ایران اسرائیل کو نابود کردے گا
ماہرین سیاسیات کہتے ہیں کہ خطے میں اور بالخصوص دنیا میں بہت جلد طاقت کا توازن اور طاقت کا مرکز تبدیل ہونے والا ہے۔۔۔
دور حاضر میں بدلتے ہوئے حالات اور بالخصوص ایران پر لگائی جانے والے استعماری پابندیوں اور سختیوں کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے اور بلکہ دنیا میں طاقت کے توازن کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس بات کا انکشاف حال ہی میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی ایک تقریر کے بعد ہوا ہے۔
حال ہی میں ایران پر امریکا اور مغرب کی پابندیوں میں مزید سختیوں کے بعد پیدا ہونے والے معاشی بحران اور مسائل کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ایران اپنے دشمنوں کے ساتھ تصادم کے راستے کو ترک کر دے گا۔ البتہ دوسری طرف امریکی صدر باراک اوبامہ کا مقبوضہ فلسطین کا دورہ اور اس دورے کے دوران اس بات کا منظر عام پر آناکہ امریکا اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑے گا،اس موقع پر ایران نے بھی درست فیصلہ کرتے ہوئے اپنے عزم کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایران اسرائیل کو نابود کر دے گا اور ایران اس کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس بات سے آگاہ ہے کہ امریکا جو کہ ازل سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا حامی اور سرپرست رہا ہے وہ کسی صورت اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور ایران کو توقع ہے کہ اسرائیل ایران پر جارحیت کرنے کی سنگین غلطی اسی سال کر گزرے گا جس کے بعد کے نتائج خود امریکا اور اسرائیل کے لیے ناقابل برداشت ہو سکتے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا تہران میں خطاب کے دوران اعلان کرنا کہ اگر تل ابیب نے تہران کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تو تہران ،تل ابیب کو نیست و نابود کر دے گا ۔یہ جملہ فقط نفسیاتی جنگ میں ایک جواب کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے عالمی استعماری قوتوں کو انتباہ ہے اور ایران کی حقیقی تیاری کا واضح ثبوت بھی ہے۔
ماہرین سیاسیات کہتے ہیں کہ خطے میں اور بالخصوص دنیا میں بہت جلد طاقت کا توازن اور طاقت کا مرکز تبدیل ہونے والا ہے جس کا مرکز و محور اسرائیل کی نابودی سے جڑا ہواہے۔ایسے حالات میں امریکا اور اسرائیل کو چاہئیے کہ اپنے فوجی تصادم اور اختلافات کو جلد از جلد حل کریں تا کہ اسرائیل کو کسی بھی قسم کی جارحیت سے روکا جائے ورنہ ایران پر اسرائیلی جارحیت خود امریکا اور اس کے اتحادیوں سمیت اسرائیل کے لیے بھی خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکا کے ساتھ ایران کے تعلقات اور گفتو شنید کے موضوع پر بات کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ گفت و شنید کے کچھ اصول ہوتے ہیں اگر امریکا ان اصولوں کی پاسداری نہیں کر سکتا ہے تو پھر اس کے ساتھ گفتگو کیسی اور اس گفتگو سے حاصل ہونے والے نتیجہ پر عمل کی کیا ضمانت ہو گی؟ امریکا اگر ایران کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنے قول اور فعل میں ایک جیسا ہے۔لہذٰا موجودہ صورتحال میں ایران امریکا کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گا۔ایران نیوکلئیر انرجی کے حصول سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور اس راہ میں ایران پر لگنے والی امریکی پابندیاںدر اصل ایران اور ایرانی قوم کے اندر جذبہ پیدا کرنے کا باعث ہیں تاکہ ترقی اور استحکام اور کامیابی حاصل کی جائے لیکن ایران کسی صورت اپنے دشمنوں کے ساتھ مذاکرات اور اپنے حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
دوسری جانب امریکا کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ امریکا کی ایران پر پابندیاں اور سختیاں ایران کی کامیابیوں کے راستوں میں رکاوٹ بننے میں ناکام ہو گئی ہیں اور ان پابندیوں اور سختیوں کے باعث امریکا خود ایک ایسی جنگ میں وارد ہو چکا ہے جس کا انجام امریکا کے لیے بہت بھیانک ثابت ہوگا۔
شام میں بحرانی کیفیت کے حوالے سے آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں ذکر نہیں کیا ۔ایرانی ذرایع کاکہنا ہے کہ ایران میں نئے انتخابات کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔جب کہ ایران جانتا ہے کہ امریکا کی جانب سے شام کے مسئلہ پر مذاکرات کی پیش کش کرنا در اصل مضحکہ خیز ہے اور اس میں کسی قسم کی سنجیدگی بھی نہیں ہے۔کیونکہ امریکی ایجنڈا ہے کہ شام میں نیوکلئیر ہتھیار کا بھرپور استعمال کیا جائے جس کے لیے انھوںنے حکومت مخالف دہشت گردوں کو کیمیائی ہتھیار فراہم بھی کیے ہیں اور امریکا چاہتا ہے کہ شام میں باغیوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں میں اقتدار سونپ دیا جائے۔
بہر حال ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی اس تقریر میں کہ جو انھوںنے تہران مین صدارتی انتخابات سے قبل کی ہے ایک واضح اور بڑا پیغام نظر آتا ہے۔اس پیغام کے دو حصے ہیں ایک تو یہ ہے کہ ایرانی عوام ایران کے لیے نئے صدر کا انتخاب ووٹ کے ذریعے کرے گی اور اس راستے میں کسی قسم کی بیرونی اور اندرنی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔دوسرا اہم پیغام یہ کہ ایران دنیا کی کسی طاقت کے سامنے سر نگوں نہیں ہو گا اور اگر کسی نے جارحیت کرنے کی کوشش کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا جس میں ایران،اسرائیل کو تباہ کرنے سمیت کسی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔
