اداروں کی کشمکش
عدالت ِعظمی نے بھی ایسے فیصلے دیے جن سے ریاستی ڈھانچے کی چولیں ہِل گئیں
ریاستی اداروں کے تصادم میں سب سے زیادہ نقصان خود ریا ست کوہی پہنچتا ہے۔اگریہ کشمکش کسی ایک فرد کو سبق سکھانے یا اپنی بڑائی اور بالادستی کے لیے رہی تو کسی کے حصّے میں کچھ نہیں آئے گا، خدا نخواستہ سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ہمارے ادارہ جاتی تصادم، ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم اِستحکام اور غیر یقینی صورتحال سے سب سے زیادہ خوش ریاستِ پاکستان کے وجود کے دشمن ہیں جن میں سرِفہرست ہمارا ہمسایہ ملک اورکچھ دیگر طاقتیں ہیں۔اگرآئین بنانے والے، اس کی تشریح کرنے والے، اور اس کا تحفّظ کرنے والے اپنی یا اپنے ادارے کی بالادستی کے بجائے آئین کی بالادستی کو دل سے تسلیم کر لیں تو ٹکراؤ کا خاتمہ خیر پر ہوگااور ہمیشہ کے لیے اداروں کی حدود و قیود طے ہوجائیں گی۔
دو مقتدر ادارے ،فوج اور عدلیہ، ڈسپلنڈ اور متحّد ہیں جب کہ پارلیمنٹ کا دفاع کرنے والے منتشر بھی ہیں اور معیار اور کردار میں بھی اُس سطح کے نہیں کہ ترکی کیطرح عوام کی بالادستی منوا سکیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کا راگ الاپنے والے تو اس اہم ترین موڑ پر بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں، ایک دوسرے کو طعنے دے رہے ہیں، ایک دوسرے سے پرانے بدلے چکاناچاہتے ہیں، اپنے سیاسی حریف کو پچھاڑنے کے لیے کوئی بھی حربہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں، حتٰی کہ غیر جمہوری قوتوں اور ایجنسیوں کا آلہ کار بننے کے لیے بھی۔
آئین اور قانون کے مطابق کیے گئے فیصلوں کو تو عوام ہضم کر لیں گے مگر میزان ِ عدل کا ایک پلڑا واضح طورپر جھکا ہوا اور دوسرا اُٹھّا ہوا نظر آئے تو عوام کا ان قومی اداروں سے اعتماد اٹھ جائیگا اور وہ انھیں شک کی نظروں سے دیکھیں گے اگر یہی شک نفرت میں بدل گیا تو خدانخواستہ ریاست کے لیے تباہ کن ہوگا۔
ہر محفل اور ہر فورم میں دردِ دل رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ''یہ کیاہو رہا ہے؟ یہ کیوں ہو رہا ہے؟'' باخبر حلقوں میں یہ تاثر پھیل چکا ہے کہ یہ سب کچھ مقبول اور سر اٹھانے والے سیاسی لیڈر کا سر اتارنے، دوسرے سیاستدانوں کا سر جھکانے اور انھیں مطیع اور فرمانبردار بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ زیادہ تر ٹی وی اینکر سیاسی پارٹیوں کے جیالے یا غیر جمہوری قوتوں کے ورکر بن چکے ہیں۔ لگتا ہے اکثر تجزیہ کاروں کو صرف ایک ٹارگٹ دیکر بٹھایا گیا ہے کہ انھیں ایک فریق کے ہر کام کو صیحح اور ملک کے لیے مفید اور دوسرے فریق کے ہر کام کو غلط اور ملک کے خلاف ثابت کرنا ہے مگر قانونی حلقوںمیں کچھ ماہرین غیرجانبدارانہ رائے دینے والے بھی موجود ہیں۔ غیر جانبدار قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پارٹی صدر کے انتخاب کا حق عوام کا ہے۔ اُن سے یہ حق چھینناآئین کے مطابق نہیں ہے اور سپریم کورٹ نے ایسا کر کے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔
