیت تمام غذائی آئٹمز کی مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے، کچن چلانے والی خواتین سر پکڑے بیٹھی ہیں، روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعرے لگانے والی حکومت نے عوام کو روٹی کپڑا مکان تو نہ دیا، البتہ روٹی جیسی بنیادی ضرورت کو اس طرح بے لگام، بے جواز مہنگائی کے حوالے کردیا کہ وہ غریب جو تین ٹائم کھاتا تھا۔ اب دو ٹائم پر آگیا ہے اور جو دو ٹائم پر گزارہ کررہا تھا وہ ایک ٹائم پر آگیا ہے اور جو دن بھر میں ایک وقت روٹی کھاتا تھا وہ ناغوں یا فاقوں کی طرف آگیا ہے۔ ہوسکتا ہے ہماری یہ باتیں محض افسانوی لگیں، لیکن ہماری پیزا، برگر، انڈے، مکھن، چکن تکے کھانے والی قیادت اگر غریب بستیوں میں جانے کی زحمت کرے تو ہماری یہ افسانوی باتیں ایسی تلخ حقیقت لگیں گی کہ ان المیوں کا مشاہدہ کرنے والوں کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہے گا بشرطیکہ ان کا ضمیر زندہ ہو۔
آج کل ہر سیاستدان عوام سے دودھ اور شہد کی نہریں جاری کرنے کی بات کر رہا ہے۔ یہ وعدے، یہ دعوے اس لیے بکواس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے کہ یہ معزز صاحبان اپنی نظروں کے سامنے عوام کو لٹتے، منافع خوروں کو کروڑوں اربوں لوٹتے دیکھ رہے ہیں لیکن ان کی زبانوں پر تالے اس لیے پڑے ہیں کہ وہ خود اس لوٹ مار کے براہ راست یا بالواسطہ شراکت دار ہیں۔ عوام فوجی حکومتوں کو بالکل پسند نہیں کرتے لیکن جب وہ فوجی حکومتوں اور جمہوری حکومتوں کی کارکردگی اور گورننس کا موازنہ کرتے ہیں تو جمہوری حکومتوں کوکارکردگی اور گڈ گورننس کے حوالے سے فوجی حکومتوں کے مقابلے میں اس قدر بدتر پاتے ہیں کہ جمہوریت اور سیاست ہی پر سے ان کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
2008 سے پہلے مشرف کے دور میں آٹا 16-17 روپے کلو دستیاب تھا، چینی کی قیمت 25 روپے کلو تھی، دالیں 50-40 روپے کلو تھیں، چاول 30 روپے کلو تھا، تیل گھی 60-55 روپے کلو مل جاتا تھا، روٹی دو روپے میں فروخت ہوتی تھی، دودھ 40 روپے کلو تھا، دہی 45 روپے کلو تھا، گوشت 200 روپے، سبزیاں 15-10 روپے کلو فروخت ہوتی تھیں۔ اب جمہوری دور میں آٹا 40-45 روپے کلو، چینی 50-55 روپے کلو، دالیں 100-130 روپے کلو، چاول 100 سے 140 روپے کلو، تیل گھی 170-160 روپے کلو، روٹی 8 روپے، دودھ 80 روپے، دہی100 روپے گوشت 420 روپے، سبزیاں 80-120 تک فروخت ہورہے ہیں۔ عوام کس دور کو پسند کریں گے؟
ہمارے سیاستدان دیہاڑی دار مزدوروں کے بڑے بڑے جلسے کرکے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ سیاستدانوں کے بڑے سے بڑے جلسوں کی حاضری لاکھ سوا لاکھ سے زیادہ نہیں ہوتی، ان میں بھی مراعات یافتہ کارکن ہاری، مزارع یا دیہاڑی دار مزدور شامل ہوتے ہیں جب کہ اٹھارہ کروڑ کی خاموش اکثریت سیاست سے بیزار نظر آتی ہے۔ لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے پاس چوروں، لٹیروں اور وعدے اور دعوے فروشوں کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں۔
مہنگائی زدہ تمام اشیاء کی تحقیق موجودہ حالات میں ایک دشوار کام ہے لیکن اگر صرف ایک غذائی جنس آٹے کی قیمت میں 10-15 روپے کے شرمناک اضافے کی تحقیق کرائی جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس ملک کے غریب عوام کو کس دیدہ دلیری سے لوٹا جارہا ہے اور اس لوٹ مار میں کون کون شامل ہیں، ہماری نگراں حکومت کا تو واحد ٹاسک ''فیئر اینڈ فری'' الیکشن ہے لہٰذا وہ آٹے جیسے فضول چیز کی بے لگام اور سازشانہ مہنگائی کا نوٹس تو نہیں لے گی۔
لیکن عوام اپنی آزاد اور فعال اعلیٰ عدلیہ خاص طور پر افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان سے بہرحال یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کہ گندم برآمد کرنے اور لاکھوں ٹن کا ذخیرہ رکھنے والی حکومت کی ناک کے نیچے آٹے کی قیمت میں یکایک 10-15 روپے فی کلو کا اضافہ کیوں ہوا، اس کی ذمے داری کس کس پر عائد ہوتی ہے اور اس عوام دشمن گھناؤنی سازش میں کون کون ملوث ہیں؟ سپریم کورٹ میں یہ 18 کروڑ عوام کی پٹیشن ہے جو جعلی ڈگریوں، نوگوایریاز، دودھ دہی سے زیادہ اہم ہے جس کا نوٹس لیا جانا اعلیٰ عدلیہ کی ذمے داری بھی ہے فرض بھی۔