حال ہی میں ایران پر امریکا اور مغرب کی پابندیوں میں مزید سختیوں کے بعد پیدا ہونے والے معاشی بحران اور مسائل کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ایران اپنے دشمنوں کے ساتھ تصادم کے راستے کو ترک کر دے گا۔ البتہ دوسری طرف امریکی صدر باراک اوبامہ کا مقبوضہ فلسطین کا دورہ اور اس دورے کے دوران اس بات کا منظر عام پر آناکہ امریکا اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑے گا،اس موقع پر ایران نے بھی درست فیصلہ کرتے ہوئے اپنے عزم کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایران اسرائیل کو نابود کر دے گا اور ایران اس کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس بات سے آگاہ ہے کہ امریکا جو کہ ازل سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا حامی اور سرپرست رہا ہے وہ کسی صورت اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور ایران کو توقع ہے کہ اسرائیل ایران پر جارحیت کرنے کی سنگین غلطی اسی سال کر گزرے گا جس کے بعد کے نتائج خود امریکا اور اسرائیل کے لیے ناقابل برداشت ہو سکتے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا تہران میں خطاب کے دوران اعلان کرنا کہ اگر تل ابیب نے تہران کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تو تہران ،تل ابیب کو نیست و نابود کر دے گا ۔یہ جملہ فقط نفسیاتی جنگ میں ایک جواب کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے عالمی استعماری قوتوں کو انتباہ ہے اور ایران کی حقیقی تیاری کا واضح ثبوت بھی ہے۔
ماہرین سیاسیات کہتے ہیں کہ خطے میں اور بالخصوص دنیا میں بہت جلد طاقت کا توازن اور طاقت کا مرکز تبدیل ہونے والا ہے جس کا مرکز و محور اسرائیل کی نابودی سے جڑا ہواہے۔ایسے حالات میں امریکا اور اسرائیل کو چاہئیے کہ اپنے فوجی تصادم اور اختلافات کو جلد از جلد حل کریں تا کہ اسرائیل کو کسی بھی قسم کی جارحیت سے روکا جائے ورنہ ایران پر اسرائیلی جارحیت خود امریکا اور اس کے اتحادیوں سمیت اسرائیل کے لیے بھی خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکا کے ساتھ ایران کے تعلقات اور گفتو شنید کے موضوع پر بات کرتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ گفت و شنید کے کچھ اصول ہوتے ہیں اگر امریکا ان اصولوں کی پاسداری نہیں کر سکتا ہے تو پھر اس کے ساتھ گفتگو کیسی اور اس گفتگو سے حاصل ہونے والے نتیجہ پر عمل کی کیا ضمانت ہو گی؟ امریکا اگر ایران کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنے قول اور فعل میں ایک جیسا ہے۔لہذٰا موجودہ صورتحال میں ایران امریکا کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گا۔ایران نیوکلئیر انرجی کے حصول سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور اس راہ میں ایران پر لگنے والی امریکی پابندیاںدر اصل ایران اور ایرانی قوم کے اندر جذبہ پیدا کرنے کا باعث ہیں تاکہ ترقی اور استحکام اور کامیابی حاصل کی جائے لیکن ایران کسی صورت اپنے دشمنوں کے ساتھ مذاکرات اور اپنے حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
دوسری جانب امریکا کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ امریکا کی ایران پر پابندیاں اور سختیاں ایران کی کامیابیوں کے راستوں میں رکاوٹ بننے میں ناکام ہو گئی ہیں اور ان پابندیوں اور سختیوں کے باعث امریکا خود ایک ایسی جنگ میں وارد ہو چکا ہے جس کا انجام امریکا کے لیے بہت بھیانک ثابت ہوگا۔
شام میں بحرانی کیفیت کے حوالے سے آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں ذکر نہیں کیا ۔ایرانی ذرایع کاکہنا ہے کہ ایران میں نئے انتخابات کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔جب کہ ایران جانتا ہے کہ امریکا کی جانب سے شام کے مسئلہ پر مذاکرات کی پیش کش کرنا در اصل مضحکہ خیز ہے اور اس میں کسی قسم کی سنجیدگی بھی نہیں ہے۔کیونکہ امریکی ایجنڈا ہے کہ شام میں نیوکلئیر ہتھیار کا بھرپور استعمال کیا جائے جس کے لیے انھوںنے حکومت مخالف دہشت گردوں کو کیمیائی ہتھیار فراہم بھی کیے ہیں اور امریکا چاہتا ہے کہ شام میں باغیوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں میں اقتدار سونپ دیا جائے۔
بہر حال ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی اس تقریر میں کہ جو انھوںنے تہران مین صدارتی انتخابات سے قبل کی ہے ایک واضح اور بڑا پیغام نظر آتا ہے۔اس پیغام کے دو حصے ہیں ایک تو یہ ہے کہ ایرانی عوام ایران کے لیے نئے صدر کا انتخاب ووٹ کے ذریعے کرے گی اور اس راستے میں کسی قسم کی بیرونی اور اندرنی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔دوسرا اہم پیغام یہ کہ ایران دنیا کی کسی طاقت کے سامنے سر نگوں نہیں ہو گا اور اگر کسی نے جارحیت کرنے کی کوشش کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا جس میں ایران،اسرائیل کو تباہ کرنے سمیت کسی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