فیصلے میں فرمایا گیا ہے کہ پارٹی کا صدر بننے کے لیے صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود صرف چار پارٹیوں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور اے این پی کاہی جائزہ لے لیں،کچھ پر مالی اور کچھ پر اخلاقی کرپشن کے داغ ہیں،کیا ملک کا ایک بھی با خبر شخص ان پارٹیوںکے قائدین کو دل سے صادق اور امین سمجھتا ہے؟ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ صادق اور امین کے القاب صرف آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺکے لیے ہیں۔ حضور ؐ کے سوا کوئی اور شخص ان اوصاف کا نہ حامل ہو سکتا ہے اور نہ ہی ان القاب کا حقدار قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا دنیا دار سیاستدانوں کو صادق اور امین کے معیار پر پرکھنا بذات ِ خود غلط اور سعیٔ لا حاصل ہے، سیاستدان تو کیا کوئی جج بھی صادق ا ور امین کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکتا، جو شخص خود اس معیار پر پورا نہ اترتا ہو کیا وہ کسی دوسرے پر صادق اور امین نہ ہونے کی مہر لگانے کا حق رکھتا ہے؟
یوں لگتا ہے کچھ منصفین عدل کی اعلیٰ روایات سے ہٹ کر اپنی اناؤںکے اسیر ہو گئے ہیں اور انھوں نے سیاستدانوں سے جنگ لڑنے کے لیے مورچے سنبھال لیے ہیں۔ ایسا کرنا آداب ِ منصفی کے بھی منافی ہے اور عدل کے تقاضوں کے بھی، انھیں اوّل تو سیاسی کیسوں کی سماعت ہی نہیں کرنی چاہیے اگر کسی کی سماعت ضروری ہو تو جب تک سماعت چلے وہ اپنے اوپر ٹی وی دیکھنے اور اخبار پڑھنے کی پابندی لگا لیں۔موجودہ دور کے معتبر مؤرّخ برملا کہہ رہے ہیں کہ تاریخ میں لکھّا جائیگا کہ جس وقت قائد ؒ کے پاکستان کے خلاف بیرونی دشمن بھرپور سازشوں میں مصروف تھے عدالت ِعظمی نے بھی ایسے فیصلے دیے جن سے ریاستی ڈھانچے کی چولیں ہِل گئیں۔
اوپر سے الیکشن کمیشن نے فیصلے پر جس طرح عملدرآمد کیا ہے وہ بھی حیران کُن ہے۔ یہ بات تو نواز شریف کے کٹّر مخالف بھی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے تھا کہ سینیٹ کے الیکشن دو ہفتے ملتوی کر دیتا یا پارٹی کے چئیرمین راجہ ظفر الحق کے دستخطوں سے جاری ہونے والی امیدواروں کی لسٹ قبول کر لی جاتی۔ دونوں اقدامات سے نہ کوئی پہاڑ گرتا اور نہ ہی کسی کو اعتراض ہوتا مگرکمیشن نے ایک غیر منطقی فیصلہ کر کے کمزور سی جمہوریت کو پہاڑی سے دھکا دے دیا ہے، امیدواروں کو پارٹی ڈسپلن سے آزاد کر کے ہارس ٹریڈنگ کے دروازے کھول دیے ہیں اور ملک کو مزید سیاسی عدم اِستحکام کا شکار کر دیا ہے۔
عدالت عظمٰی کی اپنی کئی نظیریں موجود ہیں جہاں نااہل قرار دیے جانے والے افراد کے پچھلے فیصلوں کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا ۔ یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا گیا مگر اس کے فیصلے کالعدم نہیں ہوئے۔سپریم کورٹ نے جسٹس عبد الحمید ڈوگر کی تعیناتی کالعدم قرار دے دی مگر ان کے کیے گئے فیصلوں کو غیر قانونی قرار نہیں دیا، چند سال قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام غیر آئینی قرار دیا گیا تھا مگر غیر آئینی عدالت کے فیصلوں کو ختم نہیں کیا گیا۔ صرف نواز شریف کے سابقہ فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے ۔ لوگ سابق وزیرِاعظم کے ساتھ اس ''خصوصی سلوک'' سے بغض یا انتقام کا پہلو تلاش کریں تو بلاجواز نہیں ہے۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بزنس مین ایک سابق کور کمانڈر سے مخاطب ہو کر پوچھ رہا تھا کہ ''یہ ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ ملک کو بے یقینی کی دلدل میں کیوں پھنسایا جا رہا ہے؟ سب سے بڑی پارٹی کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے؟کیا باقی پارٹیوں کے سربراہ پوتّر ہیں ؟کسی جرنیل یا جج کے خلاف کارروائی کیوں نہیں؟ یہ کس کا ایجنڈا ہے؟ اس کے بھیانک اثرات کا کسی کو اندازہ ہے؟'' پھر اس نے شئیر کیا کہ '' ہمارا بیرون ممالک کے کئی اداروں سے اشتراک ہونے جا رہا تھا مگر سیاسی عدم اِستحکام دیکھ کر وہ سب بھاگ گئے ہیں۔ایک شخص یا ایک خاندان کو سزا دینے کا آپریشن اس طرح کیا جا رہا ہے کہ خود ملک سب بڑا Victim بن رہا ہے، جمہوری اداروں اور جمہوریّت کو بے توقیر کرنے کی کوششیں ملک کو نقصان پہنچا رہی ہیںاور دُشمن بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔''
چیف جسٹس صاحب کو اس کا پورا ادراک ہے کہ بڑی عدالت کے حالیہ فیصلوں پر عوام کو تحفظّات ہیں، اس لیے وہ لوگوں کو قائل کرنے کے لیے وضاحتیں اور تقریریںکر رہے ہیں ۔میری گزارش ہے وہ انصاف پر مبنی ایسے فیصلے کریں کہ انھیں وضاحتیں دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ انصاف کا تقاضاہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف نا اہلی کی مدّت کا کیس اُن جج صاحبان کے سپر د کیا جائے جو میاں نواز شریف کے خلاف دیے جانے والے پہلے دونوں فیصلوں میں شامل نہیں تھے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ ہر ادارے کے سربراہ کو دوسرے اداروں پر توجہ دینے کے بجائے اپنا ادارہ ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس صاحب اسپتالوں کے بجائے ضلعی اور تحصیل کچہریوں کے دورے کریں اور دیکھیں کہ مخلوقِ خدا کس عذاب میں مبتلا ہے ۔کل پی ٹی آئی کے معروف وکیل محترم حامد خان صاحب کسی چینل پر بتا رہے تھے کہ ہائیکورٹ میں کیس لگنے کی باری پندرہ سے بیس سال بعد آتی ہے ۔ جج صاحبان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لے، اسے چاہیے کہ فوری طور پر مخلوقِ خدا کو تھانے اور کچہری کی ذلّت و رسوائی اور طویل پیشیوں کے عذاب سے نجات دلانے والا قابلِ عمل سسٹم وضع کرے، بدکردار ممبروں اور بد نام افسروں سے نجات حاصل کریں اور اس تاثر کوزائل کرے کہ ن لیگ کی قیادت کا قرب صرف ارب پتیوں یا خوشامدیوں کو ہی حاصل ہو سکتا ہے۔کمپنیاں بنا کر سرکاری افسروں کو بیس بیس لاکھ روپے کی تنخواہ پر تعینات کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، اگر کوئی افسر کرپشن میں ملو ّث ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔مگر تفتیش منصفانہ اور شفاف ہونی چاہیے، سیاسی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ممبرانِ اسمبلی کا طرزِ عمل روانڈا یا لوٹیا والا ہو مگر وہ اختیاربرٹش پارلیمنٹ والے مانگیں تویہ ممکن نہیں ہے، اگر پارلیمنٹ کی بالا دستی چاہیے تو پھر آپ کو مہاتیر اور طیّب اردوان بن کر دکھانا ہوگا۔
