خاتون کے اغوا کے جھوٹے مقدمے میں کمسن لڑکا گرفتار کرلیا
نومبرمیں نور جہاں اغوا ہوئی شوہر نے 20 فروری کو اغوا کا مقدمہ درج کرایا، اتنے دن شوہر خاموش کیوں رہا، عدالت کا استفسار
تھانہ ڈاکس پولیس نے45 سالہ خاتون کو اغوا کرنے کے الزام میں 15 سالہ لڑکے عثمان کو گرفتار کرلیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت میں تھانہ ڈاکس پولیس نے45 سالہ خاتون کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار 15 سالہ لڑکے عثمان کو ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے پیش کیا اس موقع پر عدالت میں موجود وکیل اور سائلین حیران رہ گئے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم نے نومبر میں مغویہ نورجہاں کو اغوا کیا تھا اس کے شوہر نور محمد نے 20 فروری کو اپنی بیوی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی تھی، عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اتنے دنوں شوہر خاموش کیوں رہا۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ ملزم عثمان 15 سال کا ہے وہ 45 سالہ خاتون کو کیسے اغوا کر سکتا ہے خاتون نے ہی میرے موکل کو اغوا کیا، معاملہ کچھ اور ہے اصل حقائق سے پردہ پوشی کی جارہی ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ کس نے کس کو اغوا کیا معاملہ خاتون کے بیان پر منحصر ہے مغویہ کے بیان کے بعد حقائق کو دیکھا جاسکتا ہے عدالت نے مغویہ کو فوری پیش کرنے کا حکم دیا۔
عدالت کے حکم پر مغویہ نور جہاں کو عدالت میں پیش کیا گیا مغویہ کو دیکھتے ہی عدالت نے تفتیشی افسر پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ بچے کی دادی کی عمر کی خاتون ہے بچہ اسے کیسے اغوا کرسکتا ہے۔
خاتون نے اپنے بیان میں پولیس کو کرتوت کو بے نقاب کردیا اور بتایا کہ وہ اپنے شوہر سے ناراض ہوکر اپنی بہن کے گھر گئی تھی اس کے شوہر نے عدالت میں موجود عثمان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے، مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا اور اب بھی میں شوہر کے ساتھ نہیں جانا چاہتی اور اپنے بیٹے عمر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔
عدالت نے لڑکے کو ہتھکڑی لگانے اور جھوٹا مقدمہ درج کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فوری ہتھکڑی کھولنے کا حکم دیا عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو رہا اور اس کے خلاف درج مقدمہ بھی خارج کر دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت میں تھانہ ڈاکس پولیس نے45 سالہ خاتون کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار 15 سالہ لڑکے عثمان کو ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے پیش کیا اس موقع پر عدالت میں موجود وکیل اور سائلین حیران رہ گئے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم نے نومبر میں مغویہ نورجہاں کو اغوا کیا تھا اس کے شوہر نور محمد نے 20 فروری کو اپنی بیوی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی تھی، عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اتنے دنوں شوہر خاموش کیوں رہا۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ ملزم عثمان 15 سال کا ہے وہ 45 سالہ خاتون کو کیسے اغوا کر سکتا ہے خاتون نے ہی میرے موکل کو اغوا کیا، معاملہ کچھ اور ہے اصل حقائق سے پردہ پوشی کی جارہی ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ کس نے کس کو اغوا کیا معاملہ خاتون کے بیان پر منحصر ہے مغویہ کے بیان کے بعد حقائق کو دیکھا جاسکتا ہے عدالت نے مغویہ کو فوری پیش کرنے کا حکم دیا۔
عدالت کے حکم پر مغویہ نور جہاں کو عدالت میں پیش کیا گیا مغویہ کو دیکھتے ہی عدالت نے تفتیشی افسر پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ بچے کی دادی کی عمر کی خاتون ہے بچہ اسے کیسے اغوا کرسکتا ہے۔
خاتون نے اپنے بیان میں پولیس کو کرتوت کو بے نقاب کردیا اور بتایا کہ وہ اپنے شوہر سے ناراض ہوکر اپنی بہن کے گھر گئی تھی اس کے شوہر نے عدالت میں موجود عثمان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے، مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا اور اب بھی میں شوہر کے ساتھ نہیں جانا چاہتی اور اپنے بیٹے عمر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔
عدالت نے لڑکے کو ہتھکڑی لگانے اور جھوٹا مقدمہ درج کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فوری ہتھکڑی کھولنے کا حکم دیا عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو رہا اور اس کے خلاف درج مقدمہ بھی خارج کر دیا۔