سینیٹ کے انتخابات اور مسلم لیگ ن
آزاد حیثیت میں منتخب سینیٹرز کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ حکومتی بنچ میں شامل ہوں یا اپوزیشن بنچ پر بیٹھیں۔
ملکی سیاست پر چھائے گہرے بادلوں کے ساتھ آندھیوں کے جھکڑ اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ ابھی اور بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ ابھی اور تناور درختوں کا جڑوں سے اکھڑنا باقی ہے، ابھی گرد کے اس طوفان میں بہت کچھ لپٹ جائے گا۔ سارے منظر دھندلا جائیں گے، جانے کیوں جمہوریت کے رنگ جو پہلے بھی بہت پختہ نہیں تھے پھیکے پڑتے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی کے بعد مجلس عاملہ صدارت سے نااہلی کے بعد مجلس عاملہ کے اجلاس میں مشاورت کے بعد نواز شریف کو تاحیات قائد اور شہباز شریف کو قائم مقام صدر منتخب کر لیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نیب کی بڑھتی ہوئی گرفت، عدالت کے مزید متوقع فیصلے اور جوگر پہنے مسلم لیگی اراکین اسمبلی کو جوڑے رکھنے کے لیے بڑے بھائی کو ایک انتہائی مشکل فیصلہ کرنا پڑا لیکن اس کے ساتھ تاحیات قائد کی صورت میں یہ بھی واضح ہو گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے سارے بنیادی فیصلے نواز شریف کی مرضی سے ہی ہوں گے۔
بہرحال شہباز شریف کو صدر بنانے کا فیصلہ سیاسی طور پر ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے کہ اس سے سینئر اراکین خاصے مطمئن ہوں گے۔ خاص طور پر چوہدری نثار جیسے لوگ جو نواز شریف کے بیانیے سے اختلاف رکھتے تھے، ممکن ہے اب واپس متحرک نظر آئیں۔
نااہل وزیراعظم نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق آرٹیکل 62۔ 63 پر پورا نہ اترنے والا شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتا۔ سیاسی جماعت بنانے کا حق ملکی سلامتی و اخلاقیات کے تابع ہے۔ 28 جولائی 2017ء کو نااہلی کے بعد بطور پارٹی صدر نواز شریف کے تمام اقدامات، اعمال اور ان کی جاری کردہ دستاویز غیر قانونی ہیں۔
یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کیوں نہیں مدنظر رکھا گیا کہ اس فیصلے سے دوسروں کے بنیادی حقوق پر برا اثر نہیں پڑے گا۔ الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دی جا سکتی تھی کہ وہ یقینی بنائے کہ اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) پر اثر نہیں پڑے گا اور اس کا موقع دیا جائے کہ سینیٹ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی پارٹی کے دوسرے لیڈر کے دستخط سے جمع کرائے جا سکیں۔ لیکن فیصلے میں یہ واضح کہا گیا کہ 20 جولائی کے بعد جاری کردہ تمام دستاویز غیر قانونی ہیں۔
اس فیصلے کا فوری اثر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سینیٹ کا انتخاب لڑنے والے امیدواروں پر ہوا۔ الیکشن کمیشن نے چار آپشنز پر غور کیا اور بالآخر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈرز کو آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی حالانکہ ان چار آپشنز میں انتخاب کو ملتوی کرنا، انتخاب کی تاریخ میں توسیع کرنا شامل تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق اور دیگر نے الیکشن کمیشن میں ایک درخواست بھی دائر کی کہ الیکشن شیڈول میں تبدیلی کرلی جائے تاکہ وہ اپنا قائم مقام صدر منتخب کرلیں اور نئے صدر کے دستخطوں سے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے جا سکیں لیکن الیکشن کمیشن نے ان کی یہ درخواست مسترد کر دی۔
