ایک نشست مسعود احمد برکاتی کی یاد میں

بھروسے کا یہ عالم تھا کہ برکاتی صاحب حکیم صاحب سے کہتے کہ نونہال کی اشاعت ایک لاکھ بیس ہزار تک جا پہنچی ہے۔

MUNICH:
ان کی عمر عزیز ابھی فقط چھ برس ہی تھی کہ والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ روایتی انداز میں تعزیت کے لیے آنے والے کسی بزرگ نے کہا کہ اب تو گھر کا سارا بوجھ ان معصوم بچوں پر آ پڑا ہے۔ بزرگ کا اشارہ اس چھ برس کے بچے اور اس کے دیگر بھائیوں کی جانب تھا۔

یہ سنتے ہی اس چھ برس کے بچے نے اپنے ہاتھ میں تھامے اس کھلونے کو دور پھینکا جس کھلونے سے وہ کھیل رہا تھا، گویا اپنے اس عمل سے اس بچے نے یہ اظہار کردیا تھا کہ اب کھیل کود نہیں ہوگا بلکہ زمانے کو کچھ بن کے دکھانا ہے۔ چنانچہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اس بچے نے حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، اسکول سے بھی گھر پر بھی یہ اس بچے کی قابلیت ہی تھی، فقط 14 برس کی عمر میں وہ صحافت سے وابستہ ہوگیا اور 16 برس کی عمر میں مضمون نگاری کا آغاز کردیا ۔

جی ہاں ، میں تذکرہ کر رہا ہوں نامور ترین بچوں کے ادیب محترم مسعود احمد برکاتی کا جنھوں نے 1933 میں راجستھان کے شہر ٹونک میں جنم لیا۔ مسعود احمد نے جس گھرانے میں جنم لیا وہ گھرانہ علم و ادب سے خاص لگاؤ رکھتا تھا اور حکمت جیسے مقدس پیشے سے وابستہ تھا۔ برکاتی صاحب کے دادا جی اپنے علاقے میں نامور ترین حکیم تسلیم کیے جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت وہ 14 برس کے تھے انھوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہا اور پاکستان اپنے ایک بھائی کی ہمراہی میں تشریف لے آئے۔

حالانکہ ان کی والدہ محترمہ ایک بڑے بھائی و ایک بڑی بہن نے ہندوستان میں ہی قیام پذیر ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ 1952 میں برکاتی صاحب کی ملاقات حکیم محمد سعید سے ہوئی یوں برکاتی صاحب حکیم سعید کے ادارے ہمدرد فاؤنڈیشن سے منسلک ہوگئے۔ حکیم محمد سعید نے برکاتی صاحب کو اپنے جاری کردہ بچوں کے رسالے ''نونہال'' کا چیف ایڈیٹر مقررکردیا۔ برکاتی صاحب حکیم سعید کے بااعتماد ساتھیوں میں سے تھے ۔ برکاتی صاحب ، حکیم صاحب کی شہادت کے بعد بھی ان کے ادارے سے وابستہ رہے۔ جہاں تک برکاتی صاحب کی صحت نے ساتھ دیا۔

برکاتی صاحب 70 برس صحافت و 66 برس تک نونہال کے مدیر اعلیٰ رہے۔ برکاتی صاحب قائد اعظم کے اس قول پر یقین رکھتے تھے کہ کام کام اور کام۔ اس قدر مصروفیات کی بابت جب برکاتی صاحب سے کہا جاتا تو برکاتی صاحب جواب میں فرماتے کہ کام کرنے سے مجھے توانائی حاصل ہوتی ہے۔ برکاتی صاحب 3 نومبر 2017 کو علالت کا شکار ہوئے اور 10 دسمبر 2017 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔

70 برس تک سات نسلوں کی تعلیمی و اخلاقی تربیت کرنے والے برکاتی صاحب کی یاد میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس تعزیتی نشست کا اہتمام علی حسن ساجد نے اپنے قائم کردہ ادارے چلڈرن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کیا تھا جب کہ دیگر امور میں یونیورسٹی آف کراچی و گریجویٹس فورم کینیڈا کراچی چیپٹر ان کے ساتھ شریک تھے۔ برکاتی صاحب کی یاد میں منعقدہ نشست کا عنوان تھا ہم نا بھولے تجھے۔ اس نشست کی نظامت کے فرائض سیدہ ناز نے ادا کیے پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک و نعت رسولؐ مقبول سے ہوا۔


