خواتین کی منتخب اداروں میں نمایندگی اور مردوں کا رویہ
مرد اراکین کے صنفی امتیاز پر مبنی رویے اور ان کی غیر اخلاقی جملہ بازی نے صورتحال کوخاصا کشیدہ کیا۔
BAGH:
خواتین کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی سے بہت سے مثبت نتائج سامنے آئے ۔ خواتین اور بچوں کے بارے میں بہترین قوانین منظور ہوئے مگر بعض مرد اراکین نے خواتین کے بارے میں منفی رجحانات کو تقویت دی جب کہ دیگر نے خواتین کی ترقی اور بنیادی حقوق کی پاسداری کی ۔
غیر سرکاری تنظیم (Strengthening Participatory Organization - SPO) اپنے قیام کے بعد سے خواتین کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے قوانین کی تیاری اور قوانین پر عملدرآمد کے لیے آگہی کا فریضہ انجام دے رہی ہے ۔ ایس پی او نے آسٹریلیا کی غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم (Trocaire Australian) کی مدد سے پاکستان کی قومی اسمبلی اور مختلف صوبائی اسمبلیوں میں خواتین سے متعلق قانون سازی او ر مرد اراکین اسمبلی کے رویوں کے بارے میں ایک سائنسی تحقیق کرائی اور اس تحقیق کو جامع رپورٹ کی صورت میں شایع کیا۔
ہندوستان میں سیاسی شعور بیدار ہوا تو اسمبلیوں کا قیام عمل میں آیا۔ اگرچہ انگریز حکومت نے ہندوستان کے شہریوں کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق نہیں دیا اور ووٹرکی اہلیت کو تعلیم، دولت، حیثیت اور انکم ٹیکس کی ادائیگی سے منسلک کیا مگر ہندوستان میں 19ویں صدی میں خواتین کی اسمبلیوں میں شرکت کا سوال اٹھایا گیا۔ 1932میں خواتین کی تنظیم آل انڈیا وومن آرگنائزیشن نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور خواتین کو اسمبلی میں نمایندگی دی جائے۔
1935 کے ایکٹ میں پہلی دفعہ خواتین کا کوٹہ بھی مختص کیا گیا۔ خواتین کا مطالبہ 10 فیصد نمایندگی کا تھا مگر انگریز حکومت 3 فیصد نمایندگی دینے پر تیار ہوئی۔ جب 1946میں مرکزی قانون سازی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے تو تین مسلمان خواتین بیگم جہاں آراء شاہنواز، بیگم شائستہ اکرام اﷲ اور بیگم عزیز رسول مسلمان خواتین کی نشستوں پر منتخب ہوئیں مگر یوپی سے تعلق رکھنے والی بیگم عزیز رسول نے متحدہ ہندوستان کو ترجیح دی ۔
1956کے آئین میں خواتین کے لیے 10 نشستیں مختص کی گئیں جن میں سے 5 مشرقی اور 5 مغربی پاکستان کے لیے تھیں۔ قیام پاکستان کے پہلے دس برسوں میں خواتین کے لیے حالات انتہائی نا سازگار رہے ۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان سیاسی اور سماجی زندگی میں متحرک تھیں مگر قدامت پرستوں نے ان کی ذات پر رکیک حملے کیے ۔ ملک کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے 1962میں نیا آئین نافذ کیا ۔ یہ آئین ایک لبرل قسم کا آئین تھا مگر اس آئین میں خواتین کی نمایندگی 10 فیصد سے کم کرکے 6 فیصد کردی گئی ۔ اس آئین کے تحت جنرل ایوب خان نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا۔ آئین کے تحت 80 ہزار بنیادی جمہوریت کے اراکین نے صدارتی انتخابات میں ووٹ دیے ۔ پاکستان کے بانی محمدعلی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لیا ۔ تمام سیاسی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی کے مولانا مودودی نے فاطمہ جناح کی حمایت کی۔
جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں لیگل فریم ورک آرڈر (L.F.O) کے تحت پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کے تحت قومی اسمبلی کے انتخابات کرائے ۔ان انتخابات میں مشرقی پاکستان کے لیے 7 اور مغربی پاکستان کے لیے خواتین کی 6 نشستیں مختص کی گئیں۔ 1973کے آئین کے نفاذ کے بعد پہلی دفعہ ایک خاتون کا بطور ڈپٹی اسپیکر انتخاب ہوا۔ اشرف عباسی کو قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر اور نرگس نسیم کو پارلیمانی سیکریٹری منتخب کیا گیا اور غیر مسلم مسز نجم اینڈریو اور مسز جینیفر موسیٰ کو قومی اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا۔ پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سینیٹ میں خواتین کی نمایندگی کا حق تسلیم کیا اور مسز صائمہ عثمان پہلی خاتون سینیٹر منتخب ہوئیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977میں دوسرے عام انتخابات منعقد کرائے۔ پاکستان قومی اتحاد (P.N.A) کی رہنما بیگم نسیم ولی خان ان انتخابات میں جنرل نشستوں سے کامیاب ہوئیں مگر جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977 کو مارشل لاء نافذ کرکے اس اسمبلی کو توڑ دیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 1985میں غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں خواتین کی نشستیں 10 سے بڑھا کر 20کردی گئیں ۔ ان میں سے ایک نشست اقلیتی خواتین کے لیے مختص کی گئی۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اپنی کابینہ میں پہلی دفعہ دو خواتین بیگم افسر رضا اور بیگم کلثوم سیف اﷲ کو وزیر مملکت اور بیگم ریحانہ علیم مشہدی اور بیگم نور جہاں کو پارلیمانی سیکریٹری مقرر کیا۔
خواتین 90کی دہائی کے آغاز سے مطالبہ کررہی تھیں کہ منتخب ایوانوں میں خواتین کی نمایندگی 33 فیصد کی جائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت یہ ترمیم نہ کرسکی۔ میاں نواز شریف کے دونوں ادوار میں بھی ایسا ہی ہوا، مگر جنرل پرویز مشرف نے 2002میں ہونے والے عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا تناسب 17 فیصد کردیا، یوں اس دفعہ 13خواتین منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں آئیں۔ خواتین کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی بڑھنے سے اگرچہ خواتین کے مسائل خاص طور پر ان کے تحفظ کے لیے قانون سازی پر آواز زیادہ موثر انداز میں اٹھنے لگی مگر مرد اراکین کے صنفی امتیاز پر مبنی رویے اور ان کی غیر اخلاقی جملہ بازی نے صورتحال کوخاصا کشیدہ کیا۔
جب بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ وزیر اعظم بنیں تو شیخ رشید نے ان کے لباس کے حوالے سے نازیبا الفاظ ادا کیے جس پر بے نظیر بھٹوکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 223 خواتین شامل ہیں مگر ابھی تک خواتین کی منتخب اداروں میں 33 فیصد نمایندگی کا معاملہ التواء کا شکار ہے۔ 2010میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیارات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اب صوبائی اسمبلیوں کو ایڈیشنل اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے قیام کا اختیار ہے اور اسٹینڈنگ کمیٹی کا سربراہ اسپیکر یا ایوان کی اجازت سے اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کرسکتا ہے مگر موجودہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم نے 11پارلیمانی سیکریٹریوں کا تقررکیا ہے جن میں سے 2 خواتین ہیں۔
سندھ اسمبلی میں 30 اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں 4 کی سربراہ خواتین ہیں۔ خیبر پختون خواہ اسمبلی نے پہلی دفعہ ایک خاتون کو ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا ہے جب کہ 16 پارلیمانی سیکریٹریوں میں 7 خواتین ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری 2017میں سندھ کے ایک وزیر امداد پتافی نے پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی رکن نصرت سحر عباسی کے بارے میں توہین آمیز الفاظ ادا کیے۔ پیپلز پارٹی کے رکن نواب تیمور تالپور نے نصرت سحر عباسی پر طنزیہ حملے کیے تو صرف نصرت سحر عباسی نے اس رویے پر احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اور امداد پتافی کو ایوان میں نصرت سحر عباسی سے معذرت کرنی پڑی۔