ملک کے بارے میں تشویش بڑھتی ہے تو صاحبانِ دانش و حکمت کے پاس جا پہنچتا ہوں۔ سب ہی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے ۔دو روز پہلے افواج ِ پاکستان کے سپریم کمانڈر اور ریاست کے سب سے بڑے عہد ے پر متمکن شخصیت سے ملاقات ہوئی تو ملک اور رزقِ حلال سے محبت اور رزقِ حرام سے نفرت کرنے والے نجیب بزرگ نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔میں نے اُٹھنے کے لیے اجازت لی تو بھی صدرِ مملکت نے یہی دعا کی کہ اﷲ تعالیٰ اہم ترین عہدوں پر تعینات افراد کو فیصلے کرتے وقت ملک کا مفاد پیشِ نظر رکھنے کی توفیق اور جر ات عطاء فرمائیں۔
دو مقتدر ادارے ،فوج اور عدلیہ، ڈسپلنڈ اور متحّد ہیں جب کہ پارلیمنٹ کا دفاع کرنے والے منتشر بھی ہیں اور معیار اور کردار میں بھی اُس سطح کے نہیں کہ ترکی کیطرح عوام کی بالادستی منوا سکیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کا راگ الاپنے والے تو اس اہم ترین موڑ پر بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں، ایک دوسرے کو طعنے دے رہے ہیں، ایک دوسرے سے پرانے بدلے چکاناچاہتے ہیں، اپنے سیاسی حریف کو پچھاڑنے کے لیے کوئی بھی حربہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں، حتٰی کہ غیر جمہوری قوتوں اور ایجنسیوں کا آلہ کار بننے کے لیے بھی۔
آئین اور قانون کے مطابق کیے گئے فیصلوں کو تو عوام ہضم کر لیں گے مگر میزان ِ عدل کا ایک پلڑا واضح طورپر جھکا ہوا اور دوسرا اُٹھّا ہوا نظر آئے تو عوام کا ان قومی اداروں سے اعتماد اٹھ جائیگا اور وہ انھیں شک کی نظروں سے دیکھیں گے اگر یہی شک نفرت میں بدل گیا تو خدانخواستہ ریاست کے لیے تباہ کن ہوگا۔
ہر محفل اور ہر فورم میں دردِ دل رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ''یہ کیاہو رہا ہے؟ یہ کیوں ہو رہا ہے؟'' باخبر حلقوں میں یہ تاثر پھیل چکا ہے کہ یہ سب کچھ مقبول اور سر اٹھانے والے سیاسی لیڈر کا سر اتارنے، دوسرے سیاستدانوں کا سر جھکانے اور انھیں مطیع اور فرمانبردار بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ زیادہ تر ٹی وی اینکر سیاسی پارٹیوں کے جیالے یا غیر جمہوری قوتوں کے ورکر بن چکے ہیں۔ لگتا ہے اکثر تجزیہ کاروں کو صرف ایک ٹارگٹ دیکر بٹھایا گیا ہے کہ انھیں ایک فریق کے ہر کام کو صیحح اور ملک کے لیے مفید اور دوسرے فریق کے ہر کام کو غلط اور ملک کے خلاف ثابت کرنا ہے مگر قانونی حلقوںمیں کچھ ماہرین غیرجانبدارانہ رائے دینے والے بھی موجود ہیں۔ غیر جانبدار قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پارٹی صدر کے انتخاب کا حق عوام کا ہے۔ اُن سے یہ حق چھینناآئین کے مطابق نہیں ہے اور سپریم کورٹ نے ایسا کر کے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔
فیصلے میں فرمایا گیا ہے کہ پارٹی کا صدر بننے کے لیے صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود صرف چار پارٹیوں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور اے این پی کاہی جائزہ لے لیں،کچھ پر مالی اور کچھ پر اخلاقی کرپشن کے داغ ہیں،کیا ملک کا ایک بھی با خبر شخص ان پارٹیوںکے قائدین کو دل سے صادق اور امین سمجھتا ہے؟ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ صادق اور امین کے القاب صرف آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺکے لیے ہیں۔ حضور ؐ کے سوا کوئی اور شخص ان اوصاف کا نہ حامل ہو سکتا ہے اور نہ ہی ان القاب کا حقدار قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا دنیا دار سیاستدانوں کو صادق اور امین کے معیار پر پرکھنا بذات ِ خود غلط اور سعیٔ لا حاصل ہے، سیاستدان تو کیا کوئی جج بھی صادق ا ور امین کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکتا، جو شخص خود اس معیار پر پورا نہ اترتا ہو کیا وہ کسی دوسرے پر صادق اور امین نہ ہونے کی مہر لگانے کا حق رکھتا ہے؟
یوں لگتا ہے کچھ منصفین عدل کی اعلیٰ روایات سے ہٹ کر اپنی اناؤںکے اسیر ہو گئے ہیں اور انھوں نے سیاستدانوں سے جنگ لڑنے کے لیے مورچے سنبھال لیے ہیں۔ ایسا کرنا آداب ِ منصفی کے بھی منافی ہے اور عدل کے تقاضوں کے بھی، انھیں اوّل تو سیاسی کیسوں کی سماعت ہی نہیں کرنی چاہیے اگر کسی کی سماعت ضروری ہو تو جب تک سماعت چلے وہ اپنے اوپر ٹی وی دیکھنے اور اخبار پڑھنے کی پابندی لگا لیں۔موجودہ دور کے معتبر مؤرّخ برملا کہہ رہے ہیں کہ تاریخ میں لکھّا جائیگا کہ جس وقت قائد ؒ کے پاکستان کے خلاف بیرونی دشمن بھرپور سازشوں میں مصروف تھے عدالت ِعظمی نے بھی ایسے فیصلے دیے جن سے ریاستی ڈھانچے کی چولیں ہِل گئیں۔
اوپر سے الیکشن کمیشن نے فیصلے پر جس طرح عملدرآمد کیا ہے وہ بھی حیران کُن ہے۔ یہ بات تو نواز شریف کے کٹّر مخالف بھی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے تھا کہ سینیٹ کے الیکشن دو ہفتے ملتوی کر دیتا یا پارٹی کے چئیرمین راجہ ظفر الحق کے دستخطوں سے جاری ہونے والی امیدواروں کی لسٹ قبول کر لی جاتی۔ دونوں اقدامات سے نہ کوئی پہاڑ گرتا اور نہ ہی کسی کو اعتراض ہوتا مگرکمیشن نے ایک غیر منطقی فیصلہ کر کے کمزور سی جمہوریت کو پہاڑی سے دھکا دے دیا ہے، امیدواروں کو پارٹی ڈسپلن سے آزاد کر کے ہارس ٹریڈنگ کے دروازے کھول دیے ہیں اور ملک کو مزید سیاسی عدم اِستحکام کا شکار کر دیا ہے۔
عدالت عظمٰی کی اپنی کئی نظیریں موجود ہیں جہاں نااہل قرار دیے جانے والے افراد کے پچھلے فیصلوں کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا ۔ یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا گیا مگر اس کے فیصلے کالعدم نہیں ہوئے۔سپریم کورٹ نے جسٹس عبد الحمید ڈوگر کی تعیناتی کالعدم قرار دے دی مگر ان کے کیے گئے فیصلوں کو غیر قانونی قرار نہیں دیا، چند سال قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام غیر آئینی قرار دیا گیا تھا مگر غیر آئینی عدالت کے فیصلوں کو ختم نہیں کیا گیا۔ صرف نواز شریف کے سابقہ فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے ۔ لوگ سابق وزیرِاعظم کے ساتھ اس ''خصوصی سلوک'' سے بغض یا انتقام کا پہلو تلاش کریں تو بلاجواز نہیں ہے۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بزنس مین ایک سابق کور کمانڈر سے مخاطب ہو کر پوچھ رہا تھا کہ ''یہ ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ ملک کو بے یقینی کی دلدل میں کیوں پھنسایا جا رہا ہے؟ سب سے بڑی پارٹی کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے؟کیا باقی پارٹیوں کے سربراہ پوتّر ہیں ؟کسی جرنیل یا جج کے خلاف کارروائی کیوں نہیں؟ یہ کس کا ایجنڈا ہے؟ اس کے بھیانک اثرات کا کسی کو اندازہ ہے؟'' پھر اس نے شئیر کیا کہ '' ہمارا بیرون ممالک کے کئی اداروں سے اشتراک ہونے جا رہا تھا مگر سیاسی عدم اِستحکام دیکھ کر وہ سب بھاگ گئے ہیں۔ایک شخص یا ایک خاندان کو سزا دینے کا آپریشن اس طرح کیا جا رہا ہے کہ خود ملک سب بڑا Victim بن رہا ہے، جمہوری اداروں اور جمہوریّت کو بے توقیر کرنے کی کوششیں ملک کو نقصان پہنچا رہی ہیںاور دُشمن بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔''
