شام میں غذائی اشیا کے عوض مجبور خواتین سے زیادتی کا انکشاف
جنسی استحصال کے شواہد کے باوجود اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
شام میں امدادی کارکنوں کی جانب سے غذائی اشیا کے عوض مجبور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے شرمناک واقعات کا انکشاف ہوا ہے۔
بی بی سی کے مطابق اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے ان کی پارٹنر امدادی تنظیمیں شام کے جنوبی علاقوں میں امداد تقسیم کرتی ہیں۔ اس دوران بھوک کے ہاتھوں مجبور خواتین کو غذا کے عوض جنسی زیادتی پر مجبور کرنے کے واقعات تسلسل کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کچھ امدادی کارکنوں نے انکشاف کیا کہ امدادی مراکز میں جنسی استحصال اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ متعدد خواتین امداد کے لیے ان مراکز میں آنے پر تیار ہی نہیں کیوں کہ مشہور ہے کہ یہاں وہ خواتین آتی ہیں جو امداد کے عوض اپنا جسم دینے کے لیے تیار ہیں۔ وائسز فرام سیریا 2018ء نامی رپورٹ کے مطابق طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین آسان ہدف سمجھی جاتی ہیں اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔
یہ واقعات تین سال قبل تواتر کے ساتھ اس وقت سامنے آئے جب ایک امدادی تنظیم کی خاتون مشیر ڈینیل سپنسر کو خواتین نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کرنا شروع کردیا اور بتایا کہ انہیں خوراک اور بنیادی اشیائے ضروریہ کے عوض جنسی خواہش پوری کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس وقت تک امداد نہیں دی جاتی جب تک خواتین ان کی خواہش پوری کرنے پر رضا مند نہیں ہوجاتیں۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی امدادی اداروں کا موقف ہے کہ وہ جنسی استحصال کے خلاف ہیں تاہم وہ اپنی پارٹنر تنظیموں کے متعلق ایسی معلومات نہیں رکھتے جب کہ ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ شام میں امداد کے عوض جنسی استحصال کے شواہد موجود ہونے کے باوجود اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے ترجمان نے جنسی زیادتی کے واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ایک اجلاس میں جنسی استحصال کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی تھی۔
بی بی سی کے مطابق اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے ان کی پارٹنر امدادی تنظیمیں شام کے جنوبی علاقوں میں امداد تقسیم کرتی ہیں۔ اس دوران بھوک کے ہاتھوں مجبور خواتین کو غذا کے عوض جنسی زیادتی پر مجبور کرنے کے واقعات تسلسل کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کچھ امدادی کارکنوں نے انکشاف کیا کہ امدادی مراکز میں جنسی استحصال اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ متعدد خواتین امداد کے لیے ان مراکز میں آنے پر تیار ہی نہیں کیوں کہ مشہور ہے کہ یہاں وہ خواتین آتی ہیں جو امداد کے عوض اپنا جسم دینے کے لیے تیار ہیں۔ وائسز فرام سیریا 2018ء نامی رپورٹ کے مطابق طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین آسان ہدف سمجھی جاتی ہیں اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔
یہ واقعات تین سال قبل تواتر کے ساتھ اس وقت سامنے آئے جب ایک امدادی تنظیم کی خاتون مشیر ڈینیل سپنسر کو خواتین نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کرنا شروع کردیا اور بتایا کہ انہیں خوراک اور بنیادی اشیائے ضروریہ کے عوض جنسی خواہش پوری کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس وقت تک امداد نہیں دی جاتی جب تک خواتین ان کی خواہش پوری کرنے پر رضا مند نہیں ہوجاتیں۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی امدادی اداروں کا موقف ہے کہ وہ جنسی استحصال کے خلاف ہیں تاہم وہ اپنی پارٹنر تنظیموں کے متعلق ایسی معلومات نہیں رکھتے جب کہ ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ شام میں امداد کے عوض جنسی استحصال کے شواہد موجود ہونے کے باوجود اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے ترجمان نے جنسی زیادتی کے واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ایک اجلاس میں جنسی استحصال کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی تھی۔