خیبرپختو نخواہ اسمبلی میں تحریک انصاف کے شاہ فرمان نے پیپلز پارٹی کی رکن نگہت اورکزئی کے بارے میں نازیبہ الفاظ استعمال کیے۔ سوشل میڈیا پر مہم کی بناء پر شاہ فرمان کو ایوان میں نگہت اورکزئی سے معذرت کرنی پڑی۔ 8جون2016 کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو نازینا لقب سے مخاطب کیا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کی تشہیر کے بعد خواجہ آصف نے ایوان میں معذرت کی مگر اپنے خط میں ڈاکٹر شیریں مزاری کا نام نہیں لیا ۔
اسی طرح اپریل 2017میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے خواتین اراکین کے بارے میں منفی جملے ادا کیے، بعد میں آصفہ بھٹو نے خورشید شاہ کے ان ریمارکس پر سخت نوٹس لیا تو خورشید شاہ کو اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ نومبر 2017 میں مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کی خواتین کے بارے میں غیر اخلاقی گفتگو کی۔ تحریک انصاف کی رکن عائشہ گلالئی نے اپنے چیئرمین عمران خان پر غیر اخلاقی ایس ایم ایس بھیجنے کے الزامات لگائے۔
ایس پی او کی تحقیق میں خواتین کی بہبود کے لیے بنائے گئے قوانین کا ذکر ہے۔ یہ تحقیق ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب موجودہ حکومت کے خاتمے کے لیے 90 دن باقی ہیں اور انتخابات کا ماحول بن رہا ہے۔ پاکستانی ووٹر ا س رپورٹ کے مطالعے کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں امیدواروں کے انتخاب کے حوالے سے زیادہ بہتر فیصلہ کرسکے گا۔
خواتین کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی سے بہت سے مثبت نتائج سامنے آئے ۔ خواتین اور بچوں کے بارے میں بہترین قوانین منظور ہوئے مگر بعض مرد اراکین نے خواتین کے بارے میں منفی رجحانات کو تقویت دی جب کہ دیگر نے خواتین کی ترقی اور بنیادی حقوق کی پاسداری کی ۔
غیر سرکاری تنظیم (Strengthening Participatory Organization - SPO) اپنے قیام کے بعد سے خواتین کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے قوانین کی تیاری اور قوانین پر عملدرآمد کے لیے آگہی کا فریضہ انجام دے رہی ہے ۔ ایس پی او نے آسٹریلیا کی غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم (Trocaire Australian) کی مدد سے پاکستان کی قومی اسمبلی اور مختلف صوبائی اسمبلیوں میں خواتین سے متعلق قانون سازی او ر مرد اراکین اسمبلی کے رویوں کے بارے میں ایک سائنسی تحقیق کرائی اور اس تحقیق کو جامع رپورٹ کی صورت میں شایع کیا۔
ہندوستان میں سیاسی شعور بیدار ہوا تو اسمبلیوں کا قیام عمل میں آیا۔ اگرچہ انگریز حکومت نے ہندوستان کے شہریوں کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق نہیں دیا اور ووٹرکی اہلیت کو تعلیم، دولت، حیثیت اور انکم ٹیکس کی ادائیگی سے منسلک کیا مگر ہندوستان میں 19ویں صدی میں خواتین کی اسمبلیوں میں شرکت کا سوال اٹھایا گیا۔ 1932میں خواتین کی تنظیم آل انڈیا وومن آرگنائزیشن نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور خواتین کو اسمبلی میں نمایندگی دی جائے۔