الیکشن کمیشن کا یہ فوری فیصلہ بھی ناقدین کی نظر میں ایک کمزور حل تھا جس کے لیے نہ تو کوئی قانون دیکھا گیا اور نا ہی متاثر کن وضاحت دی گئی۔ یہ بھی کلیئر نہیں ہے کہ باقی دوسرے آپشنز کیوں مسترد کیے گئے۔
اس بات پر بھی بڑی بحث ہے کہ آخر الیکشن کمیشن نے یہ ہی آپشن کیوں چنا۔ ایک خود مختار الیکشن کمیشن کو اپنی خود مختاری سے انصاف کرتے ہوئے ایسا فیصلہ کرنا چاہیے تھا جو سب کے لیے قابل قبول ہوتا۔
اب یہ بات طے ہے کہ مسلم لیگ کے امیدوار آزاد حیثیت میں سینیٹ کے الیکشن میں شریک ہوں گے، قطع نظر اس کے کہ وہ اپنی پارٹی سے کس قدر وفادار ہیں اور رہیں گے، خدشات بہرحال موجود ہیں کہ منتخب ہونے والے سینیٹرز جو آزاد حیثیت سے منتخب ہوں گے۔ ان کے پاس یہ آپشن ہو گا کہ وہ کوئی بھی پارٹی جوائن کریں یا وہ اپنی خود کوئی پارٹی بنائیں۔ یقینا سینیٹ میں موجود دوسری پارٹیوں کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کے امکانات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اور شاید پارلیمنٹ کے باہر سے غیر جمہوری قوتیں بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) کے آزاد امیدوار منتخب ہونے کے بعد خود مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حیثیت سے ڈیکلیئر کر سکیں۔
آزاد حیثیت میں منتخب سینیٹرز کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ حکومتی بنچ میں شامل ہوں یا اپوزیشن بنچ پر بیٹھیں۔ مسلم لیگ ن کے لیے بھی یہ لمحات اتنے ہی کرب آزما ہوں گے گو کہ انھیں اپنے نامزد امیدواروں کی وفاداری پر مکمل بھروسہ ہے لیکن ان کے ضمیر کو جگانے کے بعد بعض نادیدہ قوتیں بھی کوشش کریں گی اور کون جانے کب کس کا ضمیر ملک کے وسیع تر مفاد میں جاگ جائے۔ اگر ایسا ہوا... اور کچھ نے اپنی وفاداری تبدیل کی تو سینیٹ کے الیکشن سے جنرل الیکشن کے ممکنہ منظر نامہ کے خدوخال واضح ہو جائیں گے جو یقینا مسلم لیگ (ن) کے لیے ہی نہیں بلکہ ملکی منظر نامہ پرکافی برے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی کے بعد مجلس عاملہ صدارت سے نااہلی کے بعد مجلس عاملہ کے اجلاس میں مشاورت کے بعد نواز شریف کو تاحیات قائد اور شہباز شریف کو قائم مقام صدر منتخب کر لیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نیب کی بڑھتی ہوئی گرفت، عدالت کے مزید متوقع فیصلے اور جوگر پہنے مسلم لیگی اراکین اسمبلی کو جوڑے رکھنے کے لیے بڑے بھائی کو ایک انتہائی مشکل فیصلہ کرنا پڑا لیکن اس کے ساتھ تاحیات قائد کی صورت میں یہ بھی واضح ہو گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے سارے بنیادی فیصلے نواز شریف کی مرضی سے ہی ہوں گے۔
بہرحال شہباز شریف کو صدر بنانے کا فیصلہ سیاسی طور پر ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے کہ اس سے سینئر اراکین خاصے مطمئن ہوں گے۔ خاص طور پر چوہدری نثار جیسے لوگ جو نواز شریف کے بیانیے سے اختلاف رکھتے تھے، ممکن ہے اب واپس متحرک نظر آئیں۔
نااہل وزیراعظم نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق آرٹیکل 62۔ 63 پر پورا نہ اترنے والا شخص پارٹی صدارت نہیں رکھ سکتا۔ سیاسی جماعت بنانے کا حق ملکی سلامتی و اخلاقیات کے تابع ہے۔ 28 جولائی 2017ء کو نااہلی کے بعد بطور پارٹی صدر نواز شریف کے تمام اقدامات، اعمال اور ان کی جاری کردہ دستاویز غیر قانونی ہیں۔
یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کیوں نہیں مدنظر رکھا گیا کہ اس فیصلے سے دوسروں کے بنیادی حقوق پر برا اثر نہیں پڑے گا۔ الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دی جا سکتی تھی کہ وہ یقینی بنائے کہ اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) پر اثر نہیں پڑے گا اور اس کا موقع دیا جائے کہ سینیٹ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی پارٹی کے دوسرے لیڈر کے دستخط سے جمع کرائے جا سکیں۔ لیکن فیصلے میں یہ واضح کہا گیا کہ 20 جولائی کے بعد جاری کردہ تمام دستاویز غیر قانونی ہیں۔
اس فیصلے کا فوری اثر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سینیٹ کا انتخاب لڑنے والے امیدواروں پر ہوا۔ الیکشن کمیشن نے چار آپشنز پر غور کیا اور بالآخر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈرز کو آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی حالانکہ ان چار آپشنز میں انتخاب کو ملتوی کرنا، انتخاب کی تاریخ میں توسیع کرنا شامل تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق اور دیگر نے الیکشن کمیشن میں ایک درخواست بھی دائر کی کہ الیکشن شیڈول میں تبدیلی کرلی جائے تاکہ وہ اپنا قائم مقام صدر منتخب کرلیں اور نئے صدر کے دستخطوں سے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے جا سکیں لیکن الیکشن کمیشن نے ان کی یہ درخواست مسترد کر دی۔
الیکشن کمیشن کا یہ فوری فیصلہ بھی ناقدین کی نظر میں ایک کمزور حل تھا جس کے لیے نہ تو کوئی قانون دیکھا گیا اور نا ہی متاثر کن وضاحت دی گئی۔ یہ بھی کلیئر نہیں ہے کہ باقی دوسرے آپشنز کیوں مسترد کیے گئے۔
اس بات پر بھی بڑی بحث ہے کہ آخر الیکشن کمیشن نے یہ ہی آپشن کیوں چنا۔ ایک خود مختار الیکشن کمیشن کو اپنی خود مختاری سے انصاف کرتے ہوئے ایسا فیصلہ کرنا چاہیے تھا جو سب کے لیے قابل قبول ہوتا۔
اب یہ بات طے ہے کہ مسلم لیگ کے امیدوار آزاد حیثیت میں سینیٹ کے الیکشن میں شریک ہوں گے، قطع نظر اس کے کہ وہ اپنی پارٹی سے کس قدر وفادار ہیں اور رہیں گے، خدشات بہرحال موجود ہیں کہ منتخب ہونے والے سینیٹرز جو آزاد حیثیت سے منتخب ہوں گے۔ ان کے پاس یہ آپشن ہو گا کہ وہ کوئی بھی پارٹی جوائن کریں یا وہ اپنی خود کوئی پارٹی بنائیں۔ یقینا سینیٹ میں موجود دوسری پارٹیوں کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کے امکانات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اور شاید پارلیمنٹ کے باہر سے غیر جمہوری قوتیں بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) کے آزاد امیدوار منتخب ہونے کے بعد خود مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حیثیت سے ڈیکلیئر کر سکیں۔
آزاد حیثیت میں منتخب سینیٹرز کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ حکومتی بنچ میں شامل ہوں یا اپوزیشن بنچ پر بیٹھیں۔ مسلم لیگ ن کے لیے بھی یہ لمحات اتنے ہی کرب آزما ہوں گے گو کہ انھیں اپنے نامزد امیدواروں کی وفاداری پر مکمل بھروسہ ہے لیکن ان کے ضمیر کو جگانے کے بعد بعض نادیدہ قوتیں بھی کوشش کریں گی اور کون جانے کب کس کا ضمیر ملک کے وسیع تر مفاد میں جاگ جائے۔ اگر ایسا ہوا... اور کچھ نے اپنی وفاداری تبدیل کی تو سینیٹ کے الیکشن سے جنرل الیکشن کے ممکنہ منظر نامہ کے خدوخال واضح ہو جائیں گے جو یقینا مسلم لیگ (ن) کے لیے ہی نہیں بلکہ ملکی منظر نامہ پرکافی برے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