چیف جسٹس صاحب کو اس کا پورا ادراک ہے کہ بڑی عدالت کے حالیہ فیصلوں پر عوام کو تحفظّات ہیں، اس لیے وہ لوگوں کو قائل کرنے کے لیے وضاحتیں اور تقریریںکر رہے ہیں ۔میری گزارش ہے وہ انصاف پر مبنی ایسے فیصلے کریں کہ انھیں وضاحتیں دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ انصاف کا تقاضاہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف نا اہلی کی مدّت کا کیس اُن جج صاحبان کے سپر د کیا جائے جو میاں نواز شریف کے خلاف دیے جانے والے پہلے دونوں فیصلوں میں شامل نہیں تھے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ ہر ادارے کے سربراہ کو دوسرے اداروں پر توجہ دینے کے بجائے اپنا ادارہ ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس صاحب اسپتالوں کے بجائے ضلعی اور تحصیل کچہریوں کے دورے کریں اور دیکھیں کہ مخلوقِ خدا کس عذاب میں مبتلا ہے ۔کل پی ٹی آئی کے معروف وکیل محترم حامد خان صاحب کسی چینل پر بتا رہے تھے کہ ہائیکورٹ میں کیس لگنے کی باری پندرہ سے بیس سال بعد آتی ہے ۔ جج صاحبان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لے، اسے چاہیے کہ فوری طور پر مخلوقِ خدا کو تھانے اور کچہری کی ذلّت و رسوائی اور طویل پیشیوں کے عذاب سے نجات دلانے والا قابلِ عمل سسٹم وضع کرے، بدکردار ممبروں اور بد نام افسروں سے نجات حاصل کریں اور اس تاثر کوزائل کرے کہ ن لیگ کی قیادت کا قرب صرف ارب پتیوں یا خوشامدیوں کو ہی حاصل ہو سکتا ہے۔کمپنیاں بنا کر سرکاری افسروں کو بیس بیس لاکھ روپے کی تنخواہ پر تعینات کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، اگر کوئی افسر کرپشن میں ملو ّث ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔مگر تفتیش منصفانہ اور شفاف ہونی چاہیے، سیاسی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ممبرانِ اسمبلی کا طرزِ عمل روانڈا یا لوٹیا والا ہو مگر وہ اختیاربرٹش پارلیمنٹ والے مانگیں تویہ ممکن نہیں ہے، اگر پارلیمنٹ کی بالا دستی چاہیے تو پھر آپ کو مہاتیر اور طیّب اردوان بن کر دکھانا ہوگا۔
ملک کے بارے میں تشویش بڑھتی ہے تو صاحبانِ دانش و حکمت کے پاس جا پہنچتا ہوں۔ سب ہی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے ۔دو روز پہلے افواج ِ پاکستان کے سپریم کمانڈر اور ریاست کے سب سے بڑے عہد ے پر متمکن شخصیت سے ملاقات ہوئی تو ملک اور رزقِ حلال سے محبت اور رزقِ حرام سے نفرت کرنے والے نجیب بزرگ نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔میں نے اُٹھنے کے لیے اجازت لی تو بھی صدرِ مملکت نے یہی دعا کی کہ اﷲ تعالیٰ اہم ترین عہدوں پر تعینات افراد کو فیصلے کرتے وقت ملک کا مفاد پیشِ نظر رکھنے کی توفیق اور جر ات عطاء فرمائیں۔