انتظامیہ کا بحران
انتظامی امور میں خرابی کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہو گئی بلکہ اس کو خراب کرنے میں ہم نے برسوں محنت کی ہے
ایک مدت سے یہ پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں کہ ملک میں انتظامیہ کا بحران آنے والا ہے اور ہم اس کا مشاہدہ بھی کر رہے تھے، رفتہ رفتہ ملکی اداروں کا نظم و نسق بگڑتا جا رہا ہے جو بالآ خر انتظامی بحران کی شکل میں بدل جائے گا اور یہ کوئی زیادہ عرصے کی بات نہیں بلکہ پچھلے چند برسوں میں ملک کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے دانشور اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ انتظامیہ جو کسی بھی ملک کے نظم و نسق کو چلانے کی ذمے دار ہوتی ہے۔
اس انتظامیہ میں شکست و ریخت ہو رہی ہے اور اس کا معیار دن بدن گرتا جا رہا ہے جو ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو گا بالآخر وہی ہوا اور ہم نے اس بات کا تجربہ بھی کر لیا کہ جیسے ہی ایک انتظامی افسر پر بدعنوانی کے الزام میں ہاتھ پڑا، اس کے دوسرے افسر ساتھیوں کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے اور ان کے ہاتھ اور پاؤں یکایک بے کار ہو گئے یعنی ان کے اعضاء نے کام سے انکار کر دیا بلکہ خوفزدگی شائد اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ انھوںنے دفتر آنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے اپنے دفاتر کو تالے لگا دیے اور پھر پورے پنجاب کے انتظامی دفتر سول سیکریٹریٹ کو ہی بند کر دیا تا کہ نہ رہے بانس اور نہ ہی بجے بانسری۔
انتظامیہ کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ملک کی اصل مالک انتظامیہ ہی ہوتی ہے اور ملک کے سنوارنے یا بگاڑنے میں اس کا کرداد اہم ہوتا ہے۔ انتظامیہ کے فیصلے ہی ملک کی مضبوط بنیادوں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں لیکن اگر انتظامیہ اپنے ہی فیصلوں اور ذمے داریوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو تو بات بگڑتی نظر آتی ہے جس کا اختتام کسی بھی ناگہانی صورتحال پر ہو سکتا ہے ۔
انتظامی بحران کی ایک بڑی وجہ یہ بھی قرار دی جا سکتی ہے کہ ملک کی افسر شاہی میں اب وہ افسران موجود نہیں رہے جن کا اپنا ایک ویژن ہوتا تھا اور وہ حالات کی نزاکت کے مطابق فیصلے کرتے تھے اور حکمرانوں کے ناجائز احکامات کو ماننے سے انکار بھی کر دیتے تھے بلکہ ان کو انتظامی باریکیوں کے بارے میں سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کر لیتے تھے۔ یہ فن تجربے کی بنیاد پر ہی آتا ہے اور ہمارے پرانے افسران اس فن میں ماہر تھے، وہ اپنی نوکری کے دوران اس فن کا بھر پور استعمال بھی کرتے رہے اور کسی حکمران کی جانب سے ناگہانی آفتوں سے بچے بھی رہے کیونکہ وہ ملک کے قوانین اور ان کی باریکیوں کو سمجھتے تھے اس لیے اپنا دامن بچا کر چلتے رہے اور کامیابی سے اپنی نوکری مکمل کر کے ریٹائر ہو گئے ۔
انتظامی معاملات میں ابتری تب شروع ہوئی جب سے ہماری نوجوان نسل نے اس شعبہ میں اپنا حصہ ڈالا اور پرانی فائلوں کو کہیں دور پرے پھینک کر نئی صاف ستھری فائلوں اور کمپیوٹر سے اپنی افسری کا آغاز کیا اور پرانی فائلوں سے رہنمائی میں اپنی سبکی محسوس کی، اس کے جو نتائج نکل رہے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ گئے وقتوں میں افسران اپنے اسٹاف کے بل بوتے پر ہی افسری کرتے تھے اور محکموں میں ایسے لوگ موجود ہوتے تھے جن کو انتظامی قوانین ازبر ہوتے تھے اور وہ صاحب لوگوں کو اپنے مشوروں سے نوازتے اور صاحب اس پر عمل بھی کرتا تھا کیونکہ وہ یہ بات سمجھتے تھے کہ ان فائلوں میں زندگی گزارنے والوں کے تجربے سے رہنمائی فائدہ مند ہی ثابت ہو گی بلکہ بعض اوقات تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان چھوٹے صاحبوں کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا تھا۔
