بالاتری اور ذمے داری

پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی بالاتری کے ذمے داروں کی غیر ذمے داری مسلسل بڑھ رہی ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے پارلیمنٹ کی بالاتری، ووٹ کے احترام کرنے کی باتیں بہت شدت کے ساتھ کی جا رہی ہیں جن کا واضح مقصد یہی ہے کہ عوام کا فیصلہ ہی سب سے بالاتر ہے اور عوام کے منتخب کیے گئے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کے سوا کوئی اور ادارہ نہ ہٹائے تو ہی ملک کی پارلیمنٹ کی بالاتری تسلیم اور احترام ہوگا۔

پارلیمنٹ کی حالت یہ ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید احمد جیسے ان کے حواری کھلے عام پارلیمنٹ پر نہ صرف لعنتیں بھیج رہے ہیں اور عمران خان پارلیمنٹ کے لیے لعنت کو معمولی قرار دیتے ہیں بلکہ مزید سخت الفاظ شاید غلیظ گالیوں کو موزوں سمجھتے ہیں۔ پی ٹی آئی اور شیخ رشید کے علاوہ کوئی اور سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما اس طرح پارلیمنٹ پر شدید تنقید کرنے کا حامی نہیں بلکہ سخت خلاف ہیں۔

موجودہ پارلیمنٹ کی پوزیشن یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادیوں کی اکثریت ہے جب کہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا چیئرمین اور جے یو آئی کا ڈپٹی چیئرمین برسر اقتدار ہے اور سینیٹ میں حکومت کی اپوزیشن اکثریت میں اور ایک دوسرے سے باہم تصادم ہیں جس کا ثبوت نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ واضح طور پر دے چکا ہے۔

متحدہ کے صرف ایک ووٹ سے حکومت اپنے اس مقصد کو حال کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور اس فیصلے کی مخالفت میں سینیٹ نے جو قرارداد دوبارہ منظور کی تھی اس کی قومی اسمبلی میں بھرپور مخالفت ہوئی۔ حکومتی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئی اور نااہل وزیراعظم کو پارٹی صدر بنانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا ۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کو پارلیمنٹ کہا جاتا ہے مگر دونوں کا طریقہ انتخاب مختلف ہے اور مدت بھی الگ الگ ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام 5 سال کے لیے منتخب کرتے ہیں اور ارکان قومی اسمبلی جس کو وزیر اعظم منتخب کرتے ہیں وہ بائیس کروڑ عوام کا نمائندہ تو قرار پاتا ہے مگر اس کی مدت کی تکمیل کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کب قومی اسمبلی ٹوٹ جائے یا کسی ادارے کے ذریعے ہٹ جائے اور جمہوریت میں دوسرا وزیر اعظم منتخب کرلیا جائے۔ واضح رہے کہ ملک میں اب تک کسی ایک وزیر اعظم نے بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔


قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد صوبوں کی آبادی کے حساب سے ہے اور سینیٹ میں تمام صوبوں کے یکساں سینیٹرز ہیں جن کی مدت انتخاب 6 سال ہے جو ہر تین سال بعد صوبوں سے ارکان صوبائی اسمبلی اور اسلام آباد اور فاٹا سے قومی اسمبلی کے ذریعے منتخب کہنے کی حد تک تو ہوتے ہیں مگر ارکان صوبائی اسمبلی کے ووٹ خرید کر سرمایہ دار ارکان سینیٹ منتخب کرا لیے جاتے ہیں اور پارٹی امیدوار ہار جاتے ہیں۔

پارلیمنٹ کے دونوں اداروں کو کبھی عدلیہ سے نقصان نہیں پہنچا اور غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت یا نام نہاد جمہوریت پسندوں کی خود اپنی حرکتوں سے پارلیمنٹ اپنی مدت پوری نہیں کر پاتی اور ملک میں 5 سالہ مدت سے قبل بھی کئی بار انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے اور ووٹ خرید کر ارکان پارلیمنٹ منتخب ہونے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے اور یہ رقم بعد میں منتخب ہونے والے کرپشن اور مختلف طریقوں سے پوری کرلیتے ہیں کیونکہ اس طرح عوام کی خدمت بالکل نہیں کی جاتی بلکہ منتخب ہونے کے لیے مال خرچ کرکے مال کمایا جاتا ہے اور ارکان پارلیمنٹ اپنے ووٹروں کی بجائے ذاتی مفادات کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے دونوں اداروں کے لیے منتخب ہوکر خود ہی انھیں بھول جاتے ہیں جس کی وجہ سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں میں غیر حاضری معمول بن چکی ہے۔

ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے مفاد یا حاضری لگا کر تنخواہیں وصول کرنے ہی ایوان میں شکل دکھاتے ہیں اور ہر ایوان میں کورم پورا نہ ہونے پر گھنٹیاں مسلسل بجتی رہتی ہیں اور کورم نہ ہونے پر اجلاس ملتوی ہوجاتے ہیں جس کے ذمے دار حکومتی اور اپوزیشن ارکان ہوتے ہیں۔ حکومت اپنے مطلب کے ارکان کو بلا کر فیصلے ضرور کرا لیتی ہے۔

پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی بالاتری کے ذمے داروں کی غیر ذمے داری مسلسل بڑھ رہی ہے اور حکومت اپنی مرضی کے فیصلوں کے لیے ہی پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کو اہمیت دیتی ہے۔ ارکان اسمبلی تو کیا ہر جگہ موجود وزیروں کی فوج اور وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ اکثر ایوانوں میں آنا پسند نہیں کرتے اور مشکل اور مطلب پر ہی انھیں ایوان یاد آتے ہیں۔ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہو یا پیپلز پارٹی کی ان دونوں ہی نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی نہ ضروری قانون سازی کی۔

آئین میں ڈپٹی وزیر اعظم کا کوئی ذکر ہے نہ ارکان پارلیمنٹ کی عدالتی نااہلی کی مدت کا تصور ، حالانکہ یہ ذمے داری پارلیمنٹ کی ہے کسی اور کی نہیں۔ حکومتی من مانیاں کورٹوں میں چیلنج ہونے کی ذمے دار عدلیہ نہیں خود حکومتیں ہیں۔ غیر قانونی تقرر کرکے اپنوں کو حکومتیں نواز رہی ہیں جو غلط ثابت ہونے پر نقصان قومی خزانے کو ہو رہا ہے۔ 1973 کے آئین میں بہت زیادہ ابہام ہے۔ آئینی وضاحتوں کی ازحد ضرورت ہے۔ قائم مقام صدر کا ذکر ہے قائم مقام وزیر اعظم کا نہیں۔

اپنی مرضی سے کبھی کسی کو ڈپٹی وزیر اعظم بنادیا جاتا ہے کبھی قریبی عزیز وزیر اعظم کے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ حکومتوں کو پارلیمنٹ کی بالاتری سے زیادہ ذاتی مفادات عزیز ہیں۔ ارکان اسمبلی اپنی ذمے داریاں نبھانے کی بجائے مال کمانے اور ذاتی مفادات کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومتیں ہوں یا اسمبلی ارکان خاص کر اپوزیشن سب ہی غیر ذمے داریوں کے مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں۔ کسی کو بھی اپنے ایوانوں سے نہیں مفادات سے دلچسپی ہے۔
Load Next Story