پارلیمنٹ کو قانون سازی پر مجبور نہیں کر سکتے چیف جسٹس
قانون سازوں کو قانون بنانے پر مجبور نہیں کر سکتے، قانون میں کمی کی نشاندہی کر سکتے ہیں، چیف جسٹس
MIAMI:
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی پر مجبور نہیں کر سکتے تاہم قانون یا کسی معاملے میں کمی کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ ڈاکٹر مرزا نقی ظفر عدالت میں پیش ہوئے اور بریفنگ دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گردوں کی غیرقانونی پیوند کاری بہت بڑا ناسور ہے، گردے اور اعضا عطیہ کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا، گردے نکالنے سے بڑھ کراستحصال کیا ہوسکتا ہے، اس ناسور کے خاتمے کے لیے کیااقدامات ہوسکتے ہیں، اس دھندے میں ملوث لوگ کالی بھیڑیں ہیں، 10مارچ کو کراچی میں مقدمات کی سماعت کرنی ہے، ڈاکٹر ادیب بھی اس معاملے میں ہماری معاونت کریں۔
ڈاکٹر مرزا نقی ظفر نے بتایا کہ غیر قانونی گردوں کی پیوند کاری عرصے سے ہورہی ہے، خفیہ مقامات پر گردے نکالے اور ڈالے جاتے ہیں، غیر قانونی پیوند کاری کو روکنے کے لیے قومی اور لوکل سطح پر کوئی اتھارٹی نہیں ہے، وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود اتھارٹیز بااختیارنہیں ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختون خوا کے میں اتھارٹی موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گردہ اسکینڈل میں ملوث ڈاکٹر فواد کی درخواستِ ضمانت مسترد
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا آپ نے پیوند کاری سے متعلق وفاقی اور صوبائی قوانین کا جائزہ لیا ہے، قومی سطح پر اتھارٹی نہ ہو لیکن مقامی سطح پر ضرور ہونی چاہیے، اگر قوانین درست ہیں تو مزید قانون سازی کی ضرورت نہیں، ایسی صورت میں اصل معاملہ قانون کی عملداری کا ہوگا، قانون سازوں کو قانون بنانے کے لئے مجبور نہیں کر سکتے، قانون یا کسی معاملے میں کمی کی نشاندہی کر سکتے ہیں، بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ انسانی اعضاء ٹرانسفر نہیں ہو سکتے، کون سے اعضاء ہیں جنکی پیوند کاری ہو سکتی ہے، آنکھ کا عطیہ کوئی انسان اپنی زندگی میں کر سکتا ہے، اعضاء عطیہ کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر مرزا نقی نے کہا کہ عوام میں آگاہی کی ضرورت ہے ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے اعضاء عطیہ کرنا چاہتے ہیں، اعضاء کی پیوند کاری کا طریقہ کار ہمیں طے کرنے کی ضرورت ہے، غیر قانونی پیوندکاری کے لئے بیرون ملک سے بھی لوگ آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعضاء کو عطیہ کرنے کے لئے کیا ہونا چاہیے ہمیں تحریری طور پر دے دیں، 10 مارچ کو ہوسکتا ہے کراچی میں سماعت نہ ہو، 17 مارچ کو کراچی میں ہمارا بینچ ہوگا۔
کیس کی مزید سماعت 17 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی پر مجبور نہیں کر سکتے تاہم قانون یا کسی معاملے میں کمی کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ ڈاکٹر مرزا نقی ظفر عدالت میں پیش ہوئے اور بریفنگ دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گردوں کی غیرقانونی پیوند کاری بہت بڑا ناسور ہے، گردے اور اعضا عطیہ کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا، گردے نکالنے سے بڑھ کراستحصال کیا ہوسکتا ہے، اس ناسور کے خاتمے کے لیے کیااقدامات ہوسکتے ہیں، اس دھندے میں ملوث لوگ کالی بھیڑیں ہیں، 10مارچ کو کراچی میں مقدمات کی سماعت کرنی ہے، ڈاکٹر ادیب بھی اس معاملے میں ہماری معاونت کریں۔
ڈاکٹر مرزا نقی ظفر نے بتایا کہ غیر قانونی گردوں کی پیوند کاری عرصے سے ہورہی ہے، خفیہ مقامات پر گردے نکالے اور ڈالے جاتے ہیں، غیر قانونی پیوند کاری کو روکنے کے لیے قومی اور لوکل سطح پر کوئی اتھارٹی نہیں ہے، وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود اتھارٹیز بااختیارنہیں ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختون خوا کے میں اتھارٹی موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گردہ اسکینڈل میں ملوث ڈاکٹر فواد کی درخواستِ ضمانت مسترد
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا آپ نے پیوند کاری سے متعلق وفاقی اور صوبائی قوانین کا جائزہ لیا ہے، قومی سطح پر اتھارٹی نہ ہو لیکن مقامی سطح پر ضرور ہونی چاہیے، اگر قوانین درست ہیں تو مزید قانون سازی کی ضرورت نہیں، ایسی صورت میں اصل معاملہ قانون کی عملداری کا ہوگا، قانون سازوں کو قانون بنانے کے لئے مجبور نہیں کر سکتے، قانون یا کسی معاملے میں کمی کی نشاندہی کر سکتے ہیں، بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ انسانی اعضاء ٹرانسفر نہیں ہو سکتے، کون سے اعضاء ہیں جنکی پیوند کاری ہو سکتی ہے، آنکھ کا عطیہ کوئی انسان اپنی زندگی میں کر سکتا ہے، اعضاء عطیہ کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر مرزا نقی نے کہا کہ عوام میں آگاہی کی ضرورت ہے ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے اعضاء عطیہ کرنا چاہتے ہیں، اعضاء کی پیوند کاری کا طریقہ کار ہمیں طے کرنے کی ضرورت ہے، غیر قانونی پیوندکاری کے لئے بیرون ملک سے بھی لوگ آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعضاء کو عطیہ کرنے کے لئے کیا ہونا چاہیے ہمیں تحریری طور پر دے دیں، 10 مارچ کو ہوسکتا ہے کراچی میں سماعت نہ ہو، 17 مارچ کو کراچی میں ہمارا بینچ ہوگا۔
کیس کی مزید سماعت 17 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