انتظامی امور میں خرابی کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہو گئی بلکہ اس کو خراب کرنے میں ہم نے برسوں محنت کی ہے اور آج اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے افسران کو ہڑتالوں پر مجبور کر دیا ہے ۔ انتظامی امور کو چلانے والے ہی جب اپنے دفاتر کو تالے لگا دیں گے تو عوام کہاں جائیں گے اور پھر جب عوام اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو اس کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے ان کو نقص امن کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن جب یہی حرکت ملک کی انتظامیہ کرے تو اس کو حکومت کی آشیر باد بھی حاصل ہو جاتی ہے اور عوام کے منتخب نمایندے بھی ان افسران کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں ۔
اس دو عملی کا آغاز اس دن سے ہو گیا تھا جب سینئر عہدوں پر جونیئر افسران کو لگا دیا گیا اور ان کے ذریعے ملکی معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ہر اہم انتظامی سیٹ پر جونیئر افسر کا تقرر کر کے سینئر افسران کویہ پیغام دیا گیا کہ حکومت کے کاموں میں روڑے اٹکانے والے سائیڈ لائن کر دیے گئے ہیں اور اب نوزائیدہ افسران ان کی جگہ حکومتی کام سر انجام دیں گے ۔
یہ تجربہ کس حد تک کامیاب رہا اس کے بارے میںافسر شاہی یا حکومت ہی بہتر تبصرہ کر سکتی ہے لیکن ایک بات کا حکومت کو نقصان ضرور ہوا ہے کہ شہباز شریف جو اپنے صوبے میں اور خاص طور پر اپنی ذات کے بارے میں ایمانداری کی جو قسمیں کھاتے رہے، ان کو ٹھیس ضرور پہنچی ہے کیونکہ پنجاب کا ابھی ایک افسر نیب نے زیر حراست لیا ہے اور اس افسر کو جس طرح مختلف جگہوں پر تعینات کر کے نوازا گیا اور اب جو انکشافات سامنے آرہے ہیں، اس سے میاں شہباز شریف کی نیک نامی کے دعوؤں کو جھٹکا لگا ہے ۔ جس طرح ایک الزام زدہ افسر کے لیے اس کے ساتھی افسران اور حکومت نے اپنا کردار ادا کیا ہے، وہ بھی اپنی مثال آپ اور عوام کی نظر میں شرمناک ہے ۔ بہر حال انتظامی بحران کی ایک جھلک آپ نے دیکھ لی، آنے والا وقت ایسی کئی جھلکیاں دکھانے والا ہے جو انتظامیہ کے ناکام ہونے کے مز ید ثبوت ہوں گے ۔
اس انتظامیہ میں شکست و ریخت ہو رہی ہے اور اس کا معیار دن بدن گرتا جا رہا ہے جو ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو گا بالآخر وہی ہوا اور ہم نے اس بات کا تجربہ بھی کر لیا کہ جیسے ہی ایک انتظامی افسر پر بدعنوانی کے الزام میں ہاتھ پڑا، اس کے دوسرے افسر ساتھیوں کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے اور ان کے ہاتھ اور پاؤں یکایک بے کار ہو گئے یعنی ان کے اعضاء نے کام سے انکار کر دیا بلکہ خوفزدگی شائد اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ انھوںنے دفتر آنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے اپنے دفاتر کو تالے لگا دیے اور پھر پورے پنجاب کے انتظامی دفتر سول سیکریٹریٹ کو ہی بند کر دیا تا کہ نہ رہے بانس اور نہ ہی بجے بانسری۔
انتظامیہ کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ملک کی اصل مالک انتظامیہ ہی ہوتی ہے اور ملک کے سنوارنے یا بگاڑنے میں اس کا کرداد اہم ہوتا ہے۔ انتظامیہ کے فیصلے ہی ملک کی مضبوط بنیادوں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں لیکن اگر انتظامیہ اپنے ہی فیصلوں اور ذمے داریوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو تو بات بگڑتی نظر آتی ہے جس کا اختتام کسی بھی ناگہانی صورتحال پر ہو سکتا ہے ۔