1935 کے ایکٹ میں پہلی دفعہ خواتین کا کوٹہ بھی مختص کیا گیا۔ خواتین کا مطالبہ 10 فیصد نمایندگی کا تھا مگر انگریز حکومت 3 فیصد نمایندگی دینے پر تیار ہوئی۔ جب 1946میں مرکزی قانون سازی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے تو تین مسلمان خواتین بیگم جہاں آراء شاہنواز، بیگم شائستہ اکرام اﷲ اور بیگم عزیز رسول مسلمان خواتین کی نشستوں پر منتخب ہوئیں مگر یوپی سے تعلق رکھنے والی بیگم عزیز رسول نے متحدہ ہندوستان کو ترجیح دی ۔
1956کے آئین میں خواتین کے لیے 10 نشستیں مختص کی گئیں جن میں سے 5 مشرقی اور 5 مغربی پاکستان کے لیے تھیں۔ قیام پاکستان کے پہلے دس برسوں میں خواتین کے لیے حالات انتہائی نا سازگار رہے ۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان سیاسی اور سماجی زندگی میں متحرک تھیں مگر قدامت پرستوں نے ان کی ذات پر رکیک حملے کیے ۔ ملک کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے 1962میں نیا آئین نافذ کیا ۔ یہ آئین ایک لبرل قسم کا آئین تھا مگر اس آئین میں خواتین کی نمایندگی 10 فیصد سے کم کرکے 6 فیصد کردی گئی ۔ اس آئین کے تحت جنرل ایوب خان نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا۔ آئین کے تحت 80 ہزار بنیادی جمہوریت کے اراکین نے صدارتی انتخابات میں ووٹ دیے ۔ پاکستان کے بانی محمدعلی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لیا ۔ تمام سیاسی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی کے مولانا مودودی نے فاطمہ جناح کی حمایت کی۔
جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں لیگل فریم ورک آرڈر (L.F.O) کے تحت پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کے تحت قومی اسمبلی کے انتخابات کرائے ۔ان انتخابات میں مشرقی پاکستان کے لیے 7 اور مغربی پاکستان کے لیے خواتین کی 6 نشستیں مختص کی گئیں۔ 1973کے آئین کے نفاذ کے بعد پہلی دفعہ ایک خاتون کا بطور ڈپٹی اسپیکر انتخاب ہوا۔ اشرف عباسی کو قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر اور نرگس نسیم کو پارلیمانی سیکریٹری منتخب کیا گیا اور غیر مسلم مسز نجم اینڈریو اور مسز جینیفر موسیٰ کو قومی اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا۔ پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سینیٹ میں خواتین کی نمایندگی کا حق تسلیم کیا اور مسز صائمہ عثمان پہلی خاتون سینیٹر منتخب ہوئیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977میں دوسرے عام انتخابات منعقد کرائے۔ پاکستان قومی اتحاد (P.N.A) کی رہنما بیگم نسیم ولی خان ان انتخابات میں جنرل نشستوں سے کامیاب ہوئیں مگر جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977 کو مارشل لاء نافذ کرکے اس اسمبلی کو توڑ دیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 1985میں غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں خواتین کی نشستیں 10 سے بڑھا کر 20کردی گئیں ۔ ان میں سے ایک نشست اقلیتی خواتین کے لیے مختص کی گئی۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اپنی کابینہ میں پہلی دفعہ دو خواتین بیگم افسر رضا اور بیگم کلثوم سیف اﷲ کو وزیر مملکت اور بیگم ریحانہ علیم مشہدی اور بیگم نور جہاں کو پارلیمانی سیکریٹری مقرر کیا۔
خواتین 90کی دہائی کے آغاز سے مطالبہ کررہی تھیں کہ منتخب ایوانوں میں خواتین کی نمایندگی 33 فیصد کی جائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت یہ ترمیم نہ کرسکی۔ میاں نواز شریف کے دونوں ادوار میں بھی ایسا ہی ہوا، مگر جنرل پرویز مشرف نے 2002میں ہونے والے عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا تناسب 17 فیصد کردیا، یوں اس دفعہ 13خواتین منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں آئیں۔ خواتین کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایندگی بڑھنے سے اگرچہ خواتین کے مسائل خاص طور پر ان کے تحفظ کے لیے قانون سازی پر آواز زیادہ موثر انداز میں اٹھنے لگی مگر مرد اراکین کے صنفی امتیاز پر مبنی رویے اور ان کی غیر اخلاقی جملہ بازی نے صورتحال کوخاصا کشیدہ کیا۔