یہ سعادت قاری حامد محمود قاری کو حاصل ہوئی ۔ علی حسن ساجد نے اپنے مخصوص انداز میں مسعود احمد برکاتی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم مردہ پرست ہوچکے ہیں جوکہ کسی کی زیست میں تو اس کی قدر نہیں کرتے مگر وفات کے بعد دفن پورے اعزاز کے ساتھ کرتے ہیں۔ برکاتی صاحب کی شخصیت پر مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برکاتی صاحب اگر محترم حکیم سعید سے ناراض ہوکر آجاتے تو شام تک حکیم صاحب کا فون آتا کہ برکاتی صاحب! آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ البتہ ہمارا ساتھ میرے یا آپ کے مرنے پر ہی ختم ہوگا۔

بھروسے کا یہ عالم تھا کہ برکاتی صاحب حکیم صاحب سے کہتے کہ نونہال کی اشاعت ایک لاکھ بیس ہزار تک جا پہنچی ہے چنانچہ نونہال پر اس قدر اخراجات ناقابل برداشت ہیں۔ بہتر ہوگا کہ نونہال رسالے کی اشاعت بند کردی جائے۔ جواب میں حکیم صاحب نے فرمایا اخراجات کی فکر مت کرو نونہال رسالے کی اشاعت بند نہیں کی جائے گی۔ برکاتی صاحب کی خود داری کا یہ عالم تھا بقول علی حسن ساجد 2005 میں میری ذاتی کوششوں سے گورنر سندھ نے پانچ ادبی شخصیات کے لیے ایک ایک لاکھ روپے کی رقم منظور کی۔ البتہ برکاتی صاحب ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم وصول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔

بمشکل برکاتی صاحب یہ رقم لینے پر راضی ہوئے۔ جب کہ دوسرے مقرر جدون ادیب تھے جن کا کہنا تھا کہ میرا برکاتی صاحب سے 10 برس ساتھ رہا وہ مہمان نواز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت دوسروں کی مدد کو تیار رہتے۔ وہ تکلف کا خاص خیال رکھتے، وہ انتہائی انکساری سے کام لیتے اور اپنے ماتحت کام کرنے والوں سے شفقت سے پیش آتے۔ جدون ادیب نے مزید فرمایا کہ برکاتی صاحب نے صحافتی میدان میں میری خاص تربیت کی، میں نونہال سے 2008 میں منسلک ہوا اور 10 برس ان کے ساتھ کام کیا۔ حساس دل برکاتی صاحب جب کراچی کے حالات خراب ہوتے تو خاصے پریشان ہوتے۔

تیسرے مقرر برکاتی صاحب کے بھتیجے حکیم مختار تھے جنھوں نے بڑی تفصیل سے اپنے عم محترم کی شخصیت پر روشنی ڈالی جب کہ برکاتی صاحب کی اہلیہ محترمہ نے عدت میں ہونے کے باعث شرکت نہ کی البتہ پروگرام کے شرکا کا شکریہ ایک تحریر کی وساطت سے ادا کیا۔ زاہدہ برکاتی نے کہا کہ دھیمے لہجے میں بات کرتے ان کا حافظہ غضب کا تھا۔ چوتھے مقرر سلیم مغل صاحب تھے جنھوں نے برکاتی صاحب کے ساتھ اپنے گزرے وقت کے حوالے سے دلچسپ گفتگو کی۔ سلیم مغل صاحب نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ جب برکاتی صاحب کو سپردخاک کیا جا رہا تھا تو اس وقت قبرستان میں فقط 15 لوگ موجود تھے۔

آخری مقرر نامور ادیب و صحافی محمود شام صاحب تھے۔ جنھوں نے برکاتی صاحب کو خوب خراج عقیدت پیش کیا اور تجویز پیش کی کہ کراچی کی کسی شاہراہ کو برکاتی صاحب سے منسوب کیا جائے۔ اس موقعے پر علی حسن ساجد نے وعدہ کیا کہ کراچی شہر کی کسی بے نام شاہراہ کی آپ لوگ نشاندہی کریں وہ شاہراہ برکاتی صاحب سے منسوب کردی جائے گی کیونکہ موجودہ میئر کراچی سے خصوصی مراسم کے باعث وہ ایسا کرسکتے ہیں۔

آخر میں تمام حاضرین کے لیے پرتکلف ضیافت کا اہتمام تھا جس کے بعد ہم اپنے ساتھ تشریف لے جانے والے ایس ایم الطاف، ظفر اسلم، عتیق احمد سمیت جدون ادیب صاحب سے اجازت لی کہ ان کی دعوت پر ہم اس پروگرام میں مدعو تھے۔ آخر میں اتنا عرض کریں گے ہم نا بھولے تجھے برکاتی صاحب۔
Load Next Story