انتظامی بحران کی ایک بڑی وجہ یہ بھی قرار دی جا سکتی ہے کہ ملک کی افسر شاہی میں اب وہ افسران موجود نہیں رہے جن کا اپنا ایک ویژن ہوتا تھا اور وہ حالات کی نزاکت کے مطابق فیصلے کرتے تھے اور حکمرانوں کے ناجائز احکامات کو ماننے سے انکار بھی کر دیتے تھے بلکہ ان کو انتظامی باریکیوں کے بارے میں سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کر لیتے تھے۔ یہ فن تجربے کی بنیاد پر ہی آتا ہے اور ہمارے پرانے افسران اس فن میں ماہر تھے، وہ اپنی نوکری کے دوران اس فن کا بھر پور استعمال بھی کرتے رہے اور کسی حکمران کی جانب سے ناگہانی آفتوں سے بچے بھی رہے کیونکہ وہ ملک کے قوانین اور ان کی باریکیوں کو سمجھتے تھے اس لیے اپنا دامن بچا کر چلتے رہے اور کامیابی سے اپنی نوکری مکمل کر کے ریٹائر ہو گئے ۔
انتظامی معاملات میں ابتری تب شروع ہوئی جب سے ہماری نوجوان نسل نے اس شعبہ میں اپنا حصہ ڈالا اور پرانی فائلوں کو کہیں دور پرے پھینک کر نئی صاف ستھری فائلوں اور کمپیوٹر سے اپنی افسری کا آغاز کیا اور پرانی فائلوں سے رہنمائی میں اپنی سبکی محسوس کی، اس کے جو نتائج نکل رہے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ گئے وقتوں میں افسران اپنے اسٹاف کے بل بوتے پر ہی افسری کرتے تھے اور محکموں میں ایسے لوگ موجود ہوتے تھے جن کو انتظامی قوانین ازبر ہوتے تھے اور وہ صاحب لوگوں کو اپنے مشوروں سے نوازتے اور صاحب اس پر عمل بھی کرتا تھا کیونکہ وہ یہ بات سمجھتے تھے کہ ان فائلوں میں زندگی گزارنے والوں کے تجربے سے رہنمائی فائدہ مند ہی ثابت ہو گی بلکہ بعض اوقات تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان چھوٹے صاحبوں کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا تھا۔
انتظامی امور میں خرابی کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہو گئی بلکہ اس کو خراب کرنے میں ہم نے برسوں محنت کی ہے اور آج اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے افسران کو ہڑتالوں پر مجبور کر دیا ہے ۔ انتظامی امور کو چلانے والے ہی جب اپنے دفاتر کو تالے لگا دیں گے تو عوام کہاں جائیں گے اور پھر جب عوام اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو اس کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے ان کو نقص امن کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن جب یہی حرکت ملک کی انتظامیہ کرے تو اس کو حکومت کی آشیر باد بھی حاصل ہو جاتی ہے اور عوام کے منتخب نمایندے بھی ان افسران کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں ۔
اس دو عملی کا آغاز اس دن سے ہو گیا تھا جب سینئر عہدوں پر جونیئر افسران کو لگا دیا گیا اور ان کے ذریعے ملکی معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ہر اہم انتظامی سیٹ پر جونیئر افسر کا تقرر کر کے سینئر افسران کویہ پیغام دیا گیا کہ حکومت کے کاموں میں روڑے اٹکانے والے سائیڈ لائن کر دیے گئے ہیں اور اب نوزائیدہ افسران ان کی جگہ حکومتی کام سر انجام دیں گے ۔
یہ تجربہ کس حد تک کامیاب رہا اس کے بارے میںافسر شاہی یا حکومت ہی بہتر تبصرہ کر سکتی ہے لیکن ایک بات کا حکومت کو نقصان ضرور ہوا ہے کہ شہباز شریف جو اپنے صوبے میں اور خاص طور پر اپنی ذات کے بارے میں ایمانداری کی جو قسمیں کھاتے رہے، ان کو ٹھیس ضرور پہنچی ہے کیونکہ پنجاب کا ابھی ایک افسر نیب نے زیر حراست لیا ہے اور اس افسر کو جس طرح مختلف جگہوں پر تعینات کر کے نوازا گیا اور اب جو انکشافات سامنے آرہے ہیں، اس سے میاں شہباز شریف کی نیک نامی کے دعوؤں کو جھٹکا لگا ہے ۔ جس طرح ایک الزام زدہ افسر کے لیے اس کے ساتھی افسران اور حکومت نے اپنا کردار ادا کیا ہے، وہ بھی اپنی مثال آپ اور عوام کی نظر میں شرمناک ہے ۔ بہر حال انتظامی بحران کی ایک جھلک آپ نے دیکھ لی، آنے والا وقت ایسی کئی جھلکیاں دکھانے والا ہے جو انتظامیہ کے ناکام ہونے کے مز ید ثبوت ہوں گے ۔