جب بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ وزیر اعظم بنیں تو شیخ رشید نے ان کے لباس کے حوالے سے نازیبا الفاظ ادا کیے جس پر بے نظیر بھٹوکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 223 خواتین شامل ہیں مگر ابھی تک خواتین کی منتخب اداروں میں 33 فیصد نمایندگی کا معاملہ التواء کا شکار ہے۔ 2010میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیارات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اب صوبائی اسمبلیوں کو ایڈیشنل اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے قیام کا اختیار ہے اور اسٹینڈنگ کمیٹی کا سربراہ اسپیکر یا ایوان کی اجازت سے اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کرسکتا ہے مگر موجودہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم نے 11پارلیمانی سیکریٹریوں کا تقررکیا ہے جن میں سے 2 خواتین ہیں۔
سندھ اسمبلی میں 30 اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں 4 کی سربراہ خواتین ہیں۔ خیبر پختون خواہ اسمبلی نے پہلی دفعہ ایک خاتون کو ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا ہے جب کہ 16 پارلیمانی سیکریٹریوں میں 7 خواتین ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری 2017میں سندھ کے ایک وزیر امداد پتافی نے پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی رکن نصرت سحر عباسی کے بارے میں توہین آمیز الفاظ ادا کیے۔ پیپلز پارٹی کے رکن نواب تیمور تالپور نے نصرت سحر عباسی پر طنزیہ حملے کیے تو صرف نصرت سحر عباسی نے اس رویے پر احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اور امداد پتافی کو ایوان میں نصرت سحر عباسی سے معذرت کرنی پڑی۔
خیبرپختو نخواہ اسمبلی میں تحریک انصاف کے شاہ فرمان نے پیپلز پارٹی کی رکن نگہت اورکزئی کے بارے میں نازیبہ الفاظ استعمال کیے۔ سوشل میڈیا پر مہم کی بناء پر شاہ فرمان کو ایوان میں نگہت اورکزئی سے معذرت کرنی پڑی۔ 8جون2016 کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو نازینا لقب سے مخاطب کیا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعے کی تشہیر کے بعد خواجہ آصف نے ایوان میں معذرت کی مگر اپنے خط میں ڈاکٹر شیریں مزاری کا نام نہیں لیا ۔
اسی طرح اپریل 2017میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے خواتین اراکین کے بارے میں منفی جملے ادا کیے، بعد میں آصفہ بھٹو نے خورشید شاہ کے ان ریمارکس پر سخت نوٹس لیا تو خورشید شاہ کو اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ نومبر 2017 میں مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کی خواتین کے بارے میں غیر اخلاقی گفتگو کی۔ تحریک انصاف کی رکن عائشہ گلالئی نے اپنے چیئرمین عمران خان پر غیر اخلاقی ایس ایم ایس بھیجنے کے الزامات لگائے۔
ایس پی او کی تحقیق میں خواتین کی بہبود کے لیے بنائے گئے قوانین کا ذکر ہے۔ یہ تحقیق ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب موجودہ حکومت کے خاتمے کے لیے 90 دن باقی ہیں اور انتخابات کا ماحول بن رہا ہے۔ پاکستانی ووٹر ا س رپورٹ کے مطالعے کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں امیدواروں کے انتخاب کے حوالے سے زیادہ بہتر فیصلہ کرسکے گا۔